- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ہم کس طرح دلوں کی باتیں اور اس کے راز معلوم کرسکتے ہیں ؟پھر دل کے بارے میں کیوں بات کی جائے؟
دل سے متعلق بات کرنا بچند وجوہ ضروری ہے جن میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں ۔
[1]۔ اللہ تعالیٰ نے دلوں کے تزکیہ یعنی انکو پاک صاف شفاف رکھنے کا حکم دیا ہے بلکہ کتاب و حکمت کی تعلیم سے تزکیہ کو مقدم کیاہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
ھُوَ الَّذِیْ بَعْثَ فِی الْاُمِّیِیِّنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (الجمعۃ:2)
اللہ وہ ذات ہے جس نے امیوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر اس (اللہ ) کی آیات پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے آیت وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ (المدثر:4) (اور اپنے لباس کو پاک رکھ)کے بارے میں فرمایا ہے کہ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں ثیاب سے مراد دل ہے ۔
منافقین اور یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اﷲُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔(المائدہ:41)
یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ نے ارادہ نہیں کیا۔ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ۔
دلوں کے بارے میں گفتگو کرنے کا یہ اہم سبب ہے جو ہم نے ذکر کیاہے۔
[2]۔ انسانی زندگی میں دل کی حیثیت ؟ دل رہنمائی کرتا ہے ۔نشاندہی کرتاہے۔ اور اعضاء اس رہنمائی پر عمل کرتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
القلب ملک والاعضاء جنودہ فاذا طاب الملک طابت جنودہ و اذا خبث القلب خبثت جنودہ (التحفۃ العراقیۃ )
دل بادشاہ ہے اور اعضاء اسکی فوج ۔ جب بادشاہ صحیح رہتا ہے تو فوج بھی صحیح ہوتی ہے اور جب بادشاہ بگڑ جائے تو فوج بھی بگڑ جاتی ہے ۔
[3]۔ دلوں کے بارے میں بحث کرنے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ اپنے دلوں سے غافل ہیں۔ مثال کے طور پر اکثر مدارس کے طلبہ باریک اور چھوٹی باتوں اور اعمال پر بحث کرتے ہیں اور ان میں عجیب و غریب قسم کی تفقہ کا اظہار کرتے ہیں مثلًا انگلی کو(نماز میں )حرکت دینا سنت ہے ؟کب اور کیسے حرکت دینی ہے……؟اگرچہ ایسے مسائل پر بحث ضروری ہے مگر اس وقت جب لوگ ان سے بے پروائی کریں مگر اس سے زیادہ ضروری بحث دل کے بارے میں ہے کہ لوگ اس سے غفلت اختیار کر چکے ہیں ۔
[4]۔ لوگوں کی اکثر مشکلات اور خصوصاً طلبہ علم کی پریشانیوں کا سبب وہ امراض ہیں جو دلوں کو لاحق ہیں یہ مشکلات ان بیماریوں کا اظہار ہے جو دلوں میں موجود ہیں مثلاً حسد ، کینہ، تکبر، غرور،بدگمانی وغیرہ ان بیماریوں اور مشکلات و پریشانیوں کاحل یہ ہے کہ دلوں کا علاج کیاجائے ورنہ یہ امراض اسی طرح موجود رہیں گے اور وقتاً فوقتاً ان کا اظہار ہوتا رہے گا اگر ہم ایک نظر معاشرے پر ڈالیں اور لوگوں کی اجتماعی مشکلات کا جائزہ لیں لوگوں کے آپس کے اختلافات ، مالی جھگڑے ، اور دیگر معاملات پر نظر ڈالیں تو ہماری اس بات کا ثبوت مل جائے گا ۔
[5]۔ دل کی سلامتی اس کا خلوص دنیاوی اور اخروی سعادت و خوش بختی کا سبب ہے بے ایمانی اور حسد جیسی بیماریوں سے دل کا محفوظ رہنا دنیا اور آخرت میں خوش بختی و اطمینان کا باعث ہے ۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اٰتٰی اﷲُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔
(الشعراء:88-89)
جس دن مال اور بیٹے فائدہ نہ دیں گے ۔مگر جو لایا اللہ کے پاس قلب سلیم ۔
[6]۔ امام عبداللہ بن ابی جمرہ فرماتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ فقہاء میں ایسے بھی لوگ ہوں کہ جن کا کام صرف یہ ہو کہ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مقاصد بتائیں بہت سے لوگوں کو اس کا احساس کافی وقت ضائع کرنے کے بعد ہوتا ہے ۔
امام ابن ابی جمرہ اس بات کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مقاصد اور اعمال کی بربادی سے بچنے کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہئیں ۔جس طرح اس قول میں امام موصوف نے اعمال کے مقاصد کی اہمیت لوگوں کو بتائی ہے اور انہیں اعمال کی بربادی کے بارے میں آگاہ کیاہے اور جس طرح ہم مختلف علوم جیسے حدیث ، فقہ، تفسیر وغیرہ میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر یہ علوم دوسروں تک پہنچاتے ہیں اسی طرح ہمیں دل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے دل کے تمام احوال اس کی بیماریاں اور ان کاعلاج او رپھر یہ سب معلومات دیگر لوگوں تک پہنچانی چاہئیں ۔تاکہ وہ ان سے واقف ہوکر اپنے مقاصد اور اپنی نیتیں صحیح کر لیں ۔
[7]۔ اللہ نے دنیا و آخرت میں اس دل کو اہم مقام و مرتبہ دیا ہے جو کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام کے زبانی اللہ کا ارشاد قرآن مجید میں بایں الفاظ موجود ہے ۔
وَلَا تُحْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اٰتَی اﷲُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (الشعراء: 87-89)
(اے اللہ ) مجھے رسوا مت کر جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔جس دن مال اور بیٹے فائدہ نہ دیں گے ۔ مگر جو لایا اللہ کے پاس قلب سلیم۔ گویا قیامت میں نجات اس کی ہوگی جو قلب سلیم لایا ۔
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ھٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ ۔(ق:31-33)
قریب کر دی جائے گی جنت متقین کے دور نہ ہوگی ۔ یہ وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا۔ جو رحمن سے بن دیکھے ڈر گیا اور رجوع کرنے والا دل لایا۔
[2]۔ انسانی زندگی میں دل کی حیثیت ؟ دل رہنمائی کرتا ہے ۔نشاندہی کرتاہے۔ اور اعضاء اس رہنمائی پر عمل کرتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
القلب ملک والاعضاء جنودہ فاذا طاب الملک طابت جنودہ و اذا خبث القلب خبثت جنودہ (التحفۃ العراقیۃ )
دل بادشاہ ہے اور اعضاء اسکی فوج ۔ جب بادشاہ صحیح رہتا ہے تو فوج بھی صحیح ہوتی ہے اور جب بادشاہ بگڑ جائے تو فوج بھی بگڑ جاتی ہے ۔
[3]۔ دلوں کے بارے میں بحث کرنے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ اپنے دلوں سے غافل ہیں۔ مثال کے طور پر اکثر مدارس کے طلبہ باریک اور چھوٹی باتوں اور اعمال پر بحث کرتے ہیں اور ان میں عجیب و غریب قسم کی تفقہ کا اظہار کرتے ہیں مثلًا انگلی کو(نماز میں )حرکت دینا سنت ہے ؟کب اور کیسے حرکت دینی ہے……؟اگرچہ ایسے مسائل پر بحث ضروری ہے مگر اس وقت جب لوگ ان سے بے پروائی کریں مگر اس سے زیادہ ضروری بحث دل کے بارے میں ہے کہ لوگ اس سے غفلت اختیار کر چکے ہیں ۔
[4]۔ لوگوں کی اکثر مشکلات اور خصوصاً طلبہ علم کی پریشانیوں کا سبب وہ امراض ہیں جو دلوں کو لاحق ہیں یہ مشکلات ان بیماریوں کا اظہار ہے جو دلوں میں موجود ہیں مثلاً حسد ، کینہ، تکبر، غرور،بدگمانی وغیرہ ان بیماریوں اور مشکلات و پریشانیوں کاحل یہ ہے کہ دلوں کا علاج کیاجائے ورنہ یہ امراض اسی طرح موجود رہیں گے اور وقتاً فوقتاً ان کا اظہار ہوتا رہے گا اگر ہم ایک نظر معاشرے پر ڈالیں اور لوگوں کی اجتماعی مشکلات کا جائزہ لیں لوگوں کے آپس کے اختلافات ، مالی جھگڑے ، اور دیگر معاملات پر نظر ڈالیں تو ہماری اس بات کا ثبوت مل جائے گا ۔
[5]۔ دل کی سلامتی اس کا خلوص دنیاوی اور اخروی سعادت و خوش بختی کا سبب ہے بے ایمانی اور حسد جیسی بیماریوں سے دل کا محفوظ رہنا دنیا اور آخرت میں خوش بختی و اطمینان کا باعث ہے ۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اٰتٰی اﷲُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔
(الشعراء:88-89)
جس دن مال اور بیٹے فائدہ نہ دیں گے ۔مگر جو لایا اللہ کے پاس قلب سلیم ۔
[6]۔ امام عبداللہ بن ابی جمرہ فرماتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ فقہاء میں ایسے بھی لوگ ہوں کہ جن کا کام صرف یہ ہو کہ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مقاصد بتائیں بہت سے لوگوں کو اس کا احساس کافی وقت ضائع کرنے کے بعد ہوتا ہے ۔
امام ابن ابی جمرہ اس بات کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مقاصد اور اعمال کی بربادی سے بچنے کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہئیں ۔جس طرح اس قول میں امام موصوف نے اعمال کے مقاصد کی اہمیت لوگوں کو بتائی ہے اور انہیں اعمال کی بربادی کے بارے میں آگاہ کیاہے اور جس طرح ہم مختلف علوم جیسے حدیث ، فقہ، تفسیر وغیرہ میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر یہ علوم دوسروں تک پہنچاتے ہیں اسی طرح ہمیں دل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے دل کے تمام احوال اس کی بیماریاں اور ان کاعلاج او رپھر یہ سب معلومات دیگر لوگوں تک پہنچانی چاہئیں ۔تاکہ وہ ان سے واقف ہوکر اپنے مقاصد اور اپنی نیتیں صحیح کر لیں ۔
[7]۔ اللہ نے دنیا و آخرت میں اس دل کو اہم مقام و مرتبہ دیا ہے جو کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام کے زبانی اللہ کا ارشاد قرآن مجید میں بایں الفاظ موجود ہے ۔
وَلَا تُحْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اٰتَی اﷲُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (الشعراء: 87-89)
(اے اللہ ) مجھے رسوا مت کر جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔جس دن مال اور بیٹے فائدہ نہ دیں گے ۔ مگر جو لایا اللہ کے پاس قلب سلیم۔ گویا قیامت میں نجات اس کی ہوگی جو قلب سلیم لایا ۔
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ھٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ ۔(ق:31-33)
قریب کر دی جائے گی جنت متقین کے دور نہ ہوگی ۔ یہ وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا۔ جو رحمن سے بن دیکھے ڈر گیا اور رجوع کرنے والا دل لایا۔