- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
دل کےا مراض کی علامات
اب ہم کچھ علامات ایسی ذکر کرتے ہیں جن سے کسی دل کی سختی بدبختی اور بیماری کاپتہ چلتا ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حسب ذیل علامات ذکر کی ہیں :
1۔ کسی قسم کے گناہ سے دل کو رنج کا احساس نہ ہو۔ کیا ہم گناہوں کے ارتکاب سے اپنے دل میں کسی قسم کی تکلیف اور رنج محسوس کرتے ہیں ۔ ہم دن رات جن لغزشوں اور غلطیوں میں مبتلا رہتے ہیں کیاہمارے دلوں میں ان سے کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے؟کیاہم اپنی کسی غلطی ، کسی گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں ؟توبہ کی کوشش کرتے ہیں ؟اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیاں دیکھ کر کبھی ہم نے دل میں دکھ اور رنج محسوس کیا ہے؟کیا ہم نے برائیوں کے خاتمے کی حسب استطاعت کوشش کی ہے؟
ہمارے خیال میں یہ بہت بڑا اہم کام ہے جس کی طرف توجہ دینا ہمارا فریضہ ہے ۔ جو دل معروف و منکر کا احساس نہ کرے چاہے وہ اس دل کے اندر ہو یا معاشرے میں ہو تو ایسے دل والے کو چاہیئے کہ جتنی جلدی ہوسکے اپنے دل کا علاج کرے کہیں دیر نہ ہوجائے۔
2۔ معصیت و گناہوں میں لذت محسوس کرے ۔ گناہ کے بعد آرام و سکون پائے۔جبکہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً ندامت و شرمندگی محسوس کرکے اللہ سے استغفار طلب کرے ۔توبہ کرے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی ہیں جو گناہوں میں ہی خوش رہتے ہیں گناہ سے ہی لذت و آرام حاصل کرتے ہیں جیسا کہ فلموں کے عادی لوگ ہیں جب تک فلم نہ دیکھیں انہیں چین نہیں آتا اور فلم دیکھنے کے بعد شرمندہ ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں اور کئی کئی دن تک اس فلم کا تذکرہ کرتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں بلکہ فخر بھی کرتے ہیں اسی طرح کھیلوں اور میچ کے شوقین لوگوں کو میچ دیکھنے کے بغیر چین نہیں آتا۔کئی کئی گھنٹے بلکہ کئی دن تک میچ دیکھتے رہتے ہیں جب تک میچ کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک دیکھتے رہتے ہیں اکتاتے نہیں ۔
یہ ایسے رجحانات ہیں جو معاشرے کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں خصوصاً نوجوانوں کے لئے کہ ان کا وقت بہت ضائع ہوتا ہے جو کہ بہت قیمتی ہے یہ وقت ملک ، قوم اور دین کے کام آسکتا ہے جسے فضولیات میں ضائع کیاجارہا ہے ۔ اس کے تدارک کی تدابیر کرنی چاہئیں ۔
3۔کم اہمیت والے امور کو اہم امور پر مقدم کرنا۔ یعنی ذاتی فائدے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اجتماعی فائدے کی پرواہ نہیں کرتے مسلمانوں میں کتنے ایسے ہیں جنہیں امت مسلمہ کے پریشان حال لوگوں کی اپنے مسلمان بھائیوں کی تکالیف و پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں ہے اپنے مفادات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں مگر دین ، امت ، اور ائمہ اسلام و علمائے اسلام کے بارے میں کسی قسم کی معلومات تک نہیں رکھتے۔ کتنے ہی مسلمان نوجوان ہیں جو پیسے کمانے، ہنر سیکھنے ، سیرو تفریح کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کیلئے بہت زیادہ پریشان رہتے ہیں مگر افغانستان ، فلسطین ، فلپائن، اریٹریا (کشمیر) وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں بچوں ، عورتوں کی پرواہ نہیں کرتے ان کے لئے دل میں کسی قسم کا حزن و ملال محسوس نہیں کرتے کتنے افسوس کی بات ہے؟
ایسے لوگوں سے ہم یہی درخواست کریں گے کہ اپنے دلوں کو بچالیں وہ ہلاکت و تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں ۔
4۔حق سے نفرت ، اور حق سے اپنے دل میں تنگی و گھٹن محسوس کرے ۔اس طرح کا احساس نفاق کی ابتدائی علامات میں سے ہیں ۔
5۔نیک لوگوں کی صحبت سے کترانا اور برے و نافرمان لوگوں سے محبت و انسیت رکھنا ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کسی نیک اور صالح آدمی کے ساتھ چند گھڑیاں نہیں بیٹھ سکتے ان سے کسی قسم کی محبت و انسیت نہیں رکھتے۔ بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی محافل و مجالس اور ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ان کے برعکس برے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں بڑا سکون اور راحت محسوس کرتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے جس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے ۔
6۔شکو ک و شبہات کو فوراً قبول کرنا۔ ان کو ترجیح دینا۔بحث و مباحثہ ۔لڑائی جھگڑا پسند کرنا۔اور قرآن کی تلاوت سے بے رغبتی و بے اعتنائی کرنا ۔
7۔غیر اللہ کا خوف : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تمہارا دل صحیح ہے تو تم کسی سے نہ ڈرو گے ۔ عزبن عبدالسلام کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ایک ظالم بادشاہ کے سامنے جب بہت سخت باتیں کیں اور چلے گئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ امام صاحب آپ کو ڈر محسوس نہیں ہوا؟تو امام صاحب نے جواب دیا میں نے دل میں اللہ کی عظمت و کبریائی کا تصور کیا تو بادشاہ میری نظر میں بلی سے بھی کمتر لگا۔
جبکہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم حکومت کے معمولی سے کارندے سے بھی ڈرتے ہیں اور اتنا ڈرتے ہیں کہ جتنا ہم اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دلوں میں بگاڑ و فساد آگیا ہے لہٰذا عقل و دانش کاتقاضا ہے کہ ہم اپنے دل کے امراض کا خود ہی تجزیہ کریں اور اس کے علاج کی کوشش کریں۔
8۔دل میں عشق کا پیدا ہونا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دل میں کسی کا عشق اس وقت جگہ بناتا ہے جب انسان کی توحید اور ایمان میں نقص آجائے۔ ورنہ مومن موحد کا دل تو ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں کر سکتا وہ اللہ کی محبت سے معمور ہوتا ہے اس میں کسی اور کے عشق کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔ اللہ کا خوف اتنا ہوتا ہے کہ وہ کسی غلط خیال کو اپنے اندر جگہ نہیں دے سکتا۔
9۔کہ دل معروف و منکر میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے اور کسی قسم کی نصیحت سے متاثر نہ ہو۔