- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
امتحانِ قلوب کا معنی؟
ہمارے دل صبح و شام امتحانات کا سامنا کر رہے ہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے دلوں کو آزما رہا ہے ٹٹول رہا ہے کیا ہم اس سے باخبر ہیں ؟ہماری غفلت یا ہماری ایک غلطی اس دل کی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے ۔
وَلِیَبْتَلِیَ اﷲُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاﷲُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (آل عمران:154)
تاکہ اللہ تمہارے سینوں میں چھپے راز آزمالے اور تمہارے دلوں کاامتحان لے لے ۔اللہ سینے میں چھپی باتوں سے خوب واقف ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔(الحجرات:3)
یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے تقوٰی کے لئے ان کے دلوں کا امتحان لیا ہے انہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
یہ کون لوگ ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے تقویٰ کے لئے امتحان لیا ہے؟یہ آیت دو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ۔ بخاری میں اس کاتذکرہ اس طرح ہے کہ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تمیم قبیلے کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم )قعقاع بن معبد ابن زرارہ کو انکا امیر بنادیں ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اقرع بن حابس کو بنادیں ۔ابو بکر نے کہا(عمر)تم ہمیشہ میری مخالفت کرتے ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تمہاری مخالفت نہیں چاہی ۔یہ دونوں آپس میں بحث کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوئیں تو یہ آیت نازل ہوئی
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ۔(الحجرات:1)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑھو۔
اس دین میں کوئی بات مجمل و مبہم نہیں چھوڑی گئی نہ ہی کسی کا لحاظ رکھاگیا ہے فرمایا :
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرٍ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات )۔
اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز سے اونچی نہ کرو او رنہ ہی اس طرح اونچی آواز میں ان سے بات کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز میں بات کرتے ہو۔
ورنہ کیاہوگا؟فرمایا :
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔(الحجرات:2)
تمہارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تمہیں معلوم بھی نہ ہوگا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آیت میں کس کو تنبیہ کی جارہی ہے ؟ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔
لو کنت متخذا خلیلا من امتی لا تخذت ابابکر۔(بخاری و مسلم )
اگر میں نے امت میں سے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ۔
اور عمر رضی اللہ عنہ کو بھی تنبیہ ہے ۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
والذی نفسی بیدہ ما لقیک الشیطان قط سالکا فجا الا سلک فجا غیر فجک ۔(بخاری و مسلم )
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے شیطان تمہارے راستے میں اگر آجاتا ہے تو وہ راستہ بدل کر دوسری راہ چل دیتا ہے (مگر تمہارا سامنا نہیں کرسکتا)۔
لیکن آیت کے نزول کے بعد دونوں نے توبہ کی ۔ اللہ کی طرف رجوع ہوئے ۔ استغفار کیا۔ اور ان میں سے ایک نے قسم کھالی کہ آئندہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی آہستہ آواز میں بات کروں گا جس طرح دو افراد راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں ۔
یہاں نتیجہ پھر یہ نکلا کہ :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (الحجرات:3)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کا تقویٰ کے لئے امتحان لے لیا ہے ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔
یعنی ان کے دل تقویٰ کے لئے خاص و خالص کر دیئے یہاں تک کہ اب وہ صرف تقویٰ کے لئے ہی ہیں (امام آلوسی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے دلوں میں صرف تقویٰ ہی ہے اور کسی چیز کی ان میں گنجائش ہی نہیں ہے )
ہمیں اس بات پر غور کر نا چاہیئے کہ وہ دو افراد(ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ) جو امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بہترین افراد تھے ایک معمولی سی کوتاہی پر انہیں اللہ کی طرف سے تنبیہ کی گئی تو ہم اپنا محاسبہ کرکے دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہماری حیثیت کیا ہے اور ہم ایسے کتنے کام کررہے ہیں جو قابل سرزنش و تنبیہ ہیں ؟ایسے کتنے امتحان ہیں جن میں ہم ناکام ہوئے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ؟اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ جملہ بھی ہے ۔
وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
(اور تمہیں احساس بھی نہ ہوگا)
وَلِیَبْتَلِیَ اﷲُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاﷲُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (آل عمران:154)
تاکہ اللہ تمہارے سینوں میں چھپے راز آزمالے اور تمہارے دلوں کاامتحان لے لے ۔اللہ سینے میں چھپی باتوں سے خوب واقف ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔(الحجرات:3)
یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے تقوٰی کے لئے ان کے دلوں کا امتحان لیا ہے انہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
یہ کون لوگ ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے تقویٰ کے لئے امتحان لیا ہے؟یہ آیت دو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ۔ بخاری میں اس کاتذکرہ اس طرح ہے کہ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تمیم قبیلے کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم )قعقاع بن معبد ابن زرارہ کو انکا امیر بنادیں ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اقرع بن حابس کو بنادیں ۔ابو بکر نے کہا(عمر)تم ہمیشہ میری مخالفت کرتے ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تمہاری مخالفت نہیں چاہی ۔یہ دونوں آپس میں بحث کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوئیں تو یہ آیت نازل ہوئی
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ۔(الحجرات:1)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑھو۔
اس دین میں کوئی بات مجمل و مبہم نہیں چھوڑی گئی نہ ہی کسی کا لحاظ رکھاگیا ہے فرمایا :
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرٍ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات )۔
اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز سے اونچی نہ کرو او رنہ ہی اس طرح اونچی آواز میں ان سے بات کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز میں بات کرتے ہو۔
ورنہ کیاہوگا؟فرمایا :
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔(الحجرات:2)
تمہارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تمہیں معلوم بھی نہ ہوگا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آیت میں کس کو تنبیہ کی جارہی ہے ؟ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔
لو کنت متخذا خلیلا من امتی لا تخذت ابابکر۔(بخاری و مسلم )
اگر میں نے امت میں سے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ۔
اور عمر رضی اللہ عنہ کو بھی تنبیہ ہے ۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
والذی نفسی بیدہ ما لقیک الشیطان قط سالکا فجا الا سلک فجا غیر فجک ۔(بخاری و مسلم )
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے شیطان تمہارے راستے میں اگر آجاتا ہے تو وہ راستہ بدل کر دوسری راہ چل دیتا ہے (مگر تمہارا سامنا نہیں کرسکتا)۔
لیکن آیت کے نزول کے بعد دونوں نے توبہ کی ۔ اللہ کی طرف رجوع ہوئے ۔ استغفار کیا۔ اور ان میں سے ایک نے قسم کھالی کہ آئندہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی آہستہ آواز میں بات کروں گا جس طرح دو افراد راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں ۔
یہاں نتیجہ پھر یہ نکلا کہ :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (الحجرات:3)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کا تقویٰ کے لئے امتحان لے لیا ہے ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔
یعنی ان کے دل تقویٰ کے لئے خاص و خالص کر دیئے یہاں تک کہ اب وہ صرف تقویٰ کے لئے ہی ہیں (امام آلوسی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے دلوں میں صرف تقویٰ ہی ہے اور کسی چیز کی ان میں گنجائش ہی نہیں ہے )
ہمیں اس بات پر غور کر نا چاہیئے کہ وہ دو افراد(ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ) جو امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بہترین افراد تھے ایک معمولی سی کوتاہی پر انہیں اللہ کی طرف سے تنبیہ کی گئی تو ہم اپنا محاسبہ کرکے دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہماری حیثیت کیا ہے اور ہم ایسے کتنے کام کررہے ہیں جو قابل سرزنش و تنبیہ ہیں ؟ایسے کتنے امتحان ہیں جن میں ہم ناکام ہوئے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ؟اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ جملہ بھی ہے ۔
وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
(اور تمہیں احساس بھی نہ ہوگا)