• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیاوی معاملات میں کافروں کی مدد کرنا کیسا ہے ؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس متعلق جلد از جلد جواب عنایت کریں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ جزاک اللہ خیرا
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس متعلق جلد از جلد جواب عنایت کریں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ جزاک اللہ خیرا
@اسحاق سلفی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
" تعاون " وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے ،تعاون کی کئی انواع ہیں ، معلوم نہیں آپ تعاون کی کون سے نوع کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں ،
البتہ " تعلقات " کی دو تین صورتیں پیش ہیں ،

بے ضرر کفار سے حسن سلوک کا حکم
جو کفار مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے
ان کفار سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (9)
ترجمہ: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں (سورۃ الممتحنہ،آیت 8-9)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر احسن البیان میں ہے :
یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے
دوسری شرط یہ ہے کہ (وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ )
یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔
(لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ )
یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر کوئی کافر یا مشرک مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
عن محمد بن جبير بن مطعم، عن أبيه:أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في أسارى بدر: (لو كان المطعم بن عدي حيا، ثم كلمني في هؤلاء النتنى، لتركتهم له). (رواہ البخاری)
جناب جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا کہ " اگر معطم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کر دیتا۔"
وضاحت: معطم بن عدی مشرک تھا لیکن رسول اکرم ﷺ جب طائف سے افسردہ اور زخمی حالت میں تشریف لائے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے معطم بن عدی نے آپ ﷺ کو پناہ دی تھی اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے آپ ﷺ نے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ "
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کفار اہل اسلام سے تعاون اورحسن سلوک کریں ،ہمیں بھی اسلام اور مسلمین کے مقاصڈ و مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے حسن سلوک کرنا جائز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی کافر یا مشرک اسلامی تعلیمات سمجھنا چاہے تو اسے پناہ دے کر دین کی تعلیمات سمجھانی چاہئیں اگر وہ ایمان نہ لائے تو اسے بحفاظت اس کے ٹھکانے کاحکم ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ (6)
ترجمہ: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ الله کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں (سورۃ التوبہ،آیت 6)

دینی مفاد کے پیش نظر کافر یا مشرک کی عیادت کرنا جائز ہے۔
عن أنس رضي الله عنه: أن غلاماً ليهود، كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقال: (أسْلِمْ). فأسْلَمَ (رواہ البخاری)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہو گیا تو نبی اکرم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے )عیادت کے بعد) اسے فرمایا "مسلمان ہو جا" اور وہ مسلمان ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ :
کفار سے تعلقات اور رابطےاسلام اور اہل اسلام کے مفادات اور مقاصد سے مشروط ہیں ،
یعنی ان سے تعلقات اسی وقت تک ہی رکھے جاسکتے ہیں جب تک یہ تعلقات اسلام کے مقاصد اور مسلمین کے مفادات کے خلاف نہ ہوں ،اور اگر ان تعلقات سے اسلام کے مقاصد پر ذرا سی بھی زد پڑتی ہو تو ان سے تعلقات کا کوئی جواز نہ ہوگا ۔
ایک پاکستانی عالم نے یہی بات اختصار کے ساتھ بڑے اچھے پیرائے میں بیان کی ہے :
لکھتے ہیں :
کفار کے ساتھ تعلقات کی چار قسمیں ہیں۔
1۔ موالات :
یعنی قلبی محبت اور دوستی، یہ کسی غیر مسلم سے کسی بھی حال میں قطعاً جائز نہیں۔
2۔ مواسات : یعنی ہمدردی خیر خواہی اور نفع رسانی، اس کی اجازت ہے لیکن جو کفار مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں ان کے ساتھ اس کی بھی اجازت نہیں۔
3۔ مدارات : یعنی ظاہری خوش خلقی اور رکھ رکھاؤ، یہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، بشرطیکہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہچانا ہو یعنی اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو ، یا وہ کبھی بحیثیت مہمان آئے ہوئے ہوں یا ان کے شر اور فتنہ سے خود کو بچانا مقصود ہو۔
4۔ معاملات : یعنی کفار سے تجارت، صنعت و حرفت اور کاروباری روابط رکھنا، یہ بھی جائز ہیں البتہ اگر ایسی حالت ہو کہ اس سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یاد رہے :
ہم نے کفار سے تعلقات اور رابطہ کے متعلق بات کی ہے جس میں کچھ صورتیں تعاون کہلا سکتی ہیں،
تاہم عالمی سطح پرموجودہ صورتحال اور بالخصوص پاکستان کی صورتحال کے تناظر اور پس منظر میں ۔۔
تعاون ۔۔ کا عنوان نازک اور خطرناک ہے ،
جو ہندوستان کے مسلم بھائیوں کے حالات سے بہت مختلف ہے ۔
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
" تعاون " وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے ،تعاون کی کئی انواع ہیں ، معلوم نہیں آپ تعاون کی کون سے نوع کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں ،
البتہ " تعلقات " کی دو تین صورتیں پیش ہیں ،

بے ضرر کفار سے حسن سلوک کا حکم
جو کفار مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے
ان کفار سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (9)
ترجمہ: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں (سورۃ الممتحنہ،آیت 8-9)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر احسن البیان میں ہے :
یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے
دوسری شرط یہ ہے کہ (وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ )
یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔
(لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ )
یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر کوئی کافر یا مشرک مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
عن محمد بن جبير بن مطعم، عن أبيه:أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في أسارى بدر: (لو كان المطعم بن عدي حيا، ثم كلمني في هؤلاء النتنى، لتركتهم له). (رواہ البخاری)
جناب جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا کہ " اگر معطم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کر دیتا۔"
وضاحت: معطم بن عدی مشرک تھا لیکن رسول اکرم ﷺ جب طائف سے افسردہ اور زخمی حالت میں تشریف لائے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے معطم بن عدی نے آپ ﷺ کو پناہ دی تھی اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے آپ ﷺ نے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ "
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کفار اہل اسلام سے تعاون اورحسن سلوک کریں ،ہمیں بھی اسلام اور مسلمین کے مقاصڈ و مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے حسن سلوک کرنا جائز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی کافر یا مشرک اسلامی تعلیمات سمجھنا چاہے تو اسے پناہ دے کر دین کی تعلیمات سمجھانی چاہئیں اگر وہ ایمان نہ لائے تو اسے بحفاظت اس کے ٹھکانے کاحکم ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ (6)
ترجمہ: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ الله کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں (سورۃ التوبہ،آیت 6)

دینی مفاد کے پیش نظر کافر یا مشرک کی عیادت کرنا جائز ہے۔
عن أنس رضي الله عنه: أن غلاماً ليهود، كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، فمرض فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقال: (أسْلِمْ). فأسْلَمَ (رواہ البخاری)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہو گیا تو نبی اکرم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے )عیادت کے بعد) اسے فرمایا "مسلمان ہو جا" اور وہ مسلمان ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ :
کفار سے تعلقات اور رابطےاسلام اور اہل اسلام کے مفادات اور مقاصد سے مشروط ہیں ،
یعنی ان سے تعلقات اسی وقت تک ہی رکھے جاسکتے ہیں جب تک یہ تعلقات اسلام کے مقاصد اور مسلمین کے مفادات کے خلاف نہ ہوں ،اور اگر ان تعلقات سے اسلام کے مقاصد پر ذرا سی بھی زد پڑتی ہو تو ان سے تعلقات کا کوئی جواز نہ ہوگا ۔
ایک پاکستانی عالم نے یہی بات اختصار کے ساتھ بڑے اچھے پیرائے میں بیان کی ہے :
لکھتے ہیں :
کفار کے ساتھ تعلقات کی چار قسمیں ہیں۔
1۔ موالات :
یعنی قلبی محبت اور دوستی، یہ کسی غیر مسلم سے کسی بھی حال میں قطعاً جائز نہیں۔
2۔ مواسات : یعنی ہمدردی خیر خواہی اور نفع رسانی، اس کی اجازت ہے لیکن جو کفار مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں ان کے ساتھ اس کی بھی اجازت نہیں۔
3۔ مدارات : یعنی ظاہری خوش خلقی اور رکھ رکھاؤ، یہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، بشرطیکہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہچانا ہو یعنی اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو ، یا وہ کبھی بحیثیت مہمان آئے ہوئے ہوں یا ان کے شر اور فتنہ سے خود کو بچانا مقصود ہو۔
4۔ معاملات : یعنی کفار سے تجارت، صنعت و حرفت اور کاروباری روابط رکھنا، یہ بھی جائز ہیں البتہ اگر ایسی حالت ہو کہ اس سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یاد رہے :
ہم نے کفار سے تعلقات اور رابطہ کے متعلق بات کی ہے جس میں کچھ صورتیں تعاون کہلا سکتی ہیں،
تاہم عالمی سطح پرموجودہ صورتحال اور بالخصوص پاکستان کی صورتحال کے تناظر اور پس منظر میں ۔۔
تعاون ۔۔ کا عنوان نازک اور خطرناک ہے ،
جو ہندوستان کے مسلم بھائیوں کے حالات سے بہت مختلف ہے ۔
جزاک اللہ خیرا یا شیخ محترم اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

غیرمسلموں کے ساتھ رواداری


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض دین دار حضرات اس بات کو اسلامی غیرت وحمیت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا سلوک معاندانہ ہو۔ یہ لوگ غیر مسلموں کے لیے اپنے دل میں ایک طرح کا بغض و عناد رکھتے ہیں۔ اور بعض تو ایسے ہیں جو ان پر ظلم و زیادتی کو گناہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے دینی حمیت قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت میں ہوں اور ان کے ساتھ معاندانہ سلوک کیا جائے تو مسلم دشمن مغربی ممالک کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا بہترین موقع مل جاتا ہے۔ جو لوگ عالمی سیاست پر نظر رکھتے ہیں وہ ان باتوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔

براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ کس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے۔ یہ سلوک بغض و عداوت پر مبنی ہونا چاہیے یا اخوت و محبت اور رواداری پر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
و علیکم السلام و رحمة الله و برکاته!

الحمد لله، و الصلاة و السلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے ایک نہایت سنجیدہ اور اہم مسئلہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سلسلے میں اسلام کا صحیح موقف پیش کیا جائے کیونکہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں اس معاملے میں زبردست غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کروں چندحقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔


پہلی بات یہ ہے کہ بعض شدت پسند مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ معاندانہ رویہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کو قصور وار نہیں تصور کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے۔


اپنے اس سخت گیر مؤقف کی وجہ سے اس طرح کے مسلمان نہ صرف یہ کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں بلکہ خود اسلام کی بد نامی کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ غیر مسلمین ان کا یہ رویہ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ان کا دین اسلام اس طرح سے غیر اخلاقی سلوک کا حکم دیتا ہے۔


اگر ان سخت گیر قسم کے مسلمانوں کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اس رویے کے پیچھے صرف مذہبی عنصر ہی کار فرما نہیں ہے بلکہ بعض نفسیاتی، معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی کار فرما ہیں۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا معاندانہ سلوک خود غیر مسلموں کے معاندانہ سلوک کا رد عمل ہے۔ چونکہ بعض شدت پسند غیر مسلم عناصر مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اس لیے اس کے رد عمل میں بعض مسلمان بھی ان کے ساتھ اس طرح کے رویہ کو جائز تصور کرتے ہیں۔

ان حقائق کے بعد آئیے ذرا معلوم کریں کہ غیر مسلموں کے ساتھ رویہ کے سلسلے میں اسلام کا بنیادی تصور کیا ہے؟

اس معاملہ میں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں ہمارا رویہ رواداری پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسلام اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بنیادی اصول پیش کرتا ہے۔


بحیثیت مسلم ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہر انسان بحیثیت انسان معزز ومکرم ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین اور کسی بھی رنگ و نسل سے ہو۔ اللہ کافرمان ہے:

﴿وَلَقَد كَرَّمنا بَنى ءادَمَ... ﴿٧٠﴾...
سورة الإسراء

’’اور ہم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو تکریم عطا کی ہے۔‘‘

چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو معزز و مکرم بنایا ہے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ انسان کی حیثیت سے ہم ہر انسان کی عزت و تکریم کریں۔

اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک یہودی کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ کسی نے تعجب سے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کیا وہ انسان نہیں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل انسان کو بحیثیت انسان تکریم عطا کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔


ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ کسی انسان کا مسلم یا کافر ہونا اللہ کی مرضی سے ہے۔ اللہ چاہتا تو سبھی کو مسلمان بنا دیتا لیکن اللہ کی مرضی اور حکمت ہے کہ دنیا میں بعض مسلم ہوتے ہیں اور بعض دوسرے مذاہب کے پیروکار۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿وَلَو شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النّاسَ أُمَّةً و‌ٰحِدَةً وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿١١٨﴾...
سورة هود

’’تیرا رب چاہتا تو تمام انسان کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب الگ الگ ہیں۔‘‘

چونکہ ہر شخص کا مسلم یا کافر ہونا اللہ کی مرضی سے ہے اس لیے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی شخص کو قہراً جبراً مسلمان بنایا جائے۔ اللہ فرماتاہے:

﴿وَلَو شاءَ رَبُّكَ لَءامَنَ مَن فِى الأَرضِ كُلُّهُم جَميعًا أَفَأَنتَ تُكرِهُ النّاسَ حَتّىٰ يَكونوا مُؤمِنينَ ﴿٩٩﴾...
سورة يونس

’’تمہارا رب چاہتا تو زمین کے سارے لوگ ایمان لے آتے۔ کیا تم لوگوں کے ساتھ زور زبردستی کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟‘‘


کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کافر کے کفر کا محاسبہ کرے یا اسے اس کی گم راہی کی سزادے۔ نہ تو یہ اس کی ذمہ داری ہے اور نہ یہ دنیا اس لیے بنائی ہی گئی ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے اور اللہ نے اس کے لیے آخرت بنائی ہے جہاں کافروں کو ان کے کفر کی سزا ملے گی۔ اللہ کا فرمان ہے:

﴿فَلِذ‌ٰلِكَ فَادعُ وَاستَقِم كَما أُمِرتَ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَقُل ءامَنتُ بِما أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتـٰبٍ وَأُمِرتُ لِأَعدِلَ بَينَكُمُ اللَّهُ رَبُّنا وَرَبُّكُم لَنا أَعمـٰلُنا وَلَكُم أَعمـٰلُكُم لا حُجَّةَ بَينَنا وَبَينَكُمُ اللَّهُ يَجمَعُ بَينَنا وَإِلَيهِ المَصيرُ ﴿١٥﴾...
سورة الشورىٰ

’’پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں۔ ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘


ہرمسلم کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف اور اخلاق حمیدہ کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بد اخلاقی اور ظلم و زیادتی کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ خواہ معاملہ کافروں کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی اور حق تلفی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اللہ فرماتاہے:

﴿وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ ... ﴿٨﴾... سورة المائدة

’’اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل و انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ:

"دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا فَإِنَّهُ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ "
(مسند احمد)

’’مظلوم خواہ کافر ہو اس کی پکار کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ (اس کی پکار فوراً خدا تک پہنچتی ہے)‘‘

یہ ہیں اسلام کے چند بنیادی اصول. ان اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں اسلام کا کیا مؤقف ہے؟ اسلام کی نظر میں غیر مسلموں کی دو قسمیں ہیں.


غیر مسلموں کی ایک قسم وہ ہے جن کا دین آسمانی ہے اور جنھیں ہم اہل کتاب کہتے ہیں مثلاً یہودی اورعیسائی.


غیر مسلموں کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کا دین خود ان کا وضع کردہ ہے اور ان میں بت پرستی پائی جاتی ہے. مثلاً ہندو جو کہ بت پوجتے ہیں یا مجوسی جو کہ آگ پوجتےہیں.

اسلامی شریعت میں دوسری قسم کے غیر مسلموں کے مقابلہ میں پہلی قسم کے غیر مسلموں کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ چنانچہ اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا ہے اور ان کی عورتوں سے شادی جائز قرار دی ہے:

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ وَمَن يَكفُر بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٥﴾...
سورة المائدة

’’کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں‘‘

ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سارے سسرالی رشتہ دار اہل کتاب ہیں اور اس کے بچے کے ماموں خالہ نانا نانی وغیرہ بھی اہل کتاب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں تسامح اور رواداری کی یہ عظیم ترین مثال ہے۔

ایک دوسرے زاویہ سے غیر مسلموں کی دو قسمیں ہیں۔


ایک قسم ان غیر مسلموں کی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں کھلم کھلا دشمنی رکھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور انھیں تباہ و برباد کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔


دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے کوئی بیر نہیں رکھتے اور نہ ہی انھیں نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ نارمل طریقہ سے اور دوستانہ ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان دونوں کے سلسلے میں اسلام کا مؤقف ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسلمان ان دونوں قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ایک ہی جیسا برتاؤ کرتا ہے تو وہ انتہائی غلطی پر ہے۔

پہلی قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کی موالات، دوستی، ہمدردی اور میل ملاپ سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے ساتھ دشمنی اور جنگ پر آمادہ ہیں اور ہمارا وجود انھیں برداشت نہیں ہے۔ جب کہ دوسری قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمیں حسن سلوک اور عدل و انصاف پر مبنی معاملہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کیونکہ ان کا سلوک بھی ہمارے ساتھ معاندانہ نہیں بلکہ دوستانہ ہے۔ ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کردیا ہے ان دونوں قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾ إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيـٰرِكُم وَظـٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٩﴾...
سورةالممتحنة

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (8) اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں شہر سے نکال دیئے اور شہر سے نکالنے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وه (قطعاً) ظالم ہیں‘‘

کسی اسلامی ملک کے اندر رہنے والی غیر مسلم اقلیت کو اسلامی شریعت کی اصطلاح میں اہل ذمہ کہتے ہیں۔ اہل ذمہ کا مفہوم یہ ہے کہ غیر مسلم اللہ، رسول اور مسلمانوں کی پناہ میں ہیں۔ اب کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کے عوض ان پر جزیہ فرض کیا ہے، جسے وہ مسلم حکومت کو ادا کریں گے۔ [1]

بعض غیر مسلمین لفظ "جزیہ" کو اپنی توہین محسوس کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس لفظ کو بدل دیا جائے کیونکہ اس میں حقارت کی بو آتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں بعض عیسائیوں نے مطالبہ کیا تھا۔ وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار تھے لیکن جزیہ کے نام پر نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا حالانکہ یہ لفظ قرآن میں مذکور ہے۔ ان سے ٹیکس وصول کیا لیکن جزیہ کے نام پر نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ایک نہایت اہم بات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ اصل اہمیت نام کی نہیں بلکہ مقصد و غایت کی ہے۔ اگر مقصد حاصل ہو رہا ہے تو اسے کسی بھی نام سے تعبیر کیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جس طرح مسلمانوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح غیر مسلم اقلیت کی جان و مال کی حفاظت ،ان کے تمام شہری حقوق اور ان کے مذہبی مقامات و مقدسات کی دیکھ بھال کی ذمے داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ غیر مسلم اقلیت کے لیے اسلامی شریعت کے یہ قوانین صرف اعتراف کرنے اور کتابوں میں لکھنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عملاً انھیں نافذ کیا جائے اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔

قانونی حیثیت سے غیر مسلم اقلیت جن رعایتوں اور رواداریوں کی مستحق ہے انھیں ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:


انھیں اپنے دین و مذہب کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ انھیں بزور طاقت اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان پر کسی قسم کی سیاسی، معاشی یا سماجی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔


انھیں اپنے مذہبی رسم و رواج اور عبادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ انھیں اس بات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے کسی دینی فریضے کو ترک کر دیں یا کوئی ایسا کام کریں جو ان کے مذہب کی رو سے گناہ ہے۔ مثلاً اگر یہودی سنیچر کے دن کام کرنے کو اپنے مذہب کی رو سے غلط تصور کرتا ہے تو اسلامی حکومت میں انھیں سنیچر کے دن کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عیسائی اتوار کے دن گرجا گھر جانا ضروری سمجھتا ہے تو اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔


ان کے مذہب میں جو چیز حلال ہے اس پر ان کے لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی اگرچہ وہ چیز اسلام میں صریح حرام ہو۔ اسی طرح جو چیز ان کے مذہب میں حرام ہے اسے اپنانے پر انھیں مجبور نہیں کیا جا سکتا اگرچہ وہ چیز اسلام میں حلال ہو۔ مثلاً اگر عیسائیوں کے مذہب میں سور کا گوشت کھانا اور شراب پینا حلال ہے تو اسلامی حکومت میں ان پر یہ چیزیں حرام نہیں کی جا سکتیں کیونکہ ان کے مذہب میں یہ چیزیں حلال ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں اسلام میں حرام ہیں۔

یہ وہ رعایتیں اور رواداریاں ہیں جو غیر مسلم اقلیت کو قانوناً حاصل ہیں۔ ان کے علاوہ بعض ایسی رواداریاں بھی ہیں جو قانون کے دائرے میں نہیں آتی ہیں بلکہ حسن اخلاق کے زمرے میں آتی ہیں اور جنھیں اختیار کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا سلوک اور برتاؤ حسن اخلاق و حسن معاشرت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اگر وہ ہمارے پڑوسی ہیں تو پڑوسیوں کے مکمل حقوق انھیں ادا کریں اور اگر وہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ بُرا سلوک کریں۔ غیر مسلم والدین کے سلسلہ میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ:

﴿وَصاحِبهُما فِى الدُّنيا مَعروفًا ...﴿١٥﴾...
سورة لقمان

والدین کے علاوہ غیر مسلمین جو ہمارے ساتھ مذہبی دشمنی نہیں رکھتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ عدل و انصاف اور حسن اخلاق پر مبنی ہونا چاہیے۔

فرمان الٰہی ہے:
﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾...
سورة الممتحنة

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ مشرکین کو راہِ راست پر لانا تمہارا نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے۔ ان کے مشرک ہونے کے باوجود ان کی مالی مدد سے تم گریز نہ کرو۔

﴿ لَيسَ عَلَيكَ هُدىٰهُم وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ ...﴿٢٧٢﴾...
سورة البقرة

’’انھیں ہدایت دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم مال خرچ کرو گے اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔ اور تم صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتے ہو۔‘‘

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن روایت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں جب قحط کی صورت پیدا ہو گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قریب مشرکین کی مدد کے لیے مالی امداد کی حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ مکہ والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنا بُرا سلوک کیا تھا۔

بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری والدہ تشریف لائیں اور وہ مشرک تھیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ آئی ہوئی ہیں کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں ضرور کرو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اہل کتاب اور مشرکین کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ کرتے تھے۔ ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ ان کی خیریت دریافت کرتے، حتی المقدور ان کی مدد کرتے اور ان کے بیماروں کی تیمارداری کرتے۔

ابن اسحاق کی سیرت نبوی میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ نجران سے ایک عیسائی وفد حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی غرض سے مدینہ آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت عصر کی نماز سے فراغت کے بعد مسجد نبوی ہی میں تشریف فرما تھے۔ اسی درمیان میں عیسائیوں کی عبادت کا وقت ہو گیا۔ چنانچہ وہ عیسائی مسجد نبوی کے اندر اپنی عبادت ادا کرنے لگے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین انھیں روکنے کے لیے آگے بڑھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں اپنی عبادت کرنے دو۔ چنانچہ مسجد نبوی کے اندر ان عیسائیوں نے اپنی عبادت ادا کی۔

سعید بن المسیب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کے گھر والوں کے لیے صدقہ جاری کیا جو آج تک جاری ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک بیمار یہودی کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ اور باتوں باتوں میں اسے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی چنانچہ اس حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اس یہودی نے اسلام قبول کر لیا۔

بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی اخراجات کے لیے کسی یہودی سے قرض لیا اور رہن کے طور پر اپنی زرہ اس کے پاس رکھ دی اور اسی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تو کسی صحابی سے قرض لے سکتے تھے۔ سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اپنا سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ لیکن اس کے باجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے قرض لے کر اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مشرکین و اہل کتاب کے ساتھ بھی ہمارا معاملہ ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ معتبر روایتوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ہدیے اور تحائف بھی قبول کیے ہیں۔

یہ ہیں قرآن و حدیث کی چند دلیلیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا سلوک حسن اخلاق اور حسن معاشرت پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی عملی زندگی سے بھی مختلف دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک غریب یہودی کے گھر والوں کے لیے بیت المال سے ماہانہ وظیفہ جاری کروایا۔ پھر یہ آیت پڑھی:

﴿إِنَّمَا الصَّدَقـٰتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـٰكينِ...﴿٦٠﴾...
سورة التوبة

"بلاشبہ صدقہ فقراء و مساکین کے لیے ہے"

اور فرمایا کہ فقراء و مساکین یہودی اور عیسائیوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سفر میں عیسائیوں کے ایک گاؤں سے گزرے۔ گاؤں والوں کو کوڑھ کا مرض لاحق تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کی رقم سے ان کی مدد کا حکم جاری کیا۔

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مجوسی ابو لؤلؤ نے شہید کیا تھا۔ اس کے باوجود آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بستر مرگ پر لوگوں کو وصیت کی کہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ یہ واقعہ بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ پڑوس میں جا کر فلاں یہودی کو قربانی کے گوشت میں سے ایک حصہ دے دے۔ غلام نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ قربانی کے گوشت میں یہودی کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ وہ بھی تو ہمارا پڑوسی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

"مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ"
(بخاری ومسلم)

’’جبرئیل علیہ السلام مجھے بار بار پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دے رہے ہیں یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وراثت کا حقدار بنادیں گے۔‘‘

بعض تابعین عیسائی پادریوں کو صدقہ فطر دینے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔ بلکہ ان میں سے بعض مثلاً امام زہری رحمۃ اللہ علیہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر تابعین عیسائی پادریوں کو زکوٰۃ کی رقم دینے میں بھی کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں ایک مشہور روایت ہے کہ انھوں نے تیمورلنگ سے جنگی قیدیوں کی رہائی کی بات چیت کی۔ تیمورلنگ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے احترام میں صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ لیکن ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بضد ہو گئے کہ صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ان کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی رہا کرنا ہوگا۔

قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے عملی نمونوں کو دیکھ کر یہ سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور خاص کر ان غیر مسلموں کے ساتھ جو کسی اسلامی ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غور کریں کہ جب کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اچھے برتاؤ کی اتنی تاکید ہے تو کسی کافر ملک میں مسلم اقلیت کے لیے یہ بات کس قدر اہم ہے کہ وہ غیر مسلم اکثریتی فرقہ کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر ہم غیر مسلموں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کریں گے اور ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر ہم کس منہ سے غیر مسلموں سے کہہ سکیں گے کہ اسلام اچھے اخلاق کا حکم دیتا ہے۔ اور اسلام بہت اچھا مذہب ہے۔ ہم کیسے انھیں اسلام کی طرف راغب کر سکیں گے۔ ہماری بد اخلاقی دیکھ کر تو وہ اور بھی ہم سے دور ہو جائیں گے، ہم سے نفرت کریں گے اور ہمارے دشمن بن جائیں گے اور آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔

[1]۔ اسلامی شریعت کے مطابق اہل ذمہ کی حیثیت وہی ہے جو کسی مسلمان شہری کی ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کی طرح پہلے درجہ کے شہری ہیں اور انھیں وہ تمام حقوق و مراعات حاصل ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی،
سیاسی مسائل،
جلد 2، صفحہ 305
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/23965

.
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
jazakAllah
 
Top