• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

باب الادب اور باب البر والصلۃ بلوغ المرام ‘ کتاب الجامع کا تیسرا باب باب الزھد والورع کا الحمد للہ آغاز ہو رہا ہے ۔۔۔
زھدکا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز سے رغبت کم ہونا۔۔امام نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا ہے
زھد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی کیوں نہ ہوں اور انہی چیزوں پر گذارا کرے جن کے بغیر چارہ نہیں ہے
بے رغبتی کی کسی نے بہت اچھی مثال پیش کی کہ انسان کے نزدیک دنیا کی حیثیت اپنے گھر میں موجود ٹوائلٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔۔یہ اہم اس قدر ہے کہ اس کے بغیر بڑے سے بڑا محل بےکار ہے ۔۔۔رہنے کے لائق نہیں ہے ۔۔۔اور اس سے بے رغبتی اتنی زیادہ ہے کہ کوئی انسان اس میں بغیر حاجت کے جانا پسند نہیں کرتا۔۔۔۔بعینہ یہی مثال دنیا کی ہے اس کے بغیر گذارا بھی نہیں ہے لیکن اس میں دل بھی اتنا ہی لگانا ہے جتنی ضرورت ہو

ورع سے مراد تقوی اور پرہیزگاری ہے ۔۔۔حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے جب تقوی کی وضاحت چاہی تو انھوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا
ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه سأل أبي بن كعب عن التقوى، فقال له: أما سلكت طريقاً ذا شوك. قال: بلى. قال: فما عملت. قال: شمرت واجتهدت. قال: فذلك التقوى،
حضرت عمر بن خطاب نے ابی بن کعب سے تقوی کے بارے میں سوال کیا تو ابی بن کعب نے ان سے پوچھا
کیا آپ کانٹوں والے راستے پر کبھی چلے ہیں؟؟؟
عمر بن خطاب نے کہا کیوں نہیں
انھوں نے پھر سوال کیا تو پھر آپ نے کیا کیا
عمر بولے میں تیز چلا اور میں نے بچنے کی کوشش کی
ابی بن کعب نے کہا یہی تقوی ہے

دنیامیں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو جانا اور تقوی اختیار کرنا در حقیقت ایک کٹھن امر ہے ۔۔۔اور اس کے لیے تذکیر نا گزیر ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ احادیث کی بڑی کتابوں میں اس موضوع پر باقاعدہ مستقل عنوان قائم کیے گئے ہیں۔۔۔جن کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان ان کو اپنے پیش نظر رکھے اور دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں کھو نہ جائے۔۔۔چنانچہ اپنی اور تمام ممبران کی تذکیر کی نیت سے یہ احادیث پیش کی جارہی ہیں
اللہ تعالی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ( آمین)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
زہد کی ایک اور تفسیر یہ کی گئی ہے کہ زہد یہ ہے کہ دنیا کا دینا، اس کے لینے سے زیادہ محبوب بن جائے۔ اس تفسیر کے مطابق دنیا کا ہونا یا نہ ہونا اصل نہیں ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بہت دنیا تھی لیکن وہ پھر بھی زاہد تھے۔ اصل یہ ہے کہ اگر کسی کے دل کی کیفیت یہ ہو کہ دنیا اور مال دیتے ہوئے اسے زیادہ خوشی ہوتی ہو بنسبت دنیا یا مال کے لینے کے تو یہ زاہد ہے کیونکہ دنیا اور مال سے اس کا دل بے رغبت ہے۔ تو نعمتوں کے حاصل ہونے پر خوشی ہونی چاہیے لیکن زاہد کو نعمت کے حصول پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی اسے نعمت بانٹ کر ہوتی ہے۔ وہ مال کے آنے سے پریشان نہیں ہوتا کہ فتنہ آ گیا لیکن مال کے اپنے پاس جمع رہنے پر خوب بے چین رہتا ہے۔ یہ زہد کی ایک تفسیر ہے یا ایک اور پہلو ہے۔ اور ایک پہلو وہ ہے جو اوپر والی پوسٹ میں بیان ہوا ہے۔ بعض اوقات متنوع پہلووں کے بیان سے ایک چیز خوب کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
مشتبہ امور سے بچنے کا بیان


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باب الزھد والورع کی پہلی حدیث پیش خدمت ہے

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ - وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ: «إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ, وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ, وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ, لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ, فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ, فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ, وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ, كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى, يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ, أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى, أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ, أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً, إِذَا صَلَحَتْ, صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (1)

نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ۔۔۔نعمان سے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی
یقینا حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتےٰ تو جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا ۔۔۔جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراہ گاہ کے اردگرد بکریاں چرانے والا ہے قریب ہے کہ وہ اس میں جا پڑے ۔۔۔یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی چراہ گاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔۔۔خبردار جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ۔۔۔جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔یاد رکھو وہ دل ہے
متفق علیہ
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
حلال ظاہر ہے ۔۔۔کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں مثلا پھل ‘روٹی ‘ شہد دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں ۔۔۔اسی طرح خرید و فروخت اور دیگر معاملات ہیں جو سب جاتنے ہیں کہ حلال ہیں
حرام بھی ظاہر ہے ۔۔۔مثلا خنزیر کا گوشت کھانا ‘ شراب ‘ زنا ‘ چغلی ‘ غیبت اور جھوٹ وغیرہ ۔۔۔ان دونوں کا حکم واضح ہے ۔۔۔جس کی حرمت قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے ۔۔۔جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے ۔۔۔جس پر اللہ تعالی نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے بطور احسان کر دیا وہ بھی حلال ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ان دونوں کے درمیان کچھ مشابہ امور ہیں ۔۔۔ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی ۔۔۔ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں ۔۔۔تو جو شخص حرام سے بچنا چاہتا ہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیونکہ اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہ رہے گی ۔۔۔آہستہ آہستہ حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔۔۔لہذا تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی مشتبھات کے بھی قریب نہ جائے
 

BlueJayWay

مبتدی
شمولیت
ستمبر 08، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
13
Grey Areas سے بچنا واقعی چھوٹی چیز نہیں۔ میں اپنی زندگی میں جن لوگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں، وہ لوگ ان Grey Areas سے فطری طور پر بچتے ہیں۔ کوئی تکلف نہیں ہوتا ان کے اس عمل میں۔ کوئی ڈرامہ یا دکھاوا نہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید ان کی سادہ زندگی ہے جو ان کو avoidable complications سے بچاتی ہے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی ۔۔۔۔کیونکہ شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بدرجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا ۔۔۔عزت اس لیے کہ اگر شبہے وال چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا ۔۔۔۔جبکہ ایک مسلمان کو اپنے کردار کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔۔۔آپﷺ ایک دفعہ اپنی زوجہ مطھرہ سے رات کے اندھیرے میں گفتگو فرما رہے تھے۔۔۔کچھ صحابہ کرام کا وہاں سے گذر ہوا تو آپﷺ نے انھیں واپس بلایا اور یہ وضاحت فرمائی دیکھو یہ میری زوجہ ہیں

عن صفية بنت حيي رضي الله عنها قالت: "كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- معتكفاً، فأتيته أزوره ليلاً فحدّثته، ثم قمتُ فانقلبت، فقام معي ليقلبني -وكان مسكنها في دار أسامة بن زيد رضي الله عنهما-، فمر رجلان من الأنصار، فلما رأيا النبي -صلى الله عليه وسلم- أسرعا، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: ( على رسلكما، إنها صفية بنت حيي ) ، فقالا: سبحان الله يا رسول الله!، فقال: (إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، وإني خشيت أن يَقذف في قلوبكما سوءا -أو قال شيئا- ) ". متفق عليه، واللفظ للبخاري .

رسول اللہ ﷺ نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقے کے مال کی ہو گی تو میں اسے کھا لیتا (متفق علیہ)
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
تمام مکروہ چیزوں سےبچنا بھی اس میں شامل ہے ۔۔۔۔کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے اگر مکروہ چیزوں سے نقرت قائم رہے تو انسان حرام کے بارے میں دیدہ دلیر نہیں ہوتا
 
Top