السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باب الادب اور باب البر والصلۃ بلوغ المرام ‘ کتاب الجامع کا تیسرا باب باب الزھد والورع کا الحمد للہ آغاز ہو رہا ہے ۔۔۔
زھدکا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز سے رغبت کم ہونا۔۔امام نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا ہے
زھد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی کیوں نہ ہوں اور انہی چیزوں پر گذارا کرے جن کے بغیر چارہ نہیں ہے
بے رغبتی کی کسی نے بہت اچھی مثال پیش کی کہ انسان کے نزدیک دنیا کی حیثیت اپنے گھر میں موجود ٹوائلٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔۔یہ اہم اس قدر ہے کہ اس کے بغیر بڑے سے بڑا محل بےکار ہے ۔۔۔رہنے کے لائق نہیں ہے ۔۔۔اور اس سے بے رغبتی اتنی زیادہ ہے کہ کوئی انسان اس میں بغیر حاجت کے جانا پسند نہیں کرتا۔۔۔۔بعینہ یہی مثال دنیا کی ہے اس کے بغیر گذارا بھی نہیں ہے لیکن اس میں دل بھی اتنا ہی لگانا ہے جتنی ضرورت ہو
ورع سے مراد تقوی اور پرہیزگاری ہے ۔۔۔حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے جب تقوی کی وضاحت چاہی تو انھوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا
ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه سأل أبي بن كعب عن التقوى، فقال له: أما سلكت طريقاً ذا شوك. قال: بلى. قال: فما عملت. قال: شمرت واجتهدت. قال: فذلك التقوى،
حضرت عمر بن خطاب نے ابی بن کعب سے تقوی کے بارے میں سوال کیا تو ابی بن کعب نے ان سے پوچھا
کیا آپ کانٹوں والے راستے پر کبھی چلے ہیں؟؟؟
عمر بن خطاب نے کہا کیوں نہیں
انھوں نے پھر سوال کیا تو پھر آپ نے کیا کیا
عمر بولے میں تیز چلا اور میں نے بچنے کی کوشش کی
ابی بن کعب نے کہا یہی تقوی ہے
دنیامیں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو جانا اور تقوی اختیار کرنا در حقیقت ایک کٹھن امر ہے ۔۔۔اور اس کے لیے تذکیر نا گزیر ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ احادیث کی بڑی کتابوں میں اس موضوع پر باقاعدہ مستقل عنوان قائم کیے گئے ہیں۔۔۔جن کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان ان کو اپنے پیش نظر رکھے اور دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں کھو نہ جائے۔۔۔چنانچہ اپنی اور تمام ممبران کی تذکیر کی نیت سے یہ احادیث پیش کی جارہی ہیں
اللہ تعالی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ( آمین)