• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیوی مصائب کی وجوہات اور علاج

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مدنی 2 ربیع الثانی 1433ھ

خطیب فضیلۃ الشیخ حسن آل شیخ
مترجم: عمران اسلم​
پہلا خطبہ:

الحمد لله حمدًا يليقُ بجلال وجهه وعظيمِ سُلطانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له في ألوهيته وربوبيته وأسمائه وصفاته، وأشهد أن نبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه خليلُ الله ومُصطفاهُ من خلقه، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك عليه وعلى آله وأصحابِهِ.
بردرانِ اسلام:
سب سے بہترین نصیحت یہ ہے کہ: اللہ سے ڈر جاؤ، اس کی اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت بجا لاؤ۔ تمام تر بھلائیوں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا یہی واحد راستہ ہے۔
اے مسلمانو!
بہت سے لوگ موجودہ دگرگوں حالات سے متعلق سوال کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ رزق سے برکت کیوں اٹھ گئی ہے؟ وہ دن کہاں کھو گئے ہیں جب زمین خیر و بھلائی سے بھری ہوتی تھی؟
وہ ہم سے پوچھتے ہیں لوگوں میں اس قدر تبدیلی کیوں آ گئی ہے؟ بغض و کینے میں اس قدر اضافہ کیوں ہو گیا ہے؟ باہمی اخلاص و محبت اور وفا و تعاون قصہ ماضی کیوں بن گیا ہے؟
بارشوں کی قلت اور قحط سالی کی کیا وجوہات ہیں؟
پوری دنیا کی فضا میں موجود نہ ختم ہونے والے گرد و غبار پر ہم محو حیرت ہیں۔ مزید برآں ہمیں تاجروں کے نہ ختم ہونے والے لالچ اور فاجر عاملین کا سامنا ہے۔
کفار کا مسلمانوں پر تسلط مضبوط ہو چکا ہے، ان کی دشمنی اور مضرت رسانیاں اپنی آخری حدوں کے بھی آخر تک پہنچ چکی ہیں۔ مسلمانوں کی ان کے سامنے حیثیت ایک ترنوالہ کی ہو گئی ہے۔ جس طرح چاہتے ہیں ان سے پیش آتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ہی ان کے ا مور میں مداخلت کرتے ہیں۔
دنیا میں جس قدر نئی نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں اسی تواتر کے ساتھ عجیب و غریب بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ جن کا آج سے پہلے تصور بھی ناپید تھا۔
یہ وہ مصائب ہیں جن کا لوگوں کو سامنا ہے۔ تو ان کے وقوع کے اسباب کیا ہیں؟؟ اور ان سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟؟
برادران اسلام!
ہم ایک ایسی امت ہیں جو عظیم المرتبت رسالت سے منسلک ہے۔ ہمارا اللہ ان مفاسد، شرور اور مضرتوں سے واقف اور ان سے نکلنے کا حل بخوبی جانتا ہے۔ فرمان عالیشان ہے:
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [الملك: 14].
’’کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ؟ پھر وہ باریک بین اورخبردار بھی ہو۔‘‘
یاد رکھیے!مصائب و آلام کی متعدد صورتیں اور مختلف قسم کی آزمائشوں کا بنیادی سبب مسلمانوں میں کثرت سے گناہوں کا پھیل جانا اور علانیہ نافرمانی و معاصیت پر اتر آنا ہے۔
قرآن کریم کی ایک آیت ان مصائب کا علاج اور ان سے خلاصی کی بہت آسان ترکیب بتاتی ہے۔ ارشاد ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ [الروم: 41]
’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے(بہت ) ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں۔‘‘
قرآن کریم کی یہ آیت تمام تر فسادات کا ذمہ وار انسانی اعمال کو قرار دیتی ہے۔ ہماری ظاہری اور علانیہ نافرمانیوں ہی کی وجہ سے ہم اس قدر مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
اور صورتحال یہ ہے کہ جب ان فسادات کے بدلے میں لوگوں کو تکالیف کا سامنا ہوتا ہے تو وہ وقتی طور پر اللہ تعالیٰ اور اعمال صالحہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد پھر وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
بلا شبہ گناہ کرنا اور پھر اس پر اترانا لوگوں کی ہلاکت کا باعث ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [الأنعام: 42].
’’اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کی تنگدستی اور بیماری سے پکڑاتاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔ ‘‘
لوگوں میں خوف و ہراس اور مختلف النوع مشکلات بھی ان کے گناہوں ہی کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ [النحل: 112].
’’ اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آ رہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیاتو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔‘‘
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ
«إن الفاجِرَ إذا ماتَ تستريحُ منه العبادُ والبلادُ والشجرُ والدوابُّ».
’’جب کوئی فاجر مر جاتا ہے تو لوگ، شہر، درخت اور حیوانات چین محسوس کرتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ان برائیوں سے جنگ کریں اور ایسے ہاتھوں کو روکیں جو اس پاکیزہ زندگی کے سفینے کو ڈبونے کی کوشش میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ [المائدة: 78].
’’بنی اسرائیل کے کافروں پر(حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«لتأمُرُنَّ بالمعروف، ولتنهُوُنَّ عن المُنكَر، أو ليُوشِكَنَّ اللهُ أن يعُمَّكم بعذابٍ من عنده ثم تدعُونه فلا يُستجَابُ لكم»
’’نیکیوں کا حکم دیتے رہو اور برائیوں سے روکتے رہو۔ ورنہ اللہ تم کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ تم دعا کرو گے لیکن وہ قبول نہ ہو گی۔‘‘
ایک مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
«إن الناسَ إذا رأوا الظالمَ فلم يأخُذوا على يديه أوشكَ اللهُ أن يعُمَّهم بعقابٍ من عنده».
’’جب لوگ ظلم ہوتا دیکھیں لیکن ظالم کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان کو عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘
بندگان خدا!
خدا تعالیٰ سے ڈر جاؤ ! ہر برائی، فحاشی اور فساد سے اعلان برات کرو۔
أقولُ هذا القولَ، وأستغفرُ الله لي ولكم ولسائرِ المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفِروه، إنه هو الغفور الرحيم.
دوسرا خطبہ

الحمد لله وحده، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريكَ له، وأشهد أن نبيَّنا محمدًا عبدُه ورسولُه، اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك عليه وعلى آلِهِ وأصحابِهِ.
أما بعد
مسلمانان گرامی!
ہمارا اولین فریضہ ہے کہ ہم اس چیز کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، جو بے دینی کا باعث ہو۔ نیکی کا حکم دیں، برائیوں سے روکتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لائیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت انھی چیزوں کے ساتھ خاص ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ [التوبة: 71].
’’مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگارو معاون اور) دوست ہیں۔ وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اللہ کے رسولﷺ کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گابے شک اللہ تعالیٰ غلبے والا حکمت والا ہے۔‘‘
اے مسلمانو!
آج ہماری دعائیں قبول نہ ہونے کی وجہ بھی ہمارا گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا ہے۔
ایک دفعہ ابراہیم بن ادہم﷫﷫﷫ رحمۃ اللہ علیہ بصرہ کے بازار سے گزرے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اے ابو اسحاق! اللہ نے ہمیں دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ ہم دعائیں کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے دل کچھ چیزوں سےعاری ہو گئے ہیں:
’’تم اللہ کو جانتےہو لیکن اس کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ قرآن پڑھتے ہو لیکن اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ رسول اکرمﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن اس کی سنت سے اعراض کرتے ہو۔ تم جنت کے مشتاق ہو لیکن اس کے لیے جد و جہد نہیں کرتے۔ تم آگ سے ڈرتے ہو لیکن اس سے بچاؤ کا سامان نہیں کرتے۔ موت پر تو یقین رکھتے ہو لیکن موت کی تیاری نہیں کرتے۔ لوگوں کے عیوب پر نظر رکھتے ہو لیکن اپنے عیوب بھول جاتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہو لیکن ان کا شکر ادا نہیں کرتے۔ مردوں کو دفناتے ہو لیکن ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ تو تمہاری دعا کیسے قبول ہو۔‘‘
میری آپ سب کو نصیحت ہے کہ ایسےاسباب اختیارکیجئے جو ہمارے احوال کی درستی کا باعث ہوں۔ اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کیجیے، نبو ی منہج کو اپنائیے۔ یہی فلاح و کامیابی کا راستہ ہے۔
اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على نبيِّنا وسيدِنا وحبيبِنا وقُرَّة عيوننا: نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن الخلفاء الراشدين، والأئمةِ المهديين: أبي بكرٍ، وعُمر، وعُثمان، وعليٍّ، وعن جميعِ آل رسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -، وعن جميعِ الصحابةِ والتابعين ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين.
اللهم أصلِح أحوالَنا بتقواَك، اللهم أصلِح أحوالَنا بتقواَك، اللهم أصلِح أحوالَنا بتقواَك، اللهم قوِّم حياتَنا بسُنَّةِ نبيِّك محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، اللهم قوِّم حياتَنا بسُنَّةِ نبيِّك محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -.
اللهم احفَظ المُسلمين في سُوريا وفي كل مكانٍ، اللهم فرِّج هُمومَهم، اللهم فرِّج هُمومَنا وهُمومَهم، واكشِف غُمومَنا جميعًا، اللهم يسِّر لهم كلَّ خيرٍ، اللهم ارفَع عنهم كلَّ ضررٍ، اللهم ارفَع عنهم كلَّ ضررٍ، اللهم ارفَع عنهم كلَّ ضررٍ يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم أقِرَّ عيوننا بتحكيم هذا الدين في كلِّ مكانٍ.
اللهم عليك بأعداء المُسلمين فإنهم قد طغَوا وبغَوا، اللهم عليك بأعداء المُسلمين، اللهم من أرادَ بلادَ المُسلمين بسوءٍ فأشغِله في نفسه، اللهم من أرادَنا وأرادَ المُسلمين بسُوءٍ فعليكَ به، اللهم من أرادَ ديننا أو أخلاقَنا أو بلادَنا أو نُفوسَنا بضرٍّ اللهم فانتقِم منه، اللهم فانتقِم منه، اللهم فانتقِم منه.
اللهم عليك بكلِّ مُعتدٍ ينشُرُ الإلحاد والفساد، اللهم عليك بكلِّ مُعتدٍ ينشُرُ الإلحاد والفساد.
اللهم ولِّ على المُسلمين خِيارَهم، اللهم ولِّ على المُسلمين خِيارَهم، اللهم حكِّم فيهم شرعَك، اللهم أقِم فيهم بالأمر بالمعروف والنهيِ عن المُنكَر، اللهم اجعله ظاهِرًا منصورًا، اللهم اجعل هذه الشعيرةَ ظاهِرةً منصورةً يا حيُّ يا قيُّوم، اللهم من أرادَها بسُوءٍ فأشغِله في نفسه، واكفِ المُسلمين شرَّهم يا ذا الجلال والإكرام.
اللهم وفّق وليَّ أمرنا خادمَ الحرمين لما تُحبُّه وترضاه، اللهم اجعله شَوكةً في حُلُوقِ أعداءِ الإسلام والمُسلمين، اللهم انصُر به دينَك، اللهم أعلِ به كلمتَكَ، اللهم انصُر به وبوليِّ عهده هذا الدين، وانصُر بهم شعيرةَ الأمر بالمعروف والنهيِ عن المُنكَر يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم اغفِر لكل مُسلمٍ ومُسلِمة، اللهم يسِّر لهم أمورَهم، اللهم واكفِهم شرَّهم يا ذا الجلال والإكرام، اللهم واكفِهم كلَّ شرٍّ يا حيُّ يا قيُّوم، وارزُقهم حياةً طيبةً سعيدةً في الدارَين.
اللهم أنزِل علينا المطرَ، اللهم أنزِل علينا المطرَ، اللهم أنزِل علينا المطرَ يا حيُّ يا قيُّوم، يا ذا الجلال والإكرام.
يا غنيُّ يا حميدُ جفَّت أراضينا، وضعُفَت أبدانُنا، وماتَت بعضُ بهائِمنا؛ فارحَمنا يا ذا الجلال والإكرام، اللهم ارحَمنا برحمةٍ تُغنينا بها عن رحمةِ مَن سِواكَ، اللهم ارحمنا بها رحمةً تُغنينا بها عمَّن سِواك، اللهم اسقِنا، اللهم اسقِنا، اللهم اسقِنا يا حيُّ يا قيُّوم.
نسألُك أن ترحَمَنا بضُعفائِنا، نسألُك أن ترحَمَنا ببهائِمِنا، نسألُك ألا تُؤاخِذنا بما فعلَ السُّفَهاءُ منَّا يا حيُّ يا قيُّوم، يا غنيُّ يا حميدُ يا كريمُ.
عباد الله:
اذكُروا اللهَ ذكرًا كثيرًا، وسبِّحُوه بُكرةً وأصيلاً.

خطبہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Top