• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوستی اور دشمنی (عقیدہ الولاء والبراء)

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
دوستی اور دشمنی (عقیدہ الولاء والبراء)

تمام تعریفیں اس اللہ ہی کیلیے ہیں جو ایمان والوں کا دوست ہے، اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر جو سچے لوگوں سے دوستی نبھانے والے تھے، اور ہر اس شخص پر جو کافروں سے دشمنی لگانے کیلیے آپ ﷺ کے راستے پر چل نکلا، اما بعد:

دوستی اور دشمنی کا عقیدہ (الولاء و البراء) اسلام کے اصولوں میں سے ایک انتہائی بنیادی اصول ہے اور اس کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے، کسی شخص کا اسلام اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کی خاطر دوستی نہیں نبھاتا اور اللہ کی خاطر دشمنی نہیں لگاتا۔

دوستی اور دشمنی کا عقیدہ ایمان کے درست ہونے کی شرائط میں سے ایک ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

«تَرَیٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُون.َ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُون» [سورة المائدة:81-80]

ترجمہ: تم ان میں سے بہت ساروں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں، پس بہت برا ہے جو کچھ انہوں نے اپنے واسطے آگے بھیجا ہے کہ اللہ ان سے ناراض ہوگیا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے، اور اگر وہ اللہ پر اور پیغمبر پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی اس پر یقین رکھتے تو وہ ان لوگوں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر بدکردار ہیں۔


دوستی:

دوستی اپنے محبوب لوگوں سے ظاہری و باطنی طور پر محبت کرنے اور ان کی نصرت، اکرام اور احترام کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

«اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [سورة البقرة:257]

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے جو اُن کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست معبودانِ باطلہ ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر اندھیروں میں دھکیلتے ہیں، یہی لوگ اہل دوزخ ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔


اور دوستی صرف اور صرف اللہ، اس کے رسول ﷺ اور اہلِ ایمان سے ہی ہوسکتی ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

«إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ. وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ»[سورة المائدة:56-55]

ترجمہ: تمہارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔ اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو دوست بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو غالب ہیں۔


مؤمنین کے ساتھ دوستی یہ ہے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ان سے محبت کی جائے۔ ان کی نصرت کی جائے، ان کی خیرخواہی کی جائے۔ ان کے حق میں دعائے خیر کی جائے۔ ان کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ ان کے ساتھ رحم والا معاملہ کیا جائے۔ ان سے تکالیف کو روکا جائے۔ اسلام نے ان کے لیے جو حقوق مقرر کیے ہیں وہ انہیں دیے جائیں اور اس کے علاوہ وہ تمام باتیں جو دوستی کے تقاضوں میں داخل ہیں انہیں ملحوظ رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

«مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ» [سورة الفتح: 29]
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر انتہائی سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں۔


سو مؤمنین کے ساتھ دوستی کا معنی یہ ہے کہ ان سے قرابت رکھی جائے، اپنے اقوال، افعال اور تحائف کے ذریعے ان سے محبت کا اظہار کیا جائے، یعنی اپنی نیت، قول اور عمل کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہر شخص کی نصرت میں پیش پیش رہا جائے، ان کی جاہ و مال کا تحفظ اور دفاع کیا جائے۔

دوستی کی بنیاد محبت ہے اور دشمنی کی بنیاد نفرت ہے۔ اور درحقیقت ان دو کیفیات ہی سے دل اور اعضاء کے وہ تمام اعمال جنم لیتے ہیں جن کا تعلق دوستی اور دشمنی سے ہے، جیسے نصرت، انسیت، معاونت، جہاد، ہجرت اور اس جیسے دیگر اعمال جو دوستی کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ اور ضروری ہے کہ یہ دوستی خالصتاً اللہ ہی کی خاطر ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

«قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ » [سورة الأنغام: 14]
ترجمہ: آپ کہہ دوکہ کیا اس اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست بناؤں؟، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا، آپ کہہ دو کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور مشرکوں میں ہرگز نہ ہوؤں۔


پس ہم مال و جاہ کی وجہ سے کسی سے دوستی نہیں رکھتے بلکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کیلیے ہے:
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جو اللہ کو رب مانتے ہوئے، اسلام کو دین سمجھتے ہوئے اور محمد ﷺ کو نبی تسلیم کرتے ہوئے ایمان لے آیا۔
  • ہماری دوستی ہر مؤمن سے ہے جو اکیلے اللہ کی عبادت کرتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اپنے تمام اقوال اور افعال میں نبی ﷺ کی پیروی کرتا ہے۔
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جس نے قرآن کو اپنا منہج اور اپنا راستہ بنا لیا۔
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جو شریعت کی بالادستی کیلیے کوشاں ہے اور اس کے نفاذ کی پکار لگاتا ہے، اور لوگوں کے بیچ اسے راسخ کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جس نے اسلام کا پرچم بلند کیا، اور اسے ہر خطے تک پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پس اس نے لوگوں کو توحید سکھلائی اور شرک سے خبردار کیا، تاکہ وہ اکیلے اللہ، غفور و شکور ذات کی عبادت کریں اور قبروں اور شاہی محلوں کے شرک کو زمین بوس کردیں۔
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جس نے اکیلے اللہ کیلیے اپنے گھر بار، عزیز و اقارب اور اہل علاقہ کو چھوڑ دیا۔ اور عراق، شیشان، صومالیہ، مالی، مغرب (مراکش، تیونس، الجزائر)، ترکستان، جزیرۃ العرب، افغانستان، فلسطین اور شام غرض ہر جگہ مجاہدین کی نصرت پر کمر بستہ ہوگیا۔
  • ہماری دوستی ہر اس شخص سے ہے جس نے اس لیے ہجرت کی تاکہ وہ اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ اسلام کا دفاع کرے، پھر اس نے مسلمانوں کے دین کی حفاظت کی۔ شیرخوار بچوں اور بوسیدہ کمر بوڑھوں کو بچایا اور یرغمال مسجدِ اقصی کی واپسی کے لیے اپنی ہر قیمتی اور نفیس چیز پیش کردی۔
  • ہماری دوستی ہر مؤمن سے ہے جو لاچاروں کی پرسہ داری کیلیے اور مظلوموں کے حقوق کی واپسی کیلیے اپنے جان و مال کے ساتھ لپک پڑا، ان کے دفاع کی خاطر موت کی وادیوں میں کود گیا اور بارود کی بارش میں چل پھر رہا ہے تاکہ بھائیوں اور بہنوں کو یکجا جیلوں میں ڈالے جانے والی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور مسلمانوں کی اہانت کا سدِ باب ہوسکے۔
  • ہماری دوستی ہر مومن سے ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہے، کہ اس نے جب دیکھا کہ امت مسلمہ قتل و بمباری، تباہی و بربادی اور نسل کشی و فصل کشی سے دوچار ہورہی ہے تو اسے گوارا نہ ہوا کہ وہ کچھ اور سوچے یا کھانے پینے کی لذتوں میں الجھا رہے، پس وہ اس سرابی دنیا کو خیر باد کہتے ہوئے اور غالب و مہربان ذات کی اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے انہیں بچانے کیلیے نکل پڑا:
«انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ» [سورة التوبة:41]
ترجمہ: نکلو تم ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجهو۔

  • ہماری دوستی ہر مؤمن سے ہے جس نے انسانوں کو معبود بنانے والے اور اللہ کی تنِ تنہا حاکمیت کی مخالفت کرنے والے نظامِ جمہوریت کا انکار کیا، پس جو کوئی بھی قرآن و سنت سے مخالف اس نظام جمہوریت سے جنگ کرتا ہے، تو وہ ہمارا دوست ہے، ہم اس کی نصرت کرتے ہیں، اس سے محبت رکھتے ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہیں، اس کو اپنے دلوں میں اور گھروں میں جگہ دیتے ہیں اور اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاتے ہیں۔
دشمنی:

جیسا کہ دوستی کی بنیاد محبت ہے اور دشمنی کی بنیاد نفرت ہے۔ اور درحقیقت ان دو کیفیات ہی سے دل اور اعضاء کے وہ تمام اعمال جنم لیتے ہیں جن کا تعلق دوستی اور دشمنی سے ہے، جیسے نصرت، انسیت، معاونت، جہاد، ہجرت اور اس جیسے دیگر اعمال [الرسائل المفيدة].

لہذا دوستی اور دشمنی کا عقیدہ لا إله إلا الله کے لوازمات میں سے ہے۔ پس دوستی کی اصل محبت اور نصرت ہے جبکہ دشمنی کی اصل نفرت اور عداوت ہے۔

پس جو مؤمنین سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن ان کی نصرت نہیں کرتا اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی معاونت نہیں کرتا تو وہ در حقیقت ان کا دوست نہیں۔ اور اسی طرح جو کفار، منافقین اور مرتدین سے نفرت کا دعوی تو کرتا ہے لیکن ان سے دشمنی نہیں کرتا تو وہ در حقیقت ان سے برأت نہیں کرتا۔ سو اسی لیے ارشادِ باری تعالی ہے:

«قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ» [سورة الممتحنة:4]

ترجمہ: بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں بہترین نمونہ ہے اور ان لوگوں میں جو اس کے ہمراہ تھے، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم تمہاری تکفیر کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوچکا یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ۔


اور ارشادِ باری تعالی ہے:

« لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَی اللَّهِ الْمَصِيرُ» [سورة آل عمران:28]

ترجمہ: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں، اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہ اللہ سے کسی ذمہ میں نہیں، مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو، اور اللہ تمہیں اپنے سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔


اور مزید ارشادِ باری تعالی ہے:

« لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ باِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ »[سورة المجادلة:22]

ترجمہ: تم کسی قوم کو ہر گز مؤمن نہ پاؤ گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتی ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔


اس آیت کی تفسیر میں مذکور ہے کہ یہ آیت أبو عبيدة إبن الجراح رضی اللہ عنہ کی شان میں اتری جب انہوں نے بدر والے دن اپنے باپ کو قتل کر دیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَۚ» [سورة المائدة:57]
ترجمہ: اے ایمان والو! ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے ان لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور کافروں کو۔


اللہ تعالیٰ نے عموما کفار سے دوستی لگانے کے بارے میں ارشاد فرمایا:

«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ» [سورة الممتحنة:1]

ترجمہ: اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو سچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہو چکے ہیں، رسول کو اور تمہیں اس لیے دربدر کرتے ہیں کہ تم اللہ اپنے رب پر ایمان لائے ہو، اگر تم جہاد کے لیے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو تو ان کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی رکھتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو، اور جس کسی نے بھی تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستہ سے بہک گیا۔


بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالی نے ایک مسلمان کے لیے تمام کافروں سے دوستی کو حرام قرار دے دیا اگرچہ نسب کے لحاظ سے وہ ایک مسلمان کے انتہائی قریبی رشتے دار ہی کیوں نا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَی الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [سورة التوبة:23]

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آباء و اجداد اور بھائیوں سے دوستی نہ رکھو اگر وہ ایمان پر کفر کو پسند کریں، اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔


اور اللہ تعالی نے فرمایا:

«وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ» [سورة الأنفال:73]

ترجمہ: اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اگر تم ان کی دوستی سے باز نا آئے تو زمين میں فتنہ پھیل جائے گا اور بڑا فساد برپا ہوگا۔


پس اللہ تعالیٰ نے دوستی کو صرف مؤمنین کے درمیان رکھ دیا ہے اور کفار سے ان کی دوستی کو کاٹ دیا اور بتلا دیا کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر انہوں نے ایسا نا کیا تو بہت بڑا فتنہ اور فساد برپا ہو جائے گا اور اسی طرح ہوتا ہے۔

پس خالص اللہ تعالی کیلیے محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی کے بغیر نہ تو دین مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پرچم بلند کیا جاسکتا ہے، اور اگر سب لوگ دشمنی یا نفرت کے بغیر ایک ہی راستے پر محبت سے متفق ہوجائیں تو حق اور باطل کے درمیان تمییز ختم ہوجائے، پھر نہ تو مومنوں اور کافروں کے درمیان کوئی فرق باقی رہے اور نہ ہی رحمٰن کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے درمیان کوئی فرق باقی رہے۔

اور آخر میں، ہم پر لازم ہے کہ ہم شفاف عقیدے کی طرف رجوع کریں، جس میں كلمہ توحید کے مفہوم کی درستی ہو، اور عبادت کے تصور کی درستی ہو جو کہ ایک نظام زندگی ہے ، اور نئی نسل کی کتاب و سنت پر تربیت کی جائے، فکری یلغار کے اثرات کو دور کیا جائے، لوگوں کے دلوں میں دوستی و دشمنی کے عقیدے کو پختہ کردیا جائے، اللہ کے گروہ اور شیطان کے گروہ کے درمیان دشمنی کو یقینی بنایا جائے اور اللہ کی قریبی نصرت کی امید پیدا ہو، جبکہ اللہ تعالی کی ذات ہی سب سے زیادہ علم و حکمت والی ہے۔

و صلی الله و سلم علی نبينا محمد و علی آله و صحبه أجمعين.
 
Top