ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
سوال:
دوسرے کلمے کا مطلب شہادت ہے تو شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے، جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، تو پھر ہم یہ کیسے شہادت دے رہے ہیں ؟
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے کہا کہ: ” شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکهی ہو –” ایسا ہر گز نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور فہم و ادراک کی جو قوتیں عطا کیں ہیں ان کے ذریعے سے انسان بہت سی ایسی چیزوں کی حقانیت کا اندازہ کرتا اور ان پر یقین کر لیتا اور اس کے بعد ان کی شہادت بهی دیتا ہے جو اس نے آنکھوں سے نا بهی دیکهی ہوں – مثال کے طور پر دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتیں لیکن انسان اپنی عقل و فہم اور علم کے ذریعے سے دلائل کی روشنی میں انہیں دریافت کر لیتا ہے اور پهر دنیا انہی دلائل کی بنیاد پر ان کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے- جراثیم ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے لیکن انہیں دنیا کا ہر شخص حقیقت مانتا ہے کیونکہ اگرچہ یہ ظاہری آنکھ سے نظر نا بهی آئیں انسان ان کے اثرات و دیگر نشانیوں سے انہیں جانچ لیتا ہے –
بالکل اسی طرح کائنات کے عوامل، اس میں ظہور پذیر ہونے والی نشانیاں اللہ تعالیٰ کے وجود اس کے مالک و مختار ہونے اور اس کے نظام کی شہادت دینے پر انسانی عقل کو مجبور کرتی ہیں اور بن دیکهے بهی انسان اس حقانیت کو دریافت کر لیتا ہے- اور اسی لیے اللہ تعالیٰ کو یہ شہادت انسان سے مطلوب بهی ہے-جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کہ اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ اللہ اور اس کے پیغمبروں اس کے نظام کو حق جانتے اور اس کی شہادت دیتے ہیں – وحی الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کے حق ہونے کے واضح دلائل ہیں جن کے رد کی انسانی عقل کے پاس کوئی توجیح رہتی ہی نہیں –
چنانچہ ان سب چیزوں کو بن دیکھے بهی مان لینا اور ان کی شہادت دینا انسان پر لازم ہو جاتا ہے- ایسا ہر گز نہیں کہ اللہ کا بنایا ہوا نظام یا اس کا قانون الل ٹپ ہے بلکہ اس نے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے باقاعدہ انتظامات کیے ہیں کہ وہ کسی بھی چیز یا عمل کو عقل کی کسوٹی پر پرکهے بغیر تسلیم نہیں کرتا اور خالق کی طرف سے یہ چیز انسان کے حوالے سے مطلوب بهی نہیں کہ وہ بنا عقل و فہم کے کسی چیز کو تسلیم کر کے بیٹھ جائے اور پهر اس کی شہادت بهی دے بلکہ ان سب چیزوں کی شہادت عقلی دلائل کی بنا پر ہی انسان سے مانگی گئی ہے ضرورت صرف انہیں دریافت کرنے کی ہوا کرتی ہے-
از: ام مریم
https://aqilkhans.wordpress.com/category/سوالات-سماجیات/
دوسرے کلمے کا مطلب شہادت ہے تو شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے، جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، تو پھر ہم یہ کیسے شہادت دے رہے ہیں ؟
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے کہا کہ: ” شہادت تو اس چیز کی دی جاتی ہے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکهی ہو –” ایسا ہر گز نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور فہم و ادراک کی جو قوتیں عطا کیں ہیں ان کے ذریعے سے انسان بہت سی ایسی چیزوں کی حقانیت کا اندازہ کرتا اور ان پر یقین کر لیتا اور اس کے بعد ان کی شہادت بهی دیتا ہے جو اس نے آنکھوں سے نا بهی دیکهی ہوں – مثال کے طور پر دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتیں لیکن انسان اپنی عقل و فہم اور علم کے ذریعے سے دلائل کی روشنی میں انہیں دریافت کر لیتا ہے اور پهر دنیا انہی دلائل کی بنیاد پر ان کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے- جراثیم ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے لیکن انہیں دنیا کا ہر شخص حقیقت مانتا ہے کیونکہ اگرچہ یہ ظاہری آنکھ سے نظر نا بهی آئیں انسان ان کے اثرات و دیگر نشانیوں سے انہیں جانچ لیتا ہے –
بالکل اسی طرح کائنات کے عوامل، اس میں ظہور پذیر ہونے والی نشانیاں اللہ تعالیٰ کے وجود اس کے مالک و مختار ہونے اور اس کے نظام کی شہادت دینے پر انسانی عقل کو مجبور کرتی ہیں اور بن دیکهے بهی انسان اس حقانیت کو دریافت کر لیتا ہے- اور اسی لیے اللہ تعالیٰ کو یہ شہادت انسان سے مطلوب بهی ہے-جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کہ اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ اللہ اور اس کے پیغمبروں اس کے نظام کو حق جانتے اور اس کی شہادت دیتے ہیں – وحی الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کے حق ہونے کے واضح دلائل ہیں جن کے رد کی انسانی عقل کے پاس کوئی توجیح رہتی ہی نہیں –
چنانچہ ان سب چیزوں کو بن دیکھے بهی مان لینا اور ان کی شہادت دینا انسان پر لازم ہو جاتا ہے- ایسا ہر گز نہیں کہ اللہ کا بنایا ہوا نظام یا اس کا قانون الل ٹپ ہے بلکہ اس نے انسانی فطرت کے اس تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے باقاعدہ انتظامات کیے ہیں کہ وہ کسی بھی چیز یا عمل کو عقل کی کسوٹی پر پرکهے بغیر تسلیم نہیں کرتا اور خالق کی طرف سے یہ چیز انسان کے حوالے سے مطلوب بهی نہیں کہ وہ بنا عقل و فہم کے کسی چیز کو تسلیم کر کے بیٹھ جائے اور پهر اس کی شہادت بهی دے بلکہ ان سب چیزوں کی شہادت عقلی دلائل کی بنا پر ہی انسان سے مانگی گئی ہے ضرورت صرف انہیں دریافت کرنے کی ہوا کرتی ہے-
از: ام مریم
https://aqilkhans.wordpress.com/category/سوالات-سماجیات/