• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دو اہلحدیث علماء کے درمیان اختلاف

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
زبیر علی زئی کی درج ذیل کتاب میں انہوں نے کفایت اللہ سنابلی صاحب کو جھوٹا ثابت کیا۔
اس کی کیا حقیقت ہے؟ (مقالات جلد ششم)
وضاحت فرما دیں۔
دونوں اہلحدیث ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
--------------------
###کفایت اللہ صاحب نے اس کامفصل جواب بھی دیا ہے ، ان کی تحریر کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کفایت اللہ صاحب ایک عرصے تک زبیر علی زئی صاحب کے مدح سرا رہے، پھر کسی وجہ سے اختلاف ہوا، اور حالات خراب ہوگئے۔ دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف تحریریں اسی بعد والے زمانے کی ہیں۔
بہرصورت ہر مسلک و مذہب کے لوگوں میں ایسا ’مذموم اختلاف‘ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی اس سے سب کو محفوظ رکھے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

میری تحقیق کے مطابق زبیر علی زئی اور کفایت اللہ سنابلی کا اصل جگھڑا مناقب علی و معاویہ اور حسین و یزید رضی اللہ عنھما کے معاملے میں ہی ہے- باقی دوسرے فقہی معملات و عقائد میں دونوں اہل حدیث حضرات کے تقریباً یکساں خیالات و نظریات ہیں -

زبیر علی زئی ان اہل علم میں سے ہیں جو علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے باہمی و سیاسی اختلاف کے معاملے میں رافضی نظریات و عقائد رکھنے والے اکثر و بیشتر علماء اہل سنّت سے قرب رکھتے نظر آتے ہیں- اگرچہ مجموعی طور پر وہ رافضی افکار و نظریات یعنی بدعات و مشرکانہ عقائد وغیرہ کے ایسے ہی مخالف نظر آتے ہیں جسے باقی اہل سنّت کے علماء و مشائخ ہیں-

دوسری طرف کفایت اللہ سنابلی ان اہل علم میں سے ہیں جو علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے باہمی و سیاسی اختلاف کے معاملے میں بظاھر نواصب کے عقائد کے نزدیک نظر آتے ہیں- لیکن میرے نزدیک کفایت اللہ سنابلی حقیقت میں ناصبی نہیں ہیں- کیوں کہ مشاجرات صحابہ کرام- خصوصاً و علی و معاویہ رضی اللہ عنھما اور یزید بن معاویہ رحم الله کے باہمی معاملات و واقعیات میں انہوں نے حقیقت نظری سے کام لیا ہے- اور علم جرح و تعدیل کے صحیح استمال سے ان واقعیات و حالات کو پرکھا ہے اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا -

کہتے ہیں کہ جذباتیت "سچائی و انصاف" کی دشمن ہوتی ہے- زبیر علی زئی نے جذبات میں آکر اپنی تحقیق میں وہی غلطیاں کیں جو مشاجرات صحابہ کے معاملات میں عرصۂ پہلے مولانا مودودی نے کیں تھیں-اور جس کی بنا پر ہی عوام و مشائخ میں ناصبی افکار و نظریات کو ابھرنے کا موقعہ ملا-(و اللہ اعلم)

بہرحال حق یہی ہے کہ "توبہ" زبیر علی زئی کو کرنی چاہیے تھی نا کہ کیفایت الله صاحب کو کرنی ہے-

دعا ہے کہ الله زبیر علی زئی کی مغفرت کرے اور سب مسلمانوں کو اپنی سیدھی راہ دیکھاہے (آمین)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
یزید بن معاویہ رحم الله کے باہمی معاملات و واقعیات میں انہوں نے حقیقت نظری سے کام لیا ہے- اور علم جرح و تعدیل کے صحیح استمال سے ان واقعیات و حالات کو پرکھا ہے اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا -
محترم،
سنابلی صاحب کے انصاف کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں
اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ میں موصوف نے ابن زیاد کوحسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے حکم دینے سے بری قرار دیا تھا اورصفحہ ۳۷۳ پر یہ روایت پیش کی عبداللہ بن جعفر کے بیٹوں کا سر لانے والے کے قتل کا ارادہ کر لیا اور اس کا گھر بھی منہدم کروادیا یہ روایت سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں صفحہ ۳۷۳ پریہاں سے شروع کی ہے

وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت۔

اور اس کے سنابلی صاحب نے تین حوالے نقل کیے ہیں" تاریخ الطبری، انساب الاشراف البلاذری، بغیۃ الطلب" اور ان تمام کتب سے سنابلی صاحب نے اس روایت کے وہ الفاظ حذف کر دئیے جس میں ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنےاور عمرو بن سعد کا ابن زیاد کے پاس حسین رضی اللہ عنہ کے سر لانے کا تذکرہ ہے پوری روایت اس طرح ہے۔

قَالَ: وَحَدَّثَنِي سعد بن عبيدة، قَالَ: إنا لمستنقعون فِي الماء مع عُمَر بن سَعْد، إذ أتاه رجل فساره وَقَالَ لَهُ: قَدْ بعث إليك ابن زياد جويرية بن بدر التميمي، وأمره إن لم تقاتل القوم أن يضرب عنقك، قَالَ: فوثب إِلَى فرسه فركبه، ثُمَّ دعا سلاحه فلبسه، وإنه عَلَى فرسه، فنهض بِالنَّاسِ إِلَيْهِم فقاتلوهم، فجيء برأس الْحُسَيْن إِلَى ابن زياد، فوضع بين يديه، فجعل ينكت بقضيبه، ويقول: إن أبا عَبْد اللَّهِ قَدْ كَانَ شمط، قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت(تاریخ الطبری5/393)

ترجمہ: حصین نے بیان کیا کہ سعد بن عبید نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم عمر بن سعد کے ساتھ پانی میں نہا رہے تھے کہ اچانک اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس سے سرگوشی کی اور اس نے اسے کہا ابن زیاد نے تمہاری طرف جویریہ بن بدر تمیمی کو بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ اگر تو نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کی تو وہ تجھے قتل کر دے راوی بیان کرتا ہے کہ وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر سوار ہو گیا پھر اس نے اپنے ہتھیار منگوا کر پہنے اور اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور وہ لوگوں کے ساتھ ان کی طرف گیا اور انہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے پاس لاکر اس کے سامنے رکھا گیا اور وہ اپنی چھڑی کو اپ کی ناک پر رکھ کر کہنے لگا بلاشبہ ابو عبداللہ سیاہ و سفید بالوں والے ہیں، راوی بیان کرتا ہے اور اپ کی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل کو بھی لایا گیا راوی بیان کرتا ہے اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے لیے ایک فرد گاہ کا حکم دیا جوا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھی اور ان کی رسد جاری کر دی اور ان کے لئے لباس اور اخراجات کا حکم دیا ان میں سے دو لڑکوں نے جو عبداللہ بن جعفر یا ابن ابی جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آکر طی قبیلہ کے ایک شخص کی پناہ لی تو اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان دونوں کے سر لا کر ابن زیاد کے سامنے رکھ دیئے ابن زیاد نے بھی اسے قتل کرنے کا اردہ کر لیا اور اس کے حکم سے اس کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔

اس میں ہائی لائٹ الفاظ وہ ہیں جہاں سے سنابلی صاحب نے روایت شروع کی ہے اور اس سے پہلے تمام روایت حذف کر دی جس میں ابن زیاد کا عمرو بن سعد حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دینا اور پر ان کا سر لانا ہے ۔
یہ ہے سنابلی صاحب کا وہ انصاف جس کا دامن انہوں نے نہیں چھوڑا زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسی طرح کے ۱۰ انصاف نقل کیے ہوں گے۔

بہرحال حق یہی ہے کہ "توبہ" زبیر علی زئی کو کرنی چاہیے تھی نا کہ کیفایت الله صاحب کو کرنی ہے-
تو کیا خیال ہے توبہ سنابلی صاحب کو ہی کرنی چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لیکن اب یہاں بھی وہی بحث نہ شروع ہوجائے، جو فورم کے ہر تیسرے تھریڈ میں موجود ہے۔
محمد علی جواد اور دفاع حدیث صاحبان اس موضوع کے کافی دلدادہ محسوس ہوتے ہیں۔
رہی بات زبیر علی زئی صاحب کا کفایت اللہ صاحب کو جھوٹا وغیرہ کہنا، تو میرے خیال میں یہ سلسلہ درست نہیں۔
میں نہیں کہتا کہ لوگ علمی و تحقیقی باتوں میں جھوٹ نہیں بولتے، لیکن بہت دفعہ ایسے ہی کسی دوسرے کو جھوٹ و خیانت کا الزام دے دیا جاتا ہے۔
اس طرح کرکے دیکھا جائے، تو مصنفین و محققین میں سے بہت سارے لوگوں کو جھوٹا ثابت کیا جاسکتاہے۔
مجلہ الحدیث میں حنفیوں کے جھوٹ چھاپے جاتے تھے، ایک دفعہ قافلہ حق نامی مجلہ دیکھا، انہوں نے اسی قسم کے زبیر علی زئی صاحب کے جھوٹ گنوائے ہوئےتھے۔ یہ کوئی مناسب رویہ نہیں۔
کفایت اللہ صاحب اور شیخ زبیر علی زئی صاحب میں سے جس کو مرضی آپ حق پر سمجھیں، لیکن اختلاف رائے کی صورت میں جو توہین اور تکذیب و تفسیق وغیرہ منظر عام پر آئی ہے، اس رویے کی حوصلہ افزائی کسی طرف سے بھی نہیں ہونی چاہیے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ لوگ پندرھویں صدی کی بات کر رہے ہیں ،
میں آپ کو دوسری ہجری صدی کے دو مشہور شخصیات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں :
امام ابو حنیفہ کے دو مشہور شاگرد یعنی قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن کے متعلق
امام تقی الدین المقریزیؒ لکھتے ہیں :

وَقَالَ أَبُو نعيم: قَالَ أَبُو يُوسُف: مُحَمَّد بن الْحسن يكذب عَليّ
قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں : محمد بن الحسن مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، (یعنی میرے متعلق جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے )
مختصر الكامل في الضعفاء (تقي الدين احمد بن علی المقريزي (المتوفى: 845 ھ)
https://archive.org/details/MAL05540/page/n665

اور امام بخاریؒ نقل فرماتے ہیں کہ :
وَقَالَ أَبُو نعيم: سَمِعت أَبَا حنيفَة يَقُول: أَبُو يُوسُف يكذب عَليّ.
وَمرَّة قَالَ: أَلا تعْجبُونَ من يَعْقُوب. . يَقُول مَا لَا أَقُول.

حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں :ابو یوسف یعقوب میرے نام پر جھوٹ بولتا ہے ،
اور فرمایا کرتے : کہ لوگو! تمہیں تعجب نہیں ہوتا ۔یہ ابو یوسف میرے نام پر وہ باتیں کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی ہوتیں ۔
التاريخ الصغير للبخاري (طبع مكتبة المعارف الرياض )
https://archive.org/details/Tarikh_Sagher_Bukhari/page/n576
اور مختصر الکامل فی الضعفاء
https://archive.org/details/MAL05540/page/n797
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
علم و جرح و تعدیل ایک ایسا علم ہے کہ جس میں علماء حق، حتیٰ کہ قرون اولیٰ کے محدثین بھی بعض اوقات اجتہادی خطاء کا شکار ہوے ہیں- اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں اطراف یعنی زبیر علی زئی اور سنابلی صاحب سے اجتہادی غلطی ہونا بعید از قیاس نہیں- دونوں حضرات جرح و تعدیل کے طالب علم ہیں- البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل بیت اور بنو امیہ کے مشجرات وغیرہ کے معاملے میں سبایت کے زیر اثر متقدمین اور متاخرین میں انتہا درجے کی جذباتیت پائی گئی ہے- اب یہی دیکھ لیں دیکھ لیں کہ زبیر علی زئی صاحب، سنابلی صاحب کی اجتہادی غلطی (اگر وہ واقعی غلطی تھی) کو "صریح جھوٹ" قرار دے رہے ہیں اور ان کو توبہ کرنے کو کہہ رہے ہیں- جو کہ ایک اچھی روش نہیں ہے- جھوٹ تو وہ ہوتا ہے جو جان بوجھ کر غلط بیانی کے طور پر کہا جائے- سنابلی صاحب نے تو روایات کو تحقیق کے بعد ہی صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے-

صحابہ کرام رضوان الله اجمعین معصوم نہیں تھے- ان کے گناہوں کے ذکر کرنا تو ہم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا- لیکن یہ کیسا انصاف ہے کہ سیدنا معاویہ رضی عنہ کی جید ہستی کو تو ہم ظالم بادشاہ، رشوت خور اور بدعتی بنا کر عوام کے سامنے پیش کریں اور بزور باطل دلائل ان روایات کو صحیح قرار دیں جو ان کی معتبر شخصیت کو داغدار کرتی ہیں- لیکن دوسری طرف اہل بیت کی جھوٹی محبّت میں علی رضی االله عنہ کو مافوق الفطرت انسان اور ان کو ہر سیاسی و انتظامی غلطی سے مبراء قرار دیا جائے- جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے دور خلافت میں ان سے بھی کئی سیاسی و انتظامی غلطیوں کا صدور ہوا - جس کا مسلمانوں کو خمیازہ بھگتنا پڑا - یہی ان کے بیٹے حسین رضی الله عنہ سے ہوا- وہ اپنی عصبیت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے اور کوفیوں کے دام فریب میں گرفتار ہو کر مظلومانہ شہید ہو ے-

اب سنابلی صاحب کی طرح اگر کوئی تحقیق کے بعد تاریخی حقائق بیان کرتا ہے (چاہے حقیقت میں وہ غلط ہے یا صحیح)- تو جذباتیت کی رو میں آکر ان کو "جھوٹا قرار دینا میرے خیال میں اخلاقی اعتبار سے کوئی اچھا رد عمل نہیں تھا-

بہرحال دعا ہے کہ الله رب العزت زبیر علی زئی صاحب کی غلطیوں سے درگزر کرے (آمین)-

کفایت الله سنابلی صاحب اور زبیر علی زئی صاحب کی تحقیق و تنقید اس تھریڈ میں موجود ہیں- اس کو پڑھ لیں-

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یزید-بن-معاویہ-سنت-کو-بدلنے-والے-تھے؟.11409/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
زبیر علی زئی کی درج ذیل کتاب میں انہوں نے کفایت اللہ سنابلی صاحب کو جھوٹا ثابت کیا۔
اس کی کیا حقیقت ہے؟
وضاحت فرما دیں۔
پھر آپ نے لکھا :
دونوں اہلحدیث ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
جس کے جواب میں ہم نے عرض کی کہ :
آپ لوگ پندرھویں صدی کے دو اہل علم حضرات کی بات کر رہے ہیں ،
میں آپ کو دوسری ہجری صدی کے دو مشہور شخصیات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں :
امام ابو حنیفہ کے دو مشہور شاگرد یعنی قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن کے متعلق
امام تقی الدین المقریزیؒ لکھتے ہیں :

وَقَالَ أَبُو نعيم: قَالَ أَبُو يُوسُف: مُحَمَّد بن الْحسن يكذب عَليّ
قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں : محمد بن الحسن مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، (یعنی میرے متعلق جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے )
مختصر الكامل في الضعفاء (تقي الدين احمد بن علی المقريزي (المتوفى: 845 ھ)
https://archive.org/details/MAL05540/page/n665
تو میرے بھائی میں نے تو اتنا عرض کیا کہ جیسے اہل حدیث کے ان دو اہل علم اصحاب کے بیانات کی وضاحت ہونی چاہیئے ،اسی طرح بلکہ اس سے بہت پہلے حنفی مذہب کے ان دو بڑے حضرات
قاضی ابو یوسف اورمحمد بن الحسن کے درمیان کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے ،
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
لیکن دوسری طرف اہل بیت کی جھوٹی محبّت میں علی رضی االله عنہ کو مافوق الفطرت انسان اور ان کو ہر سیاسی و انتظامی غلطی سے مبراء قرار دیا جائے- جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے دور خلافت میں ان سے بھی کئی سیاسی و انتظامی غلطیوں کا صدور ہوا - جس کا مسلمانوں کو خمیازہ بھگتنا پڑا


یہی ان کے بیٹے حسین رضی الله عنہ سے ہوا- وہ اپنی عصبیت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے
محترم،
خضر حیات بھائی
اس میں آپ کو ایک جلیل القدر صحابی کی کوئی گستاخی محسوس نہیں ہوتی ہے کہ صرف تاریخی روایات پر بھروسہ کرکے موصوف محمد علی جواد صاحب علی رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ انکی غلطیوں کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑا ہےاور اگر ایسا ہے بھی تو اس کا پرچار موصوف ہر جگہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو ان کی عصبیت کی وجہ قرار فرما رہے ہیں کیا اہلسنت میں سے کسی ایک کا بھی موقف یہ تھا کیا حسین رضی اللہ عنہ کی گستاخی نہیں کیونکہ یہی موقف نواصب کا بھی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ان کی عصبیت کی وجہ سے ہوئے ہےکیا اہلسنت کے یہاں نواصب گستاخ نہیں ہیں؟
ایک صحابی رسول"معاویہ رضی اللہ عنہ" کو کچھ لوگ طعن کرتے ہیں تو بجائے ان کے دفاع کرنے کے دوسرے صحابی رسول پر طعن شروع کر دیں یہ کہاں کا ا نصاف ہے۔ جس طرح ںعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے جواب میں ہم کسی نبی کی گستاخی سے ہمارا خود کا ایمان ختم ہوجائے گا کیونکہ ہمارا ایمان تمام انبیاء پر ہے اور ان کی عزت اور توقیر ہم پر واجب ہے اسی طرح ہر صحابی کا احترام اور عزت بھی ہم پر لازم ہے کسی ایک کی خاطر دوسرے کو بھی طعن کرنا یہ ہمارے ایمان کے لئے خطرہ ہے کیونکہ بعض پر رافضی تنقید کرتے ہیں اوربعض پر ناصبی تنقید کرتے ہیں مگر اہلسنت کے یہاں سب کا احترم لازمی ہے۔
نوٹ: میرے مخاطب صرف خضر حیات بھائی ہیں محمد علی جواد بھائی کے اقتباس لینا مجبوری تھی اس لئے ان سے معذرت۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم،
خضر حیات بھائی
اس میں آپ کو ایک جلیل القدر صحابی کی کوئی گستاخی محسوس نہیں ہوتی ہے کہ صرف تاریخی روایات پر بھروسہ کرکے موصوف محمد علی جواد صاحب علی رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ انکی غلطیوں کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑا ہےاور اگر ایسا ہے بھی تو اس کا پرچار موصوف ہر جگہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو ان کی عصبیت کی وجہ قرار فرما رہے ہیں کیا اہلسنت میں سے کسی ایک کا بھی موقف یہ تھا کیا حسین رضی اللہ عنہ کی گستاخی نہیں کیونکہ یہی موقف نواصب کا بھی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ان کی عصبیت کی وجہ سے ہوئے ہےکیا اہلسنت کے یہاں نواصب گستاخ نہیں ہیں؟
ایک صحابی رسول"معاویہ رضی اللہ عنہ" کو کچھ لوگ طعن کرتے ہیں تو بجائے ان کے دفاع کرنے کے دوسرے صحابی رسول پر طعن شروع کر دیں یہ کہاں کا ا نصاف ہے۔ جس طرح ںعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے جواب میں ہم کسی نبی کی گستاخی سے ہمارا خود کا ایمان ختم ہوجائے گا کیونکہ ہمارا ایمان تمام انبیاء پر ہے اور ان کی عزت اور توقیر ہم پر واجب ہے اسی طرح ہر صحابی کا احترام اور عزت بھی ہم پر لازم ہے کسی ایک کی خاطر دوسرے کو بھی طعن کرنا یہ ہمارے ایمان کے لئے خطرہ ہے کیونکہ بعض پر رافضی تنقید کرتے ہیں اوربعض پر ناصبی تنقید کرتے ہیں مگر اہلسنت کے یہاں سب کا احترم لازمی ہے۔
نوٹ: میرے مخاطب صرف خضر حیات بھائی ہیں محمد علی جواد بھائی کے اقتباس لینا مجبوری تھی اس لئے ان سے معذرت۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم معذرت کی کوئی بات نہیں- میرا آپ سے کوئی ذاتی عناد نہیں ہے-

صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ کبھی کبھی غلو میں انسان اس چیز
کو بھی اصحاب کرام یا انبیاء کرام کی گستاخی سمجھنا شروع کردیتا ہے جو حقیقت میں گستاخی نہیں ہوتی- جیسے ہمارے ہاں بریلوی حضرات کا موقف عموماً اہل حدیث کے متعلق یہی ہے کہ یہ گستاخ رسول ہیں (نعوز باللہ)- اس وجہ سے کہ یہ اہل حدیث نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ فوت ہو چکے، اور وہ غیب نہیں جانتے اور وہ الله کا نور نہیں ہیں وغیرہ- اور یہ باتیں یہ بریلوی قران یا احادیث نبوی کی غلط سلط تشریحات کی بنا پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں- تو کیا ان کا یہ باطل موقف صحیح تسلیم کرلیا جائے ؟؟- اہل تشیع حضرات ان تمام اصحاب رسول کو گستاخ اور مرتد کہتے ہیں (نعوز باللہ) کہ جنہوں نے غزوہ احد کے موقع پر رسول الله کے فرمان کی حکم عدولی کی تھی (اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی)- تو کیا اس بنا پر ان اصحاب رسول کو مرتد مان لیا جائے؟؟

میں پہلے بھی کئی بار بیان کرچکا ہوں کہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ میں کسی صحابی رسول چاہے علی رضی الله عنہ ہوں یا حسین رضی الله عنہ ہوں کہ ان سے بغض رکھوں- لیکن میرا موقف یہی ہے کہ یہ حضرات انسان تھے نبی نہیں کہ ان سے کوئی اجتہادی غلطی کا ہونا بھی بعید از قیاس سمجھا جائے- ظاہر ہے دیگر اصحاب رسول بھی ایسے ہی انسان تھے ان سے بھی سیاسی اور اجتہادی غلطیاں ہوئیں- لیکن کوئی بھی اس کو گستاخی پر محمول نہیں کرتا- علی رضی الله عنہ یا حسین رضی الله عنہ کی سیاسی غلطیوں کو بیان کرنا صرف ایک الزامی جواب ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ کے تو غیر ثابت شدہ گناہوں کا تذکرہ منبروں و محرابوں سے بصد شوق و ذوق سے بیان کیا جائے اور علی رضی الله عنہ یا حسین رضی الله عنہ کی سیاسی غلطیوں کو بھی گستاخی اور کبیرہ گناہ سے تعبیر کیا جائے-

ورنہ حقیقت یہ ہے کہ علی رضی الله عنہ تو میرے نزدیک درجہ صحابیت میں معاویہ رضی الله عنہ سے بلند تھے-اور جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا کہ اہلسنت کے یہاں سب کا احترم لازمی ہے۔ تو میرے نزدیک بھی تمام اصحاب رسول اور صحابیات کا احترام واجب ہے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top