محترم،
سنابلی صاحب کے انصاف کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں
اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ میں موصوف نے ابن زیاد کوحسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے حکم دینے سے بری قرار دیا تھا اورصفحہ ۳۷۳ پر یہ روایت پیش کی عبداللہ بن جعفر کے بیٹوں کا سر لانے والے کے قتل کا ارادہ کر لیا اور اس کا گھر بھی منہدم کروادیا یہ روایت سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں صفحہ ۳۷۳ پریہاں سے شروع کی ہے
وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت۔
اور اس کے سنابلی صاحب نے تین حوالے نقل کیے ہیں" تاریخ الطبری، انساب الاشراف البلاذری، بغیۃ الطلب" اور ان تمام کتب سے سنابلی صاحب نے اس روایت کے وہ الفاظ حذف کر دئیے جس میں ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنےاور عمرو بن سعد کا ابن زیاد کے پاس حسین رضی اللہ عنہ کے سر لانے کا تذکرہ ہے پوری روایت اس طرح ہے۔
قَالَ: وَحَدَّثَنِي سعد بن عبيدة، قَالَ: إنا لمستنقعون فِي الماء مع عُمَر بن سَعْد، إذ أتاه رجل فساره وَقَالَ لَهُ: قَدْ بعث إليك ابن زياد جويرية بن بدر التميمي، وأمره إن لم تقاتل القوم أن يضرب عنقك، قَالَ: فوثب إِلَى فرسه فركبه، ثُمَّ دعا سلاحه فلبسه، وإنه عَلَى فرسه، فنهض بِالنَّاسِ إِلَيْهِم فقاتلوهم، فجيء برأس الْحُسَيْن إِلَى ابن زياد، فوضع بين يديه، فجعل ينكت بقضيبه، ويقول: إن أبا عَبْد اللَّهِ قَدْ كَانَ شمط، قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت(تاریخ الطبری5/393)
ترجمہ: حصین نے بیان کیا کہ سعد بن عبید نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم عمر بن سعد کے ساتھ پانی میں نہا رہے تھے کہ اچانک اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس سے سرگوشی کی اور اس نے اسے کہا ابن زیاد نے تمہاری طرف جویریہ بن بدر تمیمی کو بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ اگر تو نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کی تو وہ تجھے قتل کر دے راوی بیان کرتا ہے کہ وہ اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر سوار ہو گیا پھر اس نے اپنے ہتھیار منگوا کر پہنے اور اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور وہ لوگوں کے ساتھ ان کی طرف گیا اور انہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی اور حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے پاس لاکر اس کے سامنے رکھا گیا اور وہ اپنی چھڑی کو اپ کی ناک پر رکھ کر کہنے لگا بلاشبہ ابو عبداللہ سیاہ و سفید بالوں والے ہیں، راوی بیان کرتا ہے اور اپ کی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل کو بھی لایا گیا راوی بیان کرتا ہے اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے لیے ایک فرد گاہ کا حکم دیا جوا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھی اور ان کی رسد جاری کر دی اور ان کے لئے لباس اور اخراجات کا حکم دیا ان میں سے دو لڑکوں نے جو عبداللہ بن جعفر یا ابن ابی جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آکر طی قبیلہ کے ایک شخص کی پناہ لی تو اس نے ان دونوں کو قتل کر دیا اور ان دونوں کے سر لا کر ابن زیاد کے سامنے رکھ دیئے ابن زیاد نے بھی اسے قتل کرنے کا اردہ کر لیا اور اس کے حکم سے اس کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔
اس میں ہائی لائٹ الفاظ وہ ہیں جہاں سے سنابلی صاحب نے روایت شروع کی ہے اور اس سے پہلے تمام روایت حذف کر دی جس میں ابن زیاد کا عمرو بن سعد حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دینا اور پر ان کا سر لانا ہے ۔
یہ ہے سنابلی صاحب کا وہ انصاف جس کا دامن انہوں نے نہیں چھوڑا زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسی طرح کے ۱۰ انصاف نقل کیے ہوں گے۔
تو کیا خیال ہے توبہ سنابلی صاحب کو ہی کرنی چاہیے۔
یہ صرف آپ کے فہم کا قصور ہے ورنہ اس پوری روایت میں کہیں بھی ایسی صراحت نہیں ہے کہ ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا ہے ۔
روایت میں إن لم تقاتل القوم کے الفاظ ہیں جس کے مصداق وہ کوفی اور سبائی لوگ ہیں جو بغاوت کی بیج بو رہے تھے اورحسین رضی اللہ عنہ کا استعمال کرکے فنتہ برپا کرنا چاہتے تھے ۔
عمربن سعد کا تصادم حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے گھرانے کے افراد سے نہیں بلکہ انہیں فتنہ پرور گروہ سے تھا اور اسی گروہ نے ہی حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا ہے ۔
اور بعد میں کسی نے حسین رضی اللہ عنہ کا سر بھی ابن زیاد کے پاس لایا ، لیکن ابن زیاد نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ بعض روایت کے مطابق تو ابن زیاد نے سر لانے والی گردن اڑادی ۔
یاد رہے کہ مبشربالجنہ صحابی زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد خود قاتل ہی زبیر رضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا ، علی رضی اللہ عنہ نے کسی مجبوری کے سبب اس قاتل کو کوئی سزا بھی نہیں دی ، لیکن اس کے باجود بھی ہم علی رضی اللہ عنہ مورد طعن نہیں بناسکتے ۔وہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔
اختلافات تو اسلاف کی سنت ہے، مگر جو بیچارے کم علم ہوتے ہیں وہ ان اختلافات کو بنا سمجھے ہی علماء پر اپنا موقف بنا لیتے ہیں،
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں کفایت اللہ صاحب کا ردِّ کیا تھا، پر شیخ کفایت تو حافظ زبیر کی زندگی کے بعد بھائی اس اختلاف کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، کبھی "یزید بن معاویہ" والی کتاب میں حافظ زبیر کا ردِّ کرتے ہیں تو کبھی قربانی کے ایّام والی کتاب میں، عجیب حال ہے،
شیخ کفایت اللہ کو سوچنا چاہیے کہ حافظ صاحب عمر کے لہٰذ سے انکے بزرگ ہی تھے، اپنا بزرگ سمجھ کر ہی در گزر کر دینا چاہیے تھا، اور حالت بزرگی میں آدمی کے مزاج میں تشدّد آ ہی جاتا، اس میں کوئی بڑی نئی بات نہیں،
یا تو آپ کو حقائق کا علم نہیں ہے یا پھر سنابلی صاحب سے خار کھائے ہوئے ہیں.
سنابلی صاحب نے یزید والی کتاب میں وہی تحریریں شایع کی ہیں جنہیں وہ شیخ زبیر کی حیات میں لکھ چکے تھے اور ان سے سلسلہ وار بحث کرچکے تھے
قربانی والی کتاب بھی انہوں نے شیخ زبیر کی حیات میں ہی شایع کی ہے
شیخ زبیر کی وفات کے بعد جب ان کے شاگردوں نے اس سلسلے کی تحریریں شایع کیں تو سنابلی صاحب نے بھی اپنی تحریروں کی اشاعت کردی جیسا کہ انہوں نے حدیث یزید والی تحریر کے شروع میں تفصیل ذکر کی ہے جس کا لنک ایک بھائی نے پیش کیا ہے