- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
دو دن کشمیر میں
عید الفطر کےبعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے طالبعلموں کا ایک سیاحتی پروگرام رکھا گیا، جس میں تقریبا پچاس کے قریب جامعہ کے حالیہ اور فارغ التحصیل طلبہ نے شرکت کی۔
نقطہ آغاز اسلام آباد میں اہل حدیث کی ایک معروف مسجد و مرکز تھا، لاہور ، فیصل آباد ، خانپور ، بہاولپور اور آزاد کشمیر وغیرہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سب دوست بروز ہفتہ فجر تک مقررہ مقام پر پہنچ گئے۔
پروگرام کے بنیادی محرک جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل شیخ زید حارث حفظہ اللہ تھے، جنہوں نے پروگرام کے آغاز سے پہلے سے لیکراختتام کے بعد تک مکمل جانفشانی، محبت ، اپنائیت ، اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے ہم جامعہ بھائیوں کی خدمت کی۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
بعد از نماز فجر ایک صاحب کا تعارف کروایا گیا کہ یہ جامعہ سلفیہ کے خریج ہیں، اور اس سیاحتی دورے میں بطور امیر اور رہنما کے شریک ہوں گے، چائے اور کیک رس کا ناشتہ پیش کیا گیا،اور بتایا گیا کہ یہ زیر وناشتہ ہے، اصل ناشتہ مری کے ایک مقام پتریاٹہ پر جاکر ہوگا، بقیہ مکمل شیڈول بھی یہیں اعلان کردیا گیا۔
تقریبا صبح چھ بجےگاڑیاں اسلام آباد سے مری کو روانہ ہوئیں، پہاڑی رستے کےاتار چڑھاؤ سےپریشان ہوکر دل پیٹ کے میدان میں دھرنا دینا شروع نہ کردے،اس کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر قے روکنے والی گولیاں خرید لی گئیں، جو متوقع متاثرین نے بغیر بندوق ، بلکہ بعض نے تو بغیر پانی کے ہی پیٹ میں اتارلیں۔
گولیوں کے اس پتے کو ازراہ تفنن میگزین بھی کہا جاتا رہا۔
موسم بہت خوشگوار تھا، گویا ہوائیں شب بھر پہاڑوں پر درختوں کی چھت تلے شبنم سے نہاکر، صبح ہوتے ہی مسافروں کا دل لبھانے سڑکوں پر اتر آئی تھیں۔ باد نسیم کی اٹھکیلیاں ہوں، یا کسی ’نسیم‘ کی انگلیاں، سر کے بالوں کو دونوں ہی بہت راس آتی ہیں، انسان نا چاہتے ہوئے بھی خود کو ہیرو محسوس کرنا شروع کردیتا ہے،بلکہ کئی لوگ تو یہ کیفیت پیدا کرنے کے لیے پھونکوں سے زلفیں اڑانے کی مشق کرتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ سفر کے بعد ایک مقام پر گاڑی روکی گئی، معلوم ہوا، پہلا اسٹاپ یہی ہے، یہاں چیئر لفٹ کی سواری اور ناشتہ شیڈول میں تھا۔ نیچے اترتے ہی اکثر و بیشتر لوگ ایک خاص انداز سے تعمیر شدہ دو چھوٹے چھوٹے ہالز کی طرف بڑھے، پتہ چلا یہ مردوں عورتوں کے لیےبنائے گئے بیت الخلاہیں۔
وہاں موجود شخص نے بتایا کہ اس سہولت سےفائدہ اٹھانے کی اجرت فی بندہ بیس روپے ہے، اور استعمال کی نوعیت بھی محدود ہے، لہذا یہاں کوئی بھی شخص نہانے یا منہ دھونے کا تکلف نہ کرے۔
چیئر لفٹ کی ٹکٹنگ آٹھ بجے اور اس میں سواری نو بجے شروع ہونا تھی، اس لیے وہاں کچھ دیر انتظار کیا گیا، میں تقریبا دو راتوں سے صحیح طرح سو نہیں سکا، مزید پہاڑی رستے کے سفر سے طبیعت عجیب وغریب قسم کی ہوگئی، بیزاری سے نکلنے کے دو ہی حل سوجھے،آنکھیں بند کرکے لیٹنا، اور قرآن پڑھنا۔
چیئر لفٹ والی جگہ پر پہنچے، آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے، وہاں خواتین کا تبرج و سفور کسی اذیت سے کم نہیں تھا، یقینا بیک وقت اتنے سارے مولویوں کی آمد ان کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنی ہوگی۔
فی بندہ ساڑھے چار سو روپے ٹکٹ تھی، اور چیئر لفٹ کا سفر دو حصوں میں منقسم تھا،پہلے حصے میں دو دو سواریوں والی کرسی، دوسرے حصے میں کیبن لفٹ تھی، جس میں چھے یا آٹھ لوگ بیٹھ سکتے تھے۔
کئی ایک پیشہ ور کیمرہ مین وہاں موجود تھے، جو لوگوں کو ترغیب دلارہے تھے کہ آپ لفٹ پر سفر کے دوران ہمیں تصویر بنانے کا آرڈر جمع کرواسکتے ہیں، جب آپ فضا سے نیچے آئیں گے تو ہم نیچے سے لی گئی آپ کی ’ فضائی تصویر‘ آپ کے حوالے کرکے اپنی اجرت وصول کر لیں گے۔
جب لفٹ پر سوار ہوئے ، یہی لوگ رستے میں بھی کئی جگہ پر نیچے سے آوازیں دے کر یہی آفر کر رہے تھے۔
ایک جگہ پر ایک خاتون نظر آئی، جس نے ہاتھ میں پیسے پکڑے ہوئے تھے، معلوم ہوا لوگ اوپر سےاس کے لیے نیچے خیرات پھینکتے ہیں ، گویا لینے اور دینے والے ہاتھوں میں معنوی فرق کے ساتھ ساتھ حسی فرق بھی بالکل نمایاں تھا۔ اور بھی بعض جگہوں پر لوگ عقابی نگاہوں سے سرچنگ کرتے نظر آئے، لوگوں کے ہاتھوں سے گرنے والی چیزیں موبائل یا بٹوے اور پرس وغیرہ کی تلاش شاید ان کا ہدف تھا۔
لفٹ پر سواری کے دوران لفٹ کی ساخت، اوپر لگی ہوئی تار وغیرہ پر تبصرہ لفٹ سواری کا ایک رکن ہے، جو جرأت کے ساتھ خودکو ڈرپوک نہیں مان سکتا، وہ اس انداز سے دل کو حوصلہ دیتاہے۔
ہم بھی حسب قاعدہ دو لوگ سوار ہوئے، میں نے اپنا موبائل دوسرے ساتھی کو پکڑا دیا، جنہوں نے وقتا فوقتا ’ خود کَشی‘ کا فریضہ سرانجام دیا، میری طبیعت تھوڑی ناساز تھی، لیکن سیلفی کے آداب کا خیال کرتے ہوئے مسکراہٹ ہونٹوں پر آنے کے لیے راضی ہوگئی۔
لفٹ نے جس مقام پر پہنچایا، وہاں بڑے اخلاص اور آداب کے ساتھ لوگ پانی، بوتل، چٹ پٹی چیزیں ’ خریدنے‘ کی دعوتے دے رہے تھے، اور ہمارے جیسے زائرین کے عدم توجہ پر ساتھ ساتھ حسب مہارت چٹ پٹے تبصرے مفت میں ہی پیش کر رہے تھے۔اخلاق حسنہ دین کا حصہ ہے، یہ سب کے لیے ہی ہونا چاہیے، چاہے کوئی آپ سے چیز خریدے ، معاملہ کرےیا نہ کرے۔ مادہ پرستی کے دور میں اخلاقیات صرف تب تک ہیں، جب تک کسی سے کوئی امید ہے، اس کے بعد چاہے کسی بس اسٹینڈ پر پھرنے والا کوئی رومال فروش ہو یا پھر ایئر کنڈیشنڈ دوکان میں بیٹھا کوئی کپڑا فروش، عموما سب ہی تلخی پر اتر آتے ہیں۔ بلکہ یہی رویہ مبلغین و دعاۃ اور دیگر طبقات میں بھی محسوس کیا گیا ۔
کسی کو طعنہ دینے، آواز کسنےکے لیے ایک بہترین جگہ چیئر لفٹ بھی ہے، لہذا بعض منچلے اور ناہنجار اس موقعہ سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور مخالف سمت سے آنے والی لفٹ پر جنس مخالف و موافق کی پرواہ کیے بغیر خوب طبع آزمائی کرتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی کہنے لگے ، یار لوگ مجھے ا و مولوی !! کہہ رہے تھے، مولوی کا متضاد کیا ہے ؟ تاکہ ہم بھی انہیں ترکی بہ ترکی جواب دے سکیں، میں نے انہیں ایک متضاد تلاش کرکے دیا کہ مولوی کا آسان فہم مفہوم ہے ، اللہ والا۔ اس کا الٹ یہی ہوسکتا ہے، شیطان والا، آوارہ وغیرہ۔ بہر صورت ازراہ تمسخر ’ مولوی‘ کہنے والوں کے لیے جوابی لقب کیا ہونا چاہیے، علمائے لغت اور ماہرین طنز و مزاح کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ۔
لفٹ کی سواری سے فارغ ہو کر تقریبا گیارہ بجے نان چنے کا ناشتہ اور آخر میں چائے نوش کی گئی، اور وہاں سے قافلہ اگلی جانب روانہ ہوا۔ جب ہم واپس جارہے تھے ، تو چیئر لفٹ کی طرف آنے والی گاڑیوں کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا، جس پر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم رش سے پہلے پہلے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
کم و بیش چار گھنٹے سفر جاری رہا، جو میں نے اکثر و بیشتر سو کر ہی گزارا ، وقتا فوقتا برسنے والی بارش گاڑی کی کھڑکیوں سے اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہی۔
بلند و بالا پہاڑوں میں نامعلوم مقام سے بہنے والے ایک چشمے کے پاس ہم گاڑیوں سے اترے، سامان کمربستہ کیا،اور ایک طرف پہاڑ کی طرف چڑھناشروع کردیا، تقریبا آدھا گھنٹہ پیدل چل کر ایک جگہ پہنچے، جو ایک ’ اسلامی اکیڈمی‘ تھی، ہاسٹل ، مسجد ، غسل خانوں ، گراؤنڈ کے علاوہ یہاں ایک سوئمنگ پول بھی تھا۔ ظہر و عصر کی قصر نمازیں یہیں ادا کی گئیں، اکیڈمی انچار ج تشریف لائے، اپنا تعارف کروایا، مہمانوں کاخیر مقدم کیا،اور سب کا فردا فردا مختصر تعارف کا رسمی سلسلہ شروع ہوا، جو عموما کم ہی سنا جاتا ہے ۔
یہاں جن چیزوں نے متاثر کیا، وہ ایک طالبعلم کی خوبصورت آواز میں اذان تھی، یہاں زیر تعلیم و تربیت لوگوں کے چہروں پر جھلکتا اطمینان اور نور تھا،اور یہاں کے ذمہ داران اور ملازمین کا خود اعتماد ی کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ تھا۔ بہترین کھانا پیش کیا گیا، کھانا تقسیم کرنے والوں میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ صاحب بھی تھے، جنہوں نے ہمیں بطور انچارچ اور مدیر اپنا تعارف کروایا تھا، وہاں سے رخصت ہونے کا وقت ہوا، تو دیکھا جناب مدیر صاحب کسی دفتر یا کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ اٹکائے داد طلب نظروں سے دیکھنے کی بجائے ، سادگی و عاجزی کی تصویر بنے رستے میں کھڑے ہو کر فردا فردا سب سے مصافحہ و معانقہ کرکے الوداع کر رہے تھے۔
یہاں سے جو سفر شروع ہوا، اس قسم کے سفر کے متعلق سن تو رکھا تھا ، ویڈیوز وغیرہ دیکھ رکھی تھیں، لیکن خود تجربہ و مشاہدہ کا اتفاق پہلی بار ہورہا تھا۔
چار پانچ فور ویلرزجیپیں آگئیں، ہدایت کی گئی کہ ہر ایک میں گیارہ گیارہ لوگ سوار ہوں گے، جن میں دو آگے ڈرائیور کے ساتھ، اور تین تین آمنے سامنے یعنی کل آٹھ لوگ بیٹھ گئے، باقی دو ، تین یا چار لوگ ہرجیپ میں کھڑے ہوگئے۔ کہنے کو سفر پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف تھا، لیکن جیپ کا رخ اور اٹھان سے محسوس ہورہا تھا شاید آسمان کی طرف جارہے ہیں۔ جس ٹریک پر گاڑی رواں دواں تھی بیشتر جگہوں پر اس قدر تنگ ہوجاتا، کہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو ایک طرف دیو قامت پہاڑ اور دوسری طرف سوائے گہری کھائی کے کچھ نظر نہیں آتا، ان پرپیچ اور بلند و بالا تنگ رستوں پر چلنے والی گاڑی اور اس کے ڈرائیور کی مہارت پر عش عش کرنے کے ساتھ ساتھ ، استغفار اور تکبیر کا ورد بھی جاری تھا، موڑ کاٹنے، یا آگے پیچھے کی ذرا سی غلطی یا بے احتیاطی چند لمحوں میں گاڑی اور اس میں سوا ر لوگوں کو ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گرانے کے لیے کافی تھی، سفر خوشگوار بھی تھا، لیکن خطرناک بھی ، اور دونوں قسم کےتاثرات زبان سے زیادہ چہروں سے عیاں تھے۔ ہمارا ہدف سات ہزار فٹ کی بلندی پر تھا، جب قریب پہنچے، ایک جگہ ایسی خطرناک اور مشکل آئی کہ ڈرائیور کو کہنا پڑا ، کچھ لوگ نیچے اتریں، عام طور پر چلتی گاڑی سے نیچے اترنےکے لیے کہا جائے ، تو سوچ لیاجاتا ہے چلو دوسرے اتر جائیں، میرے اترنے کی ضرورت نہیں، یہاں صورت حال مختلف تھی ، جونہی ڈرائیور نے اشارہ دیا، سب کا جی چاہا سب سے پہلے میں نیچے اتر جاؤں۔ ہم چار لوگ نیچے اترے، اور گاڑی کےآگے آگے بھاگنا شروع کردیا، اس ڈر سے کہ خدانخواستہ اگر گاڑی اوپر چڑھنےمیں ناکام ہوئی تو پیچھے ہٹنے کی صورت میں کم ازکم اس کی ٹکر سے ہم محفوظ رہیں گے۔ لیکن الحمد للہ ایسا کچھ نہ ہوا، اور تھوڑی ہی دیر میں ہم چیڑ اور دیار کے درختوں کے جھنڈ میں موجود ایک اور ’ المحمدیہ ماڈرن اکیڈمی‘ میں پہنچ چکے تھے ، جہاں استقبال کے لیے ایک بھائی پہلے سے ہی باہرموجودتھے۔ ساتھیوں نے نیچے اترتے ہی سفر پر تبصرے شروع کردیے، میں نے از راہ مزاح یہ جملہ بھی اچھال دیا کہ سب اپنے اور ساتھ والے کی دل کی دھڑکن چیک کریں، جاری ہے یا پھر گاڑیاں رکنے سے پہلے ہی رک چکی تھی۔
شیڈول کے مطابق رات ہم نے یہیں گزارنا تھی، وہاں عشا کی قصر نماز کے ساتھ ہم نے مغرب پڑھی ، اور عشا کے لیے اپنی الگ سے جماعت کروالی، میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ نماز کے لیے ہم میں سےکسی کو دعوت دی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، جس طالبعلم نےوہاں جماعت کروائی،آواز اور آیات کا انتخاب اس کا بھی خوب تھا، البتہ ہم نے بعد میں جو عشا کی نماز ادا کی، اس کی امامت قاری سلمان محمود صاحب نے کروائی، اور ایک سما ں بندھ گیا، یقینا پہاڑوں اور درختوں میں گونجتی اس صوت قرآنی سے بہت سی مخلوقات محظوظ ہوئی ہوں گی،تھکاوٹ کے باوجود ساتھیوں نے خوب نشاط کے ساتھ نماز ادا کی۔
نماز کے بعد ایک وسیم شخصیت کے مالک نوجوان نے اپنا تعارف کروایا، اور کہا کہ آپ علما کی آمد ہمارے لیے ’ آنر ایبل‘ ہے۔ یہ بھائی یہاں اکیڈمی انچارج تھے، بعد میں انہوں نے ایک ایمان افروز پریزنٹیشن پیش کی ۔
ہمارے عہد کے ٹین ایجرز کے شوق کسی سے مخفی نہیں، لیکن وہاں اکیڈمی میں ایسے نوجوان دیکھے، جو انسانی شکل میں فرشتے محسوس ہوتے تھے، دنیا کی رنگینوں کو ٹھوکر مار کر ہزاروں فٹ بلندیوں پر تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے یہ نوجوان دیکھ کر بے ساختہ زبان سے یہ شعر جاری ہوجاتا ہے:
ہے وہی جواں قبیلے کی آنکھ کاتارا
شباب بے داغ اور ضرب ہو کاری
للہیت و خلوص کے پیکر ان نوجوانوں کو دیکھ کر جو سوال میرے ذہن میں ابھرا ، وہ اور لوگوں کےذہن میں بھی آیا کہ کچی عمر کے یہ بچے بڑوں کی ذہانت و فطانت اور چالاکیوں کا شکار ہوجاتے ہوں گے۔۔۔یہاں ایک بھائی نے انچارج صاحب کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جس طرح آپ دیگر چیزوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی سمجھانا چاہیے کہ کوئی تنظیم ، تحریک یا جماعت زیادہ سے زیادہ وسیلہ اور ذریعہ کی حیثیت رکھتی ہے، اگر کوئی شخص جماعت میں داخل یا خارج ہو، تو اسے جماعت سے ہی دخول و خروج سمجھا جائے، قرآن و حدیث کی نصوص کی ایسی تشریحات نہ سکھائی جائیں، کہ اس بنیاد پر لوگوں کے اسلام یا منہج حق سے ہی دخول و خروج کا فیصلہ کرنا شروع کردیا جائے۔
سونے کا انتظام مسجد میں تھا، گرم بستر کو نرم رکھنے کے لیے ساتھ الگ سے میٹرس کا بھی انتظام کیا گیاتھا، جو بقول ان کے مدینہ یونیورسٹی کے علما کے اعزاز و احترام میں تھا، ورنہ اکیڈمی کی تاریخ میں اس سےپہلےیہ سہولت کبھی پیش نہیں کی گئی۔
شادی شدہ لوگوں کا ایک یہ مسئلہ بھی ہے، جہاں بھی جائیں، ساتھ ’عیال‘ اور’ ام العیال‘ کی سوچیں بھی آتی رہتی ہیں ۔ یہ سفر بلاشبہ خوشگوار تھا، لیکن سفر کی صعوبت وغیرہ کے پیش نظر میں نے تہیہ کیا کہ فیملی سیر سپاٹے کےلیے پہاڑی علاقوں کا رخ نہیں کرنا، کیونکہ پہاڑوں پر چڑھنا اور پہاڑی علاقے کا سفر، اور وہاں بنی عارضی رہائشوں میں قیام ، ایک مرد کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تو ساتھ بیوی بچوں کو گھسیٹنا کسی طور درست فیصلہ نہیں۔
بریفنگ کے بعد ہم مسجدکی طرف جارہے تھے تو ایک کیبن سے کچھ بچوں کی معصوم آوازیں آرہی تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ مشن کے لیے وقف جوانوں اور ذمہ داروں کے اہل و عیال بھی ان کے ساتھ سہولیات سے مبرا یہ زندگی ہنسی خوشی گزار رہے تھے، اور یقینا یہ بھی کم از کم وہی سفر کرکے یہاں تک پہنچے ہیں، جس سفر کی خطرناکی نے چند گھنٹے پہلے ہمارے اوسان خطا کردیے تھے۔
فجر کی نماز میں قنوت نازلہ ہوئی، جس میں کھل کر اسلام، مسلمانوں، مجاہدین کے لیے دعائیں کی گئیں، اللہ سب دعائیں قبول فرمائے۔ زیر وناشتہ کے طور پر قہوے کے ساتھ چنے مخانے پیش کیے گئے۔
ایک رہنما کی قیادت میں مزید اوپر کی جانب پیدل مارچ شروع ہوا، منزل مقصود ایک اور اکیڈمی تھی، جو اس پہاڑی سلسلے کے سب سےاوپر واقعے تھی،قافلے کے ساتھ دو گائیڈ رکھے گئے، ایک سب سے آگے اور ایک سب سے پیچھے، تاکہ تھکاوٹ کے سبب کوئی زیادہ پیچھے رہ کر قافلے سے کٹ نہ جائے۔
تقریبا اسی نوے منٹ کا سفر طے کرکے ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے،رستے میں دو تین بار رک کر الجھتےہوئے سانس کو سیدھا ہونے کا موقعہ دیا، جو لوگ زیادہ پیچھے رہ گئے تھے، انہیں ساتھ ملایا، موقعہ بہ موقعہ ’خودکَشیاں‘ بھی کی گئیں، خوبصورت قدرتی مناظر محفوظ کیےگئے،آخری پانچ سات منٹ کا رستہ بلندی سے ڈھلوان کی طرف تھا،جس کی وجہ سےساری تھکاوٹ ختم ہوگئی، اور بہت تھکے ہوئے بھائی بھی کافی خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔
یہاں آتے ہی گیند بلا اور فٹ بال مہیا کردیا گیا،اور علمائے کرام ان میں مصروف ہوگئے،جو کھلاڑی نہیں تھے، تماشائی بن گئے، اور کچھ لوگ مسجد میں جاکر آرام فرمانے لگے،یہاں ہم تقریبا چار پانچ گھنٹے رکے،
آخر میں ایک صاحب نے پروجیکٹر کی مدد سے یہاں موجود اکیڈمی اور اس میں پڑھنے والے بچوں کا تفصیلی تعارف کروایا۔ ’ المحمدیہ ماڈرن اکیڈمی‘کے نام سے اس ادارے میں پورے پاکستان سےبچےزیر تعلیم و تربیت ہیں۔
اکیڈمی میں زیر تعلیم بچے وہ ہیں، جن کے والدین یا تو دفاع وطن کے کام آگئے، یا پھرملک کے طول و عرض میں اپنی خدمات میں مصروف ہیں، اس تعلیمی ادارے کا نصاب، نظام اور سرگرمیاں مرتب کرتے ہوئے، یہ بات پیش نظر رکھی گئی کہ ہر بچے کی دینی، دنیاوی، ذہنی ، جسمانی، اخلاقی، گھریلو اور اجتماعی ہر سطح کی بہترین تعلیم و تربیت ہو، تعارف کے مطابق یہاں سے فارغ التحصیل بچے بطور ٹیچر، انجینئر، کمانڈر، صحافی، میڈیا پرسن کے طور پر بہترین خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
یہاں ایک ویڈیو ترانہ بھی دکھایا گیا، جس کا عنوا ن تھا’ یہ جو جرات مندی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘، پاک فوج کے دفاع میں بنایاگیایہ ترانہ لبرلز اور ملک دشمن عناصر کے الزام’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ کا جواب تھا،یہ ترانہ بھی اسی اکیڈمی کے طلبہ کی کاوش تھی۔ ترانے میں ملک و قوم کے دفاع کو بھرپور طور پر مد نظر رکھا گیا، البتہ ’ شرعی حدود و قیود‘ کی نظر سے اسے دیکھا جائے، تو کچھ چیزیں محل نظر تھیں، کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ’علمائے وقت‘ کے مطابق ’ شرعی مصلحتوں‘ کو نظر انداز کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مسجد میں موجود پینٹنگز کےنمونے،پھر نونہال طلبہ کی جانب سے جاری کردہ مجلہ، ان بچوں کی قابلیت اور ان کے اساتذہ و مربیان کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہمارے ایک شریک سفر پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ جماعت ملک کو اس قسم کے نظام تعلیم و تربیت کےعلاوہ اور کچھ بھی نہ دے سکے ، تو یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔
یہاں سے واپسی کا سفر شروع ہونا تھا، جیپوں کے ذریعے ایک گھنٹے کا سفر طےکرکے، بلکہ کہیے پہاڑوں سے نیچے اتر کر ہم مظفر آباد پہنچ گئے، وہاں ایک پوائنٹ پر جو کسی وقت میں مدرسہ ہوا کرتا تھا،قیام کیا،یہاں نہا دھو کرکپڑے تبدیل کیے، کھانا کھایا، ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔
واپسی اسلام آباد کے لیے شیڈول کے مطابق دو گاڑیوں کو یہاں پہنچناچاہیے تھا، لیکن کسی وجہ سے صرف ایک گاڑی آئی، لہذا ہم آدھے لوگ اس میں سوار ہوکر اسلام آباد آگئے، جبکہ بقیہ بھائی ہم سے دو تین گھنٹے لیٹ پہنچے۔
یہاں شیڈول کے مطابق ایک اہم شخصیت سے ملاقات تھی، جس کمرے میں بیٹھنا تھا، ہم پہلے پہنچ گئے، بعد میں وہ تشریف لائے، اور سب سے فردا فردا بہت پیار محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے مصافحہ و معانقہ کیا،خوش آمدید کہا، سفر کے متعلق خیریت دریافت کی۔ اپنی گفتگو شروع کرنے سے قبل حاضرین کی طرف متوجہ ہوئے کہ اگر کسی کا کوئی سوال ہے تو پوچھ لیں، چند سوالات کیے گئے، اور یہیں سے انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ اسکرین پر سلائیڈز بھی چلائی جارہی تھیں، جنہیں پاس بیٹھا ایک اور نوجوان کمانڈر صاحب کی ہدایات کے مطابق پیش کر رہا تھا۔
پوری دنیا میں جتنے بڑے محاذ جنگ گرم تھے، ان کے متعلق اعداد و شمار اور نقشوں کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ تقریبا ہر جگہ پر مسلمان کسی نہ کسی شکل میں آپس میں لڑ رہے ہیں، لیکن کشمیر کا واحد محاذ ہے، جہاں کفر اور اسلام کی جنگ ہے، اور یہیں پر اس سوال کا جواب بھی آگیا کہ دیگر محاذ چھوڑ کر کشمیر کے محاذ کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔
دوسرے نمبر پر انہوں نے پاکستان کی محل وقوع کے اعتبار سے اہمیت کو واضح کیا، ان کے بقول اسلامی اتحاد سمیت عالم اسلام کی بقا پاکستان کے تحفظ کے ساتھ مربوط ہے۔ اور پاکستان کا تحفظ کشمیر محاذ پر کامیابی کے مرہون منت ہے۔
ایک صاحب کا سوال تھا کہ پاکستان کے عسکری دفاع کے لیے فوج کا مکمل ادارہ موجود ہے، اور بجٹ کا اسی فیصد یہی ادارہ استعمال کر رہا ہے، ایسی صورت حال میں سویلین کو اس محاذ میں جھونکنا مناسب ہوگا؟
جواب تھا کہ پاکستان کا تحفظ صرف فوج کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہمارے لیے فخر اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ ہمیں’ غزوہ ہند‘ کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ ساتھ انہوں نے اس غلطی فہمی کا بھی ازالہ کیا کہ فوج بجٹ کا اسی فیصد استعمال کرتی ہے، ان کے بقول بجٹ میں فوج کا حصہ صرف اٹھارہ فیصد ہے۔
اہم بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی مسئلے کو کس انداز سے پیش کرتے ہیں، کمانڈر صاحب نے عالمی حالات کو اس انداز سے بیان کیا، گویا کفر ہر جگہ پر ناکام ہوا، اور مسلمان مسلسل کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
سوال کیا گیا کہ آپ اعداد و شمار کے کھیل میں مسلمانوں کو فاتح قوم ثابت کر رہے ہیں، لیکن مسلمان خود کو ہارے ہوئے سمجھتے ہیں، جواب دیا گیا کہ یہ پراپیگنڈہ سے متاثر لوگ ہیں، جو غیروں کی باتوں میں آکر اس قسم کے تصورات کے اسیر ہوجاتے ہیں، اسی ضمن میں انہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کی حرکتوں کا ذکر کیا، ہالی وڈ بالی وڈ میں بننے والی فلموں کےمتعلق بتایا، جن کا ہدف ہی دشمنوں پر نفسیاتی فتح تھا، غالبا پچیس سو فلموں کا تذکرہ کیا گیا جو مسلمانوں کو ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا کرنے کے لیےبنائی گئی۔ اور اس طرف توجہ دلائی کہ مسلمانوں کو بھی اس میدان میں آنا چاہیے۔۔۔!۔
میڈیا کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار متعدد مرتبہ کرچکا ہوں، میں نے اسی سوچ کے تحت ان کی رائے پر ایک سوال اٹھایاکہ کافر تو شرعی ضابطے یا الہی قانون کے پابند نہیں، لیکن ہم مسلمان تو شرعی ضابطوں کے اسیر ہیں، کس طرح فلمی جنگ میں اتر سکتے ہیں؟ جس پر انہوں نے مجمل جواب دیا کہ علما نے اجازت دی ہوئی ہے، لیکن ہم میں سے بعض لوگ جان بوجھ کر مشکلات میں الجھے ہوئے ہیں، اور رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، یہاں وہ روایتی علما سے شاکی تھے، بلکہ ایک مثال بھی پیش کی کہ یورپ نے جب پریس متعارف کروایا تو اس وقت بھی علما نے اس کی حرمت کے فتوے دیے، اور اسے شیطانی مشین کہا، وغیرہ۔
مسلمان اگر واقعتا جیت رہے ہیں تو ظاہری حالات اس دعوے کے خلاف کیوں ہیں؟ مثلا پوری دنیا میں مسلمان لٹ پھٹ رہے ہیں، ان کا خون بہایا جارہاہے، لیکن جب اسلامی اتحاد بنتا ہے ، تو کافروں کو للکارنے کی بجائے ’ دہشت گردی‘ کا خاتمہ نصب العین بنالیا جاتا ہے، اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کا کیا مطلب ہے۔
اسی طرح اگر مسلمان مستحکم ہورہے ہیں، اور عالم کفر ٹوٹ رہا ہے ، تو پھر اسلامی ممالک میں افراد اور جماعتیں طرح طرح کی پابندیوں کا شکار کیوں ہورہے ہیں؟
اس کا جواب آیت کی صورت میں دیا گیا و لولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض گویا یہ حکمت الہی ہے، اور مسلمانوں پر یہ دباؤ، ان کے اٹھنے کا سبب ہے،اگر دشمنوں کا دباؤ اور خوف نہ ہوتا تو پاکستان ایٹمی قوت نہ بن پاتا۔
قارئین کرام ! جمہوریت میں شمولیت والے معرکۃ الأراء مسئلے کے حل کا سہرا بھی آپ اسی ’دباؤ‘ کو سونپ سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمےکی بات آئی، سوال کیا گیا کہ دہشت گرد پیدا کیسے ہوئے ہیں؟
اس کا سیدھا سیدھا جواب تلخ تھا شاید اس لیے گریز کیا گیا ، اور بات اس طرف موڑ دی گئی کہ خیر القرون میں کیسے پیدا ہوئے تھے؟
پھر ساتھ انہوں نے وہ واقعہ بھی ذکر کیا ، جس میں ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر کہا تھااعدل یا محمد، اور بعد میں یہی لوگ خارجی ہوئے۔
گویا کمانڈر صاحب کہنا چاہتے تھے کہ اس قسم کے سوالات منفی ذہنیت کی پیداوار ہیں، اور یہی منفی سوچ خارجیت کو جنم دیتی ہے، مطلب مسلمانوں، مسلم حکمرانوں ،ملکوں ، جماعتوں اور تنظیموں کی غلطیاں زیر بحث لانا یہ چیز انسان کو بغاوت وخروج پر ابھارتی ہے ، اور اصلاح و کامیابی کی بجائے ناکامی و فساد مقدر بن جاتا ہے۔
تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ ہونے کے باوجود اکثر ساتھیوں نے یہ مجلس بہت توجہ اور انہماک سے سنی، بعد میں پرتکلف کھانا پیش کیا گیا، عزت و احترام ، نظم و ضبط کے جو مظاہر ہم پچھلے دو دنوں سے دیکھ رہے تھے، وہ یہاں بھی اعلی صورت میں برقرار تھے، واپسی پر تمام علما کو مختصر تفسیر القرآن از حافظ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ کا تحفہ عنایت کیاگیا، ہمارے میزبان اول شیخ زید حارث، اور محترم خالد صاحب نے گرمجوشی کے ساتھ الوداع کہا، اور سب شرکائے قافلہ اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئے۔ یقینا ایک یادگار اور بہترین سفر تھا، جو عرصہ تک یاد رہے گا۔ اللہ تعالی اس کی ترتیب و تنظیم کرنے والے تمام اکابرو اصاغر کو اجر جزیل عطا فرمائے ۔
نقطہ آغاز اسلام آباد میں اہل حدیث کی ایک معروف مسجد و مرکز تھا، لاہور ، فیصل آباد ، خانپور ، بہاولپور اور آزاد کشمیر وغیرہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سب دوست بروز ہفتہ فجر تک مقررہ مقام پر پہنچ گئے۔
پروگرام کے بنیادی محرک جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل شیخ زید حارث حفظہ اللہ تھے، جنہوں نے پروگرام کے آغاز سے پہلے سے لیکراختتام کے بعد تک مکمل جانفشانی، محبت ، اپنائیت ، اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے ہم جامعہ بھائیوں کی خدمت کی۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
بعد از نماز فجر ایک صاحب کا تعارف کروایا گیا کہ یہ جامعہ سلفیہ کے خریج ہیں، اور اس سیاحتی دورے میں بطور امیر اور رہنما کے شریک ہوں گے، چائے اور کیک رس کا ناشتہ پیش کیا گیا،اور بتایا گیا کہ یہ زیر وناشتہ ہے، اصل ناشتہ مری کے ایک مقام پتریاٹہ پر جاکر ہوگا، بقیہ مکمل شیڈول بھی یہیں اعلان کردیا گیا۔
تقریبا صبح چھ بجےگاڑیاں اسلام آباد سے مری کو روانہ ہوئیں، پہاڑی رستے کےاتار چڑھاؤ سےپریشان ہوکر دل پیٹ کے میدان میں دھرنا دینا شروع نہ کردے،اس کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر قے روکنے والی گولیاں خرید لی گئیں، جو متوقع متاثرین نے بغیر بندوق ، بلکہ بعض نے تو بغیر پانی کے ہی پیٹ میں اتارلیں۔
گولیوں کے اس پتے کو ازراہ تفنن میگزین بھی کہا جاتا رہا۔
موسم بہت خوشگوار تھا، گویا ہوائیں شب بھر پہاڑوں پر درختوں کی چھت تلے شبنم سے نہاکر، صبح ہوتے ہی مسافروں کا دل لبھانے سڑکوں پر اتر آئی تھیں۔ باد نسیم کی اٹھکیلیاں ہوں، یا کسی ’نسیم‘ کی انگلیاں، سر کے بالوں کو دونوں ہی بہت راس آتی ہیں، انسان نا چاہتے ہوئے بھی خود کو ہیرو محسوس کرنا شروع کردیتا ہے،بلکہ کئی لوگ تو یہ کیفیت پیدا کرنے کے لیے پھونکوں سے زلفیں اڑانے کی مشق کرتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ سفر کے بعد ایک مقام پر گاڑی روکی گئی، معلوم ہوا، پہلا اسٹاپ یہی ہے، یہاں چیئر لفٹ کی سواری اور ناشتہ شیڈول میں تھا۔ نیچے اترتے ہی اکثر و بیشتر لوگ ایک خاص انداز سے تعمیر شدہ دو چھوٹے چھوٹے ہالز کی طرف بڑھے، پتہ چلا یہ مردوں عورتوں کے لیےبنائے گئے بیت الخلاہیں۔
وہاں موجود شخص نے بتایا کہ اس سہولت سےفائدہ اٹھانے کی اجرت فی بندہ بیس روپے ہے، اور استعمال کی نوعیت بھی محدود ہے، لہذا یہاں کوئی بھی شخص نہانے یا منہ دھونے کا تکلف نہ کرے۔
چیئر لفٹ کی ٹکٹنگ آٹھ بجے اور اس میں سواری نو بجے شروع ہونا تھی، اس لیے وہاں کچھ دیر انتظار کیا گیا، میں تقریبا دو راتوں سے صحیح طرح سو نہیں سکا، مزید پہاڑی رستے کے سفر سے طبیعت عجیب وغریب قسم کی ہوگئی، بیزاری سے نکلنے کے دو ہی حل سوجھے،آنکھیں بند کرکے لیٹنا، اور قرآن پڑھنا۔
چیئر لفٹ والی جگہ پر پہنچے، آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے، وہاں خواتین کا تبرج و سفور کسی اذیت سے کم نہیں تھا، یقینا بیک وقت اتنے سارے مولویوں کی آمد ان کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنی ہوگی۔
فی بندہ ساڑھے چار سو روپے ٹکٹ تھی، اور چیئر لفٹ کا سفر دو حصوں میں منقسم تھا،پہلے حصے میں دو دو سواریوں والی کرسی، دوسرے حصے میں کیبن لفٹ تھی، جس میں چھے یا آٹھ لوگ بیٹھ سکتے تھے۔
کئی ایک پیشہ ور کیمرہ مین وہاں موجود تھے، جو لوگوں کو ترغیب دلارہے تھے کہ آپ لفٹ پر سفر کے دوران ہمیں تصویر بنانے کا آرڈر جمع کرواسکتے ہیں، جب آپ فضا سے نیچے آئیں گے تو ہم نیچے سے لی گئی آپ کی ’ فضائی تصویر‘ آپ کے حوالے کرکے اپنی اجرت وصول کر لیں گے۔
جب لفٹ پر سوار ہوئے ، یہی لوگ رستے میں بھی کئی جگہ پر نیچے سے آوازیں دے کر یہی آفر کر رہے تھے۔
ایک جگہ پر ایک خاتون نظر آئی، جس نے ہاتھ میں پیسے پکڑے ہوئے تھے، معلوم ہوا لوگ اوپر سےاس کے لیے نیچے خیرات پھینکتے ہیں ، گویا لینے اور دینے والے ہاتھوں میں معنوی فرق کے ساتھ ساتھ حسی فرق بھی بالکل نمایاں تھا۔ اور بھی بعض جگہوں پر لوگ عقابی نگاہوں سے سرچنگ کرتے نظر آئے، لوگوں کے ہاتھوں سے گرنے والی چیزیں موبائل یا بٹوے اور پرس وغیرہ کی تلاش شاید ان کا ہدف تھا۔
لفٹ پر سواری کے دوران لفٹ کی ساخت، اوپر لگی ہوئی تار وغیرہ پر تبصرہ لفٹ سواری کا ایک رکن ہے، جو جرأت کے ساتھ خودکو ڈرپوک نہیں مان سکتا، وہ اس انداز سے دل کو حوصلہ دیتاہے۔
ہم بھی حسب قاعدہ دو لوگ سوار ہوئے، میں نے اپنا موبائل دوسرے ساتھی کو پکڑا دیا، جنہوں نے وقتا فوقتا ’ خود کَشی‘ کا فریضہ سرانجام دیا، میری طبیعت تھوڑی ناساز تھی، لیکن سیلفی کے آداب کا خیال کرتے ہوئے مسکراہٹ ہونٹوں پر آنے کے لیے راضی ہوگئی۔
لفٹ نے جس مقام پر پہنچایا، وہاں بڑے اخلاص اور آداب کے ساتھ لوگ پانی، بوتل، چٹ پٹی چیزیں ’ خریدنے‘ کی دعوتے دے رہے تھے، اور ہمارے جیسے زائرین کے عدم توجہ پر ساتھ ساتھ حسب مہارت چٹ پٹے تبصرے مفت میں ہی پیش کر رہے تھے۔اخلاق حسنہ دین کا حصہ ہے، یہ سب کے لیے ہی ہونا چاہیے، چاہے کوئی آپ سے چیز خریدے ، معاملہ کرےیا نہ کرے۔ مادہ پرستی کے دور میں اخلاقیات صرف تب تک ہیں، جب تک کسی سے کوئی امید ہے، اس کے بعد چاہے کسی بس اسٹینڈ پر پھرنے والا کوئی رومال فروش ہو یا پھر ایئر کنڈیشنڈ دوکان میں بیٹھا کوئی کپڑا فروش، عموما سب ہی تلخی پر اتر آتے ہیں۔ بلکہ یہی رویہ مبلغین و دعاۃ اور دیگر طبقات میں بھی محسوس کیا گیا ۔
کسی کو طعنہ دینے، آواز کسنےکے لیے ایک بہترین جگہ چیئر لفٹ بھی ہے، لہذا بعض منچلے اور ناہنجار اس موقعہ سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور مخالف سمت سے آنے والی لفٹ پر جنس مخالف و موافق کی پرواہ کیے بغیر خوب طبع آزمائی کرتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی کہنے لگے ، یار لوگ مجھے ا و مولوی !! کہہ رہے تھے، مولوی کا متضاد کیا ہے ؟ تاکہ ہم بھی انہیں ترکی بہ ترکی جواب دے سکیں، میں نے انہیں ایک متضاد تلاش کرکے دیا کہ مولوی کا آسان فہم مفہوم ہے ، اللہ والا۔ اس کا الٹ یہی ہوسکتا ہے، شیطان والا، آوارہ وغیرہ۔ بہر صورت ازراہ تمسخر ’ مولوی‘ کہنے والوں کے لیے جوابی لقب کیا ہونا چاہیے، علمائے لغت اور ماہرین طنز و مزاح کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ۔
لفٹ کی سواری سے فارغ ہو کر تقریبا گیارہ بجے نان چنے کا ناشتہ اور آخر میں چائے نوش کی گئی، اور وہاں سے قافلہ اگلی جانب روانہ ہوا۔ جب ہم واپس جارہے تھے ، تو چیئر لفٹ کی طرف آنے والی گاڑیوں کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا، جس پر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم رش سے پہلے پہلے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
کم و بیش چار گھنٹے سفر جاری رہا، جو میں نے اکثر و بیشتر سو کر ہی گزارا ، وقتا فوقتا برسنے والی بارش گاڑی کی کھڑکیوں سے اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہی۔
بلند و بالا پہاڑوں میں نامعلوم مقام سے بہنے والے ایک چشمے کے پاس ہم گاڑیوں سے اترے، سامان کمربستہ کیا،اور ایک طرف پہاڑ کی طرف چڑھناشروع کردیا، تقریبا آدھا گھنٹہ پیدل چل کر ایک جگہ پہنچے، جو ایک ’ اسلامی اکیڈمی‘ تھی، ہاسٹل ، مسجد ، غسل خانوں ، گراؤنڈ کے علاوہ یہاں ایک سوئمنگ پول بھی تھا۔ ظہر و عصر کی قصر نمازیں یہیں ادا کی گئیں، اکیڈمی انچار ج تشریف لائے، اپنا تعارف کروایا، مہمانوں کاخیر مقدم کیا،اور سب کا فردا فردا مختصر تعارف کا رسمی سلسلہ شروع ہوا، جو عموما کم ہی سنا جاتا ہے ۔
یہاں جن چیزوں نے متاثر کیا، وہ ایک طالبعلم کی خوبصورت آواز میں اذان تھی، یہاں زیر تعلیم و تربیت لوگوں کے چہروں پر جھلکتا اطمینان اور نور تھا،اور یہاں کے ذمہ داران اور ملازمین کا خود اعتماد ی کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ تھا۔ بہترین کھانا پیش کیا گیا، کھانا تقسیم کرنے والوں میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ صاحب بھی تھے، جنہوں نے ہمیں بطور انچارچ اور مدیر اپنا تعارف کروایا تھا، وہاں سے رخصت ہونے کا وقت ہوا، تو دیکھا جناب مدیر صاحب کسی دفتر یا کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ اٹکائے داد طلب نظروں سے دیکھنے کی بجائے ، سادگی و عاجزی کی تصویر بنے رستے میں کھڑے ہو کر فردا فردا سب سے مصافحہ و معانقہ کرکے الوداع کر رہے تھے۔
یہاں سے جو سفر شروع ہوا، اس قسم کے سفر کے متعلق سن تو رکھا تھا ، ویڈیوز وغیرہ دیکھ رکھی تھیں، لیکن خود تجربہ و مشاہدہ کا اتفاق پہلی بار ہورہا تھا۔
چار پانچ فور ویلرزجیپیں آگئیں، ہدایت کی گئی کہ ہر ایک میں گیارہ گیارہ لوگ سوار ہوں گے، جن میں دو آگے ڈرائیور کے ساتھ، اور تین تین آمنے سامنے یعنی کل آٹھ لوگ بیٹھ گئے، باقی دو ، تین یا چار لوگ ہرجیپ میں کھڑے ہوگئے۔ کہنے کو سفر پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف تھا، لیکن جیپ کا رخ اور اٹھان سے محسوس ہورہا تھا شاید آسمان کی طرف جارہے ہیں۔ جس ٹریک پر گاڑی رواں دواں تھی بیشتر جگہوں پر اس قدر تنگ ہوجاتا، کہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو ایک طرف دیو قامت پہاڑ اور دوسری طرف سوائے گہری کھائی کے کچھ نظر نہیں آتا، ان پرپیچ اور بلند و بالا تنگ رستوں پر چلنے والی گاڑی اور اس کے ڈرائیور کی مہارت پر عش عش کرنے کے ساتھ ساتھ ، استغفار اور تکبیر کا ورد بھی جاری تھا، موڑ کاٹنے، یا آگے پیچھے کی ذرا سی غلطی یا بے احتیاطی چند لمحوں میں گاڑی اور اس میں سوا ر لوگوں کو ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گرانے کے لیے کافی تھی، سفر خوشگوار بھی تھا، لیکن خطرناک بھی ، اور دونوں قسم کےتاثرات زبان سے زیادہ چہروں سے عیاں تھے۔ ہمارا ہدف سات ہزار فٹ کی بلندی پر تھا، جب قریب پہنچے، ایک جگہ ایسی خطرناک اور مشکل آئی کہ ڈرائیور کو کہنا پڑا ، کچھ لوگ نیچے اتریں، عام طور پر چلتی گاڑی سے نیچے اترنےکے لیے کہا جائے ، تو سوچ لیاجاتا ہے چلو دوسرے اتر جائیں، میرے اترنے کی ضرورت نہیں، یہاں صورت حال مختلف تھی ، جونہی ڈرائیور نے اشارہ دیا، سب کا جی چاہا سب سے پہلے میں نیچے اتر جاؤں۔ ہم چار لوگ نیچے اترے، اور گاڑی کےآگے آگے بھاگنا شروع کردیا، اس ڈر سے کہ خدانخواستہ اگر گاڑی اوپر چڑھنےمیں ناکام ہوئی تو پیچھے ہٹنے کی صورت میں کم ازکم اس کی ٹکر سے ہم محفوظ رہیں گے۔ لیکن الحمد للہ ایسا کچھ نہ ہوا، اور تھوڑی ہی دیر میں ہم چیڑ اور دیار کے درختوں کے جھنڈ میں موجود ایک اور ’ المحمدیہ ماڈرن اکیڈمی‘ میں پہنچ چکے تھے ، جہاں استقبال کے لیے ایک بھائی پہلے سے ہی باہرموجودتھے۔ ساتھیوں نے نیچے اترتے ہی سفر پر تبصرے شروع کردیے، میں نے از راہ مزاح یہ جملہ بھی اچھال دیا کہ سب اپنے اور ساتھ والے کی دل کی دھڑکن چیک کریں، جاری ہے یا پھر گاڑیاں رکنے سے پہلے ہی رک چکی تھی۔
شیڈول کے مطابق رات ہم نے یہیں گزارنا تھی، وہاں عشا کی قصر نماز کے ساتھ ہم نے مغرب پڑھی ، اور عشا کے لیے اپنی الگ سے جماعت کروالی، میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ نماز کے لیے ہم میں سےکسی کو دعوت دی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، جس طالبعلم نےوہاں جماعت کروائی،آواز اور آیات کا انتخاب اس کا بھی خوب تھا، البتہ ہم نے بعد میں جو عشا کی نماز ادا کی، اس کی امامت قاری سلمان محمود صاحب نے کروائی، اور ایک سما ں بندھ گیا، یقینا پہاڑوں اور درختوں میں گونجتی اس صوت قرآنی سے بہت سی مخلوقات محظوظ ہوئی ہوں گی،تھکاوٹ کے باوجود ساتھیوں نے خوب نشاط کے ساتھ نماز ادا کی۔
نماز کے بعد ایک وسیم شخصیت کے مالک نوجوان نے اپنا تعارف کروایا، اور کہا کہ آپ علما کی آمد ہمارے لیے ’ آنر ایبل‘ ہے۔ یہ بھائی یہاں اکیڈمی انچارج تھے، بعد میں انہوں نے ایک ایمان افروز پریزنٹیشن پیش کی ۔
ہمارے عہد کے ٹین ایجرز کے شوق کسی سے مخفی نہیں، لیکن وہاں اکیڈمی میں ایسے نوجوان دیکھے، جو انسانی شکل میں فرشتے محسوس ہوتے تھے، دنیا کی رنگینوں کو ٹھوکر مار کر ہزاروں فٹ بلندیوں پر تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے یہ نوجوان دیکھ کر بے ساختہ زبان سے یہ شعر جاری ہوجاتا ہے:
ہے وہی جواں قبیلے کی آنکھ کاتارا
شباب بے داغ اور ضرب ہو کاری
للہیت و خلوص کے پیکر ان نوجوانوں کو دیکھ کر جو سوال میرے ذہن میں ابھرا ، وہ اور لوگوں کےذہن میں بھی آیا کہ کچی عمر کے یہ بچے بڑوں کی ذہانت و فطانت اور چالاکیوں کا شکار ہوجاتے ہوں گے۔۔۔یہاں ایک بھائی نے انچارج صاحب کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جس طرح آپ دیگر چیزوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی سمجھانا چاہیے کہ کوئی تنظیم ، تحریک یا جماعت زیادہ سے زیادہ وسیلہ اور ذریعہ کی حیثیت رکھتی ہے، اگر کوئی شخص جماعت میں داخل یا خارج ہو، تو اسے جماعت سے ہی دخول و خروج سمجھا جائے، قرآن و حدیث کی نصوص کی ایسی تشریحات نہ سکھائی جائیں، کہ اس بنیاد پر لوگوں کے اسلام یا منہج حق سے ہی دخول و خروج کا فیصلہ کرنا شروع کردیا جائے۔
سونے کا انتظام مسجد میں تھا، گرم بستر کو نرم رکھنے کے لیے ساتھ الگ سے میٹرس کا بھی انتظام کیا گیاتھا، جو بقول ان کے مدینہ یونیورسٹی کے علما کے اعزاز و احترام میں تھا، ورنہ اکیڈمی کی تاریخ میں اس سےپہلےیہ سہولت کبھی پیش نہیں کی گئی۔
شادی شدہ لوگوں کا ایک یہ مسئلہ بھی ہے، جہاں بھی جائیں، ساتھ ’عیال‘ اور’ ام العیال‘ کی سوچیں بھی آتی رہتی ہیں ۔ یہ سفر بلاشبہ خوشگوار تھا، لیکن سفر کی صعوبت وغیرہ کے پیش نظر میں نے تہیہ کیا کہ فیملی سیر سپاٹے کےلیے پہاڑی علاقوں کا رخ نہیں کرنا، کیونکہ پہاڑوں پر چڑھنا اور پہاڑی علاقے کا سفر، اور وہاں بنی عارضی رہائشوں میں قیام ، ایک مرد کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تو ساتھ بیوی بچوں کو گھسیٹنا کسی طور درست فیصلہ نہیں۔
بریفنگ کے بعد ہم مسجدکی طرف جارہے تھے تو ایک کیبن سے کچھ بچوں کی معصوم آوازیں آرہی تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ مشن کے لیے وقف جوانوں اور ذمہ داروں کے اہل و عیال بھی ان کے ساتھ سہولیات سے مبرا یہ زندگی ہنسی خوشی گزار رہے تھے، اور یقینا یہ بھی کم از کم وہی سفر کرکے یہاں تک پہنچے ہیں، جس سفر کی خطرناکی نے چند گھنٹے پہلے ہمارے اوسان خطا کردیے تھے۔
فجر کی نماز میں قنوت نازلہ ہوئی، جس میں کھل کر اسلام، مسلمانوں، مجاہدین کے لیے دعائیں کی گئیں، اللہ سب دعائیں قبول فرمائے۔ زیر وناشتہ کے طور پر قہوے کے ساتھ چنے مخانے پیش کیے گئے۔
ایک رہنما کی قیادت میں مزید اوپر کی جانب پیدل مارچ شروع ہوا، منزل مقصود ایک اور اکیڈمی تھی، جو اس پہاڑی سلسلے کے سب سےاوپر واقعے تھی،قافلے کے ساتھ دو گائیڈ رکھے گئے، ایک سب سے آگے اور ایک سب سے پیچھے، تاکہ تھکاوٹ کے سبب کوئی زیادہ پیچھے رہ کر قافلے سے کٹ نہ جائے۔
تقریبا اسی نوے منٹ کا سفر طے کرکے ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے،رستے میں دو تین بار رک کر الجھتےہوئے سانس کو سیدھا ہونے کا موقعہ دیا، جو لوگ زیادہ پیچھے رہ گئے تھے، انہیں ساتھ ملایا، موقعہ بہ موقعہ ’خودکَشیاں‘ بھی کی گئیں، خوبصورت قدرتی مناظر محفوظ کیےگئے،آخری پانچ سات منٹ کا رستہ بلندی سے ڈھلوان کی طرف تھا،جس کی وجہ سےساری تھکاوٹ ختم ہوگئی، اور بہت تھکے ہوئے بھائی بھی کافی خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔
یہاں آتے ہی گیند بلا اور فٹ بال مہیا کردیا گیا،اور علمائے کرام ان میں مصروف ہوگئے،جو کھلاڑی نہیں تھے، تماشائی بن گئے، اور کچھ لوگ مسجد میں جاکر آرام فرمانے لگے،یہاں ہم تقریبا چار پانچ گھنٹے رکے،
آخر میں ایک صاحب نے پروجیکٹر کی مدد سے یہاں موجود اکیڈمی اور اس میں پڑھنے والے بچوں کا تفصیلی تعارف کروایا۔ ’ المحمدیہ ماڈرن اکیڈمی‘کے نام سے اس ادارے میں پورے پاکستان سےبچےزیر تعلیم و تربیت ہیں۔
اکیڈمی میں زیر تعلیم بچے وہ ہیں، جن کے والدین یا تو دفاع وطن کے کام آگئے، یا پھرملک کے طول و عرض میں اپنی خدمات میں مصروف ہیں، اس تعلیمی ادارے کا نصاب، نظام اور سرگرمیاں مرتب کرتے ہوئے، یہ بات پیش نظر رکھی گئی کہ ہر بچے کی دینی، دنیاوی، ذہنی ، جسمانی، اخلاقی، گھریلو اور اجتماعی ہر سطح کی بہترین تعلیم و تربیت ہو، تعارف کے مطابق یہاں سے فارغ التحصیل بچے بطور ٹیچر، انجینئر، کمانڈر، صحافی، میڈیا پرسن کے طور پر بہترین خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
یہاں ایک ویڈیو ترانہ بھی دکھایا گیا، جس کا عنوا ن تھا’ یہ جو جرات مندی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘، پاک فوج کے دفاع میں بنایاگیایہ ترانہ لبرلز اور ملک دشمن عناصر کے الزام’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ کا جواب تھا،یہ ترانہ بھی اسی اکیڈمی کے طلبہ کی کاوش تھی۔ ترانے میں ملک و قوم کے دفاع کو بھرپور طور پر مد نظر رکھا گیا، البتہ ’ شرعی حدود و قیود‘ کی نظر سے اسے دیکھا جائے، تو کچھ چیزیں محل نظر تھیں، کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ’علمائے وقت‘ کے مطابق ’ شرعی مصلحتوں‘ کو نظر انداز کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مسجد میں موجود پینٹنگز کےنمونے،پھر نونہال طلبہ کی جانب سے جاری کردہ مجلہ، ان بچوں کی قابلیت اور ان کے اساتذہ و مربیان کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہمارے ایک شریک سفر پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ جماعت ملک کو اس قسم کے نظام تعلیم و تربیت کےعلاوہ اور کچھ بھی نہ دے سکے ، تو یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔
یہاں سے واپسی کا سفر شروع ہونا تھا، جیپوں کے ذریعے ایک گھنٹے کا سفر طےکرکے، بلکہ کہیے پہاڑوں سے نیچے اتر کر ہم مظفر آباد پہنچ گئے، وہاں ایک پوائنٹ پر جو کسی وقت میں مدرسہ ہوا کرتا تھا،قیام کیا،یہاں نہا دھو کرکپڑے تبدیل کیے، کھانا کھایا، ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔
واپسی اسلام آباد کے لیے شیڈول کے مطابق دو گاڑیوں کو یہاں پہنچناچاہیے تھا، لیکن کسی وجہ سے صرف ایک گاڑی آئی، لہذا ہم آدھے لوگ اس میں سوار ہوکر اسلام آباد آگئے، جبکہ بقیہ بھائی ہم سے دو تین گھنٹے لیٹ پہنچے۔
یہاں شیڈول کے مطابق ایک اہم شخصیت سے ملاقات تھی، جس کمرے میں بیٹھنا تھا، ہم پہلے پہنچ گئے، بعد میں وہ تشریف لائے، اور سب سے فردا فردا بہت پیار محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے مصافحہ و معانقہ کیا،خوش آمدید کہا، سفر کے متعلق خیریت دریافت کی۔ اپنی گفتگو شروع کرنے سے قبل حاضرین کی طرف متوجہ ہوئے کہ اگر کسی کا کوئی سوال ہے تو پوچھ لیں، چند سوالات کیے گئے، اور یہیں سے انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ اسکرین پر سلائیڈز بھی چلائی جارہی تھیں، جنہیں پاس بیٹھا ایک اور نوجوان کمانڈر صاحب کی ہدایات کے مطابق پیش کر رہا تھا۔
پوری دنیا میں جتنے بڑے محاذ جنگ گرم تھے، ان کے متعلق اعداد و شمار اور نقشوں کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ تقریبا ہر جگہ پر مسلمان کسی نہ کسی شکل میں آپس میں لڑ رہے ہیں، لیکن کشمیر کا واحد محاذ ہے، جہاں کفر اور اسلام کی جنگ ہے، اور یہیں پر اس سوال کا جواب بھی آگیا کہ دیگر محاذ چھوڑ کر کشمیر کے محاذ کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔
دوسرے نمبر پر انہوں نے پاکستان کی محل وقوع کے اعتبار سے اہمیت کو واضح کیا، ان کے بقول اسلامی اتحاد سمیت عالم اسلام کی بقا پاکستان کے تحفظ کے ساتھ مربوط ہے۔ اور پاکستان کا تحفظ کشمیر محاذ پر کامیابی کے مرہون منت ہے۔
ایک صاحب کا سوال تھا کہ پاکستان کے عسکری دفاع کے لیے فوج کا مکمل ادارہ موجود ہے، اور بجٹ کا اسی فیصد یہی ادارہ استعمال کر رہا ہے، ایسی صورت حال میں سویلین کو اس محاذ میں جھونکنا مناسب ہوگا؟
جواب تھا کہ پاکستان کا تحفظ صرف فوج کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہمارے لیے فخر اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ ہمیں’ غزوہ ہند‘ کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ ساتھ انہوں نے اس غلطی فہمی کا بھی ازالہ کیا کہ فوج بجٹ کا اسی فیصد استعمال کرتی ہے، ان کے بقول بجٹ میں فوج کا حصہ صرف اٹھارہ فیصد ہے۔
اہم بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی مسئلے کو کس انداز سے پیش کرتے ہیں، کمانڈر صاحب نے عالمی حالات کو اس انداز سے بیان کیا، گویا کفر ہر جگہ پر ناکام ہوا، اور مسلمان مسلسل کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
سوال کیا گیا کہ آپ اعداد و شمار کے کھیل میں مسلمانوں کو فاتح قوم ثابت کر رہے ہیں، لیکن مسلمان خود کو ہارے ہوئے سمجھتے ہیں، جواب دیا گیا کہ یہ پراپیگنڈہ سے متاثر لوگ ہیں، جو غیروں کی باتوں میں آکر اس قسم کے تصورات کے اسیر ہوجاتے ہیں، اسی ضمن میں انہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کی حرکتوں کا ذکر کیا، ہالی وڈ بالی وڈ میں بننے والی فلموں کےمتعلق بتایا، جن کا ہدف ہی دشمنوں پر نفسیاتی فتح تھا، غالبا پچیس سو فلموں کا تذکرہ کیا گیا جو مسلمانوں کو ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا کرنے کے لیےبنائی گئی۔ اور اس طرف توجہ دلائی کہ مسلمانوں کو بھی اس میدان میں آنا چاہیے۔۔۔!۔
میڈیا کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار متعدد مرتبہ کرچکا ہوں، میں نے اسی سوچ کے تحت ان کی رائے پر ایک سوال اٹھایاکہ کافر تو شرعی ضابطے یا الہی قانون کے پابند نہیں، لیکن ہم مسلمان تو شرعی ضابطوں کے اسیر ہیں، کس طرح فلمی جنگ میں اتر سکتے ہیں؟ جس پر انہوں نے مجمل جواب دیا کہ علما نے اجازت دی ہوئی ہے، لیکن ہم میں سے بعض لوگ جان بوجھ کر مشکلات میں الجھے ہوئے ہیں، اور رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، یہاں وہ روایتی علما سے شاکی تھے، بلکہ ایک مثال بھی پیش کی کہ یورپ نے جب پریس متعارف کروایا تو اس وقت بھی علما نے اس کی حرمت کے فتوے دیے، اور اسے شیطانی مشین کہا، وغیرہ۔
مسلمان اگر واقعتا جیت رہے ہیں تو ظاہری حالات اس دعوے کے خلاف کیوں ہیں؟ مثلا پوری دنیا میں مسلمان لٹ پھٹ رہے ہیں، ان کا خون بہایا جارہاہے، لیکن جب اسلامی اتحاد بنتا ہے ، تو کافروں کو للکارنے کی بجائے ’ دہشت گردی‘ کا خاتمہ نصب العین بنالیا جاتا ہے، اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کا کیا مطلب ہے۔
اسی طرح اگر مسلمان مستحکم ہورہے ہیں، اور عالم کفر ٹوٹ رہا ہے ، تو پھر اسلامی ممالک میں افراد اور جماعتیں طرح طرح کی پابندیوں کا شکار کیوں ہورہے ہیں؟
اس کا جواب آیت کی صورت میں دیا گیا و لولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض گویا یہ حکمت الہی ہے، اور مسلمانوں پر یہ دباؤ، ان کے اٹھنے کا سبب ہے،اگر دشمنوں کا دباؤ اور خوف نہ ہوتا تو پاکستان ایٹمی قوت نہ بن پاتا۔
قارئین کرام ! جمہوریت میں شمولیت والے معرکۃ الأراء مسئلے کے حل کا سہرا بھی آپ اسی ’دباؤ‘ کو سونپ سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمےکی بات آئی، سوال کیا گیا کہ دہشت گرد پیدا کیسے ہوئے ہیں؟
اس کا سیدھا سیدھا جواب تلخ تھا شاید اس لیے گریز کیا گیا ، اور بات اس طرف موڑ دی گئی کہ خیر القرون میں کیسے پیدا ہوئے تھے؟
پھر ساتھ انہوں نے وہ واقعہ بھی ذکر کیا ، جس میں ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر کہا تھااعدل یا محمد، اور بعد میں یہی لوگ خارجی ہوئے۔
گویا کمانڈر صاحب کہنا چاہتے تھے کہ اس قسم کے سوالات منفی ذہنیت کی پیداوار ہیں، اور یہی منفی سوچ خارجیت کو جنم دیتی ہے، مطلب مسلمانوں، مسلم حکمرانوں ،ملکوں ، جماعتوں اور تنظیموں کی غلطیاں زیر بحث لانا یہ چیز انسان کو بغاوت وخروج پر ابھارتی ہے ، اور اصلاح و کامیابی کی بجائے ناکامی و فساد مقدر بن جاتا ہے۔
تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ ہونے کے باوجود اکثر ساتھیوں نے یہ مجلس بہت توجہ اور انہماک سے سنی، بعد میں پرتکلف کھانا پیش کیا گیا، عزت و احترام ، نظم و ضبط کے جو مظاہر ہم پچھلے دو دنوں سے دیکھ رہے تھے، وہ یہاں بھی اعلی صورت میں برقرار تھے، واپسی پر تمام علما کو مختصر تفسیر القرآن از حافظ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ کا تحفہ عنایت کیاگیا، ہمارے میزبان اول شیخ زید حارث، اور محترم خالد صاحب نے گرمجوشی کے ساتھ الوداع کہا، اور سب شرکائے قافلہ اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئے۔ یقینا ایک یادگار اور بہترین سفر تھا، جو عرصہ تک یاد رہے گا۔ اللہ تعالی اس کی ترتیب و تنظیم کرنے والے تمام اکابرو اصاغر کو اجر جزیل عطا فرمائے ۔