کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
جزاکم اللہ خیرا ۔ٹیلی فون، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ سے پہلے ادوار میں یہ حکم تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے ہوگا، کیونکہ آج سے مثلاایک دو سو سال قبل اہل امریکہ کیلئے یہ معلوم کرنا ہی ممکن نہ تھا کہ حاجی عرفات میں کس دن جمع ہوں گے؟؟؟! تو لازماً ان کا یومِ عرفہ ان کے مطلع کے مطابق ٩ ذی الحجہ ہی تھا۔
بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہردوراورہرجگہ کے لئے قابل عمل ہیں ، مگراس نئے فتوے کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ کہ صوم عرفہ کی تعلیم پچھے چودہ سوسال تک غیرعربوں کے لئے ناقابل عمل تھی !!!
جہاں تک مجھے علم ہے روزنامہ اردو نیوز میں یہ مقالہ (مقالہ اصل اخبار کی شکل میں میرے پاس محفوظ ہے) ، مقالہ نگار کے نام کے بغیر شائع ہوا تھا۔ لیکن شاید بعد کے کسی دوسرے سال یہ شیخ منیر قمر حفظہ اللہ کے نام سے چھپا تھا۔ واللہ اعلمیومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
مکمل مقالہ تو نہیں البتہ مقالے کے تمام اہم نکات کو میں نے کمپوز کر کے یہاں لگا دیا تھا :باذوق بھائی:
شیخ ابو عدنان منیر قمر حفطہ اللہ کا یہ مقالہ اگر اردو زبان میں ہے،تو ضرور شئیر کریں تاکہ ہم اس سے استفادہ کر سکیں۔
جزاک اللہ
مگرمجھے علامہ البانی رحمہ اللہ کا قول اس سے زیادہ معتدل معلوم ہوتاہے، جسے خود آپ ہی نے ایک جگہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
جب تک تمام ممالکِ اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رویت پر متفق نہ ہو جائیں ، تب تک ہر ملک کے باشندوں کو ، میری رائے کے مطابق ، اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ رہنا چاہئے ، الگ نہیں ہو جانا چاہئے کہ کوئی اپنے ملک کی رویت پر عمل کرنے لگے اور دوسرا کسی دوسرے ملک کی رویت پر ، کیونکہ ایسا کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے مابین اختلاف و انتشار کے مزید وسیع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
باذوق بھائی! اگر آپ کو شیخ ابو عدنان منیر قمر﷾ کا قول زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے، تو پھر کفایت اللہ بھائی کی بات ’صحیح‘ کیسے ہوئی؟ (حالانکہ دونوں میں تناقض ہے!)ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہردوراورہرجگہ کے لئے قابل عمل ہیں ، مگراس نئے فتوے کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ کہ صوم عرفہ کی تعلیم پچھلے چودہ سوسال تک غیرعربوں کے لئے ناقابل عمل تھی !!!
بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
اسلیے آپ کے مذکورہ بالا تمام سوالات شیخ حفظہ اللہ سے ہی پوچھے جانے لائق ہیں۔یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
محترم بھائی! میں نے ہرگز صراحتا یا اشارتاً نہیں کہا کہ آپ نے دینی احکام میں ذاتی پسند وناپسند کا معاملہ کیا ہے، اگر میری تحریر سے آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں!انس نضر بھائی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو شیخ منیر قمر کے اس فقرے سے اختلاف ہے :
اسلیے آپ کے مذکورہ بالا تمام سوالات شیخ حفظہ اللہ سے ہی پوچھے جانے لائق ہیں۔
ونیز میں نے قول کے پسندیدہ ہونے کی بات کہی ہے ، دینی احکام کے ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں کیا (استغفراللہ)۔