• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::: دو سال کے گناہ معاف کروایے ::: یوم ء عرفات نو ذی الحج کا روزہ :::::

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں سمجھتا ہوں کہ یومِ عرفہ کے روزے سے مراد ٩ ذی الحجۃ کا روزہ ہی ہے۔

کیونکہ اگر یہ نہ مانا جائے تو جن علاقوں میں مکہ مکرمہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آجاتا ہے، انہیں عید کے روز عرفہ کا روزہ رکھنا ہوگا۔

علاوہ ازیں اگر یہ کہا جائے کہ یومِ عرفہ کے روزے سےمراد پوری دنیا میں وہ دن مراد ہوگا، جس دن حاجی عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔

تو آج وسائل اتصال کی موجودگی میں یہ معلوم کرنا تو ممکن ہے کہ مکہ مکرمہ میں حاجی عرفات میں کب جمع ہو رہے ہیں؟
لیکن!
ٹیلی فون، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ سے پہلے ادوار میں یہ حکم تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے ہوگا، کیونکہ آج سے مثلاایک دو سو سال قبل اہل امریکہ کیلئے یہ معلوم کرنا ہی ممکن نہ تھا کہ حاجی عرفات میں کس دن جمع ہوں گے؟؟؟! تو لازماً ان کا یومِ عرفہ ان کے مطلع کے مطابق ٩ ذی الحجہ ہی تھا۔

جہاں تک اختلافِ مطالع کا ذکر ہے، اس لئے اس مفید ترین کتاب یا اس تھریڈ کا مطالعہ کیجئے۔

واللہ اعلم!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاکم اللہ خیرا انس نظر بھائی مختصر الفاظ میں آپ نے بڑی عمدہ بات کہی ہے۔
بارک اللہ فیکم

ٹیلی فون، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ سے پہلے ادوار میں یہ حکم تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے ہوگا، کیونکہ آج سے مثلاایک دو سو سال قبل اہل امریکہ کیلئے یہ معلوم کرنا ہی ممکن نہ تھا کہ حاجی عرفات میں کس دن جمع ہوں گے؟؟؟! تو لازماً ان کا یومِ عرفہ ان کے مطلع کے مطابق ٩ ذی الحجہ ہی تھا۔
جزاکم اللہ خیرا ۔
ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہردوراورہرجگہ کے لئے قابل عمل ہیں ، مگراس نئے فتوے کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ کہ صوم عرفہ کی تعلیم پچھے چودہ سوسال تک غیرعربوں کے لئے ناقابل عمل تھی !!!
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہردوراورہرجگہ کے لئے قابل عمل ہیں ، مگراس نئے فتوے کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ کہ صوم عرفہ کی تعلیم پچھے چودہ سوسال تک غیرعربوں کے لئے ناقابل عمل تھی !!!
بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
جہاں تک مجھے علم ہے روزنامہ اردو نیوز میں یہ مقالہ (مقالہ اصل اخبار کی شکل میں میرے پاس محفوظ ہے) ، مقالہ نگار کے نام کے بغیر شائع ہوا تھا۔ لیکن شاید بعد کے کسی دوسرے سال یہ شیخ منیر قمر حفظہ اللہ کے نام سے چھپا تھا۔ واللہ اعلم
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
باذوق بھائی:
شیخ ابو عدنان منیر قمر حفطہ اللہ کا یہ مقالہ اگر اردو زبان میں ہے،تو ضرور شئیر کریں تاکہ ہم اس سے استفادہ کر سکیں۔
جزاک اللہ
مکمل مقالہ تو نہیں البتہ مقالے کے تمام اہم نکات کو میں نے کمپوز کر کے یہاں لگا دیا تھا :
یوم عرفہ کا روزہ ، ٩/ذی الحجہ کو یا وقوف عرفات پر؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
مگرمجھے علامہ البانی رحمہ اللہ کا قول اس سے زیادہ معتدل معلوم ہوتاہے، جسے خود آپ ہی نے ایک جگہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
جب تک تمام ممالکِ اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رویت پر متفق نہ ہو جائیں ، تب تک ہر ملک کے باشندوں کو ، میری رائے کے مطابق ، اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ رہنا چاہئے ، الگ نہیں ہو جانا چاہئے کہ کوئی اپنے ملک کی رویت پر عمل کرنے لگے اور دوسرا کسی دوسرے ملک کی رویت پر ، کیونکہ ایسا کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے مابین اختلاف و انتشار کے مزید وسیع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہردوراورہرجگہ کے لئے قابل عمل ہیں ، مگراس نئے فتوے کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ کہ صوم عرفہ کی تعلیم پچھلے چودہ سوسال تک غیرعربوں کے لئے ناقابل عمل تھی !!!
بات تو صحیح ہے۔ مگر مجھے شیخ ابوعدنان منیر قمر حفظہ اللہ کا یہ معتدل قول زیادہ پسندیدہ محسوس ہوتا ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔ اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔
باذوق بھائی! اگر آپ کو شیخ ابو عدنان منیر قمر﷾ کا قول زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے، تو پھر کفایت اللہ بھائی کی بات ’صحیح‘ کیسے ہوئی؟ (حالانکہ دونوں میں تناقض ہے!)

یعنی اگر بالفرض آپ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتے تو آپ کفایت اللہ بھائی کی دلیل کی توجیہ کیا کریں گے؟؟؟

نیز اس پر بھی روشنی ڈالیے گا کہ جن لوگوں کے ہاں مکہ سے بھی ایک دن پہلے چاند نظر آجاتا ہے، تو حاجیوں کے وقوفِ عرفات کے دن ان کی تقویم کے مطابق یوم النحر (عید الاضحیٰ کا دن) ہوگا، لیکن وہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہ مانتے ہوں تو وہ کیا کریں گے؟ عید منائیں گے یا روزہ رکھیں گے؟؟

نیز یہ رائے موجودہ زمانے کیلئے ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں جدید ذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل ہے۔ لیکن کیا یہی رائے موجودہ زمانے کے ان لوگوں کیلئے بھی ہے جنہیں ان ذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل نہ ہو؟؟؟

اس رائے پر آج سے دو سو سال پہلے لوگ کیسے عمل کرتے ہوں گے؟؟؟

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ سے پہلے تو اختلافِ مطالع معتبر تھا لیکن ان ذرائع ابلاغ کے بعد اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگیا ہے؟؟؟

کیا دین کے احکامات پانچ سو سال پہلے کچھ اور تھے، آج تغیر زمان ومکان اور ترقی کے بعد کچھ اور ہوگئے ہیں؟؟ اور قیامت اگر آئندہ ٥٠٠ سال تک نہیں آتی تو ان کیلئے دین کچھ اور ہوگا؟؟؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
انس نضر بھائی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو شیخ منیر قمر کے اس فقرے سے اختلاف ہے :
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
اسلیے آپ کے مذکورہ بالا تمام سوالات شیخ حفظہ اللہ سے ہی پوچھے جانے لائق ہیں۔
ونیز میں نے قول کے پسندیدہ ہونے کی بات کہی ہے ، دینی احکام کے ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں کیا (استغفراللہ)۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انس نضر بھائی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو شیخ منیر قمر کے اس فقرے سے اختلاف ہے :

اسلیے آپ کے مذکورہ بالا تمام سوالات شیخ حفظہ اللہ سے ہی پوچھے جانے لائق ہیں۔
ونیز میں نے قول کے پسندیدہ ہونے کی بات کہی ہے ، دینی احکام کے ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں کیا (استغفراللہ)۔
محترم بھائی! میں نے ہرگز صراحتا یا اشارتاً نہیں کہا کہ آپ نے دینی احکام میں ذاتی پسند وناپسند کا معاملہ کیا ہے، اگر میری تحریر سے آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں!

در اصل بحث ومباحثہ میں جب کوئی صاحب کسی عالم دین کا موقف ذکر کرتے ہیں (اور اسے اپنا پسندیدہ بھی بتلاتے ہیں) تو یہ اس مسئلے میں انہی کا موقف شمار ہوتا ہے، جس پر کسی اعتراض کا جواب بھی انہیں ہی دینا چاہئے، وہ عالم دین صاحب خود تو اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ بہرحال اگر آپ موضوع کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے تو جیسے آپ کی خوشی!
 
Top