بسم الله الرحمن الرحیم
سب تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
غلط فہمی :
اب دوسرا جواب میں نے ایک جگہ پڑھا کہ الکحل کی تھوڑی مقدار تو جائز ہے جس سے نشہ نہ ہو لیکن زیادہ جائز نہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ ایک عام شخص کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس پرفیوم میں الکحل کی تھوڑی مقدار ہے؟
ازالہ :
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جس چیز کی کثیر مقدار نشہ لائے اس میں سے قلیل مقدار کا کھانا ، پینا بھی حرام ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
١۔ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل مسكر حرام ما اسكر الفرق منه فملء الكف منه حرام "، قال ابو عيسى: قال احدهما في حديثه الحسوة منه حرام
”ہر نشہ آور چیز حرام ہے، جس چیز کا ایک فرق (سولہ رطل) کی مقدار بھر نشہ پیدا کر دے تو اس کی مٹھی بھر مقدار بھی حرام ہے ان میں (یعنی محمد بن بشار اور عبداللہ بن معاویہ جمحی) میں سے ایک نے اپنی روایت میں کہا: یعنی اس کا ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔
[(سنن ترمزی كتاب الأشربة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 3- باب مَا جَاءَ مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ)
(تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأشربة ۵ (۳۶۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۶۵)، و مسند احمد (۶/۷۲) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2376)]
٢۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل مسكر حرام وما اسكر كثيره، فقليله حرام
ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار نشہ لانے والی ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔
(سنن ابن ماجہ كتاب الأشربة بَابُ: مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ)
[تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۷۰۸۹، ومصباح الزجاجة: ۱۱۷۷) (صحیح) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف ہیں، لیکن دوسرے شواہد سے یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح]
٣۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
كل مسكر حرام، وما اسكر منه الفرق فملء الكف منه حرام
ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جو چیز فرق بھر نشہ لاتی ہے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔
(سنن ابی داود كتاب الأشربة باب النَّهْىِ عَنِ الْمُسْكِرِ)
[تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأشربة ۳ (۱۸۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۷۱، ۷۲،۱۳۱) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح]
وضاحت:"فرق" ایک پیمانہ ہے جو (۱۶) رطل کے برابر ہے۔
1۔ غذائی اجناس کو گلا سڑا کر، اسے کشید کرکے حاصل ہونے والی الکحل اور کیمیکلز سے مصنوعی طور پر حاصل ہونے والی synthetic alcohol میں فرق ہوتا ہے۔ غذائی اجناس سے بننے والی الکحل (شراب) کا کیمیاوی نام ethanol or ethyle alcohol ہے۔ یہ صرف نشہ یا لطف و سرور کی غرض سے پینے کے لئے تیار کی جاتی ہے۔ اس کا کوئی اور مصرف نہیں۔ اسی قدرتی ایتھے نال کا مشروب کے طور پر استعمال حرام ہے، خواہ اس کے پینے سے کسی کو نشہ ہو یا نہیں ہو۔ اسی شراب کو انگریزی زبان میں "الکحل" بھی کہتے ہیں۔
2۔ کیمیاوی طور پر "الکحل" ایک کیمیاوی سیریز کا نام ہے۔ جیسے ایتھے نال، بیوٹینال، می تھے نال، پروپینال وغیرہ۔ یہ سب "الکحل" ہیں، جو مختلف صنعتوں میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ کیمیکل لیب میں بھی ان سب کا استعمال عام ہے۔ مختلف صنعتوں میں مختلف مقاصد کے لئے ان سب الکحلز کا استعمال بلا کراہت جائز اور حلال ہے۔پرفیومز اور مختلف پالش میں بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
3۔ مصنوعی الکحل ز میں صرف "ایتھے نال" ہی "فوڈ آئٹم" ہے یا بطور "فوڈ آئٹم" استعمال ہوسکتا ہے۔ [اب تو اسے بطور ایندھن (پیٹرول کا متبادل) بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈیزل انجن، پیٹرول انجن کی طرح اب ایتھے نال انجن بھی بن رہے ہیں۔ اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں پیٹرول پمپ کی طرح ایتھے نال پمپ بھی بن چکے ہیں۔] باقی سارے الکحلز "نان فوڈ آئٹم" ہیں۔
4۔ مصنوعی ایتھے نال (الکحل) کا "غذائی استعمال" سب سے زیادہ ہومیو پیتھک ادویات میں ہوتا ہے۔ تقریبا" سو فیصد ہومیو پیتھک ادویات synthetic alcohol میں تیار کی جاتی ہیں۔ بعض ایلو پیتھک ادویات میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے جیسے کف سیرپ (کھانسی کے شربت) وغیرہ۔ ایلو پیتھک ادویات میں تو "الکحل فری" متبادل ادویات بھی دستیاب ہیں لیکن ہومیو پیتھک ادویات سو فیصدی مصنوعی الکحلز میں تیار کی جاتی ہیں۔
5۔ ہومیو پیتھک ادویات (الکحل کے ساتھ) کے بارے میں بہت سے مسلمانوں کے ذہن میں شکوک و شبہات ابھرت رہتے ہیں کہ یہ حلال ہیں یا حرام۔ مجھے نہیں معلوم کہ اکثر علماء کی رائے کیا ہے تاہم مفتی تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ ہے کہ ہومیو پیتھک ادویات مصنوعی الکحل کے ساتھ حلال ہیں۔
اس بارے میں مزید علماء اور ماہرین کی رائے اگر کسی کو معلوم ہو تو وہ یہاں ضرور شیئر کرے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نشہ آور چیز کو دوا کے طور پر بھی استعمال نہ کرے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
١۔ طارق بن سعید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا شراب کے بارے میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا یا ناپسند کیا اس کے بنانے کو۔ وہ بولا: میں دوا کے لیے بناتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه ليس بدواء ولكنه داء
وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے۔
(صحیح مسلم كِتَاب الْأَشْرِبَةِ || باب تَحْرِيمِ التَّدَاوِي بِالْخَمْرِ وَبَيَانِ أَنَّهَا لَيْسَتْ بدوَاءٍ || باب: شراب سے علاج کرنا حرام ہے اور وہ دوا نہیں ہے۔)
٢۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
كل مسكر حرام
ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
(صحیح مسلم كِتَاب الْأَشْرِبَةِ)
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے اوراسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا ء فرمائیں !
آمین یا رب العالمین
والحمد لله رب العالمین