• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دھرتی کا فرعون.

شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
خدائی کے دعویدار فرعون کا عبرتناک انجام

دراصل فرعون کسی شخص کا ذاتی نام نہیں تھا بلکہ قدیم شاہان مصر کا لقب تھا۔ جیسے ہمارے زمانے میں بھی کل تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر، روس کے تاجدار کو زار، ترکی کے فرمانروا کو سلطان اور والئی دکن کو نظام کہتے تھے۔ آج بھی صدر، و وزیراعظم، شاہ اور چانسلر جیسے الفاظ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز افراد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس منصب میں کچھ ایسی تاثیر ضرور ہے کہ اس پر متمکن ہونے کے بعد دماغ گھومنے لگتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی حکمران بہکی بہکی باتیں اور خدائی دعوے کرنے لگتا ہے۔ ساون کے اندھے کی طرح اسے ہر سو سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ سبزے کا انجام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ لہلہاتی کھیتی ایک دن خزاں کی زد میں ہوگی۔ بڑھاپا جوانی پر چھاجائے گا، ہریالی کو زردی اپنی لپیٹ میں لے لے گی، کھیتی چورا چورا ہوجائے گی۔ اسے پیروں تلے روندا جائے گا۔ ہر طرف خاک اڑے گی اور نام صرف اسی کا باقی رہے گا جس کی ذات اور اقتدار کو زوال نہیں۔

جب زمین پر اکڑ کر چلنے والے فرعون اور نمرود اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنارہے ہوتے ہیں تو ارض و سما کا خالق بھی تدبیر کررہا ہوتا ہے اور بالآخر اسی کی تدبیر غالب آکر رہتی ہے۔ باقی سب تدبیریں لکڑی کا جالہ ثابت ہوتی ہیں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرعون کے گھر میں موسیٰ پیدا ہوجاتا ہے وہ خود اس کی پرورش کرتا ہے اور اس کی جوانی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ یہ جوانی اس پر آسمانی بجلی بن کر گرنے والی ہے۔ یہ معجزہ کل بھی رونما ہوا تھا اور آج بھی رونما ہوسکتا ہے۔

اس کی رونمائی میں انسانی عقل کے اعتبار سے تاخیر ہوسکتی ہے مگر کائنات کا نظام چلانے والے کے ہاں یہ تاخیر نہیں ہوتی۔ اس کے ہاں سمندر کے پھیلنے اس پر سورج کی شعاعیں پڑنے اور بخارات اٹھنے، بادل بننے، ہوائوں کے چلنے، قطرے بننے اور زمین پر برسنے کا ایک انتظام ہے۔ یقینا وہ اس نظام کا محتاج نہیں وہ وہی کرتا ہے جو اللہ کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ہوتا ہے۔ مصر کے ستم زدوں کو بھی برس ہا برس فرعون کی ہلاکت کا انتظار کرنا پڑا جب خدائی کا وہ دعویدار دریا کی بپھری ہوئی موجوں میں غرق ہوگیا تو آسمان سے اعلان کیا۔

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَةً.

(يونس، 10:92)

’’(اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے (عبرت کا) نشان ہوسکے‘‘۔

فرعون کی میت آج بھی قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے اور بصارت اور بصیرت رکھنے والے انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔
 
Top