• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دہریت [atheism] کو پھیلانے والی این-جی-او "مشعل" کو قانونی طور پر بین کرو

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دہریت [atheism] کو پھیلانے والی این-جی-او "مشعل" کو قانونی طور پر بین کرو


"مشعل" ایک امریکن این-جی-او ہے کہ جس کا ہیڈ آفس گارڈن ٹاون، لاہور میں ہے۔ اس این۔جی۔اور کے چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ہیں۔ یہ این-جی-او پچھلی کئی دہائیوں سے انگریزی میں شائع شدہ مذہب مخالف، اسلام مخالف اور خدا مخالف لٹریچر کو اردو زبان میں منتقل کر کے نہ صرف پبلش کر رہی ہے بلکہ فری میں ڈسڑی بیوٹ کر رہی ہے۔ کہ جس سے اس کا مقصد پاکستانی معاشرے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ملحدوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

اس این-جی-او نے دہریت کو پھیلانے میں غیر علمی بلکہ سیاسی پارٹیوں کے جیالے پن والا رویہ اختیار کیا ہے۔ مثلا کارل سیگان ملحد کی ایک کتاب "کوسموس" کہ جس کا ترجمہ اس این-جی-او نے پبلش کیا ہے کے صفحہ 240 کی ابتداء اس جملے سے ہوتی ہے:

"کچھ بیوقوفوں کا دعوی ہے کہ کسی خالق نے دنیا کو بنایا ہے۔"

اب ایسی کتابیں کہ جن میں خدا پر ایمان رکھنے والوں کو "ایڈیٹ" کہا جا رہا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں "سائنس" اور "علم" کے نام پر پبلش کی جا رہی ہیں۔

تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں بلکہ کوئی بھائی اس این-جی-او کو بین کرنے کے نام سے ایک فیس بک پیج بھی بنا دیں کہ جس میں اس کی منفی اور الحادی شرگرمیوں کے بارے کچھ مواد ہو اور پھر اس پیج کے ذریعے اس مسئلے کو سوشل میڈیا سے میڈیا میں ہائی لائٹ کیا جائے تا کہ ملک کی اکثریت یعنی مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرے والے مواد کو قانونی طور بین کرنے کی راہ ہموار ہو سکے کہ ایسے مواد کے پبلش نہ کرنے کے بارے ہمارے آئین میں بھی ہدایات موجود ہیں۔
منجانب محترم @ابوالحسن علوی صاحب
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
کونسے قاعدے اور کونسے قوانین ؟ پہر یہ قاعدے اور قوانین کس نے بناے؟ منکرین حق کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے ان شاءاللہ اپنے انجام کو یہ بھی پہونچیں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
کچھ دن پہلے ایک صاحب میرے پاس آئے اور بات کا آغاز اس طرح سے کیا کہ سر، میں مذہبی ہوں، میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، میں نے مسجد میں چار سال اذان دی ہے، میں اب بھی مسجد سے ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہا ہے لیکن مجھے کائنات کے بارے جاننے کا شوق ہوا تو میں نے "کوسموس" کے نام سے ایک ٹی-وی سیریز دیکھی کہ جس نے خدا کے بارے کچھ تشویش میرے ذہن میں پیدا کر دی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض اوقات ایک مخلص مومن بھی خدا کے بارے کسی شیطانی وسوسے کے سبب یا کسی دہریے کی مغالطہ آمیز گفتگو کے وجہ سے تشویش کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس بارے مجھے آج کچھ بہت ہی بنیادی باتیں کرنی ہیں:

پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کا خالق ہونا انسان کی فطرت میں خود خدا نے رکھ دیا ہے لہذا خدا کے بارے شبہہ پیدا ہونا آسانی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے شیطان اور دہریے کو بہت اور مسلسل محنت درکار ہے۔ زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ ایک مخلص مسلمان اپنے مسئلہ کا صحیح تجزیہ نہیں کر پاتا کہ جس تشویش کو وہ خدا کے باے وسوسہ سمجھ رہا ہوتا ہے وہ دراصل اس کا ایمان ہوتا ہے۔

مثلا بعض اوقات ایک مسلمان کائنات اور کوسمولوجی کے بارے سائنسدانوں کے نظریات جان کر اس تشویش میں پڑ جاتا ہے کہ مذہب اور قرآن مجید جو کچھ کہہ رہا ہے، یہ سائنس کا علم تو اس کے خلاف بات کر رہا ہے۔ اب اسے بے چینی اس وجہ سے پیدا نہیں ہوتی کہ خدا کے وجود کے بارے وہ شک میں مبتلا ہو گیا ہے بلکہ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی ہوتی ہے کہ وہ مذہب اور سائنس، کوسمولوجی کے حاضر علم اور قرآن مجید میں مطابقت کیسے پیدا کرے؟ اس کی تشویش کا سبب مطابقت پیدا نہ کر سکنا ہے نہ کہ یہ کہ اس کا دل دہریے کے دلائل پر مطمئن ہو رہا ہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئی کہ جس شخص کو خدا کے بارے کوئی تشویش لاحق ہو تو وہ پہلے اپنی تشویش کی نوعیت کا گہرائی میں تجزیہ کرے اور پھر علاج کی طرف جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ خدا پر ایمان انسان کی فطرت میں پیدائشی طور موجود ہے لہذا اس میں شک پیدا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے دہریے کی اسٹریٹیجی پر غور کریں کہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو شک میں مبتلا کرنے کے لیے ایک دنیا بناتے ہیں، خیالاتی دنیا،،،،جب آپ ان کی اس دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں جو کہ خوبصورت لیکن جھوٹی ہوتی ہے تو آپ اس دنیا کا یقین کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ دنیا صرف آپ کے ذہن میں ہوتی ہے، خارج میں نہیں ہوتی۔

ہوتا یہ ہے کہ جب آپ دہریت پر مسلسل کتابیں پڑھتے ہیں یا کسی سیریز کو دیکھتے ہیں تو آپ اس دنیا میں داخل ہونا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کی تشویش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس تشویش کا آسان اور ابتدائی علاج یہی ہے کہ سب سے پہلے دہریت کا مسلسل مطالعہ یا شب و روز اس کی سیریز کو دیکھنا ترک کریں اور حقیقی دنیا میں واپس آنا شروع کریں۔ آپ چاہے اس دوران مذہب کا مطالعہ نہ بھی کریں، صرف آپ دہریت کا مطالعہ یا اس کی سیریز کو دیکھنا بند کر دیں تو چند دنوں میں آپ بھلے چنگے ہو جائیں گے کیونکہ آپ ان کی بنائی ہوئی جھوٹی دنیا سے باہر نکل آئیں گے جو انہوں نے صرف اپنی چرب زبانی سے آپ کے خیالات میں پیدا کر رکھی ہے لہذا آپ کی توجہ بٹی نہیں، آپ ان کے سحر سے نکل گئے ان کی بنائی ہوئی دنیا بھی غائب ہو گئی۔

تیسری بات یہ ہے کہ دہریت کوئی علمی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اس کا علمی جواب تلاش کرنے لگ پڑیں۔ خدا کا اس سے بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے اپنے وجود کی دلیل میرے اندر رکھ کر مجھے دنیا میں بھیجا ہے۔ خدا پر ایمان کوئی تصور تھوڑا ہی ہے کہ جسے ہم اپنے منطقی دلائل یا جامع مانع تعریفوں سے مکمل کر لیں۔ خدا کو پا لینا تو ایک واقعہ ہے جو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ تو خدا کے بارے تشویش کا آسان ترعلاج خدا کا کلام ہے۔

میں آپ کو تفسیریں پڑھنے کا مشورہ نہیں دے رہا بلکہ یہ کہ تنہائی میں، اکیلے میں، کمی روشنی میں، فراغت میں، مکمل خاموشی میں، کسی سورت کا لفظی ترجمہ اردو میں پڑھیں، اور پھر وہی سورت خوبصورت لب ولجے میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کسی قاری قرآن کی آواز میں اونچی آواز میں سنیں، آپ مخلص ہیں تو خدا کو پالینے کے لیے ایک دفعہ ہی ایسا کرلینا کافی ہے۔ اب آپ کو خدا کے وجود کے لیے کسی عقلی ومنطقی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو خدا کے وجود کی دلیل بن کر گر رہے ہیں۔ اور آپ دل خدا کی محبت میں لپک رہا ہے۔

نوٹ: "کوسموس" ملحد کارل سیگان کی ایک تیار کردہ ایک ٹی وی سیریز ہے کہ جس میں کائنات کے آغاز سے لے کے آج تک کے بارے میں نظریاتی سائنس، کہ جسے ہم سائنس نہیں کہہ سکتے، کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔
 
Top