- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,752
- پوائنٹ
- 1,207
دینِ ابراہیمی میں قریش کی بدعات
یہ تھے اہل جاہلیت کے عقائد واعمال ، اس کے ساتھ ہی ان کے اندر دین ابراہیمی کے کچھ باقیات بھی تھے۔ یعنی انھوں نے یہ دین پورے طور پر نہیں چھوڑا تھا، چنانچہ وہ بیت اللہ کی تعظیم اور اس کا طواف کرتے تھے۔ حج وعمرہ کرتے تھے۔ عرفات ومزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور ہَدی کے جانور وں کی قربانی کرتے تھے ، البتہ انھوں نے اس دین ابرہیمی میں بہت سی بدعتیں ایجاد کرکے شامل کردی تھیں۔ مثلاً:
1۔۔۔۔ قریش کی ایک بدعت یہ تھی کہ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اوّلاد ہیں ، حرم کے پاسبان، بیت اللہ کے والی اور مکہ کے باشندے ہیں ، کوئی شخص ہمارا ہم مرتبہ نہیں اور نہ کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے مساوی ہیں...اور اسی بنا پر اپنا نام حمس (بہادر اور گرم جوش ) رکھتے تھے...لہٰذا ہمارے شایان شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر جائیں۔ چنانچہ حج کے دوران یہ لوگ عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں سے اِفاضہ کرتے تھے۔ بلکہ مُزْدَلِفہ ہی میں ٹھہر کر وہیں سے افاضہ کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا : ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ (۲:۱۹۹) یعنی '' تم لوگ بھی وہیں سے افاضہ کرو جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔ ''
ابن ہشام ۱/۱۹۹ ، صحیح بخاری ۱/۲۲۶
2۔۔۔۔ ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ کہتے تھے کہ حمس (قریش) کے لیے احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ بال والے گھر (یعنی کمبل کے خیمے ) میں داخل ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ سایہ حاصل کرنا ہوتو چمڑے کے خیمے کے سوا کہیں اور سایہ حاصل کریں۔ (ابن ہشام ۱/۲۰۲)
3۔۔۔۔ ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ بیرونِ حرم کے باشندے حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور بیرون حرم سے کھانے کی کوئی چیز لے کر آئیں تو ان کے لیے کھانا درست نہیں۔ (ایضاً ایضا ً)
4۔۔۔۔ ایک بدعت یہ بھی تھی کہ انھوں نے بیرون حرم کے باشندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حرم میں آنے کے بعد پہلا طواف حمس سے حاصل کیے ہوئے کپڑوں ہی میں کریں۔ چنانچہ اگر ان کا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو مرد ننگے طواف کرتے اور عورتیں اپنے سارے کپڑے اتار کر صرف ایک چھوٹا سا کھلا ہوا کرتا پہن لیتیں اور اسی میں طواف کرتیں اور دوران طواف یہ شعر پڑھتی جاتیں :
الیوم یبدو کلہ أو بعضہ
وما بدا منہ فلا أحلہ
''آج کچھ یا کل شرمگاہ کھل جائے گی۔ لیکن جو کھل جائے اسے (دیکھنا ) حلال نہیں قرار دیتی۔ ''
اللہ تعالیٰ نے اس خرافات کے خاتمے کے لیے فرمایا:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (۷: ۳۱)
''اے آدم کے بیٹو ! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کر لیا کرو۔ ''
بہر حال اگر کوئی عورت یا مرد برتر اور معزز بن کر ، بیرونِ حرم سے لائے ہوئے اپنے ہی کپڑوں میں طواف کر لیتا تو طواف کے بعد ان کپڑوں کو پھینک دیتا ان سے نہ خود فائدہ اٹھاتا نہ کوئی اور۔ (ایضاً ۱/۲۰۲، ۲۰۳، صحیح بخاری ۱/۲۲۶)
5۔۔۔۔ قریش کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ حالتِ احرام میں گھر کے اندر دروازے سے نہ داخل ہوتے تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے ایک بڑا سا سوراخ بنا لیتے ، اور اسی سے آتے جاتے تھے اور اپنے اس اجڈ پنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ قرآنِ کریم نے اس سے بھی منع فرمایا: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾ یہی دین - یعنی شرک وبُت پرستی اور توہمات وخرافات پر مبنی عقیدہ وعمل والا دین - عام اہل عرب کا دین تھا۔
اس کے علاوہ جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں یہودیت ، مسیحیت ، مجوسیت اور صابئیت نے بھی دَر آنے کے مواقع پالیے تھے، لہٰذا ان کا تاریخی خاکہ بھی مختصراً پیش کیا جارہا ہے۔