زبیدہ عزیز
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 26، 2011
- پیغامات
- 38
- ری ایکشن اسکور
- 225
- پوائنٹ
- 31
بسم الله الرحمن الرحيم
دینِ اعتدال اور غمِ حسینؓ
زبيده عزيز
اسلام امن و سلامتی،سکون و آشتی اور ہمدردی و غمگساری کا دین ہے۔ یہ دین اعتدال اور دین یُسر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ماننے والے ایک طرف مسلم اورمومن کہلاتے ہیں تو دوسری طرف انہیں امت خیر اور امت وسط کے نام دیے گے۔یہ دین زندگی کے ہر میدان میں معتدل راہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور کسی بھی معاملے میں غلوکرنے اورحد سے بڑھنے سے روکتا ہے خواہ وہ معاملہ خوشی کا ہو یا غمی کا۔یہ معتدل راہ ہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کی ہم دعا مانگتے ہیں اور انعام یافتہ افراد جس پر ہمیشہ چلتے رہے۔ غم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہواوراس کی نوعیت ذاتی ہو یا اجتماعی ،قرآن و سنت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ردعمل اختیار کرنا ہی ایک مسلمان کی شان ہے۔بڑے سے بڑے امتحان پر صبر و حوصلے سے کام لینا ہی ہمارے دین کا سبق ہے مگرجیسے جیسے لوگ قرآن و سنت کے بنیادی سرچشموں سے دور ہٹتے گئے ویسے ویسے نئی نئی چیزیں دین کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ان میں سے کچھ کام ایسے ہیں جن کا کوئی اجرو ثواب نہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی واضح ممانعت کی گئی مگر دین سے دوری اور لاعلمی ان کے کرنے کی وجہ بنتی چلی گئی۔آج جب علم حاصل کرنے کے ذرائع عمومی طور پر لوگوں کی پہنچ میں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دینی معلومات کو قرآن و سنت پر پرکھ کر چھانٹ لیں اور جہاں کسی بھی کمی بیشی کا شکار ہیں اس کی اصلاح کر تے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کریں۔اسلام نے جہاں ہمیں خوشی منانے کے اصول وضابطے سکھائے وہیں غم کے مواقعوں پر رد عمل اختیار کرنے کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کی۔خوشی میں اگر ایسا کوئی کام کرنا ناپسندیدہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کا ہے تو حالتِ غم میں بھی ایسے ہر عمل سے باز رہنے کی ضرورت ہے جو اس کی نافرمانی کا سبب بن جائے۔المیہ مگر یہ ہے کہ جس طرح ہم خوشیوں میں اپنے خالق کو بھول جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے انجوائے کرنا چاہتے ہیں ویسے ہی غم بھی اپنی مرضی سے مناتے ہیں۔ نہ خوشی منانا ممنوع ہے اور نہ غمگین ہونے کی دین نفی کرتا ہے بس راہ اعتدال مطلوب ہے جو راہِ قرآن و سنت ہے تاکہ اطاعت کا کچھ تو حق ادا ہو سکے۔
جن امور میں دین کے اصل احکامات سے مختلف روش سامنے آئی ان میں سے ایک شہادت حسینؓ پر غم منانا بھی شامل ہے۔شھادت وہ عظیم درجہ ہے جو اللہ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اس کے ملنے پر اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے ،اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
امام حسینؓ سے محبت اپنی جگہ مگرغمِ حسینؓ منانے میں ہم یہ بھول گئے کہ ہم نے اللہ سے بھی محبت اور اس کی اطاعت کے وعدے کیے تھے اور نبیﷺ کے اسوہ پر چلنے کے عہد بھی باندھے تھے۔وہ سب کیا ہوئے؟؟وَ لاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ ٰلکِنْ لَّاتَشْعُرُوْنَ - وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن - الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌلا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن - اُولٰٓءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌقف وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْن (البقرۃ:156-154)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو،بلکہ وہ زندہ ہیں،لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔اور البتہ ہم ضرور تمہیں خوف،بھوک،مالوں،جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیں۔وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت (تکلیف) پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں،ان پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
حدیث قدسی ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’جب میں اہل دنیا میں سے مومن کے کسی جگری دوست کو لے لیتا ہوں۔پھر وہ اجر اور ثواب کی نیت سے ا سپرصبر کر لیتا ہے تو ایسے مومن بندے کے لیے میرے پاس جنت سے کم کوئی جزا نہیں ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب زید بن حارثہؓ،جعفرؓ اورابن رواحہؓ کی شہادت کی خبر رسول اللہﷺ کی ملی تو آپؐ غمگین ہو کر بیٹھ گئے ،میں دروازے کی دراڑ میں سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص نے آپؐ کے پاس آکرجعفرؓ کے گھر کی عورتوں کے رونے کاذکر کیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ انہیں گریہ و زاری سے منع کرو۔وہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا وہ نہیں مانتیں۔آپؐ نے دوبارہ فرمایا کہ انہیں منع کرو۔وہ پھر آیا اور بتایا کہ وہ نہیں مانتیں۔آپؐ نے پھر یہی فرمایا:انہیں منع کرو۔تب وہ تیسری بار واپس آکر کہنے لگا:اے اللہ کے رسولﷺ!وہ ہم پر غالب آ گئیں اور نہیں مانتیں۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جاؤ اور ان کے منہ میں خال جھونک دو۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسی اشعریؓ بیہوش ہو گئے۔ان کی بیوی ام عبداللہ چیخ چیخ کر رونے لگیں۔کچھ دیر بعد ہوش میں آئے تو فرمایا:تجھے معلوم نہیں ،رسول اللہﷺ نے فرمایا:میں اس شخص سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں جو(مصیبت کے وقت) سر منڈواتا ہے،چیختا چلاتا ہے اور کپڑے پھاڑتا ہے۔
(متفق علیہ)
ایک صحابیہ جنہوں نے نبی کریمﷺسے بیعت کی تھی،روایت کرتی ہیں کہ ہم سے آپؐ نے جن کاموں کا عہد لیاتھاان میں یہ بھی شامل تھاکہ ہم آپؐ کی نافرمانی نہیں کریں گی،چہرہ نہیں نوچیں گی،واویلانہیں کریں گی،گریبان چاک نہیں کریں گیاور نہ ہی بالوں کو پراگندہ کریں گی۔‘‘(سنن ابی داؤد)
’’رسول اللہﷺ نے نوحہ کرنے والی اور برضا و رغبت نوحہ سننے والی عورت پر لعنت کی ہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد)
اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے عمل کی اصلاح کر سکیں۔آمینحضرت ابو مالک اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’نوحہ کرنے والی عورت اگر وفات سے پہلے توبہ نہ کرے گی تو قیامت کے دن اس کو کھڑا کیا جائے گا؛اس کا لباس کھجلی کی وجہ سے گندھک کا ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم)
27نومبر،2011 یکم محرم الحرام،۱۴۳۳ھ