جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب۔اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔آمین
لیکن کچھ لوگ صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جوعیدین کے لیے ہے کہ جس میں"خواتین اسلام کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ حیض سے بھی ہوں تب بھی مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور وہ لوگ یہ دھوکا دیتے ہیں کہ اس سے مراد اگر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نہیں تو پھر کیا ہے۔اور اسی تازہ ترین عید کا و اقعہ بھی سنیے!
میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست ماسٹر عبدالصبور صاحب نے دعا میں اس و قت شمولیت اختیار نہیں کی جب امام صاحب پرسوں والی عید پر اجتماعی د عا کروارہے تھے۔بعد میں جو قریبی ساتھیوں نے اس کے ساتھ کیا۔وہ مجھے کال کرکے تفصیل بتارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ محدث فارم پر اس مسئلہ کو شیئر کرکے مجھے شیوخ حضرات سے اس مسئلے کی تفصیلات بتاؤ۔
جی شیخ صاحب اس مسئلے کے بارے میں بھی ضرور تفصیل بتائیں کہ جو لوگ اس حدیث سے اجتماعی دعا پر استدلال کرتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے یاغلط؟؟؟
@اسحاق سلفی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
برادر گرامی ! آپ صحیح مسلم کی جس حدیث کا حوالہ دیا ،وہ درج ذیل ہے :
عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»(مسلم و بخاری )
ترجمہ :
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں اپنی کنواری، جوان لڑکیوں، حیض والیوں اور پردہ والیوں کو لے جائیں۔ پس حیض والیاں نماز کی جگہ سے الگ رہیں ، اور اس کارِ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‘‘
اس حدیث میں جس ’’ دعاء ‘‘ کا ذکر ہے، کچھ لوگ اس سے ،بعد از نماز عید مروجہ اجتماعی دعاء مراد لیتے ہیں ؛
جو صحیح نہیں ۔۔
کیونکہ ایک تو ۔۔ قرآن و حدیث میں ہر جگہ دعوت یا دعاء سے مراد ۔ہاتھ اٹھا کر مانگی جانے والی دعاء نہیں ہوتی ۔
بلکہ کبھی عموماً عبادت مراد ہوتی ۔کبھی عبادت کی کوئی خاص صورت مراد ہوتی ہے ،اور کبھی سوال و طلب والی دعاء مراد ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم کی نماز عید میں دعاء والی حدیث کا مفہوم سمجھنے کیلئے آپ صحیح مسلم ہی کی ’’رفع سبابہ ‘‘ کے متعلق روایت دیکھیں :
’’ كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَرَفَعَ أُصْبُعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تلِي الْإِبْهَام يَدْعُو بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا. رَوَاهُ مُسلم والترمذي
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے (دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے ، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پر پھیلائے رکھتے ‘‘
اس حدیث میں دو باتیں ہیں ایک یہ کہ جیسےہی قعدہ شروع کرتے ،یعنی بیٹھتے اپنی انگشت شہادت اٹھا لیتے ،اور اسی کے ساتھ تشہد اور درود ،اور دعاء پڑھتےط؛
یعنی قعدہ میں پڑھی جانے والی سب چیزوں کو ۔۔یدعو ۔یعنی ۔دعاء کرتے ،کہا گیا۔
اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں ہے ’’ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو ‘‘ جیسے دعاء کیلئے بیٹھتے ۔حالانکہ ۔۔بیٹھتے ہی دعاء نہیں بلکہ تشہد ہوتا ہے ،تو صاف ظاہر ہے کہ ’’پورے تشہد اور درود ،اور دعاء کو ۔۔دعاء کہا گیا ۔۔۔
اس لئے نماز عید میں دعاء والی حدیث سے مراد خطبہ بشمول خطبہ کی دعاء ہے ،
یہی بات علامہ عبید اللہ مبارکپوری ؒ شرح مشکاۃ میں آپکی پیش کردہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں :
’’ واستدل بقوله: "دعوة المسلمين" على مشروعية الدعاء بعد صلاة العيد، كما يدعى دبر الصلوات الخمس، وفيه نظر؛ لأنه لم يثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - دعاء صلاة العيدين، ولم ينقل أحد الدعاء بعدها بل الثابت عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه كان يخطب بعد الصلاة من غير فصل بشيء آخر، فلا يصح التمسك بإطلاق قوله "دعوة المسلمين" والظاهر أن المراد بها الأذكار التي في الخطبة وكلمات الوعظ والنصح، فإن لفظ الدعوة عام والله تعالى أعلم. (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح )
یعنی اس حدیث میں "دعوة المسلمين" سے کچھ لوگ بعد از نماز عید کی دعاء پر استدلال کرتے ہیں ،لیکن انکے اس استدلال میں نظر ہے ،کیونکہ نبی کریم سے نماز عیدین کی دعاء ثابت نہیں ،اور نہ کسی نے اس کے بعد دعاء کرنا نقل کیا ،،بلکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت طریقہ تو یہ ہے کہ آپ نماز عید کے بعدبغیر وقفہ کیئے خطبہ ارشاد فرماتے ،اس لئے ’’ قول مطلق ’’دعوۃ المسلمین ‘‘ سے دلیل لینا ٹھیک نہیں،اور ظاہر بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ’’ دعوۃ ۔دعاء ‘‘ سے مراد خطبہ کے اذکار ،اور دعظ و نصیحت کے کلمات ہیں ،(اور خطبہ میں دعاء بھی اسی کا حصہ )کیونکہ ’’الدعوۃ ‘‘ کا لفظ عام ہے (جس کو اس کے خاص جزء یعنی دعاء مسئلہ کیلئے خاص نہیں کیا جا سکتا )
واللہ اعلم