• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی اجتماع کے آخر میں مقرر کی دعا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا کسی دینی اجتماع کے آخر میں مقرر صاحب ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں
جیسے کہ جماعت الدعوہ کے کچھ مقرر اور مولانا منظور صاحب ایسا عمل کرتے ہیں ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی بھی تقریر ،خطبہ ،درس ،کے آخر میں دعاء کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ؛
(۱) خطیب ، خطاب کے آخر میں خود ہی ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرے ،۔۔(جیسے خطبہ جمعہ میں خطیب کرتا ہے )
(۲) خطاب کے آخر میں خطیب ،خود ہاتھ اٹھا کر دعاء کرے ،حاضرین ہاتھ نہ اٹھائیں
(۳) خطاب کے آخر میں خطیب ،خود بھی ہاتھ اٹھا کر دعاء کرے،اور اس کے ساتھ حاضرین بھی ہاتھ اٹھائیں ؛اور اجتماعی دعاء کریں ؛

ان میں صرف پہلی صورت یعنی :خطیب ، خود ہی ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرے ،۔۔(جیسے خطبہ جمعہ میں خطیب کرتا ہے ) ہی صحیح ہے ،شروع سے اس طریقہ
پر عمل ہے ،اور ایک مرفوع روایت (جس میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے ) بھی اس پر دلیل ہے:
ما رواه سمرة بن جندب رضي الله عنه أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «كان يستغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات كل جمعة»
( ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد 2 / 190 وقال: " رواه البزار والطبراني في الكبير،)
یعنی جناب سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ (کے خطبہ ) مسلمانوں کیلئے دعاء کیا کرتے تھے ‘‘
اور ایک کمزور روایت میں جو سنن الترمذی میں ہے کہ : نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ مجلس فرماتے تو اختتام مجلس پر دعاء فرماتے :
حدثنا علي بن حجر اخبرنا ابن المبارك اخبرنا يحيى بن ايوب عن عبيد الله بن زحر عن خالد بن ابي عمران ، ان ابن عمر قال:‏‏‏‏ " قلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم من مجلس حتى يدعو بهؤلاء الدعوات لاصحابه:‏‏‏‏ اللهم اقسم لنا من خشيتك ما يحول بيننا وبين معاصيك ومن طاعتك ما تبلغنا به جنتك ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا ومتعنا باسماعنا وابصارنا وقوتنا ما احييتنا واجعله الوارث منا واجعل ثارنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا ولا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا اكبر همنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علينا من لا يرحمنا ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں:
لیکن یہ روایت نقل کرنے کے بعد ترمذی فرماتے ہیں :قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن غريب وقد روى بعضهم هذا الحديث عن خالد بن ابي عمران عن نافع عن ابن عمر.

یعنی ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ‘‘
قال الشيخ الألباني: حسن الكلم الطيب (225 / 169) ، المشكاة (2492 / التحقيق الثاني)

باقی اجتماعی دعاء کی اگلی دونوں صورتیں خود ساختہ ہیں ،ان کا سنت اور سلف سے ثبوت نہیں ؛

سعودی عرب مشہور جید عالم بکر ابو زید
لوگ بیک آواز دعائیں کریں، اس کے بارے میں شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ الذِّكر الجماعي بصوت واحدٍ سرّاً ، أو جهراً ، لترديد ذكر معين وارد ، أو غير وارد ، سواءً كان من الكل ، أو يتلقونه من أحدهم ، مع رفع الأيدي ، أو بلا رفع لها : كل هذا وصف يحتاج إلى أصلٍ شرعيٍّ يدل عليه من الكتاب والسنَّة ؛ لأنه داخل في عبادة ، والعبادات مبناها على التوقيف ، والاتباع ، لا على الإحداث والاختراع ؛ ولهذا نظرنا في الأدلة في الكتاب والسنَّة : فلم نجد دليلاً يدلُّ على هذه الهيئة المضافة ، فتحقق أنه لا أصل له في الشرع المطهر ، وما لا أصل له في الشرع : فهو بدعة ، إذاً فيكون الذِّكر ، والدعاء الجماعي بدعة ، يجب على كل مسلم مقتدٍ برسول الله صلى الله عليه وسلم تركها ، والحذر منها ، وأن يلتزم بالمشروع .

وعليه : فالدعاء الجماعي بصوت واحدٍ ، سواءً كان دعاءً مطلقاً ، أو مرتَّبا ، كأن يكون بعد قراءة القرآن ، أو الموعظة ، والدرس : كل ذلك بدعة .
"تصحيح الدعاء" (ص 134 ، 135) .

ترجمہ :
"بیک آواز اجتماعی ذکر چاہے آہستہ آواز میں ہو، یا با آواز بلند، اس میں ثابت شدہ معین ذکر بار بار پڑھا جائے یا غیر ثابت شدہ، سب لوگ اکٹھےذکر کریں، یا کوئی اور انہیں ذکر کروائے، اس کیلئے ہاتھ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، ان تمام کیفیات کیلئے کتاب و سنت سے دلیل چاہیے؛ کیونکہ یہ سب عبادت میں داخل ہے، اور عبادات کی بنیاد توقیف ، اور اتباع پر ہوتی ہے، بدعات، اور خود ساختہ نظریات پر نہیں ہوتی؛ اسی لیے اگر ہم کتاب و سنت کے دلائل میں تلاش بھی کر لیں تو ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملے گی جس میں ان کیفیات کیساتھ ذکر کرنے کا ثبو ت ملے، چنانچہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس انداز سے عبادت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور جس عبادت کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو تو وہ بدعت ہوتی ہے، اس لئے مذکورہ انداز سے ذکر، اور اجتماعی دعا بدعت قرار پائے گی، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے والے ہر مسلمان پر اسے ترک کرنا لازم ہے، اسے چاہیے ان سے دور رہے، اور صرف شرعی طریقہ عبادت پر کاربند رہے۔
اس لئے بیک آواز اجتماعی دعا کرنا ، چاہے مطلق طور پر دعا ہو یا مرتب انداز میں مثلاً: قرآن مجید کی تلاوت کے بعد، یا وعظ و نصیحت کے بعد یہ سب بدعت ہے"
"تصحیح الدعاء" (ص 134 ، 135)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اجتماعی دعاء کے موضوع پر ایک اہم واقعہ ؛

’’ عن أبي عثمان، قال: كتب عامل لعمر بن الخطاب إليه أن هاهنا قوما يجتمعون فيدعون للمسلمين وللأمير، فكتب إليه عمر: «أقبل وأقبل بهم معك» ، فأقبل، وقال عمر للبواب: «أعد لي سوطا» ، فلما دخلوا على عمر أقبل على أميرهم ضربا بالسوط، فقال: يا عمر، إنا لسنا أولئك الذين يعني أولئك قوم يأتون من قبل المشرق ‘‘
رواه ابن أبي شيبة في "مصنفه" (13/360) وسنده حسن

ترجمہ :
ابو عثمان کہتے ہيں سیدنا عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ کے گورنر نے آپکی طرف يہ لکھ بھيجا کہ: "يہاں کچھ لوگ وعظ کیلئے اکٹھے ہو کر مسلمانوں اور اپنے گورنر کيلئے دعا کرتے ہيں" تو جناب عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ نے جواب ميں لکھا: "تم ميرے پاس حاضر ہو، اور ان لوگوں کو بھي اپنے ساتھ لاؤ" تو جب وہ عمر رضي اللہ عنہ کي خدمت ميں حاضر ہوئے، عمر رضي اللہ عنہ نے دربان کو حکم ديا: "مجھے ڈنڈا دو" جب وہ عمر رضي اللہ عنہ کے سامنے آئے تو عمر رضي اللہ عنہ نے انکے امير کي ڈنڈے سے تواضع کي۔
ان کا ایک آدمی کہنے لگا :اے امیر المومنین ! ہم مشرق سے نکلنے والی بدعتی قوم والے نہیں ،(اسلئے ہمیں مت ماریئے )
اسے ابن ابي شيبہ نے اپني "مصنف" (13/360) ميں روايت کيا ہے، اور اس اثر کي سند حسن درجہ کي ہے۔

اور یاد رہے انکی یہ دعاء وعظ و تقریر کے موقع پر ہوتی تھی ،امام ابن ابی شیبہ نے اسی لئے اس روایت کو باب ’’مَنْ كَرِهَ الْقَصَصَ وَضَرَبَ فِيهِ ‘‘ میں بیان کیا ہے
الدعاء الجماعي1.jpg
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب۔اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔آمین
لیکن کچھ لوگ صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جوعیدین کے لیے ہے کہ جس میں"خواتین اسلام کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ حیض سے بھی ہوں تب بھی مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور وہ لوگ یہ دھوکا دیتے ہیں کہ اس سے مراد اگر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نہیں تو پھر کیا ہے۔اور اسی تازہ ترین عید کا و اقعہ بھی سنیے!
میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست ماسٹر عبدالصبور صاحب نے دعا میں اس و قت شمولیت اختیار نہیں کی جب امام صاحب پرسوں والی عید پر اجتماعی د عا کروارہے تھے۔بعد میں جو قریبی ساتھیوں نے اس کے ساتھ کیا۔وہ مجھے کال کرکے تفصیل بتارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ محدث فارم پر اس مسئلہ کو شیئر کرکے مجھے شیوخ حضرات سے اس مسئلے کی تفصیلات بتاؤ۔
جی شیخ صاحب اس مسئلے کے بارے میں بھی ضرور تفصیل بتائیں کہ جو لوگ اس حدیث سے اجتماعی دعا پر استدلال کرتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے یاغلط؟؟؟
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب۔اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔آمین
لیکن کچھ لوگ صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جوعیدین کے لیے ہے کہ جس میں"خواتین اسلام کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ حیض سے بھی ہوں تب بھی مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور وہ لوگ یہ دھوکا دیتے ہیں کہ اس سے مراد اگر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نہیں تو پھر کیا ہے۔اور اسی تازہ ترین عید کا و اقعہ بھی سنیے!
میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست ماسٹر عبدالصبور صاحب نے دعا میں اس و قت شمولیت اختیار نہیں کی جب امام صاحب پرسوں والی عید پر اجتماعی د عا کروارہے تھے۔بعد میں جو قریبی ساتھیوں نے اس کے ساتھ کیا۔وہ مجھے کال کرکے تفصیل بتارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ محدث فارم پر اس مسئلہ کو شیئر کرکے مجھے شیوخ حضرات سے اس مسئلے کی تفصیلات بتاؤ۔
جی شیخ صاحب اس مسئلے کے بارے میں بھی ضرور تفصیل بتائیں کہ جو لوگ اس حدیث سے اجتماعی دعا پر استدلال کرتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے یاغلط؟؟؟
@اسحاق سلفی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
برادر گرامی ! آپ صحیح مسلم کی جس حدیث کا حوالہ دیا ،وہ درج ذیل ہے :
عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»(مسلم و بخاری )
ترجمہ :
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں اپنی کنواری، جوان لڑکیوں، حیض والیوں اور پردہ والیوں کو لے جائیں۔ پس حیض والیاں نماز کی جگہ سے الگ رہیں ، اور اس کارِ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‘‘

اس حدیث میں جس ’’ دعاء ‘‘ کا ذکر ہے، کچھ لوگ اس سے ،بعد از نماز عید مروجہ اجتماعی دعاء مراد لیتے ہیں ؛
جو صحیح نہیں ۔۔

کیونکہ ایک تو ۔۔ قرآن و حدیث میں ہر جگہ دعوت یا دعاء سے مراد ۔ہاتھ اٹھا کر مانگی جانے والی دعاء نہیں ہوتی ۔
بلکہ کبھی عموماً عبادت مراد ہوتی ۔کبھی عبادت کی کوئی خاص صورت مراد ہوتی ہے ،اور کبھی سوال و طلب والی دعاء مراد ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم کی نماز عید میں دعاء والی حدیث کا مفہوم سمجھنے کیلئے آپ صحیح مسلم ہی کی ’’رفع سبابہ ‘‘ کے متعلق روایت دیکھیں :
’’ كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَرَفَعَ أُصْبُعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تلِي الْإِبْهَام يَدْعُو بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا. رَوَاهُ مُسلم والترمذي
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے (دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے ، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پر پھیلائے رکھتے ‘‘
اس حدیث میں دو باتیں ہیں ایک یہ کہ جیسےہی قعدہ شروع کرتے ،یعنی بیٹھتے اپنی انگشت شہادت اٹھا لیتے ،اور اسی کے ساتھ تشہد اور درود ،اور دعاء پڑھتےط؛
یعنی قعدہ میں پڑھی جانے والی سب چیزوں کو ۔۔یدعو ۔یعنی ۔دعاء کرتے ،کہا گیا۔
اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں ہے ’’ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو ‘‘ جیسے دعاء کیلئے بیٹھتے ۔حالانکہ ۔۔بیٹھتے ہی دعاء نہیں بلکہ تشہد ہوتا ہے ،تو صاف ظاہر ہے کہ ’’پورے تشہد اور درود ،اور دعاء کو ۔۔دعاء کہا گیا ۔۔۔
اس لئے نماز عید میں دعاء والی حدیث سے مراد خطبہ بشمول خطبہ کی دعاء ہے ،
یہی بات علامہ عبید اللہ مبارکپوری ؒ شرح مشکاۃ میں آپکی پیش کردہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں :
’’ واستدل بقوله: "دعوة المسلمين" على مشروعية الدعاء بعد صلاة العيد، كما يدعى دبر الصلوات الخمس، وفيه نظر؛ لأنه لم يثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - دعاء صلاة العيدين، ولم ينقل أحد الدعاء بعدها بل الثابت عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه كان يخطب بعد الصلاة من غير فصل بشيء آخر، فلا يصح التمسك بإطلاق قوله "دعوة المسلمين" والظاهر أن المراد بها الأذكار التي في الخطبة وكلمات الوعظ والنصح، فإن لفظ الدعوة عام والله تعالى أعلم. (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح )
یعنی اس حدیث میں "دعوة المسلمين" سے کچھ لوگ بعد از نماز عید کی دعاء پر استدلال کرتے ہیں ،لیکن انکے اس استدلال میں نظر ہے ،کیونکہ نبی کریم سے نماز عیدین کی دعاء ثابت نہیں ،اور نہ کسی نے اس کے بعد دعاء کرنا نقل کیا ،،بلکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت طریقہ تو یہ ہے کہ آپ نماز عید کے بعدبغیر وقفہ کیئے خطبہ ارشاد فرماتے ،اس لئے ’’ قول مطلق ’’دعوۃ المسلمین ‘‘ سے دلیل لینا ٹھیک نہیں،اور ظاہر بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ’’ دعوۃ ۔دعاء ‘‘ سے مراد خطبہ کے اذکار ،اور دعظ و نصیحت کے کلمات ہیں ،(اور خطبہ میں دعاء بھی اسی کا حصہ )کیونکہ ’’الدعوۃ ‘‘ کا لفظ عام ہے (جس کو اس کے خاص جزء یعنی دعاء مسئلہ کیلئے خاص نہیں کیا جا سکتا )
واللہ اعلم
 
Top