کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد نہ کروایسا کرنا بدعت ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر نئی نئی چیزیں نہیں ایجاد کرسکتے تو آج کل کی جونئی نئی ایجادات ہیں مثلا بس ،ٹرین اورہوائی جہاز وغیرہ ، تو یہ جائز کیسے ہوگئیں، آخریہ بھی تو نئی چیزیں ہیں ۔
عرض ہے کہ صرف دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا ممنوع ہے نہ کہ دنیاوی امورمیں، بس ،ٹرین اورہوائی جہاز وغیرہ یہ سب دنیاوی چیزیں ہیں اوردنیاوی چیزوں میں اصلا ہمارے لئے تمام چیزیں جائز ہیں،الایہ کہ دنیاوی چیزوں میں سے بھی کسی چیز کو خصوصیت کے ساتھ منع کردیا گیا ہودریں صورت صرف یہی چیزحرام ہوگی باقی دنیا کی تمام چیزیں جائز ہوں گی ، اسی مفہوم کو فقہاء نے اس قائدہ کی شکل میں پیش کیا ہے:
''الاصل فی العبادات الحرمة والاصل فی الاشیاء الحلة''
یعنی دینی امورعبادات وغیرہ میں اصلا ساری چیزیں حرام ہیں صرف وہی کرنی ہیں جن کا ثبوت ملے ، اوردنیاوی امور میں اصلا تمام چیز یں جائز ہیں صرف وہی ممنوع ہیں جن کی ممانعت کا ثبوت ملے۔
یہ اصول اورتفریق خود ساختہ نہیں بلکہ قرآنی آیات واحادیث صحیحہ سے ماخوذ ومستنبط ہے، ذیل میں اس سلسلے کی ایک صحیح حدیث پیش خدمت ہے:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، وَهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ أَصْوَاتًا، فَقَالَ: " مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ " قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهُ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: " لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلُحَ "، فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ، وَإِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ "
ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا:''یہ کیسی آوازیں ہیں''؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے''۔تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی،جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہوانجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی امور میں ہرامر کے کرنے کی دلیل ہونا یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ہونا ضروری ہے،جبکہ دنیاوی امورمیں کسی امر کے نہ کرنے کی دلیل چاہئے یعنی اگر دنیاوی امورمیں سے کسی چیز سے متعلق ممانعت وارد نہیں ہے تو اصلا وہ چیز جائز ہے،بس، ٹرین اورجہاز وغیرہ اوراس جیسی دیگر چیزیں دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیںاوراس کی ممانعت وارد نہیں ہے اس لئے جائز ہیں۔
جبکہ فاتحہ خوانی ،مروجہ ایصال ثواب اوراس جیسے امور دین سے تعلق رکھتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ثبوت نہیں اس لئے یہ ناجائز ہیں۔اس اصول کے قرآن وحدیث میں اوربھی کئی دلائل موجود ہیں ،نیز یہ اصول اہل سنت کے مستند ائمہ کے نزدیک مسلم ہے ۔
اورایک اورمغالطہ:
بعض اہل بدعت نے جب یہ دیکھا کہ مذکورہ حدیث اور اس سے مستنط اصول میں تو دینی اومور اوردیناوی امور میں تفریق کی گئی ہے تو یہ یہ بوکھلاہٹ کے شکار ہوگر ایسی مثالیں تلاش کرنے لگے جن سے ثابت ہو کہ دین میں بھی نئی چیزوں کی ایجاد درست اوربدعت حسنہ ہے ۔
چنانچہ پھر ان لوگوں نے دعوت وتبلیغ کے وسائل مثلا ، ترجمہ ، جلسے ، پروگرام ، پوسٹر اوردیگر تمام ذرائع تبلیغ کو بطور مثال پیش کیا اورکہا کہ دیکھئے یہ امور تو دین سے متعلق ہیں لہٰذا دین میں نئی چیزوں کی گنجائش ہے ۔
عرض ہے کہ یہ تمام چیزوں اصلا دین نہیں بلکہ ان کی حیثیت تفہیم دین اورتبلیغ دین کے وسائل کی ہے نہ کی اصل دین کی ، اوردین کی تفہیم و تبلیغ میں اصلاجواز ہے لہٰذا اس کے لئے کوئی بھی ایسا طریقہ ایجاد کیا جاسکتا ہے جس کی ممانعت کتاب وسنت میں نہ ہو ، مثلا ترجمہ ، خلاصہ ، اصطلاحی نام ، جلسے ، پروگرام ، پوسٹر اوردیگر تمام ذرائع تبلیغ ، یہ ساری چیزیں اصل دین نہیں بلکہ تبلیغ دین کے ذرائع ہیں جن کی اصل حلت ہے لہٰذا یہ بدعات نہیں۔
مزید یہ بھی واضح رہے کہ کچھ لوگ علم وفقہ کی اصطلاحات کو پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ دیکھئے فرض ، سنت ، واجب ، مستحب وغیرہ کارواج بھی پہلے نہ تھا یہ سب بعد میں رائج ہوئے اور یہ دین سے متعلق ہے اس لئے دین میں بھی نئی چیز کے ایجاد کی گنجائش ہے۔
عرض ہے کہ علم وفقہ کی اصطلاحات بعد کے فقہاء کی ایجاد کردہ ہیں جن کا مقصود نصوص شریعت کی تفہیم و تبلیغ میں آسانی پیداکرنا ہے ، یہ ساری اصطلاحات عین دین نہیں بلکہ دین کی تفہیم و تبلیغ کے وسائل ہیں۔
یہیں پر یہ بھی واضح رہے کہ کچھ لوگ سوال کرتے رہتے ہیں کہ فلاں چیز فرض ہے فلاں چیز سنت ہے اس کی دلیل قران وحدیث سے دکھاؤ۔
عرض ہے کہ فرض وسنت کی جدید اصطلاحات دین کا حصہ قطعا نہیں ہیں بلکہ بعد کی ایجاد ہیں ، دریں صورت قران وحدیث کے نصوص میں اس کا مطالبہ کرنا سوائے حماقت کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔
عرض ہے کہ صرف دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا ممنوع ہے نہ کہ دنیاوی امورمیں، بس ،ٹرین اورہوائی جہاز وغیرہ یہ سب دنیاوی چیزیں ہیں اوردنیاوی چیزوں میں اصلا ہمارے لئے تمام چیزیں جائز ہیں،الایہ کہ دنیاوی چیزوں میں سے بھی کسی چیز کو خصوصیت کے ساتھ منع کردیا گیا ہودریں صورت صرف یہی چیزحرام ہوگی باقی دنیا کی تمام چیزیں جائز ہوں گی ، اسی مفہوم کو فقہاء نے اس قائدہ کی شکل میں پیش کیا ہے:
''الاصل فی العبادات الحرمة والاصل فی الاشیاء الحلة''
یعنی دینی امورعبادات وغیرہ میں اصلا ساری چیزیں حرام ہیں صرف وہی کرنی ہیں جن کا ثبوت ملے ، اوردنیاوی امور میں اصلا تمام چیز یں جائز ہیں صرف وہی ممنوع ہیں جن کی ممانعت کا ثبوت ملے۔
یہ اصول اورتفریق خود ساختہ نہیں بلکہ قرآنی آیات واحادیث صحیحہ سے ماخوذ ومستنبط ہے، ذیل میں اس سلسلے کی ایک صحیح حدیث پیش خدمت ہے:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، وَهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ أَصْوَاتًا، فَقَالَ: " مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ " قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهُ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: " لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلُحَ "، فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ، وَإِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ "
ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا:''یہ کیسی آوازیں ہیں''؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے''۔تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی،جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہوانجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی امور میں ہرامر کے کرنے کی دلیل ہونا یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ہونا ضروری ہے،جبکہ دنیاوی امورمیں کسی امر کے نہ کرنے کی دلیل چاہئے یعنی اگر دنیاوی امورمیں سے کسی چیز سے متعلق ممانعت وارد نہیں ہے تو اصلا وہ چیز جائز ہے،بس، ٹرین اورجہاز وغیرہ اوراس جیسی دیگر چیزیں دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیںاوراس کی ممانعت وارد نہیں ہے اس لئے جائز ہیں۔
جبکہ فاتحہ خوانی ،مروجہ ایصال ثواب اوراس جیسے امور دین سے تعلق رکھتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ثبوت نہیں اس لئے یہ ناجائز ہیں۔اس اصول کے قرآن وحدیث میں اوربھی کئی دلائل موجود ہیں ،نیز یہ اصول اہل سنت کے مستند ائمہ کے نزدیک مسلم ہے ۔
اورایک اورمغالطہ:
بعض اہل بدعت نے جب یہ دیکھا کہ مذکورہ حدیث اور اس سے مستنط اصول میں تو دینی اومور اوردیناوی امور میں تفریق کی گئی ہے تو یہ یہ بوکھلاہٹ کے شکار ہوگر ایسی مثالیں تلاش کرنے لگے جن سے ثابت ہو کہ دین میں بھی نئی چیزوں کی ایجاد درست اوربدعت حسنہ ہے ۔
چنانچہ پھر ان لوگوں نے دعوت وتبلیغ کے وسائل مثلا ، ترجمہ ، جلسے ، پروگرام ، پوسٹر اوردیگر تمام ذرائع تبلیغ کو بطور مثال پیش کیا اورکہا کہ دیکھئے یہ امور تو دین سے متعلق ہیں لہٰذا دین میں نئی چیزوں کی گنجائش ہے ۔
عرض ہے کہ یہ تمام چیزوں اصلا دین نہیں بلکہ ان کی حیثیت تفہیم دین اورتبلیغ دین کے وسائل کی ہے نہ کی اصل دین کی ، اوردین کی تفہیم و تبلیغ میں اصلاجواز ہے لہٰذا اس کے لئے کوئی بھی ایسا طریقہ ایجاد کیا جاسکتا ہے جس کی ممانعت کتاب وسنت میں نہ ہو ، مثلا ترجمہ ، خلاصہ ، اصطلاحی نام ، جلسے ، پروگرام ، پوسٹر اوردیگر تمام ذرائع تبلیغ ، یہ ساری چیزیں اصل دین نہیں بلکہ تبلیغ دین کے ذرائع ہیں جن کی اصل حلت ہے لہٰذا یہ بدعات نہیں۔
مزید یہ بھی واضح رہے کہ کچھ لوگ علم وفقہ کی اصطلاحات کو پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ دیکھئے فرض ، سنت ، واجب ، مستحب وغیرہ کارواج بھی پہلے نہ تھا یہ سب بعد میں رائج ہوئے اور یہ دین سے متعلق ہے اس لئے دین میں بھی نئی چیز کے ایجاد کی گنجائش ہے۔
عرض ہے کہ علم وفقہ کی اصطلاحات بعد کے فقہاء کی ایجاد کردہ ہیں جن کا مقصود نصوص شریعت کی تفہیم و تبلیغ میں آسانی پیداکرنا ہے ، یہ ساری اصطلاحات عین دین نہیں بلکہ دین کی تفہیم و تبلیغ کے وسائل ہیں۔
یہیں پر یہ بھی واضح رہے کہ کچھ لوگ سوال کرتے رہتے ہیں کہ فلاں چیز فرض ہے فلاں چیز سنت ہے اس کی دلیل قران وحدیث سے دکھاؤ۔
عرض ہے کہ فرض وسنت کی جدید اصطلاحات دین کا حصہ قطعا نہیں ہیں بلکہ بعد کی ایجاد ہیں ، دریں صورت قران وحدیث کے نصوص میں اس کا مطالبہ کرنا سوائے حماقت کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔