- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
اس موضوع پر گفتگو کرنے کا مقصد یہی ہے کہ دینی تعلیم کے اساتذہ کو دنیوی علوم کے اساتذہ ہی کی طرح کا مقام ملے، بلکہ ان سے بھی زیادہ۔ گذشتہ برس میرے چھوٹے بھائی کی فیملی ایسی جگہ شفٹ ہوئی جہاں ان کی غیر موجودگی میں گھر میں کوئی مرد موجود نہیں ہوتا تھا تو بچیوں کی دینی تعلیم کے لئے کسی خاتون معلمہ کی تلاش ہوئی۔ حسن اتفاق سے ایک عالمہ ملیں جو گھروں میں جاکر ٹیوشن دیتی تھیں۔ لیکن جب معاملات طے ہونے لگے اور انہوں نے ’’مروجہ فیس‘‘ سے کہیں زیادہ فیس طلب کی تو بھائی اور بھابی دونوں حیران سے ہوگئے۔ اس پر معلمہ نے پوچھا کہ یہ بچیاں جس اسکول میں پڑھتی ہیں، وہاں کی فیس کیا ہے؟ کیا آپ لوگوں نے صرف دنیوی علوم پڑھانے پر خرچ کرنا ہے، دینی تعلیم علوم پر نہیں (وغیرہ وغیرہ) تو بھائی اور بھابی دونوں لاجواب ہوگئے۔ خیر بھائی نے ان کی بات مان لی اور مجھے بھی بتلایا کہ ان کی بات کتنی درست ہے، لیکن ہم اب تک اس سے ’’آگاہ‘‘ ہی نہ تھے۔ یہ ہم سب کے سوچنے، اس بات کو پھیلانے اور اپنی اپنی جگہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدرسین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے وقت کا معقول معاوضہ طلب کریں، بالخصوص جب طالب علم کے والدین اور اداروں کے منتظمین کے پاس دیگر مدات میں خرچ کرنے کے لئے وافر موجود ہو اور نظر بھی آرہا ہو۔
اللہ ہم سب کو دینی علم کی قدر کرنے کی توفیق دے آمین
اللہ ہم سب کو دینی علم کی قدر کرنے کی توفیق دے آمین