• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی تعلیم کے اساتذہ کو بھی مقام دیجیے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس موضوع پر گفتگو کرنے کا مقصد یہی ہے کہ دینی تعلیم کے اساتذہ کو دنیوی علوم کے اساتذہ ہی کی طرح کا مقام ملے، بلکہ ان سے بھی زیادہ۔ گذشتہ برس میرے چھوٹے بھائی کی فیملی ایسی جگہ شفٹ ہوئی جہاں ان کی غیر موجودگی میں گھر میں کوئی مرد موجود نہیں ہوتا تھا تو بچیوں کی دینی تعلیم کے لئے کسی خاتون معلمہ کی تلاش ہوئی۔ حسن اتفاق سے ایک عالمہ ملیں جو گھروں میں جاکر ٹیوشن دیتی تھیں۔ لیکن جب معاملات طے ہونے لگے اور انہوں نے ’’مروجہ فیس‘‘ سے کہیں زیادہ فیس طلب کی تو بھائی اور بھابی دونوں حیران سے ہوگئے۔ اس پر معلمہ نے پوچھا کہ یہ بچیاں جس اسکول میں پڑھتی ہیں، وہاں کی فیس کیا ہے؟ کیا آپ لوگوں نے صرف دنیوی علوم پڑھانے پر خرچ کرنا ہے، دینی تعلیم علوم پر نہیں (وغیرہ وغیرہ) تو بھائی اور بھابی دونوں لاجواب ہوگئے۔ خیر بھائی نے ان کی بات مان لی اور مجھے بھی بتلایا کہ ان کی بات کتنی درست ہے، لیکن ہم اب تک اس سے ’’آگاہ‘‘ ہی نہ تھے۔ یہ ہم سب کے سوچنے، اس بات کو پھیلانے اور اپنی اپنی جگہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدرسین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے وقت کا معقول معاوضہ طلب کریں، بالخصوص جب طالب علم کے والدین اور اداروں کے منتظمین کے پاس دیگر مدات میں خرچ کرنے کے لئے وافر موجود ہو اور نظر بھی آرہا ہو۔

اللہ ہم سب کو دینی علم کی قدر کرنے کی توفیق دے آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگر کوئی اسے خود ستائش نہ سمجھے تو عرض کروں کہ ہم گذشتہ چار پانچ برسوں سے قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتب پیگام قرآن اور پیغام حدیث کی تالیف و اشاعت کر رہے ہیں۔ ہم اسے اردو کے علاوہ سندھی میں بھی مرتب کررہے ہیں۔ اردو میں قرآن و ھدیث دونوں مکمل ہوچکے ہیں۔ سندھی میں قرآن جو پیغام چھپ چکا ہے جبکہ حدیث اور انگریزی مین دونوں کتب کی تایف و ترتیب جاری ہے۔ اس ضمن میں مجھے بہت سا کام دوسروں سے بھی کروانا پڑتا ہے، جیسے کمپوزنگ، پروف ریڈنگ وغیرہ۔ جب مطلوبہ معیار کا کوئی فرد ہمیں مل جاتا ہے، اور وہ ہماری درخواست پر کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے تو اکثر لوگ اسے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کرنا چاہتے ہیں، یعنی معاوضہ کے بغیر۔ لیکن ہم نے روز اول سے یہ طے کیا ہوا ہے کہ اول تو ہر کام کا معاوضہ دیں گے، دوسرا مارکیٹ سے بہتر معاوضہ دیں گے۔ آپ یقین کریں کہ ہماری آفر سن کر لوگ ’’شرمندہ شرمندہ‘‘ سے ہوجاتے ہین اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ یا تو وہ معاوضہ ہی نہیں لیں گے اور اگر لیں گے تو مارکیٹ سے کچھ کم ہی لیں گے۔ لیکن ہم اپنی ’’ضد‘‘ پر اڑے رہتے ہیں حتیٰ کہ انہیں ہماری بات ماننی ہی پڑتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دین سے متعلقہ کاموں کی ہم سب کو عزت کرنی چاہئے۔ اور دینی علوم و امور سے متعلقہ کاموں کا بہتر سے بہتر معاوضہ دینے کی روایت ڈالنی چاہئے، جس کی جہاں تک توفیق ہو۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اسلامی اسکول کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ بمبئی میں واقع ان کے اسکول کی فیس واہان کے ٹاپ ٹین اسکولوں کی فیس کے اندر ہے۔ پرائمری کے بچوں کی فیس غالبا" سات ہزار روپے ماہانہ ہے۔ وہ حفظ بھی کراتے ہیں، عربی اور انگلش کی مکمل تعلیم بھی دیتے ہیں، قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تقابل ادیان کی تعلیم بھی۔ ان کا ہر طالب علم بہترین مقرر بھی ہوتا ہے۔ میٹرک انٹر بھی کرتا ہے۔ اور ہر طالب علم کا داخلہ میرٹ پر ہوتا ہے۔ اور کوئی منتخب طالب علم فیس نہ دے سکنے کے سبب داخلے سے محروم بھی نہیں ہوتا۔ انہیں سو فیصد تک اسکالر شپ دی جاتی ہے اور اساتذہ کو دیگر معیاری اسکولوں سے بہتر تعلیمی سہولیات اور مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ ان اسکولوں کے بچوں کا دینی و دنیوی علوم پر مہارت دیکھنا ہو تو ان کے پیس ٹی وی کی نشریات دیکھئے۔

اللہ ہم سب مسلمانوں کو دینی اور دنیوی دونوں علوم پر اتنی مہارت عطا کرے کہ ایک بار پھرہم مسلمان دنیا کے امام بن جائیں، جیسا کہ ماضی مین ہم تھے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اگر کوئی اسے خود ستائش نہ سمجھے تو عرض کروں کہ ہم گذشتہ چار پانچ برسوں سے قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتب پیگام قرآن اور پیغام حدیث کی تالیف و اشاعت کر رہے ہیں۔ ہم اسے اردو کے علاوہ سندھی میں بھی مرتب کررہے ہیں۔ اردو میں قرآن و ھدیث دونوں مکمل ہوچکے ہیں۔ سندھی میں قرآن جو پیغام چھپ چکا ہے جبکہ حدیث اور انگریزی مین دونوں کتب کی تایف و ترتیب جاری ہے۔ اس ضمن میں مجھے بہت سا کام دوسروں سے بھی کروانا پڑتا ہے، جیسے کمپوزنگ، پروف ریڈنگ وغیرہ۔ جب مطلوبہ معیار کا کوئی فرد ہمیں مل جاتا ہے، اور وہ ہماری درخواست پر کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے تو اکثر لوگ اسے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کرنا چاہتے ہیں، یعنی معاوضہ کے بغیر۔ لیکن ہم نے روز اول سے یہ طے کیا ہوا ہے کہ اول تو ہر کام کا معاوضہ دیں گے، دوسرا مارکیٹ سے بہتر معاوضہ دیں گے۔ آپ یقین کریں کہ ہماری آفر سن کر لوگ ’’شرمندہ شرمندہ‘‘ سے ہوجاتے ہین اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ یا تو وہ معاوضہ ہی نہیں لیں گے اور اگر لیں گے تو مارکیٹ سے کچھ کم ہی لیں گے۔ لیکن ہم اپنی ’’ضد‘‘ پر اڑے رہتے ہیں حتیٰ کہ انہیں ہماری بات ماننی ہی پڑتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دین سے متعلقہ کاموں کی ہم سب کو عزت کرنی چاہئے۔ اور دینی علوم و امور سے متعلقہ کاموں کا بہتر سے بہتر معاوضہ دینے کی روایت ڈالنی چاہئے، جس کی جہاں تک توفیق ہو۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اسلامی اسکول کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ بمبئی میں واقع ان کے اسکول کی فیس واہان کے ٹاپ ٹین اسکولوں کی فیس کے اندر ہے۔ پرائمری کے بچوں کی فیس غالبا" سات ہزار روپے ماہانہ ہے۔ وہ حفظ بھی کراتے ہیں، عربی اور انگلش کی مکمل تعلیم بھی دیتے ہیں، قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تقابل ادیان کی تعلیم بھی۔ ان کا ہر طالب علم بہترین مقرر بھی ہوتا ہے۔ میٹرک انٹر بھی کرتا ہے۔ اور ہر طالب علم کا داخلہ میرٹ پر ہوتا ہے۔ اور کوئی منتخب طالب علم فیس نہ دے سکنے کے سبب داخلے سے محروم بھی نہیں ہوتا۔ انہیں سو فیصد تک اسکالر شپ دی جاتی ہے اور اساتذہ کو دیگر معیاری اسکولوں سے بہتر تعلیمی سہولیات اور مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ ان اسکولوں کے بچوں کا دینی و دنیوی علوم پر مہارت دیکھنا ہو تو ان کے پیس ٹی وی کی نشریات دیکھئے۔

اللہ ہم سب مسلمانوں کو دینی اور دنیوی دونوں علوم پر اتنی مہارت عطا کرے کہ ایک بار پھرہم مسلمان دنیا کے امام بن جائیں، جیسا کہ ماضی مین ہم تھے۔
آمین
بلکل درست فرمایا آپ نے
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
یوسف ثانی صاحب کی بات بالکل درست جزاک اللہ خیرا بھائی اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔آمین
اور آپ کی دین کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کو قبول فرمائے۔اور اللہ آپ کو اورزیادہ ہمت عطا فرمائے۔آمین
 
شمولیت
اکتوبر 19، 2011
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
410
پوائنٹ
44
بھائی آپ نے ایک بہت اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دینی تعلیم سے وابستہ حضرات کو ہم عام طور پر عزت تو دیتے ہیں مگر ان کے جائز مالی و معاشی حقوق کا اہتمام کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ مدارس کے طلباء کو قناعت' استغنا اور توکل کے عنوانات کے تحت ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس سال رمضان میں تراویح کے موقع پر دوست مشورہ کرنے لگے کہ قاری صاحب کی کیا خدمت کی جائے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اپنے بچوں کے انگریزی میڈیم اسکول پر ہر ماہ ہزاروں روپے صرف کرنے والے دیندار لوگ قراء کرام کی معقول خدمت پر راضی نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں خرچ کیے ہوے مال کو غالبا کمتر نیکی گردانتے ہیں۔ یہ جو آئے دن دینی اداروں میں مالی بدعنوانیوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں ان کا تدارک بھی مھتممین اور اساتذہ کے مشاہرات میں معتدبہ اضافہ کرنے سے خاصی حد تک ممکن ہے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
یہ ایک المیہ ہے جس کی طرف محترم یوسف ثانی حفظہ اللہ نے توجہ دلائی ۔چند سال پہلے راقم لاہور اپنے ایک استاد محترم کے پاس گیا دوران گفتگو گھریلو حالات پوچھے تو بڑے پریشان کن حالت میں بتانے لگے کہ اللہ کا شکر ہے پچیس سال سال سے ایک مدرسہ میں پڑھا ہوں اور میرا وظیفہ اتنے ہزار ہے ،غلبا دس یا تیرہ ہزار بتایا اور فرمانے لگے کہ اس سے گزر بسر نہیں ہوتی چھوٹا بیٹا کسی فیکٹری میں کام کرتا ہے ادھر سے پانچ ہزار بھی مل جاتا ہے اس سے کچھ سہارا مل جاتا ہے ۔
اسی طرح ایک جامعہ کے شیخ الحدیث جو وقت کے بہت بڑے محدث ہیں جن سے میرے کافی تعلقات بھی ہیں ان سے بھی گفتگو ہووتی رہتی ہیں مالی مشکلات کے حوالے سے تو وہ ایک دن فرمانے لگے کہ سترہ سال سے بخاری شریف اس مدرسہ میں پڑھا رہا ہوں اور تنخواہ گیارہ ہزار ہے ابھی مہینہ ختم ہونے میں دو ہفتے باقی ہوتے ہیں تو گھر سے فون آجاتا ہے کہ خرچہ بھیجو پیسے ختم ہو گئے ہیں ۔تو ہر بار قرضہ لینا پڑتا ہے اور میں کافی زیادہ مقروض ہو چکا ہوں ۔
تین دن پہلے راقم نے ایک اپنے استاد محترم کو فون کیا جن کی پاکستان میں مثال نہیں ملتی وہ بھی یہی شکوہ کر رہے تھے کہ جس مدرسہ میں پڑھا رہا ہوں کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ۔
راقم کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی قریبی اساتذہ اور چاہنے والوں سے مالی حالات ضرور پوچھتا ہے ۔تاکہ ان کے لئے دعا کی جائے ۔
اس طرح کے بیسیوں واقعات میرے پاس موجود ہیں لیکن اشارہ کافی ہے
آج کل مدارس سے ہزاروں طلبائ فارغ ہو رہے ہیں لیکن اہل علم اور باذوق با صلاحیت مدرس ،مصنف محقق دور دور دور تک نہیں ملتا ۔اس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب معلم کو مالی پریشانیاں ہی آڑے ہوں گی تو وہ طلباء کو ان پریشانیوں میں کیا دے گا جتنی مرضی محنت کرے لیکن آخر وہ پریشانیوں سے دو چار ہے ۔
کیا اس کا کوئی حل بھی ہے !!!!
مذکورہ صورت حال ہمارے ان جامعات کی ہے جن کا شمار سب سے بڑے مدارس میں ہوتا ہے ۔افسوس کہ معلمین کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ۔
اس تمام صورت حال کے باوجود ایک جامعہ ایسا بھی جسے جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ تحصیل پتوکی ضلع قصور کے نام سے جانا جاتا ہے ،
بطور عبرت ایک پیش کرنا چاہتا ہوں ،یہاں کے مدیر صاحب معذور قاری محمد ادریس ثاقب حفظہ اللہ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ میرے جامعہ کے اساتذہ شہزادوں کی طرح زندگیاں بسر کریں گے ان شااللہ،ایک سال پہلے اچاک میٹنگ ہوئی تو قاری صاحب فرمانے لگے کہ اساتذہ کرام کسی آدمی سے ملا ہوں آپ کی تخواہوں کے متعلق کافی پریشان تھا اس لئے اس نے کچھ تعاون شروع کیا ہے تنخواہوں کے لئے تو یہ میں آپ میں آپ میں ہی تقسیم کر رہاں اسے قبول فرمانا اور آئندہ بھی حالات کے پیش نظر مالی مشکلات کا شکار اس جامعہ کا استاد نہیں ہو گا ۔اس میٹنگ سے پہلے بھی تنخوہیں باقی جامعات سے زیادہ تھیں اس میٹنگ میں اساتذہ کے مرتبے کے مطابق دو ہزار ،کسی کو تین ہزار تک زیادہ دی گئی ۔اور یہ مدرسہ بالکل غریب ہے کوئی بیرونی یا پاکستان سے مخصوص ایڈ نہیں آتی بس وہ بے چارے چوبیس گھنٹے مسجد میں بیٹھ کر رو رو کردعائیں کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ اساتذہ اور طلبا کی ضروریات غائب کے خزانوں سے پوری فرما ۔
اے اہل مدارس !
اساتذہ کرام جو وقت کے قیمتی ترین انسان ہوتے ہیں تم ان کی حقوق کا خیال کریں یہی مدارس سے محدثین پیدا ہوں گے اور تعلیم میں برکت پڑھے گی ۔
آخر میں استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ کی ایک بات نقل کر دیتاہوں وہ فرمایا کرتے ہیں کہ مدرسہ عمارت کا نام نہیں ہے افسوس کہ ہمارے مدارس والے عمارت پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن استاد جو حقیقت میں مدرسہ ہے اس پر خرچ کرنے سے محروم رہتے ہیں ،بلکہ جھونپڑی بنا کر ماہر استاد کو بٹھا دیں اس کے اخراجات پورے کریں تو اس جھونپڑی سے پہ انقلاب آئے گا
استادایک تاریخ کا نام ہے
استاد ایک انقلاب کا نام ہے
استاد ایک قائد کا نام ہے
استاد ایک خیر خواہ کا نام ہے
استاد نہیں تو کچھ بھی نہیں
سب کچھ جو نظر آرہا ہے اخلاق ،انسانیت یہ سب استاد کی محنت کا نتیجہ ہے ۔
آئیے اس کی قدر کریں ورنہ امت مسلمہ پستی میں جا رہی ہے کس نے ان کو پستی سے نکالنا ہے ،یہی وہ اساتذہ ہی تو ہیں جنھوں نے امت کو ایک صحیح رخ دینا ہوتا ہے مگر یے بے چارے پریشان تھے اور ہیں اور رہیں گے ان کی طرف توجہ دینے والا ایک بھی نہیں
 
Top