• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی جلسوں میں منفیات کے اسباب

شمولیت
مارچ 04، 2025
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
محترم قارئین!
علماء کرام معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر دور میں الگ الگ طریقے اختیار کرتے رہے ہیں، دعوت کا ایک مسنون اور ماثور طریقہ لوگوں کے ایک گروہ کو جمع کرکے ان کے سامنے اپنی باتیں رکھنا بھی ہے، دور حاضر میں اسی کو جلسہ، اجتماع یا کانفرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ جلسوں کا معاشرے کی اصلاح میں بہت ہی اہم کردار رہا ہے، لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر صراط مستقیم پر لانے کا ان جلسوں کے توسط سے جو کارنامہ انجام پایا ہے اسے بھلایا نہیں جا سکتا ہے، ہمارے علماء نے اس کے ذریعے سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن سے ہماری دعوتی تاریخ کے صفحات روشن ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عمل اور ہر کوشش کا محاسبہ کرتے رہنا، جائزہ لیتے رہنا، اور نفع و نقصان کے تناسب پر نظر رکھنا زندہ قوموں کا شعار ہوتا ہے، چاہے وہ درس و تدریس کا ہو یا وعظ و ارشاد کا، نظر ثانی اور احتساب سے اس میں تازگی اور نشاط آتی ہے، مراجعہ اور جائزہ سے ہی اس میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
اور یہ بات بھی سچ ہے کہ علماء کرام نے نہ صرف دینی جلسوں کے تعلق سے جائزہ لیتے رہے ہیں، بلکہ اسے اپنی تقریر و تحریر کا موضوع بھی بناتے رہے ہیں۔
دینی جلسوں اور دعوتی کانفرنسوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو امت کی بیداری اور فرض شناسی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
عام مسلمان ایسے اجتماعات اور جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، یہ ایک خوش آئند بات ہے، اور یقیناً معاشرہ پر اس کا اچھا اثر پڑتا ہے، لیکن اس کے بہت سارے منفی اثرات بھی معاشرے میں مرتب ہو رہے ہیں جن سے قطع نظری یقینا سلبیات میں اضافے کا سبب بنتا جارہا ہے، لہذا ان کا سد باب نہایت ہی ضروری ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہ جلسے بھی میلے کی شکل اختیار کر لے
اس تحریر میں ہم نے انھیں اسباب پر بات کی ہے جو سلبیات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
فضول خرچی ؛
آج زیادہ تر جلسوں میں اسراف اور فضول خرچی حد سے زیادہ گذرتی دکھائی دے رہی ہے، ضرورت سے زیادہ روشنی، قمقمے، پھول، پتی، استقبالیہ گیٹ، اور ڈائس کا ڈیکوریشن جیسے اشیاء قابل ذکر ہیں! حالانکہ دین کی بات پہنچانے کے لیے ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو استنجاء، وضوء اور غسل میں بھی ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال کو ناپسند فرمایا ہے۔
قرآن وحدیث میں بکثرت ایسے دلائل موجود ہیں جن میں فضول خرچی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ( سورهة الفرقان :٦٧)
ترجمہ: اور جو خرچ کرتے وقت بھی اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں.
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ( سورة الإسراء: ٢٧)
ترجمہ:بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے.
رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَال [بخاری : ۱۴۷۷]
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی۔ لوگوں سے بہت مانگنا۔
صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث ہے:
إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللَّهِ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ القِيَامَةِ [بخاری :۳۱۱۸ ]
ترجمہ: کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں ‘ انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی ۔

بے جا لاؤڈ اسپیکر اور ڈی جے باکس کا استعمال

یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور بنگال جیسے صوبوں میں اکثر جلسوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر لگا کر آواز کو بلا وجہ بلند اور دور تک پہچانے کی سعی کی جاتی ہے جو عام لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں، اس سے بچنا چاہیے اور بالخصوص جگہ جگہ جو غیر مسلم آباد ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کیوں کہ کسی کو تکلیف دینا مسلمانوں کا شعار ہرگز نہیں ہوسکتا۔
قرآن مجید کی تلاوت سے بڑھ کر دنیا میں اور کون سا لذت بخش ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ نماز میں نہ بہت زور سے تلاوت کیا کریں اور نہ بہت پست آواز میں کہ شرکاء نماز بھی نہ سن سکیں؛ بلکہ آواز کو معتدل رکھیں۔
فرمان الٰہی ہے: وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تْخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَینَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا (الاسراء : ۰۱۱)
ترجمہ:نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے.
جھوٹی کہانیاں سنانا؛
بدقسمتی سے جلسوں میں ایسے بہت سارے مقررین مدعو کیے جاتے ہیں جو غیر معتبر روایات کو نقل کرکے محفل لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس سے قطع نظر کہ رسول اکرمﷺ پر جھوٹ باندھنے کی کتنی سخت وعید سنائی گئی ہے بس غیر ثابت قصے کہانیاں سنا کر گھنٹے پورے کرتے ہیں!
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
ترجمہ: جس نے مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے!
(صحیح بخاری: ۳۴۶۱)
ان غیر مستند روایات کو نقل کرنے کا ایک مقصد تقریر میں رنگ پیدا کرنا بھی ہوتا ہے۔
یاد رکھیں! جب تک کسی بات کے صحیح ومعتبر ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے، اس کو نقل کرنا بھی جھوٹ میں داخل ہے۔
رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع
آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُس کو بلا تحقیق نقل کر دے
(صحیح مسلم: ۵)

اسی طرح بعض مقررین کا خطاب لطائف کا مجموعہ ہوتا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنسنے ہنسانے کے لیے چٹکلے سناتے ہیں!
ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ, لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ(سنن ابی داؤد ۴۹۹۰)
ترجمہ: ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں ۔ ہلاکت ہے اس کے لیے ! ہلاکت ہے اس کے لیے۔
یہ سب دین سے کھلواڑ کے طریقے ہیں جنھیں آج دھڑلے سے اپنائے جارہے ہیں!
ان تقریروں کا سامعین پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے ذہنوں میں غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں!
دیر تک جلسہ جاری رکھنا؛
پوری پوری رات تک جلسے کرائے جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فجر کی نماز میں نمازیوں سے صفے خالی رہتے ہیں، بلکہ حال یہ ہوتا ہے کہ مرد وزن کے اختلاط کی وجہ سے اندھیری شب برائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جو کہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔
مزید یہ کہ گھنٹوں گھنٹوں تک تقریر جاری رکھنے کے لیے بعض مقررین ضعیف اور موضوع روایات کو بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں کیوں کہ اصل میں انھیں وقت پورا کرنا رہتا ہے۔
حالانکہ رسول اکرمﷺ کا طریقۂ وعظ کو دیکھا جائے تو بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے، آپﷺ بالکل مختصر وقت میں جامع نصیحت فرماتے تھے، اور سامعین کی نشاط اور دلچسپی کا ضرور خیال رکھتے تھے۔
چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے:
«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ، كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» [ بخاری: ۶۴۱۱ ]
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقررہ دنوں میں ہم کو وعظ فرمایا کرتے تھے۔( فاصلہ دے کر ) آپ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
آپ کے صحابہ بھی آپ کی اسی سنت پر عمل پیرا تھے۔
خلاصہ؛
حاصل یہ ہے کہ جلسے اور اجتماعات دعوت و اصلاح کے موثر ذرائع ہیں، یہ انبیاء کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان کو منعقد کرنے میں شریعت کی حدود اور دین کے مزاج کو پیش نظر رکھا جائے، یہ دوسرے کے لئے تکلیف دہ نہ ہو، زور زبردستی نہ ہو، غیر شرعی طریقے پر ایسی چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے، جن کے ہم مالک نہیں ہیں، یہ جلسے صرف کان کی لذت کا سامان نہ ہوں؛ بلکہ ان کے ذریعہ امت کو صحیح معنوں میں پیغام ملے۔
ان جلسوں سے ہمارا اصل مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنے سامعین تک قرآن وحدیث کا صحیح پیغام پہنچائیں، نہ کہ ہم جوش وجذبہ میں آکر اغیار کے طریقوں کی پیروی کرنے لگ جائیں۔
جب تک ہم نبوی طریقہ کو آیڈیل نہیں بنائیں گے یہ جلسے جلوس مؤثر ثابت نہیں ہوسکتے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی جلسوں میں ہونے والے سلبیات پر نظر رکھیں تاکہ ہمارے جلسے کامیاب ہو سکے اور ہم مقصد اصلی تک پہنچ سکیں!
اللہ! ہمیں کتاب وسنت کے طریقے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

محمد سعود مقصود
سعودیہ عربیہ
 
Top