• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی علم کے بغیر دیگر مذاہب کی کتب پڑھنے کا شرعی حکم؟

شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
degar kitabain.jpg



دینی علم کے بغیر دیگر مذاہب کی کتب پڑھنے کا شرعی حکم؟
محمد حسین میمن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
بعض حضرات دینی فھم اور اس کی معرفت کے بغیر تقابل ادیان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان حضرات کا مطالعہ کتب احادیث کی طرف نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ ایسے حضرات جو شرعی علوم سے نا آشنا ہوتے ہیں ان کا دیگر ادیان کا مطالعہ کرنا شرعی اعتبار سے کیا درست ہوگا؟ برائے مہربانی سوال کا جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امّا بعد!
کسی مسلم کے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ دیگر ادیان کی بحث میں الجھے اور نہ ہی ان کے صحائف پڑھنے کی اسے ضرورت ہے۔ حتی کہ اسے قرآن و حدیث پر پختگی حاصل ہو جائے۔ اور وہ اس قابل ہو جائے کہ حق اور باطل میں تمیز کر سکے۔ اسے اس چیز کی معرفت ہو کہ وہ صحیح اور فاسد چیزوں کو بھی جان سکے۔ اس کے بعد وہ دیگر ادیان کو پڑھ سکتا ہے مگر اس کے لیے بھی چند باتیں ملحوظ خاطررکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اولاً: مقصد یہ ہو کہ ان ادیان میں عقیدہ توحید اور نبی کریمﷺ کی پیشن گوئیاں جو ان کے صحائف میں ہوں ان لوگوں کو اس چیز سے آگاہ کرنا ہے اور ان کے تناقض اور ان کے صحائف کی خرابیاں ان پر واضح کرنا ہے۔
ثانیاً: مبلغ اس بات کا اعادہ کرتا رہے کہ وہ قرآن و سنت پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے ہی عقائد میں تشویش کے یا شک کا ارتکاب کر بیٹھے۔
ثالثاً: عامۃ المسلمین جنھیں شریعت کے بارے میں بالکل بھی علم نہیں انھیں مطلق طور پر باقی ادیان کے مطالعے سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ وہ دین اسلام کے بارے میں کسی شک و تردّد کا شکار نہ ہو جائیں۔ مسند بزار میں مرفوع حدیث ہے کہ سیدنا عمر تورات کا ایک حصہ تلاوت کر رہے تھے، نبی کریمﷺ نے دیکھا تو آپﷺ پر غصے کے اثرات نمایا ہو رہے تھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔
[یہ روایات ضعیف ہے تمام اسانید سمیت]
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:
‘‘ان النھی محمول علی الکراھۃ التنزیہ لأن النبی ﷺ قال ‘‘وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج‘‘ وغضبہ علی عمر کغضبہ علی معاذ حین طول بالناس فی الصلاۃ۔۔۔‘‘ (فتح الباری، ج۱۳، ص۵۲۵)
‘‘یقیناً یہ منع کرنا کراہیت اور تنزیہ پر محمول ہے ، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ‘‘بنی اسرائیل سے روایت بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘ اور عمر پر نبی کریمﷺ کا غضبناک ہونا یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح آپﷺ معاذ پر غصے ہوئے تھے جبکہ انہوں نے جماعت کے دوران لمبی قراءت کروائی تھی‘‘۔
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ عمر کو تورات کے پڑھنے سے جو نبی کریمﷺ نے روکا تھا وہ تنزیہاً تھا، کیونکہ عمر ممکن ہے کہ اس وقت شریعت کی مکمل معرفت نہ رکھتے ہوں ۔ مزید اس بات کو بھی دامن گیر فرما لیں کہ سلف نے دیگر مذاہب کی کتب کے مطالعہ کی اجازت صرف اس وقت دی ہے کہ جب غیر مسلم کو دین کی دعوت دینا مقصود ہو، چنانچہ حاشیہ ابن عابدین میں لکھا ہے:
‘‘ہمیں تورات اور انجیل کی طرف التفات کرنے سے روکا گیا ہے، سوائے اس کے کہ ہماری طرف کفار کچھ نقل کریں یا ان میں سے کوئی ایمان لانے والا ہو’’۔
یعنی کفار اگر قرآن و حدیث میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کریں تو انھی کی کتاب سے ہم انھیں جواب دے سکتے ہیں یا پھر اگر کوئی مسلمان ہونا چاہتا ہو تو ہم اسے ان کی کتابوں کے ذریعے بھی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا ﴾ (آل عمران:۶۴)
‘‘اے اہل کتاب ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو تم میں اور ہم میں برابر ہے وہ یہ کہ ہم ایک اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں گے‘‘۔
آیت مبارکہ سے واضح طور پر یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ اہل کتاب اور دیگر مذاہب کی کتب کو پڑھنا اسی وقت فائدہ مند ہو گا جب انھیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف بلانا مقصود ہو اور احادیث کے ذریعے یہ پتا چلتا ہے کہ مبلِّغ اچھی طرح سے قرآن و حدیث کے احکامات سے آگاہی رکھتا ہو۔
مملکت سعودیہ عرب کی ‘‘اللجنۃ الدائمۃ’’ایک سوال کے جواب میں فتویٰ دیتی ہے کہ:
‘‘دیگر کتب ادیان کو پڑھنا واجب نہیں ہے ہر کسی پر، بلکہ جائز ہی نہیں ہے کہ ہر کوئی دیگر مذاہب کی کتابیں پڑھے (بغیر دین کی معرفت کے) لیکن ہاں اہل تخصص اپنے وصف کے ساتھ اہل کتاب کو دعوت دیں اور ان پر ان کی کتابوں کا باطل ہونا واضح کریں جو ان میں مرقوم ہیں اور نبی کریم ﷺ کی بشارت کے بارے میں ان سے جھگڑے جو ان کی کتابوں میں لکھا ہے تاکہ وہ ان کی اتباع کریں‘‘۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح المنجد سے دیگر ادیان کی کتب کو پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
‘‘ان کو پڑھنا جائز نہیں ہے جیسا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اور دیگر وسائل کے ذریعے نصرانی جو شبھات پھیلا رہے ہیں ۔ لہٰذا کوئی ان سے دینی مناقشات نہ کرے الا یہ کہ کوئی اس کا اہل ہو جس کے پاس علم ہو اور مناظرے کے ذریعے حجت کو قائم کر سکے۔ یقیناً تمام اہل علم نے برقرار رکھا ہے کہ دیگر ادیان کی کتب کی طرف التفات نہ کیا جائے سوائے ان حضرات کے جو علم میں راسخ و مضبوط ہوں‘‘۔
اس مختصر سی گفتگو اور اہل علم کے اقوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بغیر شرعی علم کے دیگر مذاہب کی کتب پڑھنا جائز نہیں ۔ سب سے پہلے دین کی معرفت کو حاصل کیا جائے، اس کے بعد اہل کتاب و دیگر مذاہب پر حجت کو قائم کیا جائے، لیکن مقصد یہ ہو کہ ان پر اللہ کا دین واضح ہو جائے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اپنے مجموع الفتاویٰ میں فرماتے ہیں:
‘‘سیدنا عمر جب اسکندریہ فتح کیا تو اس میں کثیر تعداد میں رومیوں (کے مذہب) کی کئی کتابیں پائی گئیں، پس عمر کو ان کتابوں کے بارے میں لکھا گیا آپ نے جواباً فرمایا کہ ان تمام کتب کو جلا دیا جائے اور فرمایا ہمارے لیے اللہ کی کتاب (قرآن و حدیث) کافی ہے’‘۔ (مجموع الفتاوی، ج۱۷، ص۴۱)
عمر رضی اللہ کے اس واقعہ سے مزید معلوم ہوا کہ دیگر مذاہب کی کتب پڑھنا درست نہیں، جبکہ اس کی کوئی شرعی حاجت بھی نہ ہو۔
امام ابن مفلح ‘‘الادب الشریعۃ،ج۲، ص۹۷’’میں فرماتے ہیں بطریق اسحٰق بن ابراہیم کے کہ امام احمد بن حنبل سے دیگر مذاہب کی کتب کو پڑھنے کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ‘‘یہ مسئلہ مسلمان کا ہے؟‘‘ اور آپ غصے ہوئے (یعنی آپ نے دیگر ادیان کی کتب کو پڑھنے کو نا پسند فرمایا)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بغیر دینی معرفت کے اور دین کے قوانین و ضوابط کے جانے بغیر دیگر مذاہب کی کتب پڑھنا جائز نہیں۔ اس میں اندیشہ ہے کہ بندہ شک میں مبتلا نہ ہو جائے، اگر دین کو جاننے والا ہو اور اس کا فہم رکھنے والا بھی ہو اور مقصد غیر مذاہب کے لوگوں کو دین کی دعوت دینا ہو تو جائز ہے۔واللہ اعلم۔

ترجمہ پڑھنے کا اجر

سوال: کیا ترجمہ پڑھنے کا سواب ملتا ہے یا صرف ثواب تلاوت کا ہی ملتا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کا حکم دیا ہے؟
’’ پس ! کیا وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن میں یاد لوں پر اُن کے قفل لگ رہے ہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ دے دیتا ہے‘‘۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ جسے چاہئے دین کی باتوں میں عقل اور سمجھ دے دیتا ہے اور جسے سمجھ عنایت ہوئی ، اسے بڑی نعمت مل گئی اور نصیحت قبول کرنا صرف عقلمند کا کام ہے‘‘۔
حدیث میں ہے:
’’ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودہویں کے چاند کی فضیلت ستاروں پر ۔‘‘
ان کے دلائل سے معلوم ہوا کہ دین میں سمجھ بوجھ اور بصیرت حاصل کرنے کی فضیلت ملتی ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت کی علاوہ ترجمہ پڑھنے اور دین میں بصیرت حاصل کرنے کا ثواب نہ ہوتا تو یہ فضیلت علماء کو بھی حاصل نہ ہوتی۔ البتہ صرف ترجمہ پڑھنے کو قرآن کی تلاوت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ترجمہ پڑھنے کا ثواب اپنی جگہ اور تلاوت کا ثواب اپنی جگہ ہے۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ دین میں سمجھ بوجھ اور بصیرت حاصل کرنے کی فضیلت ملتی ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت کے علاوہ ترجمہ پڑھنے اور دین میں بصیرت حاصل کرنے کا ثواب نہ ہو تا تو یہ فضیلت علماء کو بھی حاصل نہ ہوتی۔ البتہ صرف ترجمہ پڑھنے کو قرآن کی تلاوت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ترجمہ پڑھنے کا ثواب اپنی جگہ اور تلاوت کا ثواب اپنی جگہ ہے۔

http://www.islamicmsg.org/index.php/22-slide-show/348-degar-mazahib-ki-kitabain
 
Top