بوالعزم کلیمی
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 10، 2011
- پیغامات
- 12
- ری ایکشن اسکور
- 52
- پوائنٹ
- 23
ہمارے آبزرویشن کے مطابق مدارس میں تین طرح کے بچے داخل کیے جاتے تھے۔ ایک وہ جن کے والدین کوئی اور تعلیم Afford نہیں کرسکتے۔ دوسرے وہ جن کے والدین انھیں کنٹرول نہیں کرسکتے۔ اور تیسرے وہ جن کے والدین واقعی مذہبی تعلیم میں دلچسپی رکھتے تھے۔
پہلی کٹیگری کے طلبہ دن بدن گھٹتے جارہے ہیں کیونکہ اقتصادی خوشحالی نے لوگوں کی ترجیحات میں بڑی ہیرپھیر کردی ہے۔ دوسری کٹیگری کے طلبہ پہلے بھی کم ہی ہوتے تھے، اب پتہ نہیں۔ البتہ تیسری کٹیگری کا پوائنٹ آف ویو بھی حیرت انگیز طور پر بدلتا جارہا ہے۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں، اچھے خاصے علماء بھی اپنی اولاد کو مدرسوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ تفتیش کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، اپنے آس پاس نظر دوڑائیے اور دور سے دکھائی اور سنائی دینے والے علماء کو دیکھ لیجیے، تقریباً اسی نوے فیصد علماء کی اولاد مدرسوں میں تعلیم حاصل نہیں کررہی ہے۔
پہلے جن مدارس میں تین چار سو بچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے، اب وہاں مشکل سے دوڈھائی سو پورے ہوپاتے ہیں۔ کہیں کہیں تو بچوں کا مدرسہ ، مدرسہ نسواں میں تبدیل ہوچکا ہے کیونکہ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کو مدارس میں زیادہ داخل کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں مدارس (کمپنی مالک پڑھیے)کے سامنے Survive کرنے کا کوئی اور طریقہ ہی نہیں رہ جاتا۔
مدارس کی یہ بدحالی اور اس کی اصلاح کی فکرمندی ایک طرف، سماج میں اکثر وبیشتر مسائل پر اتنا انتشار ہے کہ اصلاحی کوششیں بھی پھوڑے کا علاج کرنے کے بجائے صحیح اور سالم حصوں کو توڑ پھوڑ رہی ہے۔ مثلاً ندیم دیویکر صاحب کے اس مضمون میں مذکور تمام حقائق،مدرسہ نظام کے اصلاح کی تجویز، اس سے جڑی فکرمندی قابل قدر ہے مگر فقہی موشگافیوں کی وجہ سے مسائل پر لگے جالے صاف کرنے کی بجائے موصوف صرف قرآن کو لازم پکڑنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ نبیﷺ کی احادیث سے ناطہ توڑ لینے کے بعد اچھا خاصا پڑھا لکھا مسلمان بھی ”شاذ“ بن کررہ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کی وہ تفہیم جو نبیﷺ اور صحابہ کرام سے منسوب ہے، ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے تو کون للو ہے جو اپنے طریقے سے اسے کما حقہ سمجھ سکتا ہے۔ اگر ندیم صاحب کا مدعا سمجھنے میں ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ معاف کرے اور ندیم صاحب ہماری اصلاح فرمائیں مگر زیر نظر مضمون میں جابجا ہمیں یہی لگا کہ وہ دین صرف قرآن کو سمجھ رہے ہیں۔ قطع نظر اس کے ”دینی مدارس سے“ ندیم صاحب کے ” تین سوال“ اپنے اندر بے پناہ ہمدردی کے ساتھ ساتھ کچھ جواب بھی رکھتے ہیں۔ پڑھیں تو اپنے تاثرات سے ضرور آگاہ فرمائیں ……ایڈیٹر
(۱)کیا دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ؟
دین کے نام پر جو دنیا بھر میں مدرسے قائم ہیں ان پر کسی خاص طرزِ فکر یا مسلک کا رنگ غالب ہے ۔ قال اللہ و قال الرسول کے جلومیں ان کی اصل کوشش اس بات کی ہے کہ وہ اپنے فرقے کو حق اور دوسروں کو باطل ثابت کریں ۔یہ سلسلہ صرف ہندوستان تک ہی موقوف نہیں پوری مسلم دنیا بلکہ یورپ اور امریکہ میں جو مسلمانوں کے ادارے قائم ہوئے ہیں سب کے سب اسی گروہ بندی میں مبتلا ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ الہ واحد کی بندگی کے بجائے ایک طرح کی Cult-worship میں مبتلا ہیں ۔ان کے لیے اس فرقے یا گروہ اور مسلک نے ہی الہ کا مقام حاصل کر رکھا ہے اور اپنے اکابرین کی تشریح و تعبیر کو پیغمبرانہ حد تک سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اسی صورت حال کابیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ: ”جن لوگوں نے دین میں فرقہ بندی کی اور گروہوں میں بٹ گئے ان کا (اے محمد ) آپ سے کوئی تعلق نہیں “ (انعام: 159) ۔ ہماری موجودہ دین داری جس پر بد قسمتی سے گروہ بندی اور مسالک کا رنگ نمایاں ہے ، ہماری مساجد اور مدارس جس طرح مسالک اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں یا جس طرح ہم دین کی فقہی تعبیر کے نام پر آج خود کو حنفی اور شافعی خانوں میں پاتے ہیں اس کے بعد اس حقیقت کا ادراک کرنے میں کچھ زیادہ دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ حبل اللہ ہمارے ہاتھ سے پھسل چکی ہے ۔ اس بھری کائنات میں آج کون ہے جو لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلارہاہو۔ ہر مسجد سے اور ہر مدرسہ کے مسند ارشاد سے بس اسی بات کی دعوت دی جارہی ہے کہ آؤ ہمارے فرقے میں شامل ہوجاؤ، دین خالص کے علمبردار تو ہم ہی ہیں۔کہنے والوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ دین کے نام پر وہ کس بد ترین قسم کی فرقہ پرستی میں مبتلاہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کے تمام ہی گروہ یا فکری حلقے اپنی دینی مشین کو متحرک رکھنے کے لیے اپنے اکابرین کی کتابوں پر انحصار لازم خیال کرتے ہیں۔قرآن کی موجودگی کے باوجود کیا اس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ کسی فقیہ و مفسر یا امام یا اہل دل کی کتابوں کو فہم دین میں سند کا مرتبہ حاصل ہو۔ہمیں تو واضح طور سے یہ بتایا گیاہے کہ”ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو بینات آجانے کے بعد بھی فرقہ بندی اور اختلاف کا شکار ہوگئے،ایسے لوگوں کے لیے بڑاعذاب ہے“۔(آل عمران:105)۔ذراٹہر کر ایک لمحہ کے لیے یہ غور کریں کہ جو کتاب کسی رسول کے نام پر بھی گروہ بندی کی اجازت نہیں دیتی ہو وہ اس بات کی اجازت بھلا کیسے دے سکتی ہے کہ اس کے ماننے والے غیر نبیوں کے نام پر مختلف فرقے وجود میں لے آئیں؟ ﴿کونوا ربانین﴾ کی قرآنی دعوت انقلاب آج ہم سے پوچھتی ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ محمد رسول اللہﷺ کے ماننے والوں نے اپنی تاریخ کے ایک مرحلے میں حنفی شافعی، شیعہ سنی ،بریلوی دیوبندی اور سلفی جیسی جماعتی شناختوں کو قبول کرلیا ۔آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ کبھی توحید خالص کے علمبردار دین کے حوالے سے بدترین قسم کی فرقہ پرستی میں مبتلا ہوگئے اور انھیں رفتہ رفتہ یہ سب کچھ معمول کی زندگی لگنے لگی۔ Cult-worship میں مبتلا مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو (بد قسمتی سے آج جس میں جمہور امت گرفتار ہے) قرآن کی یہ صریح آیت کیوں نظر نہیں آتی کہ: ” جن لوگوں نے دین میں فرقہ بندی کی، گروہوں میں بٹ گئے ان کا کوئی تعلق اب محمد ﷺ سے نہیں رہ گیا“۔(انعام: 159)
شرک کا یہ قالب کہ وہ مذہب کے حوالے سے اہل مذہب کے دل ودماغ پر اپنے ڈیرے جمائے انسانی تاریخ میں نیا عمل نہیں ہے ۔درختوں، سورج،چاند کی پوجا ایک ایسا کھلا شرک ہے جسے عام نگاہیں بھی دیکھ لیتی ہیں۔البتہ دین کے نام پر فرقہ بندی یاکسی خاص تعبیر دین کو دین قرار دینا اور اس کی پرستش میں مبتلا ہوجانا ایک ایسا عمل ہے جس کی سنگینی کا اندازہ ہر خاص و عام کو نہیں ہوتا ۔افسوس کہ آج پوری قوم اس شرک میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہے جس کو دین کا حصہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور یہی نظام ہماری دینی درسگاہوں میں پڑھایا جارہا ہے۔ اہل فکر مسلمانوں کو اب یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اسلام کا مستقبل ان روایتی علماء اور ان دینی اداروں کے ہاتھوں محفوظ ہے یا نہیں؟ہم اب تک یہ سمجھتے رہے ہیں کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں لہٰذا اسے ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کو انھوں نے دین کی حفاظت پر مبنی سمجھا ہے ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان دینی اداروں کے ذریعے اسلام کی جو تشریح و تعبیر سامنے آرہی ہے وہ سراسر عقل و قرآن کے خلاف ہے ۔ اگر اسلام کو انہی روایتی علماء کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا تو خطرہ ہے کہ وہ فقہاء یہود کی طرح اسے ایک پیچیدہ فن میں تبدیل کردیں گے اور عام انسانیت کے لیے اسلام میں کوئی کشش باقی نہیں رہ جائے گی۔جب تک اہل فکر مسلمان اس بات کی کوئی منظم کوشش نہیں کرتے کہ دین مبین کی تشریح و تعبیر کا حق کچے پکے مفتیوں اور نیم خواندہ مولویوں سے لے لیا جائے ،کسی طبقہ علماء پر انحصار کرنے کے بجائے مسلمان قرآن مجید پر انحصار کرے اور عام لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بات ذہن نشین ہوجائے کہ اسلام میں کسی طبقہ علماء یا روحانی پیشوائی کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے،اس وقت تک اغیار کے لیے ممکن رہے گا کہ وہ اسلام کی مضحکہ خیز تصویر پیش کرتے رہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کی حفاظت کے لیے خانقاہ و مدرسہ پر انحصار مناسب نہیں بلکہ اب خود انھیں آگے بڑھ کر اللہ کی کتاب کو تھام لینا ہوگا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ دینی مدارس جنھیں اسلام کے قلعے سمجھا جاتا ہے وہاں دین و اسلام کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں۔ان نام نہاد دینی مدارس میں اول تو دین واسلام کی تعلیم کے نام پر ان معصوم بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ۔علم کے نام پر مسلکی و فقہی نصاب پڑھایا جاتا ہے ۔ اس نام نہاد تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس میں اتنی بھی صلاحیت باقی نہیں رہتی کہ وہ قرآن کی کسی ایک آیت کی تشریح کرسکے اور جدید مسائل کا حل پیش کرسکے ۔ان معصوم بچوں کو عصری تعلیم سے دور رکھ کر یہ محض جاہلوں کی ایک ایسی فوج تیار کررہے ہیں جو نہ خود اپنے کام کی ہے اور نہ ملت و معاشرے میں کوئی اپنا مقام پیداکرسکتی ہے۔الغرض یہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے امت مسلمہ کی ان نوجوان نسلوں کی دین و دنیا بربادکرہے ہیں جن کی پرورش کی ذمہ داری امت مسلمہ نے انھیں سونپی ہیں ۔کیا وہ واقعی ان ذمہ داریوں کو پورے حق کے ساتھ ادا کررہے ہیں؟ یقینا نہیں، یہ امت مسلمہ کے خائن و مجرم ہیں جنھوں نے محض اپنے مفادکی خاطر دین و اسلام کو محض استعمال ہی کیا ہے ۔
اخبار صحافت میں ایک خبر ”دینی مدارس میں بھی بچوں سے کروائی جاتی ہے بچہ مزدوری “ شائع ہوئی تھی ۔ جس میں بتایا تھا کہ سال 2008ء کے دوران جہانگیر چاہو نے تقریباً 25 بچوں کو بہار سے لا کر دہلی کے ایک دینی مدرسے میں داخل کرادیا تھا ،جہاں پر انھیں صرف دو گھنٹے کی تعلیم دی جاتی تھی اور پھر بھوکے پیٹ مختلف کارخانوں، دکانوں اور سیٹھوں کے یہاں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور جب یہ کام کی جگہ پہنچتے ہیں تو انھیں ناشتے میں ایک چائے کی پیالی اور ڈبل روٹی کے دو سلائس دیے جاتے ہیں جن کو طلبا IODEXلگا کر کھا لیتے ہیں۔ جی ہاں وہی آئیوڈیکس جس کا استعمال ہم درد بھگانے کے لیے یا مالش کی شکل میں کرتے ہیں ۔
ایک دفعہ ایک مسجد جہاں یتیم خانہ بھی تھا، جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں بعد نماز طہارت کی غرض سے جب بیت الخلاء میں داخل ہوا تو اس کے دروازے سے ان مدارس میں زیر تعلیم طالب علموں کی ذہنیت کا بخوبی اندازہ ہوا۔مساجد کے ان بیت الخلاء کے دروازے پر ہاتھوں سے بنائی ہوئی فحش تصاویر تھی جو ان کی گندی ذہنیت کی ترجمانی کررہی تھی ۔ اسی طرح ایک دفعہ سائبر کیفے میں میرے سامنے مدارس کے چندلڑکے جو نام نہاد اسلامی لباس میں پہنے ہوئے تھے، اسلامی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ فحش ویب سائٹ بھی دیکھ رہے تھے۔ دریافت کرنے پر یہ پتہ چلا کہ وہ قریبی مسجد میں واقع یتیم خانے کے طالب علم ہیں ۔یہ بات میں تحقیق کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ اکثر یتیم خانوں میں طالب علم اغلام بازی، ہم جنس پرستی میں ملوث پائے گئے ہیں ۔یہ وہی گناہ عظیم ہے جس میں لوط علیہ السلام کی قوم ملوث تھی اوروہی نازیبا حرکت دینی مدارس کے طالب علم اور ان کے اساتذہ بھی کرتے ہیں تو غیراور ان میں آخر کیا فرق رہ گیا؟ کیا اب بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ؟ان کے کارنامے کوجاننے کے بعد کوئی بھی ذی عقل فرد انھیں اسلام کے محافظ قرار نہیں دے سکتا بلکہ اپنے اس منافقانہ عمل سے انھوں نے اسلام کو داغ دار کیا ہے۔ انھیں چاہیے کہ یہ اپنے عمل کا احتساب کریں اور اپنی اصلاح کرکے خود کواس لائق اور قابل بنائیں کہ واقعی اسلام کے محافظ اور قلعے ثابت ہوسکیں ۔
(۲)کیا دینی مدارس میں عصری تعلیم ضروری نہیں؟
افسوس صد افسوس ! ہم اس صورت حال سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے کہ تمسک بالکتاب والسنہ کے حاملین مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں خود کو حاشیے پر محسوس کرتے ہیں ،قال اللہ و قال الرسول کی درسگاہیں خواہ اپنے بارے میں کتنے ہی اعلی خیالات رکھتی ہو ں واقعہ یہ ہے کہ جدید دنیا میں ان کا وجود بے محل ہوکر رہ گیا ہے ۔اب دنیا کا انحصار ان پر نہیں بلکہ وہ دنیا پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔علوم کے سلسلے میں ہمارے تراشیدہ التباسات نے ہمیں تاریخ کے Dustbinمیں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے ،اب جو لوگ اس صورت حال پر ماتم کناں ہیں اور شدت جذبات میں سب کچھ کر گزرنے کے لیے خود کوآمادہ پاتے ہیں انھیں اس سنگین صورت حال سے نکلنے کاکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔قدیم علماء کی تعبیرات اور فقہاء کی تحریریں چونکہ مدافعت اور مزاحمت کے فکری سانچے میں تیار کی گئی ہیں اس لیے وہ شوق شہادت تو پیدا کر سکتی ہیں البتہ ان سے کوئی راستہ نہیں مل سکتا ۔
افسوس صد افسوس! روایتی دانش گاہوں میں علماء و شیوخ اس التباس فکری کے شکار ہیں کہ وہ وارثین انبیاء اور طالبان نبوت ہیں، علم کی حقیقی خدمت صرف وہی انجام دے رہے ہیں اور ان ہی کے حوالے سے آخرت کی فلاح و نجات کا فیصلہ ہونا ہے۔ مسلمانوں میں علم شرعی کی روایت جس کا سلسلہ صدیوں سے چلا آتا ہے دراصل ان کے دور زوال کی پیداوار ہے۔ استعمار سے پہلے جہاں بھی جس شکل میں بھی مسلم حکومتیں باقی رہیں ،مسلمانوں کی درسگاہیں علم کی اس شرعی اور غیر شرعی تقسیم سے نا آشنا تھیں ۔اس بات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ روایتی درسگاہوں کے نصاب میں آج بھی ان علوم وفنون کے باقیات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو اپنے وقت میں عصری علوم کی ترقی یافتہ شکل سمجھے جاتے تھے ۔منطق و فلسفہ،ریاضی اور علم ہیئت ،علم کلام اور عروض و بلاغت جیسے مضامین جو آج اپنی موجودہ شکل میں اذکارِرفتہ معلوم ہوتے ہیں اپنے عہد میں عصری آگہی سے واقفیت کی دلیل سمجھے جاتے تھے۔ البتہ جب سے مسلم اہل فکر نے یہ سمجھ لیا کہ ان دانش گاہوں کاکام اب محض دین کی حفاظت ہے اقوام عالم کی قیادت و سیاست کا زمانہ جاچکاتب سے علم شرعی کے حاملین خالصتاًمدافعت کی نفسیات کے اسیر ہوگئے ۔فکر و نظر کایہ زوال چند برسوں کی بات نہیں بلکہ اس کی جڑیں دور بہت دور ماضی بعید میں پائی جاتی ہیں ۔
دینی مدارس جو علم شرعی کے حوالے سے اپنی دینی حیثیت پر استدلال کرتے ہیں ان کے پیش نظر اگر صرف یہ مقصد ہو کہ وہ مسلم معاشرے کے لیے واعظ و خطیب، امام اور قراء پیدا کریں گے جس کی بہرحال مسلم معاشرے کو ضرورت ہے تو محض اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر متخصصینکی دانش گاہوں کی ضرورت نہ ہوگی کہ یہ ہدف مختصر عرصے میں جزوقتی نصاب کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔البتہ اگر ان کا مقصد ایسے علماء و مفکرین پیداکرنا ہے جو جدید دنیا کی فکری وعملی قیادت کرسکیں تو یہ کام یقینا ان دانش گاہوں سے نہیں ہوسکتا جہاں قدامت کو جزو نصاب سمجھا گیا ہے اور جہاں طلباء و اساتذہ کو اس بات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی کہ نئی دنیا میں اقوام و ملل کے سامنے اس وقت کون سا ایجنڈا معرض بحث ہے ۔
افسوس صد افسوس! امت مسلمہ کا تمام تر انحراف اور اس کے زوال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کے ارد گرد تاویلات کا حصار کھڑا کررکھا ہے۔ہم کسی مسئلے پر قرآن کو بولنے ہی نہیں دیتے۔اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسئلہ مذکورہ پر ہمارے مکتبہ فکر کے فقہاء نے کیا لکھا ہے۔رہے وہ مسائل جن کا بیان ان کتب میں نہیں پایا جاتا تو ہم ہر نئی چیز کی اس وقت تک مزاحمت کرتے ہیں جب تک وہ رائج ہوکر ہمیں خود اپنے حصار میں لے لے۔لاؤڈاسپیکر کے استعمال سے لے کر مشینی ذبیحے تک ہمارے علماء نے پہلے توہر چیز کو حرام قرار دیا پھر رفتہ رفتہ وہی حرام اتنا پسندیدہ ہوگیا کہ اب مائک کے بغیر کوئی مولوی تقریر کرنا پسند نہیں کرتا۔اب وہ A.C.بند کمروں کو اپنی رہائش اور کہیں جانے پر ان کمروں میں ٹہرنے کو پسند کرتا ہے اور A.C گاڑیوں کے بغیر سفر نہیں کرسکتا ۔
یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ اسلام تعلیم میں کوئی تفریق نہیں کرتا ۔مومن کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ دنیا سے بے خبر نہیں رہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم کو اس میعار وسطح تک رائج کیا جائے کہ وہاں سے فارغ ہونے والا طالب علم دنیا کی قیادت کو سنبھالنے کے لائق ہوسکے اور صحیح دین اسلام کو اپنے عمل کے ساتھ تمام اقوام عالم کے روبرو پیش کرسکے ۔ کیا ہمارے دینی مدارس اس کے لیے تیارو آمادہ ہیں؟
(۳)دینی مدارس خود کفیلی کی راہ پر گامزن کیوں نہیں؟
درحقیقت دینی مدارس پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو دین کے نام پر اپنا پیٹ پالنا نیز اپنی چودھراہٹ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ وہ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔خود کفیل ہونے کے بجائے چندے کے دھندے کو فروغ دے رکھا ہے۔ نام نہاد علماء کرام کی جماعت بڑی عیاری کے ساتھ عوام الناس کو یہ باور کرانے میں تقریباً کامیاب ہے کہ زکوة کا استعمال صرف وہی ہے جو وہ کہہ رہے ہیں ،باقی قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کا تذکرہ یہ جان بوجھ کر نہیں کرتے۔ اگر یہ کرنے لگے تو مدارس کے چندہ میں جس میں زکوة کی رقم نوے فیصد ہوتی ہے ،جس میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد رقومات ان کے پیٹ میں جاتا ہے اس کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ان مدارس سے ہر سال تقریباً ہزاروں نام نہاد علماء کی سند لے کر نکلتے ہیں۔چونکہ ان مدارس میں رزق حلال کو کمانے کا کوئی معقول ہنر سکھایا نہیں جاتا اس لیے باہر آکر مذہبی دوکانداری چلانے کے علاوہ اور کوئی چارہ ان بیچاروں کے پاس نہیں ہوتا۔افسوس کہ نام نہاد نصاب میں بھی یہی سب کچھ پڑھایا جاتا ہے۔یہ کنویں کے مینڈک جب حقیقی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو اپنی نااہلی کے سبب خود کو عاجز وبے بس پاتے ہیں اور خوداس نام نہاد مولویت کے نظام باطل کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
دینی مدارس اگر چاہیں تو خود کفیل بن کر اس مجبوری سے نجات پاسکتے ہیں۔ہر سال اپنے اخراجات کے نام پر بھیک مانگنے کے بجائے خودداری کی زندگی جینے کے لیے مندرجہ ذیل تدابیرکو سنجیدگی کے ساتھ عمل میں لایا جائے تو یقینا ان تما م خبائث سے چھٹکاراحاصل ہوسکتا ہے۔خودکفیل وخودمختاری کے حصول سے آپ بنا کسی دباؤ اور غلامی کے دین کو صحیح طور پر اخذکرنے کے قابل بن سکتے ہیں:
(۱) وہ دینی مدارس جن کے پاس کئی ایکڑ زمین ہے،اسے اگر وہ صحیح مصرف میں لے آئیں تو وہ خوداپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں بس ضرورت ہے خود اعتمادی ومحنت کی۔ ان جگہوں پر وہ یا تو Fish Farmingکرسکتے ہیں ،یا Organic Farmingکرسکتے ہیں ۔Food Organicکی شہروں میں بہت مانگ ہے ۔
سب سے آسان شئے Wheat Grassگیہوں کی بالیاں اُگاکر شہروں میں سیل کرسکتے ہیں ۔
(۲) Goat Farming اور بھیڑپالن کو اپنا کر عید الاضحی کے موقعے پر اسے فروخت کیا جاسکتا ہے اور بھیڑ کے اون نکال کر بھی اسے بیچنے پر اچھی خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔
(۳) مدارس میں زیر تعلیم طالب علم کے رحجان کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے Vocational Career کے کئی کورس شروع کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً کارپینڑی کا کام سکھاکر آپ خود ان سے Furniture بنوا کر قریبی شہرمیں سیل لگا کر فروخت کرسکتے ہیں اور اسکول کے لیے Deskبنانے کا Contract لے سکتے ہیں۔اسی طرح Fabrication کا کام سکھا کر جالیاں گریل بنانے کا کام بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح Electrician،Mechanical اور کمپیوٹر کی مرمت کا کام بھی سکھا یا جاسکتا ہے ۔حکومت کے ادارے خود اس طرح کے کاموں کو شروع کرنے کے لیے مالی تعاون فراہم کرتی ہیں جس کا فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔
(۴)ان مدارس کے بچوں کو اگر عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی زبان میں ماہر بنایا جائے تو ان مدارس میں دیگر زبانوں کے تراجم کا ایک طویل ترین کام حاصل ہوسکتا ہے۔باقاعدہ مدارس پرنٹنگ پریس کے تمام کاموں کو سکھا کروہ کام حاصل کرسکتی ہیں۔
(۵) بیکری بھی کھولی جاسکتی ہے۔اور کھانے کے مختلف پکوان کا ٹفن دفترکے لوگوں کو پہنچانے کا کام بھی لیاجاسکتا ہے ۔اسی طرح مٹھائی بناکر فروخت کیا جاسکتا ہے ۔
اس طرح کئی کام کیے جاسکتے ہیں جس سے نہ صرف مدارس کی آمدنی کے کئی ذرائع بیک وقت کھل جائیں گے بلکہ زیر تعلیم طالب علم بھی ہنرمند ہوکر خودکفیل ہوسکیں گے۔بہت پہلے سنڈے ٹائمز میں چین کے ایک بدھسٹ مذہبی خانقاہ کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں یہ بات عیاں کی گئی تھی کہ اس خانقاہ کے لوگ صبح ۴ بجے اٹھکر پالی ہوئی مویشوں کا دودھ نکال کر اس سے مکھن اور پنیر بنا کر ہندوستان سے باہر کے ممالک کو فروخت کرتے ہیں ۔اس آمدنی سے وہ ایک یتیم بچوں کا اسکول بھی چلاتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم بھی زکوة و خیرات کی راہ کو چھوڑکر خود کفیلی کی راہ کی جانب قدم بڑھائیں جس کو اختیار کرنے پر نہ صرف دینی مدارس کی خرابیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے گا بلکہ زکوة و صدقات کی جو رقومات دینی مدارس کی نذر ہوجاتی ہیں وہ رقومات اب امت مسلمہ کے دیگر اہم ترین ضروری کاموں پر صرف ہوسکے گی۔کیا ہم اس کے لیے تیار و آمادہ ہیں؟
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai