دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے:
{ہَااَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَمِنْکُمْ مَنْ یَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہِ وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَائُ وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْo} [محمد:۳۸]
''سنو! تم وہ لوگ ہوکہ تم بلائے جاتے ہو، تاکہ اللہ کی راہ میں خرچ کر و، توتم میں سے کچھ وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ در حقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے اور اللہ ہی بے پروا ہے اور تم ہی محتاج ہو اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے۔''
اپنے ایمان والے بندوں کو ارتداد سے بچانے کے لیے اللہ عزوجل نے اس طرف جانے والے ہر راستے کو کاٹ دیا ہے اور اُنہیں سب سے اوّل ان یہود و نصاریٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے خوب متنبہ فرمایا ہے کہ جو مسلمانوں کے بارے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دین حق سے پھیر دیں اور انہیں اپنے جیسا کافر اور اللہ کا دشمن بنالیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَo} [آل عمران:۱۰۰]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اگر تم ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا مانو گے، جنھیں کتاب دی گئی ہے، تو وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔''
دوسرے مقام پر فرمایا:
{وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیِ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo} [البقرہ:۱۰۹]
''بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کاش! وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ ان کے لیے حق خوب واضح ہو چکا۔ سو تم معاف کرو اور در گزر کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔''
اہل کتاب کی کسی سچائی کی کوئی ضمانت نہیں ہے، اس لیے کہ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کو فتنے میں مبتلا کردیا کہ جنہوں نے ان سے اپنے دین کے بارے میں دوستی کی۔
اللہ رب العالمین نے اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ سے دوستی لگانے اور مومنوں مسلمانوں کے علاوہ ان کو دوست بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo}[آل عمران:۲۸]
''ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔''
اللہ رب العالمین نے اس بات کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کافروں کی کسی طرح کی کوئی عزت ہو۔ اس لیے کہ عزت پر سارا حق اللہ رب العزت کا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے یہود و نصاریٰ، دنیا جہان کے کفار و مشرکین اور منافقین کے متعلق عزت و اکرام کا انکار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ کافروں کی دوستی والی راہ پر نہ چلیں۔
{الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَیَیْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًاo} [النساء:۱۳۹]
''وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ تو بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔''
جی ہاں! ہر طرح کی تمام تر عزت کا حق صرف اور صرف ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہے، وہ تنہا و یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک، حصے دار نہیں اور یہ کہ وہ اس عزت و احترام میں سے جس کو جتنا چاہے حصہ عطا فرمائے۔ یہ بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَ الَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُo}[الفاطر:۱۰]
''جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہو گی۔''
اس ترغیب اور جوش دلانے کا مقصد اللہ رب العزت کی طرف سے عزت کی طلب اور اس کی عبادت و عبودیت پر مکمل توجہ اور اس ضمن میں اس کے ان تمام مومن بندوں کا انتظام کرنا ہے کہ جن کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اللہ عزوجل کی مدد حاصل رہتی ہے اور قیامت والے دن بھی ان کو اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان جیسے مرتد کافروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے کہ جب وہ دین حنیف کے بارے میں ٹھٹھہ اڑا رہے ہوں تو وہ ان سے دور ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
{وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزَاُ بِہَافَـلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَاo} [النساء:۱۴۰]
''اور بلاشبہ اس نے تم پر کتاب میں نازل فرمایا ہے کہ جب تم اللہ کی آیات کو سنو کہ ان کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ بے شک تم بھی اس وقت ان جیسے ہو، بے شک اللہ منافقوں اور کافروں، سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔''
اس سے قبل سورۃ الانعام کی آیت ۶۸ میں یہ حکم نازل ہوچکا تھا مگر اس کے باوجود منافقوں کی یہ روش تھی کہ مسلمانوں کی مجالس کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں جاشریک ہوتے اور وہاں آیات الٰہی کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا۔ آیت ہذہ میں اس روش کی طرف اشارہ ہے۔ ویسے اس آیت کا حکم عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ چاہے وہ مجلس کفار و مشرکین، یہود و ہنود کی ہو یا اہل بدعات کی۔ اس آیت کے مطابق شریعت کا حکم یہ بھی ہے کہ اگر تم نے اس نہی کے آنے کے بعد بھی اے مسلمانو! کفار و مشرکین، ہنود و یہود اور اہل بدعات و خرافات کی اُن مجلسوں میں بیٹھنے والے جرم کا ارتکاب کیا کہ جن میں اللہ کی آیات کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہو تو اس گناہِ عظیم میں تم بھی ان کے برابر شریک ہوگئے۔ اس لیے کہ تم نے ان کے ساتھ بیٹھنے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور یہ جو اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَا} تو اس کا معنی ہے کہ جس طرح انہوں نے کفر میں ان کے ساتھ مشارکت کی اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان کو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھنے میں ان کو اکٹھا کردے گا۔ وہاں ان کو سخت سزا اور عذاب کے گھر (جہنم) میں بیڑیوں کے لگنے، گلوں میں طوقوں کے ڈالے جانے، کھولتی ہوئی پیپ کے پینے اور تھوہر کے درخت کھانے میں ایک دوسرے کا ساتھی اور سانجھی بنا دے گا۔ العیاذ باللہ1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1تفصیل کے لیے دیکھیے: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر ۱ ص ۵۸۰ اور تفسیر الطبری۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند