• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اورمذہب میں فرق:

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
سم اللہ الرحمن الرحیم
اکثر لوگ دین اور مذہب کے فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور غیر شعوری طور پر دین اسلام کو بھی مذہب ہی سمجھتے ہیں حالانکہ دین اور مذہب میں دن اور رات کا فرق ہے اس بھی امت کی بدنصیبی ہی سمجھ لیں کہ مذہبی اجارہ داری ،،پیر،گدی نشین اور فتوے ساز اس فرق کو واضح کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اپنی دکانداری کے مندا پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے-
مذہب جہاں غیر اسلامی لفظ ہے وہاں امت کے متحد ہونے میں بھی حائل ہے موجودہ مذاہب اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں-یاد رہے جب مذاہب کا وجود نہیں تھا تو پوری امت ایک تھی اور ان کا دین بھی ایک تھا لیکن جب سے عقیدت مند غلو کے نشے میں مست ہوۓ اور تقلید کی مے کو منہ سے لگایا اس وقت سے امت کا شیرازہ بکھر گیا اور اب لاکھ کوشش کے باوجود سنبھلنے میں میں نہیں آرہا لہذا مذاہب سے دستبردار ہونے اور فرقوں کو خیر باد کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.اس پر جب ہی عمل ہو سکتا ہے کہ دین اور مذہب کے فرق کو واضح کیا جاۓ لیکن اس سے پہلے دونوں الفاظ کے معانی اور مفہوم پر غور کرلیا جاۓ تاکہ آئندہ کی تحریر سمجھنے میں آسانی ہو-
دین اور مذہب کا مفہوم اور معانی
دین] دین کے معانی ہیں،بدلہ،
{منجد}
اس کے ساتھ جب لفظ، یوم، لگے گا تو اس بدلے کا دن کہا جاۓ گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے-
مالك يوم الدين
{فاتحه-3}
اللہ مالک ہے روز جزا کا یعنی بدلے (قیامت) کے دن کا-
دین کے معنی،قانون،کے بھی ہیں { منجد }
قرآن مجید میں لفظ،دین، قانون کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے
ما كان ليا خذاخاه فى دين الملك الآان يشآء الله
{يوسف-76}
یوسف علیہ السلام بادشاہ وقت کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ چاہے-
اور دین کے ساتھ جب،اسلام، استعمال ہو گا تو اس سے مفہوم لیا جاۓ گا اسلامی قانون جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہے-
ان الدين عندالله الاسلام
{آل عمران-19}
بیشک اللہ تعالی کے نزدیک دین (قانون) تو اسلام ہی ہے-
رضيت لكم الاسلام دينا
{مائده-3}
اللہ تعالے نے تمہارے لئے اسلام کو دین یعنی قانون کے طور پر پسند کیا ہے
مذہب] ذہب- جانا، گزرنا، چلنا،
{منجد}
مذہب- طریقہ،اعتقاد، روش
{منجد}
مذہب عربی گرامر کی روسے اسم ظرف ہے جس میں کسی بھی فعل کی جگہ یا وقت پایا جاتا ہے-
{تسہیل الادب فی لسان العرب جز ثانی }
اس لحاظ سے مذہب کے معنی ہوۓ جانے کی جگہ یا جانے کا وقت، جانے کی جگہ کے معنوں کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے-
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان اذا ذهب المذهب البعد-
{سنن ابوداؤد كتاب الطهارة باب قضائ حاجت}
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم جب جانے کی جگہ یعنی قضاۓ حاجت کی جگہ جاتے تو دور جاتے-
لیکن عرف عام میں لقظ مذہب فرقوں کے راستے اور طریقوں کےلئے بولا جاتا ہے
جیسا کہ لغت کی کتابوں میں درج ہے-
اسلام کے مشہور مذہب چار ہیں،حنفی،شافعی،حنبلی اور مالکی،
{المنجد صفحہ 357}
اسلام کے مشہور مذہب چار ہیں،حنفی،شافعی،حنبلی اور مالکی،
{مصباح اللغات صفحہ 268}
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسلام کے ماننے والے اسلامی قانون اور اسلامی نظام زندگی کو دین یا دین اسلام کے طور پر ہی قبول کرتے اور متعارف کراتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا- بلکہ دین کے مقابلہ میں خود ساختہ لفظ مذہب کو اختیار کیا گیا جس کا نہ تو قرآن مجید میں کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی احادیث میں- بلکہ احادیث میں جس مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کو اسلام کے لئے استعمال کرنا اسلام کی توہین ہے جو اہل اسلام کو زیب نہیں دیتا- اب تو لفظ مذہب اتنا عام ہو چکا ہے کہ اسلام کو دین کے بجاۓ مذہب کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے اور یہ سب مذہبی اجارہ داروں ہی کا کیا ہوا ہے.
دین اور مذہب کا فرق قران و حدیث سے:
دین]
دین شرع لفظ ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے
مذہب]
مذہب غیر شرع لفظ ہے جو قرآن و حدیث میں اس مطلب کے لئے استعمال نہیں ہوا-
(2)
اللہ تعالے کے ہاں تو دین اسلام ہی ہے-
بےشک اللہ تعالے کے ہاں تو اسلام ہی دین ہے
{آل عمران 19}
(2)
مذاہب کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ مذاہب تو فرقے ہیں.
(3)
دین اسلام اللہ تعالے کا پسندیدہ ہے
اللہ تعالی نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے
{مائدہ-3}
(3)
اسلام میں مذاہب اور فرقوں کا کوئی وجود نہیں بلکہ تصور تک نہیں لہذا مذاہب خود ساختہ ہوۓ اور خود ساختہ چیز اللہ کو پسند نہیں کرتی
(4)
دین مکمل ہے
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا
{مائدہ-3}
(4)
مذاہب نامکمن ہیں
مذاہب میں خود ساختہ فتوے جاری ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا گویا اہل مذاہب کا ضابط حیات نامکمل ہے-
(5)
دین خالص ہے
خبردار اللہ کا دین تو خالص ہے
{زمر-3)
(5) مذاہب خالص نہیں ہیں ان میں مختلف لوگوں کے فتوں،رایوں اور قیاسوں کی آمیزش ہے
(6)
دین اللہ تعالے کا منتخب کردہ ہے
بےشک اللہ نے تمہارے لئے دین منتخب کیا ہے
{بقرہ-132)
(6)
مذاہب بندوں کے منتخب کردہ ہیں اللہ کا نہیں
(7)
دین ہی قابل قبول ہے
جو کوئی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا متلاشی ہو تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جاۓ گا
{آل عمران-85}
(7)
مذاہب چونکہ خود ساختہ ہیں اور دین کی ضد ہیں لہذا قبول ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-
(8) جہاد اس لئے کیا جاتا ہے کہ دین سب کا سب اللہ کا ہو جاۓ
لڑو ان سے یہاں تک فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہو جاۓ-
{انفال-39}
(8)
جہاد اس لئے کیا جاتا ہے کہ مذاہب جو بعض شخصیات اور شہروں سے منسوب ہیں باقی رہیں.
(9)
رسول تو صرف دین ہی لے کر آتا ہے
اللہ تعالے نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے
(توبہ-33}
(9)
مذاہب کا رسول سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ان کی نسبت دیگر شخصیات سے ہوتی ہے-
موجودہ صورت حال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے-
بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں
{انعام-159}
(10)
دین میں فقہ خیر کا سبب ہے
جس کے ساتھ اللہ تعالے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین میں فقہ عطا کرتا ہے
{صحیح بخاری وصحیح مسلم}
اسلام کا دعوی کرنے والوں کو چاہئے کہ ایسے اعمال سے باز رہیں بلکہ سخت نفرت کریں جن سے اسلام جیسے مکمل، مدلل اور معتدل دین پر زد پڑتی ہو کیونکہ دین اسلام ہی ہماری بقا اور نجات کا ضامن ہے
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
دین “ قانون کو کہتے ہیں اور اسے عملی زندگی میں اپنانے کے طریقہ کو ”مذہب“ کہتے ہیں۔
”دین“ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور ”مذہب“ اس قانون کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ نبی کی رہنمائی وحیٔ الٰہی سے ہو رہی ہوتی ہے اس لئے اگر ان سے کہیں سمجھ کی غلطی ہوتی ہے تو وحی سے تصحیح کردی جاتی ہے۔
اگر امتی نبی کی بات کو سمجھنے میں نبی کی حیات میں غلطی کرے تو اس کی اصلاح کردی جاتی تھی۔ بعد میں کسی امتی کے سمجھنے میں اگر غلطی ہو تو ممکن ہے کہ مدت مدید تک بلکہ ہمیشہ کے لئے وہ عمل میں لائی جاتی رہے اسے صحیح سمجھتے ہوئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ایسا ہؤا۔ دو”گروہ“ بنے مگر فہم کے اختلاف کی وجہ سے اس لئے مطئون نہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو سمجھنے کا اختلاف ہؤا۔ اس کے نتیجہ میں کئی طبقات معرض وجود میں آئے۔ آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے چار تک رہ گئی۔
فقہی اعتبار سے اسوقت بھی دنیا میں صرف چار طبقات ”حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی“ پائے جاتے ہیں۔ نظریاتی اور فکری اعتبار سے اختلاف رکھنے والے بہت سے گروہ ہیں جو اپنے کو مسلم ہی کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے خوصورت ناموں کی ملمع کاری سے کام لیا ہؤا ہے مگر حقیقتاً یہ کیا ہیں اس سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بعینہ اسی عنوان سے ایک موضوع یہاں بھی ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
دین

ایک ضابطہ حیات
دین ایک ضابطہ ہے جو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ یہ عبادات، معاملات اور اور معاشرت کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ قرآن میں اس کا اجمال ہے یعنی اس کی حدود بیان کی گئی ہیں (سوائے چند ایک کے) جس کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہے۔
مذہب

ضابطہ کا عملی نفاذ
اللہ جل شانہٗ کے وحی کردہ ضوابط کا عملی نفاذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول، فعل اور تقریر سےکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے نمونہ قرار دی گئی ہے۔ اس کے مطابق اپنی زندگی گذارنے واا ہی راہِ نجات پر چلنے والا ہے۔
فقہی اختلاف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے فہم میں اختلاف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے بیان میں اختلاف یا اس کی تخصیص میں اختلاف اس کا سبب بنا۔
یہ اختلاف ایک بدیہی امرہے اور اس سے گریز ناممکن ہے۔ ہاں البتہ جو بنیاد کو ملیامیٹ کرتے ہوئے اختلاف کرتا ہے بلکہ اختلاف کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ مبغوض ہے ایسوں سے بچنا چاہیئے اگر آخرت کی فکر ہے۔
فقہاء کا شمار ”خیار“ میں ہوتا ہے قرآن و حدیث میں فقہاء کی مدح کی گئی ہے۔ فقیہ قرآن و حدیث سے مسائل کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک خاتون نے (جو کہ مردوں کو غسل دیا کرتی تھی اور حائضہ تھی) محدثین کرام سے پوچھا کہ کیا میں میت کو غسل دے سکتی ہوں؟ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں ایک فقیہ کا وہاں سے گزر ہؤا تو ان محدثین نے کہا کہ اس سے پوچھ لو۔ جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میت کو غسل دے سکتی ہو کہ حیض تمہارے ہاتھوں میں نہیں۔ انہوں نے حدیث مبارکہ ہی سے مسئلہ اخذ کیا۔
اختلافِ مذاہب
اختلافِ مذاہب اسی قبیل سے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کا ایک گروہ ایک علاقہ کی طرف بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ نمازِ عصر آپ لوگوں نے فلاں جگہ جاکر پڑھنی ہے۔ اثناء راہ انہیں دیر ہوگئی اور ہؤا یہ کہ اگر وہ مطلوبہ جگہ جا کر نماز پڑھتے ہیں تو نماز قضا ہوتی ہے۔ ان میں دو طبقات بن گئے۔ ایک کہتا کہ نماز بھلے قضا ہوجائے حکم چونکہ وہاں جا کر نماز پڑھنے کا ہے لہٰذا وہیں جا کر نماز پڑھی جائے۔ دووسرا کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء یہ تھی کہ تم لوگوں کو اس وقت تک وہاں ہونا چاہیئے۔ لہٰذا ایک بات میں ہم سے کوتاہی ہوگئی ہے اب نماز کو قضا نہ کیا جائے کہ یہ فی نفسہٖ جرم ہے۔ ایک گروپ نے وقت کے اندر عصر کی نماز پڑھی اور دوسرے نے اس مقام پر پہنچ کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو مأجور ہی قرار دیا۔
اسی طرح سری نمازوں میں مقتدی کی قراءت کا اختلاف ہؤا۔ ایک طبقہ نے اللہ اور اس کے رسول کی ممانعت کو مطلق لیا اور تمام نمازوں میں مقتدی کی قراءت کے قائل نہیں۔ دوسرے طبقہ نے کہا کہ جب قراءت سنائی دے رہی ہو تب تو یہ حکم ہے وگرنہ نہیں۔ انہوں نے اس حکم کو جہری قراءت کے ساتھ مشروط کیا۔
چاروں مذاہب کا مأخذ
چاروں مذاہب اہلِ سنت والجماعت ہیں اور ان سب کا مأخذ قرآن اور حدیث ہی ہے۔ اس سے باہر ہوکر اہلِ سنت رہ ہی نہیں سکتا۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ اختلاف صرف انہی باتوں میں ہے جن کو سمجھنے میں فرق ہے۔ جن کا واضح حکم سنت سے نہیں ملتا اور اس کے نظائر بھی نہیں اور اس کا حکم شرعی بھی ضروری ہو تو اس میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی مختلف فقہاءکا اجتہاد مختلف ہوسکتا ہے مگر نفس پرستی نہیں ہونی چاہیئے۔
جن باتوں کا وقوع خیر القرون میں ہوچکا اور ان پر فتاوی موجود ہیں ان پر کوئی نیا فتویٰ دینا برسرِ غلط ہوگا۔ ہاں جس علاقہ میںجس فقیہ کے پیروکار ہیں وہ اسی فقیہ کے فتویٰ کو عمل میں لائیں علیٰ ہٰذا القیاس۔
 
Top