• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اور الہ کا مفہوم درست کیجئے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
543
ری ایکشن اسکور
169
پوائنٹ
77
دین اور الہ کا مفہوم درست کیجئے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن تو اجتماعی زندگی میں ’’دین‘‘ اس نظام اور قانون کو کہتا ہے جو کسی قوم میں رائج ہو،جس پر اس کی سیاست و معیشت اور تمدن استوار ہو اور جس پر اس کی عدالتوں میں فیصلے کئے جاتے ہوں۔ یہ نظام اگر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر قائم ہو تو اس قوم کا ’’دین‘‘ اسلام ہے۔اگر ایسا نہ ہوتو وہ ’’دین الملک‘‘ ہے یا دین الجمہور، اسلام نہیں۔سورہ یوسف(آیت 76) میں {مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ} کہہ کر قرآن نے مصر کے قانون کو بادشاہ کا دین قرار دیا ہے۔

چنانچہ دین صرف وہ نہیں ہوتا جو کسی قوم کے مذہب اور دھرم کی کتابوں کے اندر بند پڑا ہوا بلکہ قرآن کی رو سے کسی ملک کا دین دراصل اس ملک کا قانون ہوتا ہے چاہے پرائیویٹ اور انفرادی زندگی میں ان کا دھرم اور عقیدہ کچھ بھی ہو۔

پھر الٰہ اور معبود وہ ہے جو انسانوں کے لئے زندگی کے ضابطے اور قانون بنائے۔ رب وہ ہے جس سے مخلوق کو جائز کے پیمانے صادر ہوتے ہوں۔ سو قرآن کی زبان میں کسی قوم کے قانون ساز اس کے ارباب اور معبود کہلاتے ہیں۔ {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللّٰهُ} (الشوری:21) ’’کیا ان کے وہ شریک جنہوں نے ان کے لئے شریعت سازی کر رکھی ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘

{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} (التوبۃ:31) ’’انہوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح بن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبدادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘

پھر عبادت اور بندگی یہ ہے کہ کسی کے قانون پر چلا جائے اور اس سے حلال و حرام کے ضابطے اور جائز و ناجائز کے پیمانے لئے جائیں۔ سو اللہ کے قانون پر چلنا اللہ کی عبادت ہے اور غیر اللہ کے قانون پر چلنا غیر اللہ کی بندگی۔

مسند احمد اور ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے، جو پہلے عیسائی تھے، بوقت قبول اسلام اس امر کا انکار کیا {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ} کہ ’’انہوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ جواب دیا تھا۔ بلی إنہم حروموا علیہم الحلال و أحلوا لہم الحرام فاتبعوہم فذلک عبادتہم إیاہم۔ ’’کیوں نہیں!وہ ان پر حلال کو حرام کرتے اور حرام کو حلال کرتے تو وہ تسلیم کرلیتے تھے۔ یہ ان کی عبادت ہی تو ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)

سو قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہی ہے کہ کسی کا قانون تسلیم کرنا دراصل اس کی عبادت ہے اگرچہ اس کام کو عبادت اور بندگی کا نام نہ بھی دیا جائے، چاہے یہ کام کرنے والوں کو معلوم تک نہ ہو کہ بندگی اور عبادت یہی ہے، جیسا کہ عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کو معلوم نہ تھا۔

قرآن کی رو سے یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی انسان خدا کہلا کر ہی خدائی کے مرتبے پر فائز ہوتا ہو جیسا کہ احبار و رھبان خدا نہ کہلاتے تھے مگر قرآن نے ان کو اربابا من دون اللہ کہا ہے۔چنانچہ ہر وہ انسان جو انسانوں کے لئے قانون صادر کرنے کا حق رکھتا ہو وہ اللہ کا شریک ہے۔

زمین کے جھوٹے خداؤں میں اس کا باقاعدہ شمار ہوگا اگرچہ اس کا لقب فرعون نہ ہو اور اگرچہ وہ عوام کا نمائندہ یا عوام کا خدمت گار کہلاتا ہو۔ یہ عبادت اور الوہیت کے مفہوم درست نہ ہوئے تو بتوں کو پوجے جانے کے لئے شکلیں بدلنی ہوں گی۔دین کا مطلب واضح نہ ہوا تو گمراہیوں اور ضلالتوں کو صرف چولے تبدیل کرنے پڑیں گے۔

از قلم : فضیلۃ الشیخ حامد محمود حفظہ اللہ
 
Top