• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین دار آدمی کا رشتہ آنے پر انکار کر کے زمین پر فساد نہ پھلائیں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دین دار آدمی کا رشتہ آنے پر انکار کر کے زمین پر فساد نہ پھلائیں !!!


ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كى شادى ( اپنى لڑكى سے ) كر دو، اگر تم ايسا نہيں كروگے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ولى كے جائز نہيں كہ وہ اپنى ولايت ميں رہنے والى عورت كو مناسب رشتہ آنے پر جس پر لڑكى راضى بھى ہو سے شادى نہ كرنے دے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ تو تم انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں}

البقرۃ ( 232 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ديندار شخص مگر فقير و تنگ دست سے شادى كرنا

ايك پچاس سالہ مطلقہ عورت كو ايك چون سالہ شخص كا علم ہوا اس شخص كى طرف ميلان كى سب سے بڑى وجہ اس كا ديندار ہونا ہے كيونكہ وہ دينى امور كا التزام كرتا ہے حالانكہ وہ تنگ دست اور فقير بھى ہے ليكن دين كى وجہ سے ميں اس كى طرف مائل ہوں.

ميں بھى دين پر عمل كرنے والى ہوں اور اسى طرح اللہ كا خوف ركھتى ہوں، ميرا ارادہ ہے كہ اپنے آپ كو عفيف بناؤں اور اس كى تنگ دستى كے باوجو اس شخص سے شادى كر لوں، ليكن ميرى ماں اس كى تنگ دستى كى بنا پر اس سے شادى كى رغبت نہيں ركھتى، كيا اگر ميں اس سے شادى كر لوں تو گنہگار تو نہيں ہونگى ؟
اور كيا اگر ميں اپنے خاوند كا خرچ برداشت كروں تو كيا مجھے ا سكا اجروثواب حاصل ہو گا، ميرا مہر صرف ايك انگوٹھى ہے كيونكہ ميں مادہ پرست عورت نہيں، اور ميں اللہ كے ليے خير و بھلائى كے كام كرنا چاہتى ہوں.
يہ علم ميں رہے كہ بيس برس سے ميں مطلقہ ہوں، اور اپنى بيس سالہ بچى كى تربيت كى بنا پر ميں نے آنے والے ہر رشتہ كو ٹھكرا ديا تھا، اور اسى طرح اپنے والد كى ديكھ بھال كرتى رہى ہوں اور اب وہ فوت ہو چكے ہيں اللہ ان پر رحم كرے، جب فوت ہوئے تو وہ مجھ پر بہت خوش تھے.

اور اب ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميرا خاوند ہونا چاہيے برائے مہربانى اس كے متعلق مجھ كچھ معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

الحمد للہ:

اگر اس شخص كا دين اور اخلاق صحيح اور پسنديدہ ہے تو اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے وہ فقير اور تنگ دست ہى ہے؛ كيونكہ ترمذى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور اس كے ليے آپ كى رضامندى سے آپ كا مال لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كو اپنے خاوند كا خرچ برداشت كرنے اور اس كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا اجروثواب حاصل ہو گا-

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ چنانچہ اگر وہ اپنى خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں ت واسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ }

النساء ( 4 ).
اور پھر فقر و تنگ دستى كوئى عيب نہيں، كيونكہ مال تو آنے جانے والى چيز ہے، اور فقير و تنگ دست غنى و مالدار بھى ہو سكتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور تم ميں سے جو مرد و عورت بےنكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى، اگر وہ مفلس و تنگ دست بھى ہوں گے تو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى بنا دےگا، اللہ تعالى كشادگى والا اور علم والا ہے }

النور ( 32 ).
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى والدہ كو مطمئن كريں اور اس كے سامنے واضح كريں كہ معيار مال نہيں، بلكہ تقوى اور عمل صالح معيار ہے.

اور اگر آپ كى والدہ اپنى رائے پر اصرار كرے اور آپ كے خيال ميں آپ كا اس شخص سے شادى كرنا صحيح ہے، نكاح كے صحيح ہونے كے ليے آپ كى شادى ميں آپ كا ولى ہونا ضرورى ہے نكاح كے ليے ولى كى شرط ہے، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور عورت كا ولى اس كا والد پھر اس كا بيٹا اور پھر ا سكا بھائى پھر اس كا بھانجا اور پھر اس كا چچا اور پھر چچا كا بيٹا جو كہ عصبہ كى ترتيب سے ہوتا ہے.

اور اگر اس كا ولى نہ ہو تو پھر قاضى اس كى شادى كريگا-

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں اس كا حكمران والى ہو گا "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر عورت كا شادى كرنے كى كوشش اور مہر ميں آسانى كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ كافى عقلمند ہے اور اس كى سوچ بھى اچھى ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے سب معاملات ميں آسانى پيدا كرے، اور آپ كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/93543
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دين كا التزام نہ كرنے والے منگيتر سے شادى كرنا !!!
مجھے شادى كے متعلق ايك مشكل درپيش ہے وہ يہ كہ ميرى كزن سے منگنى ہوئى ہے ميں اور وہ مسلمان تو ہيں ليكن ہمارے درميان اسلامى تعليمات كے علم ميں بہت زيادہ فرق پايا جاتا ہے، ميں حقيقتا پردہ كرتى ہوں، كوشش كرتى ہوں كہ ايك صالح قسم كى مسلمان بنوں، اور وہ بھى ايك نيك و صالح مسلمان بننے كى كوشش كرتا ہے، ليكن ميں محسوس كرتى ہوں كہ وہ اس ميں پورى كوشش نہيں كرتا بلكہ قليل سى كوشش كرتا ہے.

وہ ايك نرم دل آدمى ہے ليكن ميں بعض اوقات خوف محسوس كرتى ہوں كہ ہو سكتا ہے دين اسلام پر مطلوبہ عمل كرنے سے كم ہو، مثلا وہ اپنے دوستوں كے ساتھ نائٹ كلب جاتا ہے، ميں بہت پريشان اور حيران ہوں!! كيا اس سے شادى كروں يا نہ كروں ؟

ہم نے فيصلہ كيا تھا كہ پانچ برس بعد شادى كرينگے تو كيا ميرے پاس جو وقت ہے مجھے اجازت ديتا ہے كہ ميں كسى اور سے مرتبط ہو جاؤں، ميرا منگيتر مجھے ہميشہ يہى كہتا ہے كہ تم اس فيصلہ كو تبديل كرنے كى كوشش كرتى ہو، ليكن ميں چاہتى ہوں كہ وہ اچھى راہ پر چل پڑے، مجھے بتائيں ميں كيا كروں ؟

الحمد للہ:

اس شخص سے شادى كرنے كے خوف ميں ہم بھى آپ كے ساتھ برابر شريك ہيں، اور آپ كو ترغيب دلاتے ہيں كہ آپ كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى پر موافقت كريں جو دين اور اخلاقى اعتبار سے بہتر ہو.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كى شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كروگے تو زمين ميں بہت عظيم فتنہ و فساد ہو گا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اس ميں بہت تعجب ہے كہ سوال ميں يہ ذكر ہوا ہے كہ آپ نے پانچ برس كے بعد شادى كرنے كا فيصلہ كيا ہے، ليكن جب آپ كے رشتہ دار نے يہ طويل عرصہ اختيار كيا ہے تو آپ كے پاس اس كے علاوہ كسى اور كے ساتھ رشتہ كرنے كى موافقت كا وقت ہے جو اس سے بھى نيك و صالح ہو، جب اس عرصہ ميں آپ كو اچھا رشتہ ملے تو ہاں كر ديں جبكہ آپ كا اور اس قريبى رشتہ دار كا نكاح بھى نہيں ہوا، ليكن حب اس عرصہ كے دوران اس سے بہتر كوئى اور رشتہ نہ آئے تو آپ كے ليے اس سے ہى نكاح كرنا جائز ہے اگر وہ مسلمان ہے اور دين سے خارج كرنے والا كوئى كام نہيں كرتا.

اللہ تعالى سے ہم آپ كى ليے توفيق طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

شيخ محمد صالح المنجد
 
Top