السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکۃ
دین میں اصل حرمت ہے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
حنفی فقہاء کے ہاں
عبادات میں اصل منع ہے
یعنی امور تعبدیہ میں جب تک شارع سےکوئی عبادت یا طریقہ عبادت ثابت نہ ہو اس وقت تک کوئی عمل " شرعی عبادت " نہیں بن سکتا ،
احناف کے اس اصول کو سمجھنے کیلئے بطور مثال فقہ حنفی کے دو تین مسئلے پیش ہیں
کتب فقہ حنفی میں "ھدایہ " مشہور و معتبر کتاب ہے ،
اس میں ہے کہ :
قال المرغینانی ؒ : وقالا: لا يزيد في الليل على ركعتين بتسليمة. وفي الجامع الصغير لم يذكر الثماني في صلاة الليل، ودليل الكراهة أنه - عليه الصلاة والسلام - لم يزد على ذلك، ولولا الكراهة لزاد تعليما للجواز،
(ھدایۃ : ۱ /۱۲۷ )
رات کے نوافل کے متعلق صاحب ھدایہ لکھتے ہیں : کہ ایک سلام کے ساتھ دو سے زائد رکعات نہ پڑھی جائیں ،کیونکہ یہ مکروہ ہے اور کراہت کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت دو رکعت سے زائد نفل نمازایک سلام سے نہیں پڑھی ، اور اگر دو سے زائد رکعات ایک ہی سلام سے پڑھنا مکروہ نہ ہوتی تو تعلیم جواز کیلئے زیادہ ضرور پڑھتے ۔
اسی طرح ھدایہ میں ہے کہ :
1۔(ويكره أن يتنفل بعد طلوع الفجر بأكثر من ركعتي الفجر) لأنه عليه الصلاة والسلام لم يزد عليهما مع حرصه على الصلاة ( ھدایۃ : ۱ /۱۵۳ )
طلوع فجر کے بعد صبح کی دو سنتوں کے علاوہ نوافل مکروہ ہیں ،اور مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے نماز و عبادات کی شدید حرص کے باوجود صبح کی دو رکعت سنت کے علاوہ اس وقت کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے ۔
(2)ولیس فی الکسوف خطبۃ، لانہ لم ینقل ۔ (ھدایۃ : ۱ / ۱۵۶ )
کسوف کی نماز میں خطبہ نہیں ،کیونکہ یہ منقول نہیں ۔
(3)ولا یتنفل فی المصلٰی قبل الصلوٰۃ العید ، لانہ النبی ﷺ لم یفعل ذلک مع حرصہ علی الصلاۃ ۔ (ھدایۃ : ۱ / ۱۵۳)
نماز عید سے پہلے نفل نہیں پڑھنے چاہئیں ،کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی شدید حرص کے باوجود نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز نہیں پڑھی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تینوں مسائل میں کراہت کی دلیل یہ دی گئی کہ ایسا کرنا شرع میں منقول نہیں ،یعنی جب شرعی دلیل نہ ہو تو اپنی طرف سےکوئی عبادت جائز نہیں۔
دوسرے لفظوں میں
"عبادات میں اصل منع ہے "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہاں اشیاء میں اصل جواز و اباحت ہے
یعنی انسانی زندگی میں کام آنے والی اشیاء اور چیزیں مثلاً کھانے کی اشیاء ،برتن ،کپڑے ،اور دیگر چیزیں اس وقت تک مباح اور جائز وحلال مانی جائیں گی جب تک شریعت ان سے منع نہ کردے۔
امام کمال الدین ابن ہمامؒ (المتوفی 861 ھ) احناف کے چوٹی کے اصولی اور فقیہ ہیں اور ھدایہ کے شارح بھی ہیں
فرماتے ہیں :
وَالْحِلُّ هُوَ الْأَصْلُ فِي الْأَشْيَاءِ
’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
شرح فتح القدير،(باب الربوٰ )
اور ان سے بھی پہلے حنفیوں کے امام شمس الائمہ سرخسی (المتوفی 483ھ) لکھتے ہیں :
ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔
دیکھئے المبسوط جلد 27 ص77
https://archive.org/stream/FPmbsootmbsoot/mbsoot24#page/n75/mode/2up
ـــــــــــــــــــــــــ
اور محدثین کے ہاں بھی "اشیاء " کی اصل یہی ہے
امام ابوعمر ابن عبدالبرؒ القرطبی(المتوفی 463 ھ) فرماتے ہیں :
وَأَنَّ أَصْلَ الْأَشْيَاءِ عَلَى الْإِبَاحَةِ حَتَّى يَرِدَ الْمَنْعُ
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)