اصل میں اس آیت کے ترجمہ یا مفہوم کو بلا وضاحت کے پیش کرنے سے مسلم عوام الناس میں غلط فہمی پھیلتی ہے، بلکہ پھیل چکی ہے۔ اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلامی شریعت پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں آزاد ہیں کیونکہ قرآن خود کہتا ہے کہ ۔۔۔ لااکراہ فی الدین ۔ یہ تصور میں نے دنیوی طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادکی زبان سے بھی سنا ہے
1۔ دنیا کے ہر نظم، ادارے، مملکت وغیرہ میں ”جبر“ شامل ہوتاہے، جسے رولز ریگولیشن کہتے ہیں۔ ان قوائد و ضوابط کی پابندی اس نظم یا ادارے کے تمام ارکان پر بزور قوت (جبر) نافذ کرائی جاتی ہے اور ایسا نہ کرنے یا اس کی خلاف ورزی پر سزا بھی دی جاتی ہے۔ البتہ اس نظم ، ادارے یا مملکت سے باہر کے افراد پر ایسا کوئی ”جبر“ نہیں کیا جاتا کہ وہ لازماً اس نظم میں شامل ہو۔
2۔ یہی حال اسلام کا بھی ہے۔ دائرہ اسلام کے اندر شامل ہر فرد شریعت کے قوائد و ضوابط پر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے۔ عدم پابندی پر مجاز اتھارٹی سزا دے سکتی ہے ۔ لیکن جو افراد اس دائرہ اسلام سے باہر ہیں، اُن پر ایسا کوئی جبر نہیں کہ وہ لازماً اسلام کو قبول کریں۔ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں کوئی جبر نہیں ہے (جس کا ذکر اس آیت میں ہے) ورنہ تو قرآن و حدیث میں جا بجا ”جبر اور پابندی“ کا ذکر ہے جو مسلمانوں پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ے عائد کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب