• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوان امام بوصیری

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116


صاحب دیوان علامہ شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں وہ مقبولیت تھی کہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ پر فالج کا دورہ پڑا اور جسم کا نصف حصہ مفلوج ہو گیا تو اپنی زندگی کے سارے منظوم کلاموں کی جان ’’قصیدہ الکوکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ‘‘ لکھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عطاکردہ چادر مبارک کی وجہ سے بردہ کا نام دیا گیا۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رداء مبارک نے اصل نام کو ڈھانپ لیا اور بردہ یعنی چادر نام مشہور ہو گیا۔ جب قصیدہ مکمل ہوا تو رات کو امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سوئے تو خواب میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دست مبارک مفلوج شدہ حصہ پر پھیرا تو امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو شفا ملی۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جیسے حضرت کعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کو چادر عطا فرمائی، یوں ہی امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو چادر عطا فرمائی، صبح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ بیدار ہوئے تو چادر سرہانے موجود تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قصیدہ کو اسی وجہ سے قصیدہ بردہ کہا گیا اور اب تک یہی مشہور ہے۔ حضرت علامہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نابغہ روزگار ہستی تھے۔ ان کے دیوان کا ایک ایک شعر ان کی سحربیانی وہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ کلام پڑھنے والا کسی ایک شعر عمدگی میں محو ہو جاتا ہے اور گھنٹوں اس کی چاشنی اپنی ذات میں محسوس کرتا رہتا ہے۔ مثلاً حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عاجزی پر اپنے قصیدہ المخرج والمردود علی النصاریٰ والیہود میں کیا خوب لکھتے ہیں:

رکب الحمار تواضعا من بعدما
رکب البراق السابق الھذلولا

ترجمہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عاجزی کے ساتھ درازگوش پر سوار ہوئے بعد اس کے کہ پہلے (معراج کی رات) طویل پشت والے براق پر سوار ہوئے تھے۔‘‘

یہ خوبصورت دیوان گلہائے عقیدت کے نذرانوں سے بھرا ہوا ہے، مترجم نے بھی خوب حق ادا کیا ہے۔

وظیفۂ عاشق "قصیدہ بردہ شریف" کے عظیم خالق کے شاہکار دیوان کا پہلی مرتبہ اُردو ترجمہ
دیوان امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ | مترجم: علامہ محمد ذکاء اللہ سعیدی
رنگین تصاویر | ضخامت 752 صفحات | دنیا کے بہترین کاغذ پر اشاعتِ خاص
قیمت 1500 روپے صرف | فری ہوم ڈلیوری | بذریعہ ٹی سی ایس
ناشر: بُک کارنر شورُوم ، بالمقابل اقبال لائبریری ، بک سٹریٹ ، جہلم ، پاکستان
وٹس اپ نمبر 03215440882 | فون نمبر 0544614977 ، 0544621953

یہ دلکش کتاب گھر بیٹھے حاصل کرنے کے لیے اپنا نام ، پتہ اور رابطہ نمبر میسج کریں اور دو سے تین دن میں کیش آن ڈلیوری کی سہولت کے ساتھ اپنے گھر کی زینت بنائیں، شکریہ!

تعارف:
امام بوصیری رحمتہ اللہ علیہ (شاعر مدائح نبویہ وَمرآۃ عصرہِ، خالقِ قصیدہ بردہ شریف) ایک مصری صوفی شاعر تھے جو نسلاً بربر تھے۔ وہ مصر کے ایک گاؤں ’’بُوصیر‘‘ میںپیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تیرہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کر کے یک گو نہ کمال حاصل کر لیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے کلام میں جن اصطلاحات اور تلمیحات کا تذکرہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علم حدیث، سیر، مغازی اور علم کلام میں پوری پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ علم ادب، بدیع، بیان اور صرف و نحو میں مشّاق دکھائی دیتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مجموعہٴ کلام ’’دیوان امام بوصیری‘‘ مصر میں کئی بار چھپا۔ انگلش اور جرمن میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے جبکہ اُردو زبان میں یہ پہلا ترجمہ ہے۔ یہ دیوان آپ رحمتہ اللہ علیہ کی قادر الکلامی پر شاہد ہے۔ اہلِ علم نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے شاعرانہ کمالات اور ادبی مقام پر داد تحسین پیش کی ہے۔ شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ ابن العماد حنبلی، ابن شاکر کتبی، پطرس بستانی (صاحب ادباء العرب)، ابن سید الناس (امام بوصیری کے شاگرد) رحمتہ اللہ علیہم جیسے حضرات نے بڑی فراخدلی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے کمالاتِ علمی کا اعتراف کیا ہے۔ مستشرقین میں سے پروفیسر آر۔ اے۔ نکلسن اور اے۔ جے۔ آربری بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علمی مقام و مرتبہ کے قائل ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تر شاعری کا مرکز و محور دِین اسلام اور تصوف رہا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سب سے مشہور شاعرانہ کلام اور عربی ادب کی عظیم تخلیق ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ ہے جوکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت، مدحت اور ثناء خوانی پر مبنی ہے ، لہٰذا اِسی نسبت سے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دُنیائے ادب میں ’’امام بوصیری‘‘ کے نام سے شہرتِ عام اور بقائے دوام حاصل کی۔​
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کتاب کی تشہیر نہ کرنا ہی بہتر ہے!
کچھ تعارف یہاں دیکھاسکتا ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صاحب دیوان علامہ شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں وہ مقبولیت تھی کہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ پر فالج کا دورہ پڑا اور جسم کا نصف حصہ مفلوج ہو گیا تو اپنی زندگی کے سارے منظوم کلاموں کی جان ’’قصیدہ الکوکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ‘‘ لکھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عطاکردہ چادر مبارک کی وجہ سے بردہ کا نام دیا گیا۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رداء مبارک نے اصل نام کو ڈھانپ لیا اور بردہ یعنی چادر نام مشہور ہو گیا۔
یہ خالص اور سیاہ جھوٹ ہے ،
اس شاعر بوصیری کے متعلق یہ مبالغہ آرائی شرک پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــ

اس قصیدے کے مشہور ترین زیر تنقید مصرعوں میں درج ذیل مصرعے شامل ہیں:

1. يا أكرمَ الخلْقِ مالي مَن ألوذُ به ***** سواك عند حدوثِ الحادثِ العَمم
اے مکرم ترین مخلوق، میرے لئے حوادثات زمانہ سے بچاؤ کیلئے تیرے سوا کوئی نہیں پناہ گاہ نہیں۔

2. إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي ***** عفواً وإلا فقل يا زلة القدم
اگر آپ نے روزِ قیامت فضل وکرم کرتے ہوئے میری دستگیری نہ کی تو :"ہائے میرے قدموں کی لغزش"(میری بربادی یقینی )

3. فإن مِن جودك الدنيا وضَرتها ***** ومن علومك علم اللوح والقلم
بے شک آپ ہی کے وجود سے دنیا اور دنیاوی خوشحالی کی بقا ہے، اور لوح وقلم آپکے علم کا ایک حصہ ہیں۔

4. دع ما ادعته النصارى في نبيهم ***** واحكم بما شئت مدحاً فيه واحتكم
عیسائیوں نے جو غلو اپنے نبی کے بارے میں کیا اسے چھوڑ دو اور اسکے بعد جو چاہو اپنے نبی کی شان میں کہتے جاؤ اور پھر جس سے چاہو فیصلہ کروالو۔

5. لو ناسبت قدره آياته عظما ***** أحيا اسمه حين يدعى دارس الرمم
اگر آپکو آپکی شایان شان معجزے دئیے جاتے تو آپکا نام لینے سے بوسیدہ ہڈیاں بھی قبروں میں زندہ ہوجاتیں۔

6. فإن لي ذمة منه بتسميتي ***** محمداً وهو أوفى الخلق بالذمم
میں نے اپنا نام محمد رکھ کر آپ سے ایک عہد وپیمان لے لیا ہے، اور آپ مخلوقات میں سب سے زیادہ عہد وپیمان وفا کرنے والے ہیں۔

سوم:
اہل علم کی ان اشعار پر تنقید اور تردید درج ذیل ہے:

1- شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"مُلک" [یعنی دنیا و آخرت کی بادشاہت کے بارے میں] تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان: ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) اور ایک قراءت کے مطابق ( مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ہے، اسکا تمام مفسرین کے ہاں وہی مطلب ہے جو اللہ تعالی نے اپنے فرمان: ( وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئاً وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ) اور آپکو کیا معلوم بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر آپکو کیا معلوم کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ اس دن کوئی جان کسی کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے گی، [کیونکہ] اس دن حکم صرف اللہ کا چلے گا۔ الانفطار/ 17 – 19 میں بیان کیا ہے۔

چنانچہ جس شخص نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کو سمجھ لیا، اسے قیامت کے دن کی بادشاہی کو خاص کرنے کی وجہ سمجھ آجائے گی، کیونکہ اللہ تعالی تو اُس دن اور دیگر تمام ایام کا بادشاہِ مطلق ہے، اُسے یہ بات سمجھ آئے گی کہ یہ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہے کہ جو کوئی بھی جنت میں گیا اسکی وجہ یہی تھی کہ اس نے اللہ کی روزِ جزا کے دن بادشاہت مطلق کو سمجھ لیا تھا، اور جو کوئی بھی جہنم واصل ہوگا اسکی وجہ یہ ہوگی کہ اُس نے اللہ کی روزِ جزا کے دن بادشاہتِ مطلق کو نہیں سمجھا ۔

یہ اتنا عظیم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اسی کو سمجھنے کیلئے بیس سال بھی سفر میں سرگرداں رہے تب بھی اسکا حق ادا نہ ہوگا، مذکورہ بالا روزِ روشن کی طرح عیاں قرآنی مفہو م ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کی عکاسی کی اور فرمایا: (اے فاطمہ بنت محمد!میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا) چنانچہ قصیدہ بردہ کے درج ذیل مصرعوں پر بھی ذرا سا غور کرے:


ولن يضيق رسولَ الله جاهك بي ***** إذا الكريم تحلي باسم منتقم
قیامت کے روز جب مہربان اللہ کی ذات بھی اپنے اسم (منتقم )کا مظہر یعنی انتقام لینے والی ہوگی تو میرے لئے [یا] رسول اللہ آپکا مقام ومرتبہ ضرور فراخ دامنی کا ثبوت دیگا۔

فإن لي ذمة منه بتسميتي ***** محمداً وهو أوفى الخلق بالذمم
میں نے اپنا نام محمد رکھ کر آپ سے ایک عہد وپیمان لے لیا ہے، اور آپ مخلوقات میں سب سے زیادہ عہد وپیمان وفا کرنے والے ہیں۔

إن لم تكن في معادي آخذاً بيدي ***** فضلاً وإلا فقل يا زلة القدم
اگر آپ نے روزِ قیامت فضل وکرم کرتے ہوئے میری دستگیری نہ کی تو: "ہائے میرے قدموں کی لغزش" (یعنی آپ کی دستگیری نہ ملی تو میری بربادی یقینی ہے )

جو شخص اپنی خیر خواہی چاہتا ہے وہ ان اشعار کا معنی غور سے سمجھے کہ یہ کیا ہے!؟جو لوگ اس قصیدہ کے پیچھے دیوانہ وار لگے ہوئے ہیں ذرا سوچیں، جو عالم ہونے کے دعویدار ہیں، جنہوں نے قرآن سے زیادہ اسکے پڑھنے کو ترجیح دی ہے، کیا ان شعروں کی تصدیق اور اللہ کے فرمان: (اس دن کوئی جان کسی کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکے گی، [کیونکہ] اس دن حکم صرف اللہ کا چلے گا) الانفطار/ 19 اور فرمانِ رسالت : (اے فاطمہ بنت محمد!میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا) پر ایمان ایک دل میں اکٹھے ہوسکتے ہیں؟! نہیں ، اللہ کی قسم !، نہیں ، اللہ کی قسم !، نہیں ، اللہ کی قسم ! کبھی نہیں اکٹھے ہوسکتے، ہاں ایسے دل میں اکٹھے ہوسکتے ہیں جو موسی علیہ السلام کو بھی سچا کہے اور فرعون کو بھی سچا مانے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حق پر سمجھے اور ابو جہل کو بھی حق پر جانے، اللہ کی قسم! کبھی بھی دونوں یکساں نہیں ہوسکتے، اور اس وقت تک یہ دونوں جدا جدا رہیں گے جب تک کوّا سفید نہیں ہوجاتا۔

چنانچہ جو شخص اس مسئلہ کو ، اور قصیدہ بردہ کو اچھی طرح سمجھ لے اور قصیدہ بردہ کے دلدادہ لوگوں کے پہچان لے تو اسے اسلام کی اجنبیت کا اندازہ ہو جائے گا" انتہی

ماخوذ از: " تفسير سورة فاتحہ " از: " مؤلفات شيخ محمد بن عبد الوهاب " (5/13)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور شیخ کے پوتے عبدالرحمن بن حسنؒ قصیدہ بردہ کے متعلق فرماتے ہیں ؛
قال الشيخ عبد الرحمن بن حسن آل الشيخ – رحمه الله - : " من عبد الرحمن بن حسن وابنه عبد اللطيف إلى عبد الخالق الحفظي .
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، وبعد :
فقد بلغنا من نحو سنتين : اشتغالكم ببردة " البوصيري " ، وفيها من الشرك الأكبر ما لا يخفى ، من ذلك قوله : " يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك " إلى آخر الأبيات ، التي فيها طلب ثواب الدار الآخرة من النبي صلى الله عليه وسلم وحده ...
وكونه صلى الله عليه وسلم أفضل الأنبياء لا يلزم أن يختص دونهم بأمر نهى الله عنه عباده عموماً ، وخصوصاً ، بل هو مأمور أن ينهى عنه ، ويتبرأ منه ، كما تبرأ منه المسيح بن مريم في الآيات في آخر سورة المائدة ، وكما تبرأت منه الملائكة في الآيات التي في سورة سبأ .
وأما اللياذ : فهو كالعياذ ، سواء ، فالعياذ لدفع الشر ، واللياذ لجلب الخير ، وحكى الإمام أحمد وغيره الإجماع على أنه لا يجوز العياذ إلا بالله ، وأسمائه ، وصفاته ، وأما العياذ بغيره : فشرك ، ولا فرق .
وأما قوله : " فإن من جودك الدنيا وضرتها " : فمناقض لما اختص به تعالى يوم القيامة من الملك في قوله : ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) ، وفي قوله تعالى في سورة الفاتحة : ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ، وفي قوله تعالى : ( يَوْمَ لا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئاً وَالأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ) ، وغير ذلك من الآيات لهذا المعنى ، وقال غير ذلك في منظومته مما يستبشع من الشرك " انتهى .
"رسائل وفتاوى الشيخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد عبد الوهاب" (1/82) .

ترجمہ :
شیخ عبد الرحمن بن حسن آلِ شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عبد الرحمن بن حسن ، اور انکے صاحبزادے عبد اللطیف کی جانب سے عبد الخالق الحفظی کی جانب:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہمیں تقریبا دو سال قبل پتا چلا تھا کہ آپ بوصیری کے "قصیدہ بردہ" پر کام کر رہے ہیں، اس میں بالکل واضح لفظوں میں شرکِ اکبر موجود ہے، مثال کے طور پر:

" يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك "۔۔۔ الخ، ا
یعنی اے نبی اکرم ﷺ آپ کے سوا میرا کون سہارا ،آسرا ہے ؟
اس جیسے شعروں میں آخرت کے دن ملنے والے ثواب کا مطالبہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا ہے۔۔۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل ترین نبی ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ جن امور سے اللہ تعالی نے اپنے تمام بندوں کو یا چیدہ چیدہ لوگوں کو منع فرمایا ہو ان سے آپکو استثناء حاصل ہو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ آپ بھی ان ممنوعہ کاموں سے رک جائیں، اور ان سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کریں، جیسے کہ عیسی بن مریم علیہ السلام کے بارے میں سورہ المائدہ کی آخری آیات میں اور فرشتوں کے بارے میں سورہ سبأ میں ہے کہ انہوں نے شرکیہ امور سے اعلانِ لا تعلقی کیا۔

شعر میں مذکور لفظ " ألوذ " "اللیاذ" سے ہے جو کہ "العیاذ" ہی کی طرح ہے، جسکا مطلب ہے پناہ حاصل کرنا، فرق یہ ہے کہ "العیاذ" شر سے بچاؤ کیلئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ "اللیاذ" نفع حاصل کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے، چنانچہ امام احمد وغیرہ رحمہم اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ تعوذ یعنی کسی کے شر سے بچاؤ کیلئے پناہ صرف اللہ تعالی، اسمائے حسنی، اور صفات باری تعالی ہی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، لہذا غیر اللہ سے پناہ مانگنا شرک ہے، [اللیاذ اور العیاذ]دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

بوصیری کا یہ کہنا کہ:
" فإن من جودك الدنيا وضرتها " یعنی: "بے شک آپ ہی کی عطا ا ور جود سے دنیا اور دنیاوی خوشحالی کی بقا ہے"، تو یہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بادشاہتِ مطلق کے منافی ہے، مزید برآں یہ کہ مذکورہ شعر قرآن مجید کی متعدد آیات کے بھی خلاف ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) ترجمہ: آج کس کی بادشاہت ہے؟ صرف ایک صاحبِ قہر اللہ کیلئے ہے۔

اسی طرح سورہ فاتحہ کی آیت کے بھی منافی ہے:

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ترجمہ: وہی قیامت کے دن کا مالک ہے۔

ایک اور آیت کے بھی منافی ہے:

( يَوْمَ لا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئاً وَالأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ) ترجمہ: اس دن کوئی نفس کسی کیلئے کچھ بھی کرنے کی استطاعت نہیں رکھے گا، اور تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ کے قبضے میں ہوگی۔

بوصیری نے اپنے قصیدے میں اور بھی اسی طرح کے اشعار کہے ہیں، جس میں شرک کی بھر مار ہے" انتہی

"رسائل وفتاوى شيخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد عبد الوهاب" (1/82
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس کے با وجود طبقۂ خاص کو کون سمجھائے کہ ”ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی“
 

rehmanzia

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2020
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کتاب کی تشہیر نہ کرنا ہی بہتر ہے!
کچھ تعارف یہاں دیکھاسکتا ہے!
امام بوصیری رحمہ اللہ کم و بیش نو صدیاں پہلے گزرے ۔ جبکہ ان پر تنقید کرنے والے نومولود فرقے کے نمونے بمشکل دو صدیوں کی پیداوار ہیں ۔ اگر امام بوصیری کے مشہور زمانہ قصیدہ بردہ میں معاذاللہ شرکیہ اور خلاف قرآن و سنہ اشعار ہیں تو اپنے فرقے کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اپنے فرقے کے مولوی ابن باز کے علاوہ کسی محدث مفسر ناقد متفقہ امام کی تنقید دکھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ چیلنج
 
Top