- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
دیوان صوفیاء
صوفیاء اور ان کی حقیقت
قارئین کرام! اس سے پہلے صوفیا ءسے متعلق جو باتیں آپ کے سامنے آئیں اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ صوفیاء کے گروہ نے اسلام کے ساتھ ہمیشہ کس طرح کھلواڑ کیا؟ اور اسلام سے مسلمانوں کو دور کرنے کے لئے کس کس طرح کی شیطانی چالیں اختیار کیں اور خود ساختہ مذہب تصوف کے نام سے ایجاد کرکے کتنا خطرناک اور شیطانی رول ادا کیا۔ جس کا سلسلہ آج کے اس تحقیقی دور میں بھی جاری ہے۔اور سیدھے سادے مسلمان آج بھی صوفیا ءکے مزعوم تصوف کے دام فریب میں پھنس کر اپنی عاقبت خراب کرنے اور ابدی ناکامی کا راستہ اختیار کرنے میں مصروف ہیں ۔صوفیا ءکی گندی چال کو بے نقاب کرنے اور ان کی اصلی تصویر اور حقییقی روپ ظاہر کرنے میں اب تک جو کچھ لکھا گیا اور آئندہ جو کچھ لکھا جائے گا اس سے مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان بھائیوں کو صوفیاء کا اصلی چہرہ دکھادیں اور ان کے ہاتھوں اپنے ایمان کا سودا کرنے سے بچ سکیں ۔کیوں کہ باطل افکار سے لوگوں کو مطلع کرنا در حقیقت ان کو رد کرنا ان کی تنقیص کرنا۔لوگ اگر سمجھ لیتے کہ افکار صوفیا ء کی حقیقت کیا ہے تو تصوف رائج نہ ہوتا اور اس کا بازار ماند پڑجاتا۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی 'دیوان صوفیاء'ہے ،جس سے صوفیا ء کا مقصد اپنی خرافاتی بالادستی کو مضبوط ومستحکم کرنا ہے ۔ صوفیا ءنے ابدال واقطاب کے لئے نیز تمام قسم کے اولیاء کے لئے دیوان ایجاد کیا جو بزعم ان کے کبھی غار حراء میں اور کبھی دوسری جگہوں میں منعقد ہوتا ہے، تاکہ یہ دیوان اپنی قراردادوں کے مطابق عالم کو چلائے اور اس کی ادارت کرے ۔احمد بن مبارک سلجمانی اس باطنی دیوان کا وصف یوں بیان کرتا ہے:
چوتھا باب صالحین رضی اللہ عنہم کے دیوان کے ذکر میں:
ان ساری خرافات کا اس نے اپنی کتاب ''الابریز المؤنۃ'' میں ذکر کیا ہے۔''میں نے شیخ عبد العزیز بن دباغ رضی اللہ عنہم سے فرماتے ہوئے سنا کہ یہ دیوان غار حراء میں قائم ہوتا ہے ،جہاں نبی کریمﷺ نبوت سے پہلے عبادت کیا کرتے تھے۔وہ فرماتے ہیں کہ غوث غار کے باہر اس طرح سے بیٹھتے ہیں کہ مکہ ان کے دائیں کندھے کے پیچھے ہوتا ہے اور مدینہ ان کے داہنے گھٹنے کے سامنے ہوتا ہے ،اور چار قطب ان کے دائیں جانب ہوتے ہیں جو امام مالک کے مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ،اورتین قطب ان کے بائیں جانب ہوتے ہیں جن کا تعلق دیگر تین مذاہب سے ہوتاہے،اور وکیل جسے دیوان کا قاضی کہا جاتا ہے وہ ان کے سامنے ہوتاہے،وہ مالکی ہے جو بصرہ کا باشندہ ہے جس کانام محمد بن عبدالکریم بصراوی ہے ۔وکیل کے ساتھ غوث بات کرتے ہیں اس کی وجہ سے اسے وکیل کہا جاتا ہے وہی تمام شرکاءاور دیوان کی نیابت کرتاہے۔انہوں نے(عبد العزیز بن دباغ نے)مزید کہا کہ سات اقطاب کو غوث کے امر میں تصرف کا حق ہوتاہے ،اور ان ساتوں اقطاب کے ماتحتوں میں کچھ مخصوص تعداد میں لوگ ہوتے ہیں جن کو ان اقطاب کی ماتحتی میں تصرف کرنے کا حق ہوتاہے ۔شرکاءدیوان چھ صفوں میں ہوتے ہیں ، اور تمام صفوں کا سرا اقطاب سے ملا ہوتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ دیوان میں عورتیں بھی حاضر ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوتی ہے ۔ان کی صفیں تین ہوتی ہیں ۔نیز وہ کہتے ہیں کہ دیوان میں بعض باکمال مردے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی زندوں کے ساتھ صف میں ہوتے ہیں ،لیکن مردہ اور زندہ لوگوں میں تین چیزوں میں فرق ہوتاہے،ایک تو یہ کہ ان کا لباس بدلتا نہیں ہے یعنی ایک ہی لباس میں ہوتے ہیں ۔اور اس کے بر خلاف زندہ لوگوں کے لباس بدل جاتے ہیں ۔زندہ لوگ کبھی دیوان میں بال منڈھاکرآتے ہیں اورکبھی پرانے کپڑوں میں آتے ہیں تو کبھی نئے کپڑوں میں ، اور مردوں کی ہیئت وحالت نہیں بدلتی۔اس لئے اگر تم کو کبھی دیوان میں ایسا آدمی دکھائی دیتاہو جس کی پوشاک بدلتی نہیں تو سمجھ لو کہ وہ مردوں میں سے ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کے سر حلق کئے ہوئے دیکھو اور اس میں بال نکلتے ہوئے نہ دیکھو تو سمجھو وہ اسی حالت میں مرا ہوا ہے ۔اور اگر کسی کے سر میں بال دیکھو مگر وہ گھٹتے بڑھتے نا ہوں تو بھی جان لو کہ وہ مردہ ہے،اور اس کی موت اسی ہیئت میں ہوئی ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ ان سے(مردوں سے)عالم اموات کے سلسلے میں مشورہ نہیں لیا جاتا ہے۔ شیخ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ قبروں کی زیارت کرنے والوں کے آداب میں سے یہ ہے کہ جب کوئی زائر صاحب قبر کے لئے دعاء کرناچاہے اور اپنے دعاء کے قبول ہونے کی خاطر کسی ولی کو وسیلہ بنائے تو اسے چاہئےکہ کسی مردہ ولی کو وسیلہ بنائے کیوں کہ اس سلسلے میں مردہ ولی کاوسیلہ زیادہ نفع بخش اور کارآمد ہے، اور دعا ء کے قبول ہونے کی زیادہ توقع ہے۔ اور تیسری چیز یہ ہے کہ مردے کا سایہ نہیں ہوگا چناں چہ جب وہ تمہارے اور سورج کے درمیان کھڑا ہوگا تو تم اس کا سایہ نہیں دیکھوگے۔اور دیوان میں شریک ہونے والے مردوں کو یہ بات پسند آتی ہے کہ وہ اپنے فانی اور ترابی جسم کے ساتھ حاضر نہ ہوں بلکہ اپنے روحانی جسم میں حاضر ہوتے ہوئے انہیں خوشی ہوتی ہے۔سلجمانی کہتا ہے کہ شیخ دباغ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں دیوان میں بکثرت شرکت کرتاہوں ۔چناں چہ جب دیوان میں موجود اولیاء مجھے سورج کی روشنی میں دور سےدیکھتے ہیں تو وہ میرا استقبال کرتے ہیں اور میں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ ان کا سایہ نہیں ہوتا ۔انہوں نے مزید فرمایا کہ دیوان میں حاضر ہونے والے مردہ اولیاءبرزخ سے بذریعہ روح پرواز کرکے دیوان میں اترتے ہیں ۔پرواز کرتے ہوئے جب دیوان کی جگہ سے قریب ہوجاتے ہیں اور تھوڑی مسافت باقی وہ جاتی ہے تو زمین پر اتر جاتے ہیں اور زندہ اولیاء کے ادب واحترام میں پیدل چل کردیوان میں پہونچتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دیوان میں فرشتے بھی شرکت کرتے ہیں ، اور اولیاء کی صفوں کے پیچھے اپنی صف بناتے ہیں، اسی طرح باکمال جنات بھی حاضر ہوتے ہیں اور وہ سب سے پیچھے اپنی صف بناتے ہیں ۔شیخ نے فرمایا کہ فرشتوں اور جنوں کے حاضر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ اولیاء کچھ امور تک پہونچنےمیں بذات خود کامیاب نہیں ہوپاتے تو ان امور میں جنوں اور فرشتوں کی مدد لیتے ہیں ۔"
غوث کی حیثیت صوفیاء کے یہاں رب الارباب کی سی ہے ۔اور صوفیاء کی ایک بڑی تعداد نے اپنے تئیں غوث ہونے کا دعویٰ کیا جن میں سے ایک دباغ بھی ہے،جو نرا جاہل ہے اور پرلے درجے کا ان پڑھ ونادان تھا۔واضح رہے کہ صوفیاء کی اصطلاح میں غوث اس ولی کو کہا جاتا ہے جو بزعم صوفیاء اللہ تعالی سے تنہائی میں ملتاہے۔ اور براہ راست ہم کلام ہوتا ہے ۔اور وہ ہر زمانہ میں ایک ہوتا ہے۔ اور اس کے مرنے کے بعد ہی کوئی دوسرا اس کی جگہ لے سکتا ہے ۔اور غوث غار حراء سے تمام عالم کے لئے تدبیریں کرتاہے۔
نبی اکرم ﷺ بھی دیوان صوفیاء میں حاضر ہوتے ہیں :
صوفیاء شیاطین نے صرف اپنے اور فرشتوں و جنوں کے اس مزعوم دیوان میں حضور پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ سید الاولین والآخرین نبی اکرمﷺ کے حضور کا بھی عقیدہ رکھا ،چناں چہ اس سلسلے میں ملعون صوفی دباغ ''ابریز'' میں لکھتا ہے کہ
پھر اس کے بعد وہ اپنی خرافات کو نبیﷺ کی طرف منصوب کرنے سے بھی نہیں رکتا جس کی تفصیل دیکھنا ہو تو اس کی کتاب ''ابریز'' ص:164-165 دیکھئے۔"بعض اوقات دیوان میں نبی کریم ﷺ بھی حاضر ہوتے ہیں ۔اور آکر غوث کی جگہ پر بیٹھتے ہیں ،اور غوث وکیل کی جگہ پر چلے جاتے ہیں اور وکیل پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑا ہو جاتاہے۔"
انعقاد دیوان کا وقت:
سلجمانی کہتاہے کہ دیوان کے انعقاد کا وقت ہی ہے جو وقت حضور اکرم ﷺ کی ولادت کا ہے ،یعنی آخری شب جس کی حدیث میں فضیلت وارد ہے، اور جس میں اللہ تعالى آسمان دنیا میں نزول فرماتا ہے ،اور جو گھڑی دعاء کی قبولیت کی ہوتی ہے ۔
ازواج مطہرات اور دیوان:
سلجمانی کہتاہے کہ میں نے شیخ دباغ ؓ سے سوال کیا کہ کیا دیوان میں انبیاء کرام بھی آتے ہیں ؟ جیسے حضرت ابراہیم ؑ وحضرت موسیٰ ؑ وغیرہ، تو ان کا جواب تھا :ہاں انبیاء کرام سال میں ایک رات ہے اس میں تشریف لاتے ہیں۔ میں پوچھا کون سی رات ہے؟ تو فرمایا :لیلۃ القدر جس رات کو دیوان میں انبیاء ومرسلین اور ملاء اعلیٰ کے ملائکہ مقربین تشریف لاتے ہیں۔اور نبی کریم ﷺ بھی ازواج مطہرات کے ساتھ تشریف لاتے ہیں ۔نیز ابوبکر،عمر،عثمان ،علی،فاطمہ،اور حسن وحسین رضی اللہ عنہم دیوان میں بحیثیت ممبر آتے ہیں۔
حیرت ہوتی ہے اس طرح کے سفید جھوٹ اور بہتان تراشی کی جرأت صوفیاء کو کیسے ہوئی ؟ عقل مندوں کو تو چھوڑئے بچوں اور بے وقوفوں تک کو ہنسی آجاتی ہوگی۔
دیوان میں فرشتوں کی شرکت :
ملعون سلجمانی کہتا ہے کہ میں نے شیخ دباغ سے کہتے ہوئے سنا کہ: پہلے دیوان فرشتوں سے معمور رہتاتھا لیکن جب سے رسول اللہﷺ کی بعثت ہوئی اس وقت سے امت کے اولیاء سے دیوان معمور ہونے لگا ،جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ فرشتے قبل ِ بعثتِ نبی آپ ﷺ کی امت کی نیابت کرتےتھے، یہی وجہ ہے کہ اب جب دیوان لگتا ہے اور اس میں فرشتے آتے ہیں تو اپنی صف اولیاء امت کے پیچھے لگاتے ہیں۔
اہل دیوان کی زبان:
احمد بن مبارک کہتا ہے کہ اہل دیوان کی زبان سریانی ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ زبان مختصر اور کثیر معانی کی جامع ہوتی ہے،اور اس لئے بھی کہ دیوان میں ارواح اور فرشتے ہوتے ہیں ،اور ان کی زبان سریانی ہے۔وہ عربی صرف اس وقت بلحاظ ادب بولتے ہیں جب آپ ﷺ کی آمد ہوتی ہے ۔
صوفیاء دیوان میں حروف کے معانی اور اذکار کے لئے نہ جانے کیوں سریانی زبان کا انتخاب کرتے ہیں ؟یقینا ًاس میں بھی ان کی کوئی چال ہوگی۔ممکن ہے کہ لوگوں میں التباس پیدا کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے ہوں گے، کیوں کہ یہ زبان قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔اس لئے کہ'' سوریا ''کےصرف ایک گاؤں میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔اور اس میں بات کرنے والے ایک ہزار سے بھی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔یا ہوسکتا ہے یہ وجہ ہو کہ یہ زبان ماضی میں ایسی قوموں کی زبان رہی ہو جو اوثان وجن پرستی میں مشہور تھیں۔
غوث ایک بڑا ڈکٹیٹر ہوتا ہے:
غوث کی حیثیت ایک خطرناک ڈکٹیٹر کی سی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس کے سامنے منہ نہیں کھول پاتا۔ سلجمانی کہتاہے کہ میں نے ایک مرتبہ دباغ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ جب غوث حاضر رہے تو کوئی شخص کسی معاملے میں ان کی مخالفت پر قادر ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی مخالفت میں کچھ کہنا تو دور کی بات ہے ہونٹ ہلانے پر بھی کوئی قادر نہیں کیوں کہ مخالفت کرنے والوں کا تو ایمان ہی سلب ہوجائے گا۔
اولیاء لوح محفوظ کی طرف نظر رکھتے ہیں :
سلجمانی اولیاء (جو دیوان میں حاضر ہوتے ہیں ) کے مراتب واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے دباغ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دیوان میں شرکت کرنے والے تمام اولیاء لوح محفوظ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہوتے ۔بلکہ بعض ان میں سے اسے دیکھنے کی قدرت رکھتے ہیں۔اور بصارت سے نہیں بلکہ بصیرت سے لوح محفوظ میں موجود چیزوں کو جان پاتے ہیں ۔اور بعض اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے ،کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔
صوفیاء کی اس طرح کی کذب بیانی اور دروغ گوئی پر تعجب ہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر اس بات پر ہے کہ ایسی بے دلیل اور بے بنیاد بات ایسے لوگوں میں کیسے وقعت پاتی ہے جو اللہ کی کتاب کو پڑھتےہیں جس میں اللہ فرماتا ہے''قل لا یعلم الغیب الا اللہ وما یشعرون ایان یبعثون''۔
اہل دیوان کیوں جمع ہوتے ہیں :
سلجمانی کہتا ہے کہ میں نے دباغ کو کہتے ہوئے سنا کہ اہل دیوان جب اکٹھا ہوتے ہیں (دیوان میں) تو اتفاق کرتے ہیں اس چیز پر جو آئندہ وجود میں آنے والی ہے۔ اور اولیاء رحمہم اللہ کو عالموں میں تصرف کی قدرت حاصل ہوتی ہے ۔بلکہ ان کو اللہ کے نور کے ستر پردے اور ان پردوں کے اوپر جو کچھ ہوتاہے اس میں بھی وہ تصرف کرتے ہیں اور کسی کے دل میں کوئی بات کھٹکتی بھی ہے تواولیاء کی اجازت سے ،یعنی عالم بالا میں فرشتوں کے دل کی کھٹک بھی ان کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں !!!جب عالم بالا اور ستر پردوں کے اوپر تصرف میں اولیاء کا یہ عالم ہے تو دیگر عالموں کا کیا کہنا؟
ذرا غور کیجئے کہ جھوٹے، مکار اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں شیطان کوکوسوں پیچھے چھوڑنے والے صوفیاء صرف زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر بھی حکومت کررہےہیں !! کیا اس سے بڑا جھوٹ اور کچھ ہوسکتاہے ؟ کیا ایسی دروغ گوئی کے بعد بھی صوفیاء کے پیچھے بھاگنے کا جواز باقی رہتاہے؟؟ ہرگز نہیں ۔
اللہ تعالى ہم مسلمانوں کو صحیح سمجھ عطاء کرے۔ اور صوفیاء ملعون کے فریب کو سمجھنے کی توفیق عطاء کرے۔(آمین)
بشکریہ