علماء کا استدلال ہی تحقیق ہے، مگر ایسے علماء بھی ہیں جو قرآن سے لفظ "اہل" کہیں سے اور "حدیث" کسی اور جگہ سے لے کر جماعت "اہل حدیث" کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی جماعت "حنیفہ" کے علماء بھی قرآن سے اور "اہل تشیع" شیعہ کا لفظ قرآن میں ہے سے ثابت کرتے ہیں۔بھائی آپ اپنے معملات بھی چیک کر لیں ،اور خود سوچے کہ آپ امت کو توڑ رہے ہیں یا جوڑ رہے ہیں،بھائی آپ کی بھول سے معلوم معلوم ہوتا کہ آُ تحقیق سے نہیں اندھی تقلید سے کام لے رہے ہیں، طالب الرحمن جیسے لوگوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔وحدت ولوجود کے مسئلہ پر تو بہت سارے علماء میں اختلاف ہے حتی کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ بھی۔
جب کوئی شخص دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے جس فرقہ و مسلک کے لوگوں سے پہلے واسطہ پڑجائے، وہ اسی مسلک کے دلائل کو پڑھتا ہے اور پھر اسے اپنا لیتا ہے۔ اس کے وہ انہی دلائل کی روشنی میں دوسروں کو دیکھتا ہے۔ اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ خوش قسمتی سے تم درست جگہ آگئے ہو، اب کسی اور جانب مت دیکھنا ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔ اگر تمہیں دوسرے مسلک کا مطالعہ کرنا بھی ہے تو اپنے علماء کی کتابوں کے ذریعے کرو جو اس فرقے کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ اس طریقے سے وہ شخص تعصب اور تحزب کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی سبز شیشوں والی عینک پہن لے تو پھر اسے ہر چیز سبزی مائل نظر آئے گی۔ اور اگر شیشوں کے اندر کوئی مسئلہ ہو تو پھر اسے ہر چیز ٹیڑھی میڑھی نظر آئے گی۔ جو شخص دوسرے فرقوں کو اپنے فرقے کی عینک سے دیکھتا ہے اور جیسا اس کے فرقے کے راہنما اسے دکھانا چاہتے ہیں وہ انہیں ویسا ہی دیکھتا ہے۔ اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی بجائے وہ دوسروں کے ذہن سے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہم نے اگر کوئی قیمتی چیز خریدنی ہو تو ہم دکان پر موجود سیلز مین کے چہرے پر موجود خلوص بھری مسکراہٹ دیکھ کر آنکھیں بند کرکے نہیں خرید تے، بلکہ قیمتوں کا تقابل کرتے ہیں، مال ٹھونک بجا کر دیکھتے ہیں۔ پھر جا کر خریدتے ہیں۔ مگر دین کے معاملے میں ہم ایسی احتیاط نہیں کرتے۔ جس فرقے کی مسجد ہمارے گھر کے پاس ہو یا جس مسلک کے لوگوں سے ہماری پہلے ملاقات ہوجائے، یا جس فرقے کو اپنانے پر ہمارا خاندان اور ماحول ہمیں مجبور کردے، ہم اسے اپنا لیتے ہیں اور اتنے کٹر پن سے ایسا کرتے ہیں کہ بقول شاعر
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔
دین کا معاملہ ایسا معا ملہ ہے جس میں انسان عام طور پر بہت جذباتی ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی اسے اپنے سے کوئی مختلف بات نظر آتی ہے، اس کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ کمراہی، بدعت، شرک، گستاخی،کفر،ارتداد اور نجانے کیا کیا ہے۔ بعض حضرات فوری طورپر اس میں اغیار کی کوئی سازش تلاش کرتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے فرق مخالف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔ اس کیلئے یہی دلیل کافی ہوتی ہے کہ فلاں نے ہم سے اختلاف کرکے دین میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ ایسا ہی فریق مخالف کی جانب سے ہوتا ہے۔ یہ رویہ رکھنے کے بعد ظاہر ہے پھر دلائل کا تبادلہ اور مسئلے کو حل کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہر اختلاف برا نہیں ہوتا اختلاف رائے بھی انسان کی شکل و صورت کے اختلاف کی طرح ہے۔ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہمیں اپنی نہیں دوسرے کی اصلاح کرنا ہے۔ یہں سے اصلاح کی بجائے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔
اختلافی مسائل پر لکھی گئی کسی بھی کتاب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے مسلک اور نقطہ نظر کا دفاع کیا جائے اور مخالفین کی تردید کی جائے۔ مخالفین کے دلائل میں خامیاں تلاش کرکے انہیں اجاگر کیا جائے اور اپنے دلائل کی برتری کو ہر صورت واضح کیا جائے۔
کچھ عرصہ قبل ایک کتاب " گستاخ اور بے ادب کون" ہاتھ لگی - مصنف سے تو مجھے زیادہ واقفیت نہیں لیکن اس پر نظرثانی مولانا ابوالحسن علی محمد صاحب سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال مرتب فتاوی علماء اہلحدیث نے فرمائی ہے ، جس سے اس کتاب کا مؤید اور مستند ہونا معلوم ہوا - اسی کے صفحہ 8 پر ایک حدیث شریف پڑھی۔
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے کہ قیامت کے روز جب اہلحدیث حاضر ہوں گے تو الله تعالی ان سے فرمائیں گے - تم اہلحدیث ہو جنت میں داخل ہوجاؤ(طبرانی)
یہ حدیث پڑھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ (میں ان دنوں "جماعت اہلحدیث" سے بہت متاثر تھا) میں نے "طبرانی شریف" میں اس کی تلاش کی جو مجھے نہیں مل سکی۔
یہ لمبی چوڑی تفصیل دینے کا مقصد آپ پر اپنے معاملات واضح کرنا ہے۔رہا یہ سوال کہ میں تحقیق سے نہیں اندھی تقلید سے کام لیتا ہوں تو پہلے یہ بتایئے کہ کسی راوی پر جرح اور تعدیل کے جو قاعدے اصول حدیث کی کتابوں میں درج ہیں - کیا وہ سب نبی صلی الله علیه وسلم سے ثابت ہیں؟ ان کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے ہے؟ اگر یہ قاعدے امتیوں نے بنائے ہیں تو ان قاعدوں کی مدد سے احادیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اندھی تقلید ہے؟