یہاں پر حضرت حاجی امداد اللہ مکی صاحب نے ایک جملہ کہا ہے "خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے" میں نے پوچھا تھا کہ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ " اتنی عبادت کرو کہ اللہ تمہارا کان و آنکھیں بن جائے " تو کیا اس جملہ کا قائل بھی انہی وعیدات کا مستحق ٹھہرے گا یا یہ جملہ شرکیہ ٹھہرے گا ؟؟؟؟؟
شائد کچھ حضرات کی اس تھریڈ پر نظر نہیں گئی ہوگي اس لئیے کچھ جواب نہ آیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر میں اپنے سوال کے حوالہ سے کچھ وضاحت کردوں میں نے یہ سوال کیوں پوچھا تھا ۔
مجھے دونوں عبارت میں دو طرح کا فرق نظر آیا تھا اور شائد آپ حضرات کو بھی یہ فرق نظر آئے
پہلے ان دو جملوں میں فرق بیان کردوں اس کے بات ہم یہ بحث چھیڑیں گے کہ کون سا جملہ صحیح ہے اور کون سا جملہ غلط
پہلا فرق
"خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے " میں ظاہرا سفر مخلوق سے خالق کی طرف ہے یعنی مخلوق (ذاکر) خود اللہ بن جائے اور موخر الذکر جملہ " اتنی عبادت کرو کہ اللہ تمہارا کان و آنکھیں بن جائے " میں ظاہرا سفر خالق سے مخلوق کی طرف ہے یعنی اللہ تمہارے اعضاء بن جائے ۔
اگر پہلا جملہ اپنے ظاہر کے لحاظ سے مخلوق کو خالق بنا رہا ہے تو موخر الذکر جملہ خالق کو مخلوق بنا رہا ہے تو اگر ایک جملہ پر شرکیہ جملہ کا فتوی آئے گا تو دوسرے جملہ پر بھی یہی لگے گآ ۔ دودھ کو پانی میں ڈالو یا پانی کو دودھ میں ڈالو بات ایک ہی ہے دودھ ناخالص ہوجائے گا ۔ اسلئیے اگر کسی کے ذہن میں مندرجہ بالا فرق ہے تو وہ فرق باطل ہے
دوسرا فرق
اگر کوئي کہے ان دو جملوں فرق یہ ہے کہ جب حضرت حاجی امداد اللہ مکی صاحب نے جو کہا کہ "خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے " تو یہاں کامل تبدیلی کی بات کی ہے اور موخر الذکر جملہ "" اتنی عبادت کرو کہ اللہ تمہارا کان و آنکھیں بن جائے "" میں بعض اعضاء کی بات ہے اور یہ جزوری عمل ہے ۔ ایسے خيالات رکنھنے والوں سے گذارش ہے کہ شرکیہ عمل شرکیہ ہی ہوتا خواہ کامل ہو یا جزوی ۔
مثلا اگر کوئی صاحب معاذ اللہ شیخ عبدالقادر جيلانی کی عبادت کی غرض سے ان کے لئیے نماز پڑھتا ہے تو یہ عمل شرکیہ ہے لیکن اگر کوئی دوسرا شخص صرف عبادت کی غرض سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو سجدہ کرتا ہے تو گو یہ عمل پہلے عمل کا جزو ہے لیکن یہ بھی شرکیہ عمل ہے اور جزوی عمل ہونے کی وجہ سے شرک کی حدود سے باہر نہیں نکلے گا
پس معلوم ہوا کہ ہماری بحث میں شامل دونوں عبارتیں ہم معنی ہیں
ان عبارتوں کا شرعی حکم
ایک حدیث مبارکہ ملاحضہ فرمائیں
صحیح حدیث میں، جسے بخاری وغیرہ نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وارد ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یَقُوْلُ اللہُ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْمُحَارَبَۃِ اَوْ فَقَدْ اٰذَنْتُہ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَا ئِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَلَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ فَاِذَا اَحْبَبْتُہ کُنْتُ سَمْعَہ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہِ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا فَبِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبْصِرُ وَبِیْ یَبْطِشُ وَبِیْ یَمْشِیْ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیِذَنَّہ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہ تَرَدُّدِیْ عَنْ قَبْضِ نَفْسِ عَبْدِیَ الْمُوْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَکْرَہُ مُسَاءَتَہ وَلَا بُدَّلَہ مِنْہُ
(بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع رقم حدیث: ۶۵۰۲۔ تاہم فقد بارزنی بالمحاربۃکے الفاظ طبرانی کے ہیں۔ (ازہر))
یہاں اللہ تبارک و تعالی خود کہ رہے ہیں کہ " اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے کہ وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے"
تو گویا موخر الذکر عبارت صحیح حدیث سے ثابت ہے تو حاجی امداد اللہ مکی صاحب کی عبارت پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہتا کیوں کہ دونوں عبارتیں ہم معنی ہیں اور حاجی امداد اللہ مکی صاحب نے اسی حدیث کے تناظر میں بات کی تھی
اس بات کے دلائل کہ حاجی صاحب نے اسی حدیث کے تناظر میں بات کی ہے
دلیل نمبر ایک
حاجی امداد اللہ صاحب آگے خود کہ رہے ہیں
"اور مرتبہ بی یسمع و بی یبصر (یعنی اس کو خدا کے ساتھ ایسا تعلق خاص ہوجاتا ہے کہ وہ خدا ہی کی آنکھ سے دیکھتا اور خدا ہی کے کان سے سنتا ہے ) حاصل ہوجائے گا"
حاجی امداد اللہ صاحب کا اپنے جملے کی وضاحت میں بی یسمع و بی یبصر کہ وضاحت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے انہوں مذکورہ جملہ اسی حدیث کے معنی سامنے رکھتے ہوئے کہی تھی
دلیل نمبر دو
اگر حاجی امداد اللہ صاحب کے ہاں یہ اللہ بننے کی ترکیب ہے تو اللہ تو عبادت کے لائق ہے وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا ۔ تو یہاں حاجی امداد اللہ صاحب کہ رہے ہیں
"اس کے بعد عبادت میں اس کو کما حقہ مشغول ہونا چاہئیے" اگر حاجی امداد اللہ صاحب کے جملہ کا یہی مطلب ہے کہ ذاکر خود اللہ بن گيا ہے تو اب عبادت کیسی۔ اس کا صاف مطلب ہے حابی امداد اللہ صاحب کا سیاق و سباق سے ہٹ کر مطلب لیا گیا ہے اور کسی کا سیاق و سباق سے ہٹ کر من چاہا مطلب لینا کیا ظاہر کوتا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں
دلیل نمبر تین
حاجی امداد اللہ صاحب کے جملہ کا بھی وہی مطلب ہے جو اوپر بیان کی گئی حدیث مبارکہ مفہوم ہے ۔ اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں جو اللہ تبارک و تعالی کا بندہ کے کان و ہاتھ بننا ہے تو اس سے مراد یہ کہ وہ بندہ اپنے اعضاء اللہ تبارک و تعالی کی مرضی کے مطابق چلاتا ہے اور اپنے اعضاء سے کوئی ایسی عمل نہیں کرتا جو شریعت کے دائرے سے باہر جاتا ہو
حاجی امداد اللہ صاحب کی بھی عبارت کا بھی یہی مطلب ہے ۔ وہ خود لکھتے ہیں " احکام شریعت کی بجا آوری کرے "
میرے خیال میں اتنی وضاحت کافی ہے ۔ اب بھی اگر کوئی حاجی امداد اللہ صاحب کی عبارت کو کفریہ بناے پر تلا ہوا تو وہ اپنے ذہن میں رکھے کہ کل قیامت کو سب فیصلہ ہوجائے گا
اللہ تبارک و تعالی سے ہی ہدایت کا سوال ہے
اسلام و علیکم -
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حنفی دیو بندی حضرات اپنے مسلک کے عالموں کی باتوں اور عقائد کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں -
حاجی امداد اللہ وحدت الوجود کے سرغنہ محی الدین ابن عربی کے بڑے معتقدین میں سے ایک ہیں لکھتے ہیں -"
ہمارے دیو بندی اکابرین وحدت الوجود کے عقیدے پر ثابت قدم ہیں لیکن چوں کہ اس عقیدے کو چھپانا فرض ہے - اس لئے ان میں اکثر اس کا انکار کرتے ہیں (کلیات امدادیہ ص ٢١٩ ) - یعنی اس کفریہ عقیدے پر قائم ہیں کہ الله جب چاہے کسی کی اندر حلول کر جائے لیکن اس عقیدے کو عوام سے چھپاتے ہیں کہ کہیں کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے-
اب ذرا حاجی امداد الله کی عبارت پر غور کریں "
اور اس کے بعد اس کو ہو ہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا جاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے۔اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں۔ اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔"
پہلی بات یہ "
ہو ہو " کا ذکر کیا چیز ہے- کیا ہمری شریعت میں اس کی گنجائش ہے - کہ صرف "ہو ہو" کے ذریے الله کا قرب یا الله میں فنا ہو جایا جائے ؟؟پھر لکھتے ہیں " اس قدر منہمک ہوجانا جاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے۔اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں۔ "
اس جملے اور وحدت الوجود کے عقیدے کے تحت یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں ایک دوسرے میں فنا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں- یعنی انسان اور الله دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو سکتے ہیں - جب کہ قرآن میں الله فرماتا ہے -
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ سوره الرحمان ٢٦
ہر کوئی فنا ہوجانے والا ہے
وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ٢٧
اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے -
اس کے بعد لکھتے ہیں "اس کے بعد عبادت میں اس کو کما حقہ مشغول ہونا چاہئیے" سوال ہے کہ جب ایک شخص فنا ہو گیا یعنی دوسرے لفظوں میں اپنی ذات سے بے گانہ ہو گیا - تو پھر عبادت کیسے سر انجام دے گا ؟؟؟ صوفیہ حضرات کے نزدیک فنا کا مطلب یہی ہے کہ انسان پر ایسی کفیت طاری ہو جائے کہ اسے اپنا بھی ہوش نہ رہے - کیا ایسی صورت میں نفل یا فرض عبادات سر انجام دی جا سکتی ہیں ؟؟؟
پھر لکھتے ہیں "
احکام شریعت کی بجا آوری کرے "
یعنی پہلے " ہو ہو " کریں پھر الله میں فنا ہونے کی کوشش (یعنی ہر چیز سے بے گا نہ حتی کہ اپنی ذات سے بھی ) پھر عبادت اور پھر شریعت کی بجا آ وری"
کیا الله اور اس کے رسول صل الله علیہ وسلم نے ہمیں انہی چیزوں کا حکم دیا تھا ؟؟؟؟ -کیا یہی شریعت ہے ؟؟
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے
"
میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے کہ وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے چنانچہ وہ مجھی سے سنتا ہے، مجھی سے دیکھتا ہے، مجھی سے پکڑتا ہے اور مجھی سے چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور دیتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیتا ہوں،"
تو اس میں الله کے نبی نے ایک تمثیل بیان کی ہے -کہ جب بندہ نوافل اور دوسری عبادات جو شرعی طو ر سے الله کے نبی سے ثابت ہیں (ہو ہو کی بدعت پر مشتمل نہیں ) تو الله اس کی غیبی مدد کرتا ہے - اور اس کا بندہ جو بھی کام کرتا ہے وہ صرف الله کی خوشنودی کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے - قرآن میں الله اس کو اس طرح بیان فرماتا ہے -
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سوره الطلاق ٢
اور جو الله سے ڈرتا ہے الله اس کے لیے نجاعت کی صورت نکال دیتا ہے
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا سوره الطلاق ٣
اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو اور جو الله پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے بے شک الله اپنا حکم پورا کرنے والا ہے الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے-
جہاں تک الله کے ہاتھ کان اور آنکھ پائوں وغیرہ کا بیان ہے تو قرآن میں الله نے خود ان کا ذکر تمثیل کے طو ر پر کیا ہے -.
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ سوره المائدہ ٦٤
اور یہود کہتے ہیں الله کا ہاتھ بند ہوگیا ہے انہیں کے ہاتھ بند ہوں اور انہیں اس کہنے پر لعنت ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہے خرچ کرتا ہے -
ظاہر ہے کہ اس آیت میں الله کے ہاتھ سے تمثیل کے طو ر پر بیان ہوے ہیں نا کہ حقیقی طو ر پر - جب کہ عقیدہ وحدت الوجود (حلول کے عقیدے میں ) الله کے وجود کو حقیقی طو ر پر لیا جاتا ہے -
اسی بنیاد پر مشہور صوفی حسین بن منصور حللاج نے "انا الحق " کا نعرہ لگایا تھا -یہی بات مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب میں "منصور حللاج" میں بیان کی ہے "میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے" یعنی الله میرے اندر ہے اور میں جب سجدہ کرتا ہوں تو اپنے آپ کو کرتا ہوں کیوں کہ میرا رب مجھ میں موجود ہے -
یہ حیقت میں تثلیث کا عقیدہ ہے جو عیسا ئیوں سے مسلمانوں ممیں سرایت کر گیا ہے
وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ سوره التوبه ٣٠
اور عیسائی کہتے ہیں مسیح الله کا بیٹا ہے -(یعنی الله کا جزو)
الغرض دیوبندی صوفیوں کے اکثر عقائد عیسایت اور ہندو مت سے متاثر ہو کر بیان کیے گئے ہیں جو صریح کفر پر مبنی ہیں-
وسلام