• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندی علماء ادب اور اخلاق کی انتہاؤں پر

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دیوبندی علماء ادب اور اخلاق کی انتہاؤں پر


یقیناًوہ تحریریں کبھی نہ کبھی آپ کی نظروں سے ضرور گزری ہونگی جن میں علمائے دیوبند ادب پر زور دار لیکچردیتے ہوئے پائے جاتے ہیں اورحقائق کے برعکس اہل حدیث کو بزرگان دین کا بے ادب اور ائمہ کا گستاخ بتاتے ہیں لیکن ادب شناسی اور اعلیٰ اخلاق کا تاج اپنے سر سجانا ہر گز نہیں بھولتے۔

اس وقت اہل حدیث کا دفاع یا ان کی بے گناہی ثابت کرنا تو ہمارا مقصد نہیں بلکہ دو رخ اور دو غلی پالیسی رکھنے والے دیوبندی علماء کا اصل اور حقیقی چہرہ آپ کو دکھانا مقصود ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ اتنے ہی ادب شناس ہیں جتنا اپنے متعلق اس بات کا ڈھول پیٹتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں؟

یہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی ہیں موصوف لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ چلا رہے ہیں اور امین اکاڑوی کے تلمیذ رشید ہیں۔چونکہ استاد کے شاگرد کے کردار پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذا پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی (جو کہ باقاعدہ عالم نہیں تھا)کے ’’اعلیٰ اور بے مثال اخلاق‘‘ سے مولانا عبدالغنی اور دیگر شاگردوں نے وافر حصہ پایا ہے جس کا مظاہرہ یہ اکثر اوقات اہل حدیث کے خلاف کرتے نظر آتے ہیں۔استاد یعنی امین اوکاڑوی کی تحریروں میں بے حیائی، بے شرمی اور بد تہذیبی کے نادر اور نایاب نمونے جابجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں جو ان کی اوباش طبیعت اور گندی زہنیت کے آئینہ دار ہیں۔یہ نمونے ایسے ہیں کہ بیان کرنا تو دور کی بات رہی کوئی شریف آدمی انہیں اپنی نوک زبان پرلاتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے۔

استاد کی طرح اس کے شاگرد بھی بے حیائی اور بدزبانی میں اپنے استاد سے کسی بھی طرح کم نہیں بلکہ استاد کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے بدزبانی، عریانی اور بازاری انداز میں استاد سے آگے نہیں تو کم ازکم اس کے برابر ضرور پہنچ گئے ہیں۔ عبدالغنی طارق کی شیریں اور ’’اخلاقی آداب ‘‘سے پوری طرح واقف زبان (جوکہ انہوں نے اپنے اسلاف سے ورثہ میں پائی ہے) کے جوہر کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد آپ کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں سہولت و آسانی ہوگی کہ اصل بے ادب اور گستاخ کون ہے۔

اہل الحدیث کی تضحیک کی آڑ میں نماز جیسے اسلامی شعار کا شرمناک طریقے سے مذاق اڑاتے ہوئے مولانا عبدالغنی طارق لدھیانوی (جنھیں مولانا کہنا بھی ہمارے نزدیک اہل علم کی شان میں کسی طور گستاخی سے کم نہیں) رقم طراز ہیں:
نماز جس کو عربی میں صلواۃکہتے ہیں۔ لغت میں اس کا معنی تحریک صلوین ہے.......جس کا مطلب سرین یعنی hips......جس میں قبل اور دبر کا سوراخ ہوتا ہے، اس کو حرکت دینا...... اس لغوی معنی کے لحاظ سے آج کل کی تمام رقاصائیں یعنی ڈانسر خواہ ان کا تعلق ہالی وڈ سے ہو، یا بالی وڈ سے ہو، یا لالی وڈ سے، وہ سب سے بڑی نمازی کہلائیں گی، اگر نرگس نے یہ چیلنج کر دیا کہ سب سے زیادہ نمازیں میں پڑھتی ہوں تو اس کے چیلنج کو توڑنا اہل حدیث کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے آپ کے علماء احسان الٰہی ظہیر، عبداللہ روپڑی، اثری، شمشاد سلفی، بدیع الدین پیر جھنڈا، نذیر حسین دھلوی، غزنوی وغیرہ کے گھر کی خواتین نے ساری زندگی کبھی نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوگ جب مسجد سے آکر پوچھتے کہ نماز؟ ان کی عورتیں بیٹھی بیٹھی سرین (hips) کو ہلا کر کہہ دیتیں کہ پڑھ لی....(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 48)

یاد رہے کہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کی جس کتاب سے ہم نے یہ اقتباس بطور نمونہ نقل کیا ہے اس کتاب میں اس سے بھی بڑھکر کچھ اور نمونے ایسے موجود ہیں جنھیں شرم کے مارے قلم تحریر کرنے اور زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔غلاظتیں اگلتی ہوئی عبدالغنی طارق لدھیانوی کی یہ زبان اوکاڑوی کلچر کا تحفہ ہے۔اپنے استاد کی طرح موصوف بھی اہل حدیث دشمنی اور عداوت میں ہوش و خرد سے ایسے بیگانہ ہو ئے کا شرم وحیا کا چولہ بھی اتار پھینکااور خود بھی ننگے ہوئے اور اپنے باطل مذہب کو بھی بے لباس کر دیا۔

شاید دیوبندیوں کو مذکورہ بالا اقتباس اخلاق سے گرا ہوا نہ لگے کیونکہ جس فقہ پر یہ لوگ عمل پیرا ہیں اس میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ایسے نمونے موجود ہیں جس سے بے حیائی بھی کچھ دیر کے لئے شرما جائے۔

مسلک دیوبند کا یہ سرتاج عالم جس سوقیانہ اور بازاری انداز میں دوسروں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کا ذکر کرتا ہے اس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اپنے مدرسے میں زیر تعلیم اس کی اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر اس کی کیسی نظر ہوگی اور اپنے دل میں ان سے متعلق کیسے کیسے گندے خیالات لاتا ہوگا۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ دیوبندی علماء کے اخلاق کا ایسا نمونہ بوجہ مجبوری پیش کیا گیاو گرنہ ان لوگوں کی ادب شناسی ، احترام اور اخلاق کا پردہ چاک کرکے ان کے اصل مکروہ چہرے کو لوگوں کو دکھاناپیش نظر نہ ہوتا تو ہم اس اقتباس کو نقل کرنے کی ہرگز جراء ت نہ کرتے جس نے اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
ان دیوبندیوں کو کیا کہا جا سکتا ہے ؟یہ ہیں ہی اس طرح کے دو رخے

جب انہوں کو اہلحدیثوں سے مطلب ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے مواحد بھائی ہیں اور جب ان لوگوں نے بریلوی بھائیوں کو اپنے پنجہ استبداد میں لینا ہو تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کےمقلد بھائی ہیں ہم اور آپ ایک ہی امام کے ماننے والے ہیں جبکہ یہ اہلحدیث اور بریلوی کو گمراہ طبقہ سمجھتے ہیں۔
انکا کوئی حل نہیں ان کے اندر یہودیوں والی سوچ رچ بس گئی ہے جس طرح یہودی پوری دنیا کو ذلت کے دوراہے پہ لے آئے ہیں اس طرح یہ مسلمانوں کو ذلت کے دوراہے پہ لے آئے ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
واہ جی واہ لدھیانوی صاحب
غیرت مل ملے تے اوہ ای تھوڑی جئی لے لئو
جتنی غیرت کی اس قسم کے بندوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ آسانی سے نہیں ملتی ٹرک غیرت دا کتھوں ملے؟
یہ کھاتا پاکستان کا ہے،پیتا پاکستان ہے اور کہلواتا لدھیانوی ہے ۔یہ کہاں کی وفاداری ہے؟۔یہی کہلاوانا تھا تو اپنے بڑوں (ابوالکلام آزادؒ کی طرح) وہیں پڑا رہتا اور اپنوں سے وفاداریاں بھرتتا۔آج بھی انہی سے وفا بنھاتے نبھاتے ارض مقدس کو آلودہ کررہا ہے۔ ۔
لدھیانوی

سنا ہے کہ یہ لڑکیوں کا کوئی مدرسہ بھی چلاتا ہے افسوس یہ وہاں لڑکیوں کی تربیت کس طرح کی کرتا ہوں گا یقیناً Hipsہی گھما کے دکھاتا ہو گا اور یقناً اگر ضرورت پڑے تو گھر میں اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی یقیناً اس انداز سے کرتا ہو گا۔داد دینی چاہئے جامعہ اشرفیہ کو جہاں اس طرح کے گرے ہوئے لوگ علما کے نام پر تیار ہوتے ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
جو بازاری اور لچر پن سے اس سے گفتگو کی ہے اس سے نہیں لگتی کہ اس کا تعلق کسی معیاری اور عزت دار گھرانے سے ہے اگر یہ بچیوں کا مدرسہ نہ چلاتا ہوتا تو پھر کس طرح کی گفتگو کرتا !یقیناًً عریاں گالیاں دیتا اور اس نے کیا کرنا تھا ۔آٹھ سال سنا ہے درس میں لگتے ہیں پھر جا اس طرح کا بدتمیز تیار ہوتا ہے۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
ویسےیہ بک میں نے پڑھی ہے ایک نہیں کئی مقامات پر اس کی گفتگو ناشائستگی کی حدوں نے متجاوز ہوئی ہہے اگر اس طرح کے عالم دین ہوتے ہیں تو معاشرے کو جاہل ہی رہنے دو۔اس سے کہا جائے کہ یہ کتاب اپنی بیٹی کو دیکر اس کے سامنے بیٹھ کر پڑھے اور یہ اس کے چہرے کے زاوئیے چیک کرے
 
Top