• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندی مفتی پیسے لے کر فتوی جاری کرتے ہوئےپکڑے گئے !

شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
یہ تو عجیب ٹائیٹل ہے، کیا کوئ مفتی فتوے کا معاوضہ نہیں لے سکتا؟ میں کتنے ہی اہل حدیث علماء کو جانتا ہوں جو فتاوی جات پر معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ابی چند دن پہلے ہی ایک مفتی صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی ان کے پاس طلاق کا مسئلہ آگیا۔ انہوں سائیل سے کہا کہ جاؤ یہ فتوی اپنے احناف سے لو تو وہ کہنے لگا کہ نہیں وہاں اسکا حل نہیں ہے، تو اہل حدیث مفتی صاحب نے فرمایا کہ پھر اہل حدیث ہو جاؤ اور اس بات کا اعتراف کرو کہ حنفیت قرآن و سنت سے دور ہے اور اہل حدیث ہی کے پاس خالص دین ہے اور اگر یہ آپشن بھی قبول نہیں تو پھر آخری آپشن یہ ہے کہ اتنا معاوضہ ادا کر دو اور فتوی لے کر اپنا گھر بسا لو۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ تو عجیب ٹائیٹل ہے، کیا کوئ مفتی فتوے کا معاوضہ نہیں لے سکتا؟ میں کتنے ہی اہل حدیث علماء کو جانتا ہوں جو فتاوی جات پر معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ابی چند دن پہلے ہی ایک مفتی صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی ان کے پاس طلاق کا مسئلہ آگیا۔ انہوں سائیل سے کہا کہ جاؤ یہ فتوی اپنے احناف سے لو تو وہ کہنے لگا کہ نہیں وہاں اسکا حل نہیں ہے، تو اہل حدیث مفتی صاحب نے فرمایا کہ پھر اہل حدیث ہو جاؤ اور اس بات کا اعتراف کرو کہ حنفیت قرآن و سنت سے دور ہے اور اہل حدیث ہی کے پاس خالص دین ہے اور اگر یہ آپشن بھی قبول نہیں تو پھر آخری آپشن یہ ہے کہ اتنا معاوضہ ادا کر دو اور فتوی لے کر اپنا گھر بسا لو۔

بھائی کتنے ہی فتوے جو میرے کزن نے دلوائے تین طلاق کے مسلے پر مگر اس پر کوئی معاوضہ نہیں لیا -

جب وہ لوگ پکڑے گئے تو پھر انکو معتل کیوں کیا ؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بالفرض اگر فتویٰ کے لئے پیسے لینا غلط ہے، تب بھی یہ عنوان غلط ہے۔ اگر کوئی فرد کوئی بھی ”غلط“ کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ فلاں فرد فلاں غلط کام کرتا ہوا پکڑا گیا۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
  1. پاکستانی مولوی غلط کام کرتا ہوا پکڑا گیا (اگر وہ پاکستانی ہے تو)
  2. فلاں پنجابی یا مہاجر یا سندھی وغیرہ مولوی فلاں غلط کام کرتا ہوا پکڑا گیا
  3. فلاں بریلوی یا دیوبندی یا اہل حدیث مولوی غلط کام کرتا ہوا پکڑا گیا
اس قسم کی ”تعصب“ سے پُر بیانات درست نہیں ہوا کرتے۔ ایک فرد کی خطا کو اس کی ساری برادری، قوم، قومیت، مسلک سے چسپاں کرنا بہت ہی غلط بات ہے۔
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
جی بھائ یہ تو مفتی صاحب کی مرضی ہے کہ وہ معاوضہ لیں یا بغیر معاوضہ کے فتوی جاری کریں جسطرح کتنے ہی خطیب ایسے ہیں جو جمعہ پڑھانے کے پیسے لیتے ہیں اور کتنے ہی خطیب ایسے ہیں جو جمعہ بھی مفت پڑھاتے ہیں بلکہ خود مسجد کی معاونت میں پیسے دیتے ہیں۔

اس ٹائیٹل سے یہ معلوم ہوتا ہے گویا کہ فتوے کا معاوضہ لینا نہایت غلط کام ہے، تو میرا سوال اسی بات پر ہے کہ کیا فتوے کا معاوضہ لینا قرآن و سنت کی رو سے درست نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قرآن وحديث پڑھا کر تنخواہ لينا درست ہے يانہيں?؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن وحديث پڑھا کر تنخواہ لينا درست ہے يانہيں?؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعليکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
درست ہے رسول اللہﷺ نے فرمايا!

ان ما اخذ تم عليه اجرا كتاب الله(بخاري)
جن کاموں پر تم مزدوري ليتےہوتو قرآن کي مزدوري لينا اس سے زيادہ حقدار ہے،اورايک صحابي سے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے پر تيس بکرياں اجرت ميں لي تھيں۔(بخاري)

علامہ نووي شرح مسلم ميں اس حديث کے تحت فرماتے ہيں،کہ

هذا تصريح لجواز اخذ الاجرة علي الرقية بالفاتحة والذكر انها حلال لا كراهية فيها وكذاالاجرةعلي تعليم القران وهذا مذهب الشافعي مالك واحمد و اسحاق و ابي ثور و اخرين من السلف ومن بعدهم ومنع ابو حنيفة في تعليم القران واجازها في الرقية (نووي)

خلاصہ يہ ہے کہ امام شافعي وامام امالکؒ وغيرہ کے نزديک تعليم قرآن پر اجرت لينا جائز ہے،، اورامام ابو حنيفہ کے نزديک نا جائز ہے،
(اخبار اہل حديث جلد نمبر 21 ش 5)

فتاوي علمائے حديث
جلد 12 ص 124
محدث فتوي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاوي? جات
فتوي نمبر : 2068

امامت و خطابت کي اجرت متعين کرکے لينا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ يہ ہے کہ کيا امامت ، خطابت ، تدريس قرآن ، نماز تراويح ميں قرآن سنانا ، قرآني دم اور قرآني تعويز کي اجرت متعين کر کے لينا اس کا شرع ميں کيا حکم ہے بالدلائل جواب ديں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعليکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

صحيح بخاري جلد دوم کتاب الطب باب الشرط في الرقي بقطيع من الغنم صفحہ (۔۔) ميں حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہما کي حديث کے آخر ميں ہے :

«فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ عَلي شَاءٍ فَبَرَأَ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلي اَصْحَابِهِ فَکَرِهُوْا ذلِکَ وَقَالُوْا أَخَذْتَ عَلي کِتَابِ اللہ أَجْرًا حَتَّي قَدِمُوْا الْمَدِيْنَةَ فَقَالُوْا يَا رَسُوْلَ ا? اَخَذَ عَلي کِتَابِ اللہ أَجْرًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا کِتَابُ اللہ »
’’صحابہ?ميں سے ايک آدمي گيا تو اس نے چند بکريوں کے عوض سور? الحمد پڑھ کر دم کيا وہ آدمي تندرست ہو گيا وہ بکرياں لے کر اپنے ساتھيوں کے پاس آيا انہوں نے اس کو برا سمجھا اور کہا تو نے اللہ کي کتاب پر مزدوري لي ہے يہاں تک کہ وہ مدينہ آئے اور انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس نے اللہ کي کتاب پر مزدوري لي ہے تو رسول اللہ۔ ﷺ نے فرمايا جس پر مزدوري لينے کے تم سب سے زيادہ حق دار ہو وہ اللہ کي کتاب ہے‘‘ اس حديث سے ثابت ہوا اللہ تعالي کي کتاب قرآن مجيد پر اجرت لينا درست ہے خواہ دم کي صورت ہو خواہ تعليم کي خواہ نماز وغيرہ ميں سنانے کي ايسي صورت نہ ہو جہاں ويسے بھي قرآن پڑھنا شرع سے ثابت نہ ہو جيسے قبر پر قرآن پڑھنا درست نہيں کيونکہ آپ کے لفظ إِنَّ اَحَقَّ الخ کلام مستقل اور عام ہيں

«وَالْعِبْرَةُ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لاَ بِخُصُوْصِ السَّبَبِ اِلاَّ اَنْ يَمْنَعَ مِنَ الْعُمُوْمِ مَانِعٌ»
’’اعتبار لفظوں کے عموم کا ہو گا نہ کہ سبب کے خصوص کا مگر يہ کہ عموم سے کوئي چيز مانع ہو‘‘

رہے قرآني اور غير قرآني تعويذ تو وہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہي نہيں۔

وباللہ التوفيق
احکام و مسائل
خريد و فروخت کے مسائل ج1ص 391
محدث فتوي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

أخذ الأجرة على الفتوى

المجيب :الدكتور هاني بن عبدالله الجبير (قاضي بمحكمة مكة المكرمة)
رقم السؤال 11839​
التاريخ السبت 24 شوال 1423 الموافق 28 ديسمبر 2002

السؤال


في مدينتي شيخ من أهل الصلاح والتقوى ومؤهله عالٍ في الشريعة - ضاق به الحال - فمال إلى طلب مقابل نقدي على الفتوى حين يستفتى- وهذا أمر مقزز جدا في بلادنا، وفي ظني أنه استند إلى أصل شرعي في هذا التصرف آمل أن تفيدونا بالجوانب الشرعية- لأخذ الأجرة على الفتوى.
سوال :ہمارے شہر میں ایک بہت نیک ،متقی عالم ۔۔مفتی ہیں ،لیکن مالی حالت خراب ہونے کے سبب وہ فتوی پیسے لے کر دیتے ہیں ؛
جبکہ ہمارے علاقے میں یہ کام (یعنی فتوی نویسی پر اجرت لینا ) بہت غلط سمجھا جاتا ہے ؛
جبکہ میرا گمان ہے کہ یہ شیخ صاحب کسی شرعی دلیل کی بنا پر ایسا کرتے ہونگے ۔۔
آپ سے امید کہ مجھے ۔۔فتوی پر اجرت ۔۔کے شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب

الحمد لله وحده، وبعد:
فقد اختلف أهل العلم في أخذ المفتي الأجرة على فتياه من أعيان من يفتيهم إذا كان فقيراً وليس له كفاية ولا رزق من بيت المال.
والجمهور على المنع، وهو اختيار العلامة ابن القيم رحمه الله وغيره.
ولا شك أن هذا هو الأولى. وعلى كل فهذه المسألة من مسائل الخلاف فلعله اختار القول بالجواز.
ويمكن للسائل أن يتفق مع أثرياء البلد وأعيانه على إعطاء هذا المفتي مبلغاً كل مدة نظير فتياه وتعليمه للناس، ففي ذلك سعي في حاجة أخ مسلم، وفيه كف له عن الأخذ من كل مستفت، وفق الله الجميع لهداه – وصلى الله وسلم على محمد وآله وصحبه أجمين .

اما بعد : اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ مفتی ۔۔فتوی دینے پر سائل سے اجرت لے سکتا ۔۔یا ۔۔نہیں ۔جبکہ وہ محتاج بھی ہو ۔
اور نہ ہی اس کا کوئی ذریعہ معاشہو ،اور نہ ہی بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو ۔

تو جمہور تو (فتوی دینے پر سائل سے اجرت لینے کو )منع کرتے ہیں ، اور یہی علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور کچھ دیگر حضرات کا مختار قول بھی ہے ۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اولیٰ اور بہتر یہی ہے ۔۔۔
لیکن مسئلہ اختلافی ہونے کے سبب اس کے جواز کا قول اختیار کیا ۔۔
اور ہم سے سوال کرنے والے بھائی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شہر کے صاحب ثروت اور سرکردہ حضرات کو اس مفتی کیلئے مستقل وظیفہ پر آمادہ کرے
تاکہ مفتی صاحب افتا و تعلیم دین کرسکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(یعنی بجائے اس کے کہ وہ ہر سائل و مستفتی سے ہر فتوی کا معاوضہ لیں ،انہیں مشاہرہ اور وظیفہ دیکر بلا عوض فتوی نویسی کے قابل بنا دیا جائے )
وصلى الله وسلم على محمد وآله وصحبه أجمين
فتوی لنک
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پہلی صورت
ایک صورت تو یہ ہے کہ دیوبندی مولوی پیسے لے کر سائل کی من پسند کے فتاویٰ جات جاری کرتے ہوئے پکڑا گیا، کیونکہ یہی صورت حال معاشرے میں سخت قابلِ مذمت ہے اور سمجھی بھی جاتی ہے، اور کئی لوگ اس میں ملوث ہیں، اگر اس قبیح صورت حال کو علماء اہل حدیث میں سے بھی کسی نے اختیار کر رکھا ہو تو وہ بھی غلط ہے۔

دوسری صورت
دوسری صورت یہ ہے کہ دیوبندی مفتی پیسے لے کر من پسند فتاویٰ جات دیتے ہوئے نہیں، بلکہ اُجرت لے کر فتاویٰ جات دیتے ہوئے پکڑا گیا تو یہ ایک علمی مسئلہ ہے، راجح موقف جیسے کہ اسحاق صاحب کی پوسٹ میں جمہور کے موقف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں، میرا رجحان بھی اسی موقف کی طرف ہے، کیونکہ اگر ایک شخص چاہے اُس کا بیت المال سے وظیفہ نہ بھی مقرر کیا گیا ہو (اس صورت میں تو موجودہ کسی عالم کا بھی کوئی وظیفہ نہیں، کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی حکومت ہے، یہاں مسلمانوں کی اکثریت وضعی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتی ہے، فاستغفراللہ) تو سائل کے لئے فتاویٰ جات کے حصول میں خاصی مشکل درپیش ہو گی، کیونکہ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر پیسوں کے فتاویٰ جات دینے کا سلسلہ چل نکلے تو بہت سارے لوگوں کا خواہشات کے مطابق چل نکلنے اور شرعی رہنمائی جانے بغیر مسائل کو اپنے تئیں حل کرنے کا خدشہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم، لہذا جمہور علماء کے موقف کی طرف رجحان رکھتے ہوئے خاص کر اہل توحید (اہل حدیث) کے علماء کو فتاویٰ جات اور سوالات کے جوابات بغیر اُجرت کے جاری کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس زیادہ سے زیادہ شرعی رہنمائی سے مستفید ہو سکے۔

نوٹ:
جس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا سورۃ فاتحہ کا دم کرنا اور اُس کے بدلے میں بکریوں کی صورت میں اُجرت حاصل کرنے کا ذکر ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فتاویٰ جات پر اجرت لینے کا جواز نکالنا درست نہیں، جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے، حدیث کی اہمیت واضح ہے اور اس کا کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ الحمدللہ، مزید اگر میرے موقف سے کسی عالم دین کو اعتراض ہو اور وہ قرآن و سنت کے مطابق میرے موقف کو صحیح نہ سمجھتا ہو تو وہ مزیدکتاب و سنت کے دلائل پیش کر کے میری اصلاح کر سکتا ہے۔
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ تو عجیب ٹائیٹل ہے، کیا کوئ مفتی فتوے کا معاوضہ نہیں لے سکتا؟ میں کتنے ہی اہل حدیث علماء کو جانتا ہوں جو فتاوی جات پر معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ابی چند دن پہلے ہی ایک مفتی صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی ان کے پاس طلاق کا مسئلہ آگیا۔ انہوں سائیل سے کہا کہ جاؤ یہ فتوی اپنے احناف سے لو تو وہ کہنے لگا کہ نہیں وہاں اسکا حل نہیں ہے، تو اہل حدیث مفتی صاحب نے فرمایا کہ پھر اہل حدیث ہو جاؤ اور اس بات کا اعتراف کرو کہ حنفیت قرآن و سنت سے دور ہے اور اہل حدیث ہی کے پاس خالص دین ہے اور اگر یہ آپشن بھی قبول نہیں تو پھر آخری آپشن یہ ہے کہ اتنا معاوضہ ادا کر دو اور فتوی لے کر اپنا گھر بسا لو۔
اہل حدیث عالم کا سائل سے نامناسب سلوک

میں اس اہل حدیث عالم کو نہیں جانتا، کہ وہ کون ہے اور اُس کی نیت کیا تھی، لیکن ظاہرا آپ نے اُس عالم کے بارے میں جتنا لکھا ہے، میرے نقطہ نگاہ سے اُس اہل حدیث عالم نے حنفی سائل سے نازیبا اور نا مناسب سلوک کیا ہے۔ یہ وہی حرکت ہے جو اکثر بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کرتے ہیں۔

پوائنٹ نمبر ایک
ابی چند دن پہلے ہی ایک مفتی صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی ان کے پاس طلاق کا مسئلہ آگیا۔ انہوں سائیل سے کہا کہ جاؤ یہ فتوی اپنے احناف سے لو تو وہ کہنے لگا کہ نہیں وہاں اسکا حل نہیں ہے،
کسی کی شرعی رہنمائی کرنے کا یہ طریقہ نہیں کہ سائل کی اصلاح کرنے کی بجائے اُس کو اُس کے مسلک کی طرف جانے کو کہا جائے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے مسلک میں خلافِ کتاب و سنت باتیں موجود ہیں۔ بلکہ اس موقع پر اُس کو welcome کرنا چاہئے تھا کہ وہ شرعی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اپنے علماء کی بجائے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے مسلک حق اہل حدیث کے عالم کے پاس آیا ہے۔

پوائنٹ نمبر 2
تو اہل حدیث مفتی صاحب نے فرمایا کہ پھر اہل حدیث ہو جاؤ اور اس بات کا اعتراف کرو کہ حنفیت قرآن و سنت سے دور ہے اور اہل حدیث ہی کے پاس خالص دین ہے
یہ کہنا کہ پہلے اہل حدیث ہو جاؤ پھر سائل کو پوچھے گئے مسئلے کا جواب دیا جائے گا، بجائے قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی کرنے کے شخصی تقلید کی طرف راغب کرنے والی بات ہے، حالانکہ اللہ نے تو تحقیق کا حکم دیا ہے، کسی کو یہ کہہ دینا کہ بلا دلیل یا دلیل جانے بغیر بس مسلک اہل حدیث قبول کر لو، درست رویہ نہیں، حالانکہ آپ غیرمسلم کو بھی جب اسلام کی دعوت دیتے ہیں تو اسلام کی روشن اور شفاف تعلیم کو مدلل انداز میں پہنچاتے ہیں اور جب وہ عملی طور پر اِس مذہب کو حق پر پاتا ہے تو وہ قبول کر لیتا ہے۔ لہذا اہل حدیث عالم کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے امتیازی مسائل اور عقائد و اعمال کو کتاب و سنت کی روشنی میں اُجاگر کرتا، تاکہ سائل کو بھی معلوم ہو کہ دین اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اہل حدیثوں کے پاس دلائل ہوتے ہیں۔ اہل حدیث عالم کا یہ کہنا کہ اپنے احناف سے فتویٰ لے لو، بالفرض وہ بدظن ہو کر واقعتا اپنے احناف کے پاس چلا جاتا اور وہ اُس کو غیرمسنون طریقے پر گامزن کرتے تو کیا یہ بات درست ہوتی، اس کا وبال کس پر ہوتا؟

پوائنٹ نمبر 3
اور اگر یہ آپشن بھی قبول نہیں تو پھر آخری آپشن یہ ہے کہ اتنا معاوضہ ادا کر دو اور فتوی لے کر اپنا گھر بسا لو۔
یہ سب سے زیادہ غلط بات ہے جو اہل حدیث عالم نے کی ہے کہ وہ ایک سائل کو، جو شرعی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اُس کے پاس آیا ہے، اور وہ اس کی غیرمشروط رہنمائی کرنے پر تیار نہیں، اور آخر میں فتاویٰ جات پر معاوضہ مانگنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک بریلوی کا واقعہ
عید والے دن مجھے ایک ان پڑھ بریلوی ملا، میں نے باتوں باتوں میں اُس کی عقیدے کے معاملے میں شرعی رہنمائی کرنا چاہی، اُس نے کہا "ملک صاحب مجھے کچھ سوالات پوچھنے ہیں، آپ ٹائم دیجئے گا، مجھے آپ کی باتیں سمجھ آتی ہیں" میں دل میں بہت خوش ہوا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ایک آدمی جو بریلوی ہے اُس کو میری باتیں سمجھ آ رہی ہیں اور مجھے اللہ کی توفیق سے اِس کی کتاب و سنت کی طرف رہنمائی کا موقع میسر آ رہا ہے، لیکن سوچئے اگر میں اُس کو یہ کہتا کہ "ہاں اب کہاں ہیں تمہارے بریلوی علماء، جاؤ نہ ذرا اپنے بریلویوں کے پاس، یا مجھے معاوضہ دو تب تمہارے سوالوں کے جواب دوں گا،" آپ بتائیں کیا یہ رویہ درست ہوتا، کیا وہ مجھ سے بدظن نہ ہوتا، کیا اس طرح غیر اخلاقی انداز سے میں اُس کو مزید دین سے دور کرنے کا سبب نہ بنتا، لیکن مجھے اللہ نے ایسا کرنے سے اور ایسی تربیت سے بچایا ہوا ہے، الحمدللہ

پس اہل حدیث علماء کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلک حق کو سمجھیں اور اُمت کی رہنمائی بغیر کسی غرض سے کریں، ان شاءاللہ اگر ایک آدمی بھی راہِ راست پر آ گیا تو اس کا جو اجر اللہ کے پاس ہے اُس کی کیا ہی بات ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
Top