- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
ذکر الرحمن سے مراد
ذکر الرحمٰن اسی ذکر کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو کر لائے ہیں مثلاً قرآن کریم ہے۔ جو شخص قرآن کو نہ مانے، اس کی باتوں کو سچا نہ سمجھے اور اس کے حکم کو واجب نہ سمجھے، وہ اس سے روگردانی کا مرتکب ہے۔ اس لیے اس پر شیطان تعینات ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَهَـٰذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ ﴿٥٠﴾الانبیاء
اور فرمایا:’’اور یہ مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا۔‘‘
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾طہ
اس سے معلوم ہوا کہ ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی آیتیں ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا رات دن ہمیشہ ذکر کرتا رہے اور ساتھ ہی انتہا درجہ کا زاہد اور عابد بھی ہو اور عبادت میں مجتہد بھی بن جائے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے اس ذکر کا اتباع نہ کرے جو کہ اس نے نازل فرمایا ہے اور وہ قرآن کریم ہے تو وہ شخص شیطان کے دوستوں میں سے ہے، خواہ وہ ہوا میں اڑتا پھرے اور پانی پر چلاکرے کیونکہ ہوا میں بھی تو اسے شیطان ہی اڑا کر لے جاتا ہے اور اس موضوع پر کسی دوسری جگہ مفصل بحث کی گئی ہے۔’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی قرآن) سے روگردانی کی تو اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن میں بھی ہم اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے، وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا اور میں تو دنیامیں اچھا خاصا دیکھتا بھالتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس طرح ہونا چاہیے تھا۔ دنیا میں تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں مگر تو نے ان کی کچھ خبر نہ لی اور اسی طرح آج تیری بھی خبر نہ لی جائے گی‘‘۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ