ذکر الٰہی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۳۔
ذکر الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ دل کو اس کے لیے متنبہ اور بیدار کیا جائے۔
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ذکر باللسان کو ذکر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ذکرِ قلبی پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ جب ذکر سے مراد بکثرت قول لسانی لیا جانے لگا تو لفظ ذکر سے فوراً یہی مفہوم ذہن میں آتا ہے اور اس سے وہ ذکر قلبی مراد ہے جسے عمومی حالات میں برقرار رکھنا واجب ہے۔ یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جن الفاظ کو پڑھنے میں ترغیب واقع ہوئی ہے انہیں بھی اور ان کے علاوہ مزید اور پڑھنا مثلاً جیسے الباقیات الصالحات ہیں۔ جن سے
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ مراد ہے۔
اس کے علاوہ
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ، بِسْمِ اللّٰہِ، حَسْبِیَ اللّٰہ ُاور استغفار وغیرہ پڑھنا اور دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا بھی ذکر اللہ میں شامل ہے۔
ذکر اللہ سے مراد کسی واجب یا مندوب عمل پر ہمیشگی کرنا بھی ہوتا ہے مثلاً تلاوت قرآن، حدیث پڑھنا، علم پڑھانا، نفلی نماز پڑھنا وغیرہ۔
بسا اوقات معنی کے استحضار کے بغیر ہی ذکرِ لسانی کی وجہ سے ذاکر کو اجر مل جاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوسرا معنی مراد نہ لیتا ہو اور اگر بولنے کے ساتھ ساتھ ذکر قلبی بھی مل جائے تو وہ کامل ذکر ہوجاتا ہے اور اگر ذکر کرنے والا قلبی توجہ کے ساتھ ساتھ ذکر کے معنی پر بھی توجہ دے اور جو ذکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اللہ کی صفات سے نقائص کی نفی ہے تو اس کا ذکر درجہ کمال میں اور آگے بڑھ جائے گا۔
چنانچہ اگر یہ اشیاء کسی عمل مثلاً فرضی نماز، جہاد وغیرہ میں مل جائیں تو ان کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اگر انسان توجہ کو درست کرلے اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہی کرلے تو ان اعمال کا درجہ کامل ترین ہوجاتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذکر لسانی کا مطلب وہ الفاظ ہیں جو تسبیح و تحمید اور تمجید پر دلالت کرتے ہیں اور ذکر قلبی سے مراد ذات اور صفات کے دلائل میں اور احکامات جاننے کے لیے اوامر اور نواہی کا مکلف بنایا گیا ہے ان کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے اسرار میں غور و فکر کرنا ہے اور ذکر بالجوارح کا مطلب فرمانبرداری میں غرق ہونا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نماز کو ذکر کہا۔ فرمایا:
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ o} [جمعہ:۹]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذکر الٰہی کی دو اقسام ہیں
(۱) ذکر قلبی
(۲) ذکر لسانی
اور پھر ذکر قلبی کی دو اقسام ہیں
(۱) اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی میں اس کی بادشاہت میں اور آسمان و زمین میں اس کی نشانیوں میں غورو فکر کرنا۔ اسی کے متعلق حدیث ہے کہ ذکر خفی بہترین ذکر ہے۔
ذکر خفی سے مراد مذکورہ اشیاء ہی ہیں۔ ذکر قلبی کی یہ قسم اذکار میں سے سب سے زیادہ بلند و بالا اہمیت کی حامل ہے۔
(۲) امر اور نہی کے وقت ذکر قلبی یعنی جس کا حکم ہوا اسے کر گزرنا اور جس سے روکا گیا اس سے رک جانا اور شبہے والی اشیاء سے توقف کرنا ہے۔
صرف ذکر لسانی اذکار میں سب سے کمزور درجہ رکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ اس کی بھی بہت سی فضیلتیں ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔ (تفصیل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع فرمائیں)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ئَآمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا o} [الاحزاب:۴۱]
بندوں پر اللہ تعالیٰ نے مختلف اقسام کی نعمتیں اور احسانات کیے جس کی بناء پر انہیں اکثر حالات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) اور الحمد للہ کا بکثرت ذکر کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ذکر کرنے والے بہت زیادہ ثواب اور اچھے ٹھکانے والے بن سکیں۔
بندوں کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حد بندی بھی نہیں فرمائی۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان کلمات کا ذکر بے وضوء، باوضوء اور جنبی آدمی بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر اسی طرح ممکن ہے کہ انسان بیٹھا ہوا لیٹا ہوا اور کھڑا بھی ذکر کرتا رہے۔
ذکر الٰہی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:فرمایا:
{فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ o} [النساء:۱۰۳]
یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دیں گے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکُمُ وَأَرْفَعِھَا فِيْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ )) قَالُوْا: بَلیٰ، قَالَ: (( ذِکْرُ اللّٰہِ۔ )) قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۸۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ o} [الاعراف:۲۰۵]
یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور عاجزی کے ساتھ صبح اور شام اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر اور اس کی یاد سے غفلت مت برت۔
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَیِّتِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللّٰہ عزوجل، رقم: ۶۴۰۷۔
قرآن مجید کے بیشتر مقامات میں ذکر الٰہی کا تذکرہ اور اس سے غفلت کی نہی موجود ہے اور ذکر کرنے والوں کی مدح و ستائش اور فلاح کا مدار ذکر اللہ کی کثرت کو قرار دیا گیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔
اعمال صالحہ کا اختتام بھی ذکر اللہ پر ہی ہوتا ہے مثلاً روزہ، حج، نماز، جمعہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات سے نفع اٹھانے والے ذاکرین کو خصوصی طور پر اولو الالباب (عقل والے) کہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب اعمال کا ساتھی اور روح قرار دیا یعنی نماز، روزہ، حج وغیرہ میں اللہ کا ذکر ہے بلکہ حج، تلبیہ اور حج کے مقصد کی روح اللہ کی یاد اور ذکر ہے۔ جہاد کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر پیوستہ ہے۔ اس لیے برابر کے حریف کا سامنا اور دشمن سے مقابلہ کے وقت اللہ کی یاد کا حکم (اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۵ میں اللہ کے ذکر کو جہاد میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے دیکھئے
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo}دیا گیا ہے۔
فتح الباری، ص: ۲۰۹/۱۱۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۱۵/۲، ص: ۱۲۱۔ ۱۲۸/۱۴۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۰۲، ۵۰۳/۳۔ شرح مسلم للنووی، ص: ۱۵/۱۷۔ مدارج السالکین لابن قیم، ص: ۳۹۷، ۳۹۹/۲۔
حوالہ