عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
پیش کردہ: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
از: مذہب مختار:ذکر کا طریقہ
معانی الاخبار میں امام ابو بکر محمد بن اسحٰق (م ۳۷۱ھ) نے بسند متصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نےحضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام )نے اللہ تعالیٰ سے ہاتھ اٹھاکر دعاءکی
یا رب ابعید انت فانادیک ام قریب فاناجیک فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ یا موسیٰ انا جلیس من ذکرنی (مشکوٰۃ شریف)
اے رب کیا تو بعید ہے کہ تجھے پکاروں یا قریب ہے کہ آہستہ کہوں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی اے موسیٰ (علیہ السلام)جو میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے پاس ہوں۔
’’ابعید انت‘‘(کیا تو دورہے)کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ذکر جہری کی اجازت طلب فرمائی تھی یہ نہیں کہ بعید سے مراد طول مسافت ہے ،اور ایسے ہی قریب سے مراد حلول نہیں ، گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا کہ جہر کے ساتھ دعا کروں یا آہستہ دعا کروں ،تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ایسے پکارو جیسے اپنے جلیس کوپکارتےہو کیوں کہ جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہو ں،اور پاس والے کو نہ زور سے پکارا جائے اور نہ بالکل خفی پکارا جائے کہ آوازبھی نہ نکلے ،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے۔
لاتجہر بصلاتک ولا تخافت بہ وبتغ بین ذالک سبیلا
نہ اپنی دعامیں جہر کرو اور نہ آہستہ اور اس کے درمیان کا راستہ اختیار کرو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لوگو! تم کسی غائب اور بہرے کو نہیں پکارتے ہو تم تو سمیع بصیر کو پکارتے ہو!حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ ایک سفر میں ہم حضورصلی اللہ عنہ کے ساتھ تھے تو ہم نے بلندواز سے تکبیر کہنا شروع کی تب حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا(تفسیرابن کثیر)
یہ بھی معنٰی ہوسکتے ہیںالٰہی میں آپ سے دور ہوں یا قریب ہوں؟تاکہ میرا جو مقام میرا ہو میں ویسا ہی طریقہ اختیار کروں اگر دور ہوںتو قرب طلب کروںاور اگر قریب ہوں تو مزید قرب حاصل کروں اور مقربین کی طرح پکاروں۔
دوگانہ رنج وعذاب است جان مجنوں را
بلائے فرقت لیلےٰ و صحبت لیلےٰ
حدیث کے ظاہر الفاظ سے تو یہ ثابت نہیں ہے لیکن اس کے التزامی معنٰی یہی ہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا،بلائے فرقت لیلےٰ و صحبت لیلےٰ
انا جلیس من ذکرنی
جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوں
یعنی ہم سے دوری اور نزدیکی یاہمارے نزدیک ہونے کی علامت ذکر کرناہے جو ہمیں یاد کرتا ہے جان لینا چاہئے کہ میں اس کے پاس اور اس کے ساتھ ہوں۔
حدیث شریف میں قرب کی علامت تو ذکر فرمادی ہےلیکن بُعداور دوری کی کوئی علامت ذکر نہیں فرمائی ،یہ بات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر شفقت اور مہربانیکی وجہ سے ہے ،یہ بھی جواب ہے کہ اوصاف ِ قرب کو اعلانیہ ذکر فرمادیا لیکن اوصاف بُعد کو دلالۃ ذکر فرمایا ہے یعنی اے موسیٰ آپ اپنے کو مجھ سے کیوں بعید محسوس کرتے ہو ہم تم تو ہمارا ذکر کرنے والے ہواس لیے تم قرب کے اعلیٰ مقام اور نزدیکی کے اعلیٰ مرتبہ پر ہو ،کیوں کہ تم سے ہمارا قرب ایسا ہی ہے جیسا کسی جلیس کے ساتھ ہوتا ہے ،اور حدیث پاک میںقرب کو بندے کے اعتبار سے ذکر کیا ہے تاکہ انسان ذاکر کو اپنی فضیلت ظاہر ہوجائے اور یہ اس کے کرم اور لطف کا معاملہ ہے آیت کریمہ ہے:
مایکون من نجویٰ ثلٰثۃ الا ھورابعہم ولا خمسۃ الا ھو سادسھم
نہیں ہوتی سرگوشی تین کی مگر وہ ان میہں چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ میں مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے
یحبھم ویحبونہ (الاٰیہ)
اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں