رئیس ندوی کی علمی تحقیق کا ایک شاہکار
رئیس ندوی کی اللمحات پانچ جلدوں میں" تصنیف کثیف "کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مصنف نے خوب اچھی طرح اپنے دل کا غبار نکالاہے ۔احناف سے اوربالخصوص امام ابوحنیفہ سے بغض وعداوت کو آشکاراکرنے کیلئے انوارالباری کے رد کو بہانہ بنایاگیاہے۔اس کی ضرورت نہین تھی ۔مصنف کو چاہئے تھاکہ اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے کسی آڑ کے بغیر یہ کام کرتے۔مصنف چھٹی جلد لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے لیکن لمحات کیلئے خدانے انہیں اتنے لمحے نہیں دیئے اور وہ چھٹی جلد لکھنے کا خواب لئے خداکے حضور حاضرہوگئے ۔
غلطیاں ہرانسان سے ہوتی ہیں۔ مصنف بھی ایک انسان ہوتاہے غلطیاں اس سے بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن دانستہ غلطیوں کی بات دیگرہے۔ مصنف نے جس طرح لمحات کی پانچوں جلدوں میں حقیقت کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے وہ قابل عبرت ہے۔ ایسی غلطیاں اورایسی باتیں ایک دوہوتیں تواس کی نشاندہی بھی کی جاسکتی تھی لیکن یہ توپوری کتاب اورتمام پانچ جلدوں میں پھیلی ہوئی داستان ہے کوئی کہاں تک نشاندہی کرے۔
یابقول مصحفیخط غلط املاء غلط انشاء غلط
ہست ایں مضموں زسرتاپاغلط
یابقول کسےمصحفی ہم توسمجھتے تھے کہ ہوگاکوئی زخم
تیرے دل میں توبہت کام رفو کا نکلا
ایک دوزخم نہیں جسم ہے ساراچھلنی
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
اس وقت موضوع بحث رئیس ندوی صاحب کا بیان کردہ لطیفہ ہے اور وہ یہ کہ ہے کہ دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں!
اوراس کیلئے بے چارے کے پاس لے دے کر صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ بھی ابن عبدالبر کی محتمل عبارت اوریہ محتمل عبارت بھی زبردستی اس جانب بنائی گئی ہے۔اوراس کے سمجھنے میں خواہ ضمیر کو یہاں سے وہاں موڑاگیاہے۔اورترجمہ میں مصنف کی ترجمانی کرنے کے بجائے اپنے جذبات اورخیالات کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
ابن عبدالبر کی عبارت دیکھیں۔
قَالَ أَبُو عُمَرَ وَلِيَ الرَّشِيدُ الْخِلافَةَ سَنَةَ سَبْعِينَ وَمِائَةٍ فَأَقَامَ خَلِيفَةً ثَلاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً وَمَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ قَالَ أَنا ابو الْقسم عبيد الله بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ الشَّافِعِيُّ الْبَغْدَادِيُّ بِمَنْزِلِهِ فى مَدِينَة الزهراء قَالَ حَدَّثَنِي جَمَاعَةٌ مِنْ شُيُوخِي بِمَعْنَى مَا أَذْكُرُهُ قَالَ حُمِلَ الشَّافِعِيُّ مِنَ الْحِجَازِ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الْعَلَوِيَّةِ تِسْعَةً وَهُوَ الْعَاشِرُ إِلَى بَغْدَادَ وَكَانَ الرَّشِيدُ بِالرَّقَّةِ فَحُمِلُوا مِنْ بَغْدَادَ إِلَيْهِ وَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ وَمَعَهُ قَاضِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحسن الشيبانى وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا عَنْهُ فَلَمَّا بَلَغَهُ أَنَّ الشَّافِعِيَّ فِي الْقَوْمِ الَّذِينَ أُخِذُوا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْحِجَازِ وَاتُّهِمُوا بِالطَّعْنِ عَلَى الرَّشِيدِ وَالسَّعْيِ عَلَيْهِ اغْتَمَّ لِذَلِكَ غَمًّا شَدِيدًا وَرَاعَى وَقْتَ دُخُولِهِمْ عَلَى الرَّشِيدِ قَالَ فَلَمَّا أُدْخِلُوا عَلَى الرَّشِيدِ سَأَلَهُمْ وَأَمَرَ بِضَرْبِ أَعْنَاقِهِمْ فَضُرِبَتْ أَعْنَاقُهُمْ إِلَى أَنْ بَقِيَ حَدَثٌ عَلَوِيٌّ مِنْ اهل الْمَدِينَة وَأَنا فَقَالَ للعلوى أَأَنْت الْخَارِجُ عَلَيْنَا وَالزَّاعِمُ أَنِّي لَا أَصْلُحُ لِلْخِلافَةِ فَقَالَ الْعَلَوِيُّ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَدَّعِيَ ذَلِكَ أَوْ أَقُولَهُ قَالَ فَأَمَرَ بِضَرْبِ عُنُقِهِ فَقَالَ لَهُ العلوى ان كَانَ لابد مِنْ قَتْلِي فَأَنْظِرْنِي أَكْتُبُ إِلَى أُمِّي بِالْمَدِينَةِ فَهِيَ عَجُوزٌ لَمْ تَعْلَمْ بِخَبَرِي فَأَمَرَ بِقَتْلِهِ فَقُتِلَ ثُمَّ قَدِمْتُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ جَالِسٌ مَعَهُ وَالْفِقْهِ وَالْقَاضِي يَعْرِفُ ذَلِكَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَافِعِ بن السَّائِب بن عبيد بن عبديزيد بن هَاشم بن الْمطلب بن عبدمناف فَقَالَ لِي أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا ذَكَرَكَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ثُمَّ عَطَفَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا يَقُولُ هَذَا هُوَ كَمَا يَقُولُهُ قَالَ بَلَى وَله من الْعلم مَحل كَبِيرٌ وَلَيْسَ الَّذِي رُفِعَ عَلَيْهِ مِنْ شَأْنِهِ قَالَ فَخُذْهُ إِلَيْكَ حَتَّى أَنْظُرَ فِي أَمْرِهِ فَأَخَذَنِي مُحَمَّدٌ وَكَانَ سَبَبَ خَلاصِي لِمَا أَرَادَ الله عز وَجل مِنْهُ
(الانتقاء97)
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام محمد اورامام شافعی کی آپسی جان پہچان ہوگی۔ خواہ یہ واقفیت مدینہ میں ہوئی ہو یامکہ میں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امام محمد نے امام شافعی سے کچھ اوربطورخاص روایات وغیرہ حاصل کی ہوں۔یہ ہردور میں ہوتارہاہے۔ کسی سے کچھ استفادہ کرنا اورکسی کی شاگردی اختیار کرنادونوں میں بہت فرق ہے۔ انسان اپنی زندگی میں بہت سے افراد سے استفادہ کرتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں اتاکہ وہ اس کا شاگرد ہوگیا۔
امام ترمذی سے بعض روایات امام بخاری نے سنی ہیں۔ تورئیس ندوی کے اصول کے مطابق امام بخاری امام ترمذی کے شاگرد ہوگئے۔ کیایہ بات کوئی عقل وہوش رکھنے والاکہہ سکتاہے؟اسی طرح نہ جانے کتنے محدثین ہیں جنہوں نے اپنے شاگردوں سے روایات لی ہیں توکیاوہ اپنے استاد کے استاد ہوگئے اوران کے استاد اِن کے شاگرد ہوگئے۔جالسوہ فی العلم واخذوہ عنہ سے شاگردی پر استدلال کرناغلط ہے۔ہاں استفادہ پراستدلال کیاجاسکتاہے اور وہ بھی صرف اسی صورت میں کہ اس کو امام شافعی کے فخر میں شمار کیاجائے کہ امام محمد نے ان سے استفادہ کیا۔جیساکہ امام ترمذی کے فخر میں شمار کیاجاتاہے کہ دورایت انہو نے ان سے لی ہیں ۔
یاپھراس کو امام محمد کے مناقب میں شمار کیاجائے کہ انہوں نے حصول علم میں اپنے سے عمر میں کمتر شخص سے بھی استفادہ کرنے میں کوئی عارنہیں سمجھاجیساکہ امام شافعی کے سلسلے میں ایسے ہی ایک واقعہ کو امام شافعی کی فضیلت میں شمار کیاگیاہے۔
خْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: كَتَبَ الشَّافِعِيُّ حَدِيثَ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ رَأَى رَجُلا صَلَّى فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ".فَكَتَبَ الشَّافِعِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حُسَيْنٍ الأَلْثَغِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: يَعْنِي لِحِرْصِ الشَّافِعِيِّ عَلَى طَلَبِ الصَّحِيحِ مِنَ الْعِلْمِ، كَتَبَ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ الْحَدِيثَ الَّذِي احْتَاجَ إِلَيْهِ، وَلَمْ يَأْنَفْ مِنْ كِتَابَتِهِ عَمَّنْ هُوَ فِي سِنِّهِ، أَوْ أَصْغَرَ مِنْهُ، وَلَعَلَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ كَانَ حَيًّا فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَلَمْ يُبَالِ بِذَلِكَ
(آداب الشافعی ومناقبہ29)