- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
یہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک گمنام خاتون کی کہانی ہے جو وی سی آر پر فلمیں دیکھتے دیکھتے فلموں میں کام کرنے کے شوق میں رائل پارک پہنچ گئی تھی۔ پھر یہ خاتون’’فلمی دنیا ‘‘ میں Adjustہونے سے کس طرح بچیں اور کیسے محفوظ طور پر گھر پہنچیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ان کی اپنی بیان کردہ یہ کہانی ذیل میں مطالعہ کیجئے۔
اس دن ہمارے گھر میں کوئی خوشی کی انتہا نہ رہی جب میرا بڑا بھائی روزگار کے لیے ملک سے بارہ گیا اور پھر چند ماہ بعد ہی ہمارے گھر میں ہماری ضروریات سےزیادہ پیسے آنے شروع ہوگئے ۔ پہلے ہم تین وقت کے کھانے کو ترستے تھے مگر اب انواع و ا قسام کے کھانے ہر وقت گھر میں پکتے تھے۔ تمام رشتہ دار ہمارے گھر کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
میرے والدین کے علاوہ ہمارے گھر میں ہم تین بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ میں بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ میرے والد ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹر تھے۔ ان کے کندھوں پر ہم سب کا بوجھ تھا۔ جیسے تیسے کر کے انہوں نے ہمارے بڑے بھائی کو باہر بجھوا دیا۔اس دن ہمارے گھر میں سب پھولے نہیں سما رہے تھے جب دو سال بعد بھائی چھٹی پر گھر واپس آئے تو اپنے ساتھ بڑا ٹیپ ریکارڈ ، وی سی آر ، رنگین ٹیلی ویژن ، فریج اور کئی دوسری چیزیں لے کر آئے۔ اب کیا تھا! ہم تھے اور وی سی آر پر انڈین فلموں کی بھرمار،تبصرے تھے ، تو انڈین اداکاروں اور اداکاراؤں کے۔ ہر جگہ اور ہر خاندانی فنگشن میں یہی اداکاراؤں کے تذکرے تھے۔ آخر میرے دل میں بھی ایک کامیاب ترین اداکارہ بننے کا خیال سمایا۔ یہ خیال تقویت اختیار کر کے ارادہ بن گیا اور پھر میں نے نہایت سوچ بچار کے بعد ایک کامیاب اداکارہ بننے کے لیے ہر رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔
جب میں نے اس کا ذکر اپنی چند قریبی سہیلیوں سے کیا تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا مگر مجھ پر ایک ہی بھوت سوار تھا اور پھر ایک رات میں نے گھر سے زیورات اور نقدی( جو قریباً دو لاکھ روپے کی قریب بنتی تھی) اٹھائی اور لاہور کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ مجھے یہ یاد تھا کہ لاہور کے لکشمی چوک میں فلم کے بڑے بڑے دفتر قائم ہیں اور پھر میں نے اخبارات میں بھی ان کے بارے میں پڑھا ہوا تھا۔ لاہور پہنچ کر میں لکشمی چوک میں چلی گئی اور وہاں پر رائل پارک کی گلیوں میں گھوم پھر کر فلمی دفاتر کا جائزہ لیناشروع کر دیا ۔ مجھے اس طرح گلیوں میں پھرتے دیکھ کر چند اوباش غنڈے میرے پیچھے لگ گئے۔ میں ان کے آگے تیز تیز چلتی ہوئی ایک بلڈنگ میں داخل ہو کر بلا سوچے سمجھے سیڈھیاں چڑھنے لگی۔ آخری منزل پر سیڑھیوں کے ساتھ ہی مجھے ایک فلمی دفتر پر بڑا سا نام ’’بارود کا تحفہ‘‘ لکھا ہوا ملا اور میں گھبرائی گھبرائی اس دفتر میں داخل ہوگئی۔ وہاں میں نے چپڑاسی سے پوچھا کہ مجھے اس فلم کے فلمساز جس کا نام میں پڑھ چکی تھی رانا طارق مسعود صاحب سے ملنا ہے ۔اس نے مجھے بٹھایا اور دفتر کے ساتھ والے کمرے میں اس نے رانا صاحب کو بتایا کہ کوئی خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ اندر بھیج دیں۔ میں سہمی سہمی سی اندر چلی گئی۔ سامنے ایک نوجوان جس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی، بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ آیئے تشریف رکھیے۔ میں خوفزدہ سی بیٹھ گئی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے فلمساز طارق مسعود سے ملنا ہے اس نے کہا کہ فرمایئے! میں ہی رانا طارق مسعود ہوں۔ میں بہت حیران ہوئی۔ میرے ذہن میں تو فلم پروڈیوسر کا نقشہ ہی کچھ اور تھا کہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس، متکبر چالیس پینتالیس سالہ لمبا تڑنگا سا کوئی شخص ہوگا جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میرے طرف دیکھے گا مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ ابھی تک سامنے بیٹھے شخص نے میری طرف ایک دفعہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔وہ غالباً اسکرپٹ پڑھنے میں مشغول تھا۔ میں الجھے الجھے اور ملے جلے سے خیالات کے ساتھ وہاں بیٹھی دیوار پر لگے ہوئے بڑے بورڈ پر لگی فلم’’ بارود کا تحفہ‘‘ کی تصاویر دیکھ رہی تھی۔
اب میں سوچ رہی تھی کہ اس شخص کو کس طرح قائم کروں گی؟ اتنے میں انہوں نے نگاہیں نیچے رکھے ہی مجھے سے پوچھا کہ محترمہ!فرمایئے آپ کس کام سے یہاں تشریف لائی ہیں؟ پہلے تو میں جھکی مگر فوراً ہی میں نے اپنا اصل مدعا انہیں بیان کرنا شروع کر دیا کہ میں فلموں میں کام کر کے ایک کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں۔ میری بات سن کر خاموش ہوگئے۔ میں ان کے جواب کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں دفتر کا چپڑاسی میرے لیے کولڈ ڈرنک لے آیا اور میرے سامنے رکھ دی ۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ جاؤ اور پر تکلف چائے لے کر آؤ ۔ میں یہ بات سن کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی کہ دال گلتی نظر آتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد رانا صاحب پھر مخاطب ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کو ہیروئن بننے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ میں نے ان کو بتایا کہ میرے بھائی جان کچھ عرصہ قبل گھر میں بیرون ملک سے وی سی آر لے کر آئے ہیں میں نے اس پر بے شمار فلمیں دیکھیں ہیں۔ مجھے سری دیوی اور بابرہ شریف بہت پسند ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں بھی ان کی طرح ہیروئن بن کر دنیا میں اپنا نام پیدا کروں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ فلم کی سکرین پر جب آپ اچھل کود رہی ہوں گی تو آپ کے والدین اور بہن بھائیوں پر کیا بیتے گی؟ رانا صاحب نے چبھتا ہوا سوال کر ڈالا۔
مگر میں کہاں شکست ماننے والی تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ میں تمام کشتیاں جلا کر آئی ہوں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی شوق کی تکمیل کے لیے قربانیاں تو دنیا ہی پڑتی ہیں تو گویا آپ اس شوق پر اپنے والدین کی عزت اور غیرت کو قربان کرنے سے بھی گریزاں نہیں ۔ رانا صاحب کے اس سوال نے میرے اندر کی ضد کو ہوا دی۔
میں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اور پھر مجھے یقین ہے کہ میں جب پردہ سکرین کی ایک بڑی ہیروئن بن جاؤں گی اور میرے پاس دولت کی ریل پیل ہوگی تو بالیقین میرے گھر والے مجھ پر فخر کریں گے۔ میری یہ بات سن کر رانا صاحب نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگے، تو گویا فلمی ہیروئن بننے کے لیے آپ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
میں نے پر عزم ہو کر کہا: کیوں نہیں، میں اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے راستے میں پڑے ہوئے کانٹے بھی اپنی پلکوں سے چن لوں گی۔ بہت خطرناک ارادے لگتے ہیں آپ کے۔ رانا صاحب گویا ہوئے۔
اتنے میں لڑکا پر تکلف لوازمات کے ساتھ چائے لے کر آگیا۔ میں چائے۔ بنانے لگ گئی ۔ جب چائے بن گئی تو میں نے رانا صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنی سیٹ کی بجائے یہاں میرے ساتھ آکر چائے پیئں۔ میں حیران تھی کہ میرے اندر یہ جراٴت کیسے پیدا ہوگئی کہ میں اتنی بے باکی سے ہر بات کر رہی تھی رانا صاحب اٹھ کر آگئے اور میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کرنے لگے۔ دوران گفتگو انہوں نے غیر محسوس انداز میں مجھ سے یہ بات اگلوائی کہ میرا تعلق کس شہر سے اور کس گھرانے سے ہے۔
پھر انہوں نے مجھے روشنیوں کی اس دنیا کی تاریکی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ انہوں نے بتایا فلم انڈسٹری میں بہت سے ایسے لوگ اور گروہ بھی ہیں جو اس تاڑ میں لگے رہتے ہیں کہ جو لڑکیاں فلم میں کام کرنے کے شوق میں گھر سے بھاگ آتی ہیں، انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے روشن مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا کر یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ ان کے خوابوں کی تعبیر صرف انہی کے ہاتھ میں ہے ۔سب سے پہلے تو ان سے مال بٹورتے ہیں جو گھروں سے وہ لے کر آئی ہوتی ہیں، پھر چند دن ان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد پہلے تو بہلا پھسلا کر خود ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور پھر انہیں مجبور اور بلیک میل کر کے دوسرے لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس طرح آبرو کو نیلام کر کے اپنا کاروبار چلتے ہیں ،پھر وہ لڑکیاں نہ گھر کی رہتی ہیں اور نہ گھاٹ کی بلکہ ایک مجبور و بے کس کٹھ پتلی کی طرح ان کے حکم کے غلام بن کر رہ جاتی ہیں۔
رانا صاحب یہ باتیں کر رہے تھے مگر مجھ پر ان کی کسی بات کا بھی اثر نہ تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس شخص کو سیڑھی بنا کر منزل پار کر لوں گی۔
انہی باتوں کے دوران رانا صاحب نے ایک ایسے گروہ کا بھی بتایا کہ وہ لوگ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر فلم میں کام دینے کا لالچ دے کر سٹوڈیو میں لے کر آتے ہیں اور پھر زبردستی ان کی انتہائی گری ہوئی اخلاق سوز فلمیں بنا کر انہیں تمام زندگی بلیک میل کرتے ہیں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ ایک لمحے کے لیے تو میں چونکی پھر میں نے گھر کے بارے میں سوچا کہ اگر میں واپس بھی جاؤں تو گھر والے مجھے مار ڈالیں گے۔ میں نے رانا صاحب کو بتایا کہ میں ہر قیمت پر فلموں کی کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں رانا صاحب کہنے لگے: تمہاری مرضی، مگر تم لاہور سے باہر کے شہر کی ہو، اس لیے تمہاری رہائش کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں نے اپنا پرس کھول کر ان کے سامنے ڈھیر کر دیا۔ جس میں دو لاکھ روپے اور گھر کے تمام زیورات تھے۔ میں نے رانا صاحب سے کہا کہ یہ رقم رکھ لیں اور میرے لیے کسی فلیٹ کا بندوبست کر دیں میں وہاں رہ لوں گی مگر آپ میرے ساتھ رہا کریں کیوں کہ میں اکیلی لڑکی پورے فلیٹ میں نہیں رہ سکتی۔ دل ہی دل میں مَیں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ میں اس شخص کو ہر قیمت پر ہر طرح سے سیڑھی بنا کر اپنی منزل کو پہنچ جاؤں گی رقم اور زیورات دیکھ کر رانا صاحب نے کہا: آپ انہیں پرس میں رکھیں اور کسی کو مت بتایئے گا۔ میں بندوبست کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر کچھ دیر کی معذرت کر کے وہ دفتر سے باہر چلے گئے اور لڑکے سے کہہ گئے کہ دفتر کے اس کمرے میں کسی کو مت آنے دینا۔ لڑکا برتن اٹھا کر چلا گیا اور میں اٹھ کر بڑے غور سے دیوار پر آویزاں فلم کے فوٹو سیٹ کو دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ خود کو ان پوسٹروں پر محسوس کرنے لگی۔ عالم تصور میں مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر شخص میری ایک جھلک دینے کو بے تاب تھا اور آٹو گراف لینے کے لیے بے چین میں خود پر فخر کر رہی تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میرے آگے پیچھے گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ میرے بنگلے پر پروڈیوسروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر شخص مجھے اپنی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا ہے۔
میں یہی سوچ رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ ناک ہوا اور میرا حسین خواب ٹوٹ گیامیں سنبھل کر بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد گلا کھنکارتے ہوئے رانا صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے بتایا کہ آج ہماری فلم کی شوٹنک ہے۔ لہٰذا تم بھی ہمارے ساتھ شوٹنگ پر چلو گی اور باقی سلسلہ شوٹنگ سے واپس آکر دیکھیں گے ، تم وہاں جا کر دیکھو گی کہ شوٹنگ کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے؟ اور پھر شوٹنگ بھی آؤٹ ڈور کی ہے۔
میں دل ہی میں یہ بات سن کر پھولے میں نہیں سما رہی تھی۔ آج میری برسوں پرانی حسرت پوری ہو رہی تھی منزل بس تھوڑی ہی دور رہ گئی تھی بلکہ میں محسوس کر رہی تھی کہ میں نے منزل کو پالیا ہے۔ خیر تھوڑی ہی دیر بعد ایک صاحب آئے اور انہوں نے رانا صاحب کو بتایا کہ نیچے گاڑی تیار ہے۔ باقی یونٹ لوکیشن پر جا چکا ہے ۔ میں آپ کو لینے آیا ہوں رانا صاحب نے مجھے چلنے کو کہا اور پھر ہم دفتر سے نیچے اتر کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی روانہ ہوئی میں تمام راستہ میں سنہرے مستقبل کے سپنوں میں کوئی رہی ۔ مجھے کوئی ہوش نہ تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟میں تو خود کو بادلوں پر اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھی کہ مجھے اتنی آسانی سے منزل مل گئی ہے۔میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ رانا طارق مسعود کی ہر خواہش کا احترام کروں گی، اسے کسی بات سے نہیں روکوں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شخص نے مجھ سے کسی بھی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔
پھر گاڑی جب ایک جھٹکے سے رکی تو میں گاڑی کے باہر دیکھ کر پریشان ہوگئی۔یہ تو میرا ہی شہر تھا اور اس شہر کی وہی آبادی تھی جہاں پر ہمارا گھر تھا۔ جہاں ہمارے گاڑی رکی تھی اس سے دوگلیاں چھوڑ کر ہی تو ہمارا گھر تھا ۔ اب مجھے بہت غصہ آیا۔ میرا جی چاہا کہ میں اس رانا کے بچےکو قتل کر دوں گی کچا چبا جاؤں ۔ اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ یہ تو مجھے شوٹنگ دکھانے لایا تھا۔ مگر اس نے یہ کیا کیا؟ مجھے میرے شہر میں بلکہ میرے محلے میں لے آیا ہے اب میں سوچ رہی تھی کہ میرے ماں باپ کو جب پتہ چلے گا تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ میری ماں تو شاید صدمہ سے مر ہی جائے ۔ میرے بھائی مجھے نہیں چھوڑیں گے وہ مجھے قتل کر دیں گے میری بہنیں جیتے جی مر جائیں گی۔میں عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ گھر سے بھاگ کر میں نے اچھا نہیں کیا۔ اب تک یہ بدنامی میرے گھر کو، میرے خاندان کو تباہ و برباد کر چکی ہوگئی کہ اچانک انہی رانا صاحب کی کرخت آواز میرے کانوں میں گونجی جن کی گفتگو پہلے بڑی ملائم اور لطیف تھی کہ چلو اٹھو! گاڑی سے اترو میں گھبرا کر گاڑی سے نیچے اتری اور پھر وہ ہمارے جاننے والوں کے ایک گھر میں مجھے گئے وہ ان کے جاننے والے بھی تھے۔میں گھر کے اندر گئی، انہوں نے مجھے خواتین کے پاس بھیج دیا اور کہا کسی کو مت بتانا۔ نارمل رہنا۔ میں ڈری ڈری اور سہمی سہمی وہاں کمرے میں ٹھہری رہی مجھے وہاں کسی نے بھی کوئی محسوس نہ ہونے دیا۔
رانا صاحب ،جن کے گھر ہم گئے تھے ان صاحب کو لے کر جانے کہاں چلے گئے اور کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آئے اور مجھ سے ملے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے والدین اور بہن بھائیوں کو ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ تم مسز آصف کے ساتھ اپنے گھر جاؤ۔ یہ خاتون بتادیں گی کہ تم کو یہ بازار لے گئی تھیں، وہاں دیر ہوگئی۔ میں ڈرتے ڈرتے گھر گئی ، جیسے ہی میں گھر پہنچی ، میری ماں میرے گلے لگ کر خوب روئی۔ والد صاحب بھی اندر ہی اندر شدید کرب میں مبتلا تھے۔ سب بہن بھائیوں نے مجھے کچھ محسوس نہ ہونے دیا۔ مسز آصف نے میرےوالدین سے کہا کہ میں اسے ایک شادی میں لے گئی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ دیر ہوگئی۔
اس رات میں بہت روئی۔ اس فرشتہ صفت انسان رانا طارق مسعود کی ایک ایک بات یاد آنے لگی اور میں محسوس کر رہی تھی کہ جیسے وہ شخص مجھے بھیڑیوں کے چنگل سے نکال کر کس حکمت سے گھر پہنچا گیا ۔ اس نے نہ صرف مجھ پر بلکہ میرے پورے خاندان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے اورپھر اس کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ میرے گھر آنے کے اگلے روز ہی میرے بھائی نے وی سی آر ، ڈش، ٹیلی ویژن اور ٹیپ ریکارڈ کو توڑ ڈالا اور پھر گھر والوں نے ایک ماہ بعد میری شادی کر دی۔ میرے شوہر بہت اچھے ہیں وہ انتہائی نیک اور رحم دل انسان ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
میرے تین بچے ہیں، ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نہایت پر سکون گھر اور خوش گوار ماحول میں رہ رہی ہوں۔ آج بھی جب مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار رانا طارق مسعود جیسے عظیم شخص کے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے۔ آج اگر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں تو اس نیک دل اور شریف النفس انسان کی وجہ سے ورنہ شاید آج میں غلط ہاتھوں میں پہنچ کر نہ جانے برائی کی کس دلدل میں کھو گئی ہوتی یا پھر اس ’’بازار ‘‘ میں پہنچ کر اپنے خاندان کی غیرت کا جنازہ بن جاتی۔
میری شادی کے قریباً ایک سال بعد میری ماں نے بتایا کہ رانا طارق مسعود تمھیں آصف کے گھر پہنچا کر آصف صاحب کے ہمراہ ہم سے ملنے آئے تھے اور انہوں نے نہایت پیار سے ہمیں بتایا کہ آپ کی بیٹی الحمدللہ! خَیریت سے ہے اور اسی طرح ہماری حفاظت میں ہے جس طرح کہ ہماری سگی بہن ہو۔ مگر تمہارے بھائی نے جب ان سے کہا کہ مجھے بتائیں ! وہ کہاں ہے؟ میں اس بے غیرت کو قتل کر دوں گا تو انہوں نے نہایت حکمت و تدبر اور نرمی سے تمہارے بھائی کوسمجھایا کہ ابھی تک اس کے جانے کی بات صرف تم لوگوں کو معلوم ہے اور آپ کی عزت اور ناموس محفوظ ہے، جب تم اسے قتل کر دو گے تو یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہوگی اور پھر تمہاری دوسری بہنیں جب تھانے کچہری میں لوگوں کے پاس جائیں گی تو کیا ان کی عزت محفوظ رہے گی؟ تو گویا دراصل تمہارا یہ قدم خاندان کی بربادی اور عزت و ناموس کا جنازہ نکالے گا اور پھر یہ ویڈیو اور ٹیلی ویژن تم نے ہی تو لا کر دیے تھے جس پر فلمیں دیکھ دیکھ کر اس پر فلم ایکٹریس بننے کا جنون طاری ہوا۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے گھر کی اور اپنی اصلاح کی ضرورت ہے یہ میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے اگر آپ مجھے اپنا محسن سمجھتے ہیں تو اس لڑکی کو شبہ بھی نہ ہونے دیجئے گا کہ آپ کو اس کے اس عمل کا پتہ چلا ہے نیز جتنی جلدی ممکن ہو اس کی شادی کر دیں۔
آج جب میں نے راحیلہ آغا کا انٹرویو پڑھا کہ اس نے اداکاری کیوں چھوڑی ؟ تو میں سوچ رہی تھی کہ جس عظیم انسان کی فلم میں اس نے کام کیا، واقعی اس کے بعد اسے اداکاری چھوڑ ہی دینی چاہیئے تھی۔
آج میرے گھر میں نہ ٹی وی ہے اور نہ وی سی آر وغیرہ۔ اپنی دینی بہنوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس بات پر ضرور دھیان رکھیں۔ ان کے بچے ٹی وی یا وی سی آر پر کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا ان میں کوئی منفی کردار بننے کا جذبہ تو پیدا نہیں ہو رہا؟ خاص طور پر اپنی بیٹیوں پر پوری توجہ دیں۔ ان میں دین اسلام کا شعور پیا کرنے کی کوشش کریں۔ ان میں حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کے قلب و ذہن میں پردے کا شعور پیدا کریں کیوں کہ پردہ عورت کو بہت سی برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (سینما سے مسجد تک۸۲ تا ۹۰)
یہ واقعہ والدین کا دل دہلانے کے لیے کافی ہے لیکن کتنے سنگ دل ہے وہ والدین جو اپنی اولاد کو ٹی وی، وی سی آر، ڈش ، سی ڈی وغیرہ منحوس آلات کے سامنے بیٹھا دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں کرتے۔
اس دن ہمارے گھر میں کوئی خوشی کی انتہا نہ رہی جب میرا بڑا بھائی روزگار کے لیے ملک سے بارہ گیا اور پھر چند ماہ بعد ہی ہمارے گھر میں ہماری ضروریات سےزیادہ پیسے آنے شروع ہوگئے ۔ پہلے ہم تین وقت کے کھانے کو ترستے تھے مگر اب انواع و ا قسام کے کھانے ہر وقت گھر میں پکتے تھے۔ تمام رشتہ دار ہمارے گھر کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
میرے والدین کے علاوہ ہمارے گھر میں ہم تین بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ میں بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ میرے والد ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹر تھے۔ ان کے کندھوں پر ہم سب کا بوجھ تھا۔ جیسے تیسے کر کے انہوں نے ہمارے بڑے بھائی کو باہر بجھوا دیا۔اس دن ہمارے گھر میں سب پھولے نہیں سما رہے تھے جب دو سال بعد بھائی چھٹی پر گھر واپس آئے تو اپنے ساتھ بڑا ٹیپ ریکارڈ ، وی سی آر ، رنگین ٹیلی ویژن ، فریج اور کئی دوسری چیزیں لے کر آئے۔ اب کیا تھا! ہم تھے اور وی سی آر پر انڈین فلموں کی بھرمار،تبصرے تھے ، تو انڈین اداکاروں اور اداکاراؤں کے۔ ہر جگہ اور ہر خاندانی فنگشن میں یہی اداکاراؤں کے تذکرے تھے۔ آخر میرے دل میں بھی ایک کامیاب ترین اداکارہ بننے کا خیال سمایا۔ یہ خیال تقویت اختیار کر کے ارادہ بن گیا اور پھر میں نے نہایت سوچ بچار کے بعد ایک کامیاب اداکارہ بننے کے لیے ہر رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔
جب میں نے اس کا ذکر اپنی چند قریبی سہیلیوں سے کیا تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا مگر مجھ پر ایک ہی بھوت سوار تھا اور پھر ایک رات میں نے گھر سے زیورات اور نقدی( جو قریباً دو لاکھ روپے کی قریب بنتی تھی) اٹھائی اور لاہور کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ مجھے یہ یاد تھا کہ لاہور کے لکشمی چوک میں فلم کے بڑے بڑے دفتر قائم ہیں اور پھر میں نے اخبارات میں بھی ان کے بارے میں پڑھا ہوا تھا۔ لاہور پہنچ کر میں لکشمی چوک میں چلی گئی اور وہاں پر رائل پارک کی گلیوں میں گھوم پھر کر فلمی دفاتر کا جائزہ لیناشروع کر دیا ۔ مجھے اس طرح گلیوں میں پھرتے دیکھ کر چند اوباش غنڈے میرے پیچھے لگ گئے۔ میں ان کے آگے تیز تیز چلتی ہوئی ایک بلڈنگ میں داخل ہو کر بلا سوچے سمجھے سیڈھیاں چڑھنے لگی۔ آخری منزل پر سیڑھیوں کے ساتھ ہی مجھے ایک فلمی دفتر پر بڑا سا نام ’’بارود کا تحفہ‘‘ لکھا ہوا ملا اور میں گھبرائی گھبرائی اس دفتر میں داخل ہوگئی۔ وہاں میں نے چپڑاسی سے پوچھا کہ مجھے اس فلم کے فلمساز جس کا نام میں پڑھ چکی تھی رانا طارق مسعود صاحب سے ملنا ہے ۔اس نے مجھے بٹھایا اور دفتر کے ساتھ والے کمرے میں اس نے رانا صاحب کو بتایا کہ کوئی خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ اندر بھیج دیں۔ میں سہمی سہمی سی اندر چلی گئی۔ سامنے ایک نوجوان جس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی، بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ آیئے تشریف رکھیے۔ میں خوفزدہ سی بیٹھ گئی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے فلمساز طارق مسعود سے ملنا ہے اس نے کہا کہ فرمایئے! میں ہی رانا طارق مسعود ہوں۔ میں بہت حیران ہوئی۔ میرے ذہن میں تو فلم پروڈیوسر کا نقشہ ہی کچھ اور تھا کہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس، متکبر چالیس پینتالیس سالہ لمبا تڑنگا سا کوئی شخص ہوگا جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میرے طرف دیکھے گا مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ ابھی تک سامنے بیٹھے شخص نے میری طرف ایک دفعہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔وہ غالباً اسکرپٹ پڑھنے میں مشغول تھا۔ میں الجھے الجھے اور ملے جلے سے خیالات کے ساتھ وہاں بیٹھی دیوار پر لگے ہوئے بڑے بورڈ پر لگی فلم’’ بارود کا تحفہ‘‘ کی تصاویر دیکھ رہی تھی۔
اب میں سوچ رہی تھی کہ اس شخص کو کس طرح قائم کروں گی؟ اتنے میں انہوں نے نگاہیں نیچے رکھے ہی مجھے سے پوچھا کہ محترمہ!فرمایئے آپ کس کام سے یہاں تشریف لائی ہیں؟ پہلے تو میں جھکی مگر فوراً ہی میں نے اپنا اصل مدعا انہیں بیان کرنا شروع کر دیا کہ میں فلموں میں کام کر کے ایک کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں۔ میری بات سن کر خاموش ہوگئے۔ میں ان کے جواب کا انتظار کر رہی تھی کہ اتنے میں دفتر کا چپڑاسی میرے لیے کولڈ ڈرنک لے آیا اور میرے سامنے رکھ دی ۔ رانا صاحب نے اسے کہا کہ جاؤ اور پر تکلف چائے لے کر آؤ ۔ میں یہ بات سن کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی کہ دال گلتی نظر آتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد رانا صاحب پھر مخاطب ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کو ہیروئن بننے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ میں نے ان کو بتایا کہ میرے بھائی جان کچھ عرصہ قبل گھر میں بیرون ملک سے وی سی آر لے کر آئے ہیں میں نے اس پر بے شمار فلمیں دیکھیں ہیں۔ مجھے سری دیوی اور بابرہ شریف بہت پسند ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں بھی ان کی طرح ہیروئن بن کر دنیا میں اپنا نام پیدا کروں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ فلم کی سکرین پر جب آپ اچھل کود رہی ہوں گی تو آپ کے والدین اور بہن بھائیوں پر کیا بیتے گی؟ رانا صاحب نے چبھتا ہوا سوال کر ڈالا۔
مگر میں کہاں شکست ماننے والی تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ میں تمام کشتیاں جلا کر آئی ہوں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی شوق کی تکمیل کے لیے قربانیاں تو دنیا ہی پڑتی ہیں تو گویا آپ اس شوق پر اپنے والدین کی عزت اور غیرت کو قربان کرنے سے بھی گریزاں نہیں ۔ رانا صاحب کے اس سوال نے میرے اندر کی ضد کو ہوا دی۔
میں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اور پھر مجھے یقین ہے کہ میں جب پردہ سکرین کی ایک بڑی ہیروئن بن جاؤں گی اور میرے پاس دولت کی ریل پیل ہوگی تو بالیقین میرے گھر والے مجھ پر فخر کریں گے۔ میری یہ بات سن کر رانا صاحب نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگے، تو گویا فلمی ہیروئن بننے کے لیے آپ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
میں نے پر عزم ہو کر کہا: کیوں نہیں، میں اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے راستے میں پڑے ہوئے کانٹے بھی اپنی پلکوں سے چن لوں گی۔ بہت خطرناک ارادے لگتے ہیں آپ کے۔ رانا صاحب گویا ہوئے۔
اتنے میں لڑکا پر تکلف لوازمات کے ساتھ چائے لے کر آگیا۔ میں چائے۔ بنانے لگ گئی ۔ جب چائے بن گئی تو میں نے رانا صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنی سیٹ کی بجائے یہاں میرے ساتھ آکر چائے پیئں۔ میں حیران تھی کہ میرے اندر یہ جراٴت کیسے پیدا ہوگئی کہ میں اتنی بے باکی سے ہر بات کر رہی تھی رانا صاحب اٹھ کر آگئے اور میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کرنے لگے۔ دوران گفتگو انہوں نے غیر محسوس انداز میں مجھ سے یہ بات اگلوائی کہ میرا تعلق کس شہر سے اور کس گھرانے سے ہے۔
پھر انہوں نے مجھے روشنیوں کی اس دنیا کی تاریکی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ انہوں نے بتایا فلم انڈسٹری میں بہت سے ایسے لوگ اور گروہ بھی ہیں جو اس تاڑ میں لگے رہتے ہیں کہ جو لڑکیاں فلم میں کام کرنے کے شوق میں گھر سے بھاگ آتی ہیں، انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے روشن مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا کر یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ ان کے خوابوں کی تعبیر صرف انہی کے ہاتھ میں ہے ۔سب سے پہلے تو ان سے مال بٹورتے ہیں جو گھروں سے وہ لے کر آئی ہوتی ہیں، پھر چند دن ان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد پہلے تو بہلا پھسلا کر خود ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور پھر انہیں مجبور اور بلیک میل کر کے دوسرے لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس طرح آبرو کو نیلام کر کے اپنا کاروبار چلتے ہیں ،پھر وہ لڑکیاں نہ گھر کی رہتی ہیں اور نہ گھاٹ کی بلکہ ایک مجبور و بے کس کٹھ پتلی کی طرح ان کے حکم کے غلام بن کر رہ جاتی ہیں۔
رانا صاحب یہ باتیں کر رہے تھے مگر مجھ پر ان کی کسی بات کا بھی اثر نہ تھا اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس شخص کو سیڑھی بنا کر منزل پار کر لوں گی۔
انہی باتوں کے دوران رانا صاحب نے ایک ایسے گروہ کا بھی بتایا کہ وہ لوگ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر فلم میں کام دینے کا لالچ دے کر سٹوڈیو میں لے کر آتے ہیں اور پھر زبردستی ان کی انتہائی گری ہوئی اخلاق سوز فلمیں بنا کر انہیں تمام زندگی بلیک میل کرتے ہیں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ ایک لمحے کے لیے تو میں چونکی پھر میں نے گھر کے بارے میں سوچا کہ اگر میں واپس بھی جاؤں تو گھر والے مجھے مار ڈالیں گے۔ میں نے رانا صاحب کو بتایا کہ میں ہر قیمت پر فلموں کی کامیاب ہیروئن بننا چاہتی ہوں رانا صاحب کہنے لگے: تمہاری مرضی، مگر تم لاہور سے باہر کے شہر کی ہو، اس لیے تمہاری رہائش کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں نے اپنا پرس کھول کر ان کے سامنے ڈھیر کر دیا۔ جس میں دو لاکھ روپے اور گھر کے تمام زیورات تھے۔ میں نے رانا صاحب سے کہا کہ یہ رقم رکھ لیں اور میرے لیے کسی فلیٹ کا بندوبست کر دیں میں وہاں رہ لوں گی مگر آپ میرے ساتھ رہا کریں کیوں کہ میں اکیلی لڑکی پورے فلیٹ میں نہیں رہ سکتی۔ دل ہی دل میں مَیں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ میں اس شخص کو ہر قیمت پر ہر طرح سے سیڑھی بنا کر اپنی منزل کو پہنچ جاؤں گی رقم اور زیورات دیکھ کر رانا صاحب نے کہا: آپ انہیں پرس میں رکھیں اور کسی کو مت بتایئے گا۔ میں بندوبست کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر کچھ دیر کی معذرت کر کے وہ دفتر سے باہر چلے گئے اور لڑکے سے کہہ گئے کہ دفتر کے اس کمرے میں کسی کو مت آنے دینا۔ لڑکا برتن اٹھا کر چلا گیا اور میں اٹھ کر بڑے غور سے دیوار پر آویزاں فلم کے فوٹو سیٹ کو دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ خود کو ان پوسٹروں پر محسوس کرنے لگی۔ عالم تصور میں مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر شخص میری ایک جھلک دینے کو بے تاب تھا اور آٹو گراف لینے کے لیے بے چین میں خود پر فخر کر رہی تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میرے آگے پیچھے گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ میرے بنگلے پر پروڈیوسروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر شخص مجھے اپنی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا ہے۔
میں یہی سوچ رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ ناک ہوا اور میرا حسین خواب ٹوٹ گیامیں سنبھل کر بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد گلا کھنکارتے ہوئے رانا صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے بتایا کہ آج ہماری فلم کی شوٹنک ہے۔ لہٰذا تم بھی ہمارے ساتھ شوٹنگ پر چلو گی اور باقی سلسلہ شوٹنگ سے واپس آکر دیکھیں گے ، تم وہاں جا کر دیکھو گی کہ شوٹنگ کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے؟ اور پھر شوٹنگ بھی آؤٹ ڈور کی ہے۔
میں دل ہی میں یہ بات سن کر پھولے میں نہیں سما رہی تھی۔ آج میری برسوں پرانی حسرت پوری ہو رہی تھی منزل بس تھوڑی ہی دور رہ گئی تھی بلکہ میں محسوس کر رہی تھی کہ میں نے منزل کو پالیا ہے۔ خیر تھوڑی ہی دیر بعد ایک صاحب آئے اور انہوں نے رانا صاحب کو بتایا کہ نیچے گاڑی تیار ہے۔ باقی یونٹ لوکیشن پر جا چکا ہے ۔ میں آپ کو لینے آیا ہوں رانا صاحب نے مجھے چلنے کو کہا اور پھر ہم دفتر سے نیچے اتر کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی روانہ ہوئی میں تمام راستہ میں سنہرے مستقبل کے سپنوں میں کوئی رہی ۔ مجھے کوئی ہوش نہ تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟میں تو خود کو بادلوں پر اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھی کہ مجھے اتنی آسانی سے منزل مل گئی ہے۔میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ رانا طارق مسعود کی ہر خواہش کا احترام کروں گی، اسے کسی بات سے نہیں روکوں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شخص نے مجھ سے کسی بھی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔
پھر گاڑی جب ایک جھٹکے سے رکی تو میں گاڑی کے باہر دیکھ کر پریشان ہوگئی۔یہ تو میرا ہی شہر تھا اور اس شہر کی وہی آبادی تھی جہاں پر ہمارا گھر تھا۔ جہاں ہمارے گاڑی رکی تھی اس سے دوگلیاں چھوڑ کر ہی تو ہمارا گھر تھا ۔ اب مجھے بہت غصہ آیا۔ میرا جی چاہا کہ میں اس رانا کے بچےکو قتل کر دوں گی کچا چبا جاؤں ۔ اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ یہ تو مجھے شوٹنگ دکھانے لایا تھا۔ مگر اس نے یہ کیا کیا؟ مجھے میرے شہر میں بلکہ میرے محلے میں لے آیا ہے اب میں سوچ رہی تھی کہ میرے ماں باپ کو جب پتہ چلے گا تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ میری ماں تو شاید صدمہ سے مر ہی جائے ۔ میرے بھائی مجھے نہیں چھوڑیں گے وہ مجھے قتل کر دیں گے میری بہنیں جیتے جی مر جائیں گی۔میں عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ گھر سے بھاگ کر میں نے اچھا نہیں کیا۔ اب تک یہ بدنامی میرے گھر کو، میرے خاندان کو تباہ و برباد کر چکی ہوگئی کہ اچانک انہی رانا صاحب کی کرخت آواز میرے کانوں میں گونجی جن کی گفتگو پہلے بڑی ملائم اور لطیف تھی کہ چلو اٹھو! گاڑی سے اترو میں گھبرا کر گاڑی سے نیچے اتری اور پھر وہ ہمارے جاننے والوں کے ایک گھر میں مجھے گئے وہ ان کے جاننے والے بھی تھے۔میں گھر کے اندر گئی، انہوں نے مجھے خواتین کے پاس بھیج دیا اور کہا کسی کو مت بتانا۔ نارمل رہنا۔ میں ڈری ڈری اور سہمی سہمی وہاں کمرے میں ٹھہری رہی مجھے وہاں کسی نے بھی کوئی محسوس نہ ہونے دیا۔
رانا صاحب ،جن کے گھر ہم گئے تھے ان صاحب کو لے کر جانے کہاں چلے گئے اور کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آئے اور مجھ سے ملے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے والدین اور بہن بھائیوں کو ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ تم مسز آصف کے ساتھ اپنے گھر جاؤ۔ یہ خاتون بتادیں گی کہ تم کو یہ بازار لے گئی تھیں، وہاں دیر ہوگئی۔ میں ڈرتے ڈرتے گھر گئی ، جیسے ہی میں گھر پہنچی ، میری ماں میرے گلے لگ کر خوب روئی۔ والد صاحب بھی اندر ہی اندر شدید کرب میں مبتلا تھے۔ سب بہن بھائیوں نے مجھے کچھ محسوس نہ ہونے دیا۔ مسز آصف نے میرےوالدین سے کہا کہ میں اسے ایک شادی میں لے گئی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ دیر ہوگئی۔
اس رات میں بہت روئی۔ اس فرشتہ صفت انسان رانا طارق مسعود کی ایک ایک بات یاد آنے لگی اور میں محسوس کر رہی تھی کہ جیسے وہ شخص مجھے بھیڑیوں کے چنگل سے نکال کر کس حکمت سے گھر پہنچا گیا ۔ اس نے نہ صرف مجھ پر بلکہ میرے پورے خاندان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے اورپھر اس کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ میرے گھر آنے کے اگلے روز ہی میرے بھائی نے وی سی آر ، ڈش، ٹیلی ویژن اور ٹیپ ریکارڈ کو توڑ ڈالا اور پھر گھر والوں نے ایک ماہ بعد میری شادی کر دی۔ میرے شوہر بہت اچھے ہیں وہ انتہائی نیک اور رحم دل انسان ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
میرے تین بچے ہیں، ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نہایت پر سکون گھر اور خوش گوار ماحول میں رہ رہی ہوں۔ آج بھی جب مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار رانا طارق مسعود جیسے عظیم شخص کے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے۔ آج اگر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں تو اس نیک دل اور شریف النفس انسان کی وجہ سے ورنہ شاید آج میں غلط ہاتھوں میں پہنچ کر نہ جانے برائی کی کس دلدل میں کھو گئی ہوتی یا پھر اس ’’بازار ‘‘ میں پہنچ کر اپنے خاندان کی غیرت کا جنازہ بن جاتی۔
میری شادی کے قریباً ایک سال بعد میری ماں نے بتایا کہ رانا طارق مسعود تمھیں آصف کے گھر پہنچا کر آصف صاحب کے ہمراہ ہم سے ملنے آئے تھے اور انہوں نے نہایت پیار سے ہمیں بتایا کہ آپ کی بیٹی الحمدللہ! خَیریت سے ہے اور اسی طرح ہماری حفاظت میں ہے جس طرح کہ ہماری سگی بہن ہو۔ مگر تمہارے بھائی نے جب ان سے کہا کہ مجھے بتائیں ! وہ کہاں ہے؟ میں اس بے غیرت کو قتل کر دوں گا تو انہوں نے نہایت حکمت و تدبر اور نرمی سے تمہارے بھائی کوسمجھایا کہ ابھی تک اس کے جانے کی بات صرف تم لوگوں کو معلوم ہے اور آپ کی عزت اور ناموس محفوظ ہے، جب تم اسے قتل کر دو گے تو یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہوگی اور پھر تمہاری دوسری بہنیں جب تھانے کچہری میں لوگوں کے پاس جائیں گی تو کیا ان کی عزت محفوظ رہے گی؟ تو گویا دراصل تمہارا یہ قدم خاندان کی بربادی اور عزت و ناموس کا جنازہ نکالے گا اور پھر یہ ویڈیو اور ٹیلی ویژن تم نے ہی تو لا کر دیے تھے جس پر فلمیں دیکھ دیکھ کر اس پر فلم ایکٹریس بننے کا جنون طاری ہوا۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے گھر کی اور اپنی اصلاح کی ضرورت ہے یہ میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے اگر آپ مجھے اپنا محسن سمجھتے ہیں تو اس لڑکی کو شبہ بھی نہ ہونے دیجئے گا کہ آپ کو اس کے اس عمل کا پتہ چلا ہے نیز جتنی جلدی ممکن ہو اس کی شادی کر دیں۔
آج جب میں نے راحیلہ آغا کا انٹرویو پڑھا کہ اس نے اداکاری کیوں چھوڑی ؟ تو میں سوچ رہی تھی کہ جس عظیم انسان کی فلم میں اس نے کام کیا، واقعی اس کے بعد اسے اداکاری چھوڑ ہی دینی چاہیئے تھی۔
آج میرے گھر میں نہ ٹی وی ہے اور نہ وی سی آر وغیرہ۔ اپنی دینی بہنوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس بات پر ضرور دھیان رکھیں۔ ان کے بچے ٹی وی یا وی سی آر پر کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا ان میں کوئی منفی کردار بننے کا جذبہ تو پیدا نہیں ہو رہا؟ خاص طور پر اپنی بیٹیوں پر پوری توجہ دیں۔ ان میں دین اسلام کا شعور پیا کرنے کی کوشش کریں۔ ان میں حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کے قلب و ذہن میں پردے کا شعور پیدا کریں کیوں کہ پردہ عورت کو بہت سی برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (سینما سے مسجد تک۸۲ تا ۹۰)
یہ واقعہ والدین کا دل دہلانے کے لیے کافی ہے لیکن کتنے سنگ دل ہے وہ والدین جو اپنی اولاد کو ٹی وی، وی سی آر، ڈش ، سی ڈی وغیرہ منحوس آلات کے سامنے بیٹھا دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں کرتے۔