• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رات سونے سے قبل اپنا محاسبہ ضرور کریں !!!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی آپ کیا کہتے اس پوسٹ کے بارے میں اور @طلحہ خان بھائی کی وضاحت پر
بھائی آپ نے جو عبارت لکھی ہے( رات سونے سے قبل اپنا محاسبہ ضرور کریں) اس کی دلیل نہیں دی جس میں رات کا زکر ہو
ایک مومن کو ہر گھڑی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے ،اس کے کئی ایک دلائل ہیں ،قرآن عزیز کا ایک مقام یہاں دیکھ لیں؛
محاسبة.jpg

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ،اور ہر نفس کو چاھیئے کہ وہ دیکھے (محاسبہ کرے ) کہ اسنے آنے والے کل کیلئے اپنے آگے کیا بھیجا (کون سے صالح عمل کئے )
اور اللہ سے ڈرتے رہو ،یقیناً اللہ خوب جانتا ہے جو عمل تم کرتے ہو ‘‘ سورۃ الحشر

اور روزانہ رات کو سونے پہلے واقعی اپنا محاسبہ کرنا بہت مناسب ہے ،کیونکہ :
نیند موت کا بھائی ہے
(ہمارے محاورے نیند موت کی بہن ہے )حدیث رسول ﷺ ہے :
النوم أخو الموت ، و لا يموت أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6808
خلاصة حكم المحدث: صحيح

3 - النوم أخو الموت ، و لا ينام أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1087
خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه
جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ،

یعنی نیند موت ہی کی ایک قسم ہے ۔اور موت سے پہلے اپنا محاسبہ ضروری ہے اور مناسب ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری دلیل:
صحيح البخاري
باب إذا بات طاهرا:
باب: وضو کر کے سونے کی فضیلت

البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"إذا اتيت مضجعك فتوضا وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الايمن وقل:‏‏‏‏ اللهم اسلمت نفسي إليك وفوضت امري إليك والجات ظهري إليك رهبة ورغبة إليك لا ملجا ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي انزلت وبنبيك الذي ارسلت فإن مت مت على الفطرة فاجعلهن آخر ما تقول"فقلت:‏‏‏‏ استذكرهن وبرسولك الذي ارسلت قال:‏‏‏‏ لا وبنبيك الذي ارسلت.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ «اللهم أسلمت نفسي إليك،‏‏‏‏ وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ رهبة ورغبة إليك،‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك،‏‏‏‏ آمنت بكتابك الذي أنزلت،‏‏‏‏ وبنبيك الذي أرسلت‏.‏» ”اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے۔“
اس کے بعد اگر تم مر گئے تو فطرت (دین اسلام) پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی «وبرسولك الذي أرسلت‏.‏» کہنے میں کیا وجہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں «وبنبيك الذي أرسلت» کہو۔
----------------------------------
اس حدیث میں بھی نیند اور موت کا تعلق بتایا گیا ،کہ اگر اس نیند میں موت آئی تو مذکورہ کلمات نافع ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری دلیل ؛ جس میں نیند کو موت ہی کہا گیا ہے :
صحيح البخاري
باب ما يقول إذا أصبح:
باب: صبح کے وقت کیا دعا پڑھے

حدیث نمبر: 6324


عن حذيفة قال:‏‏‏‏"كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان ينام قال:‏‏‏‏ باسمك اللهم اموت واحيا وإذا استيقظ من منامه قال:‏‏‏‏ الحمد لله الذي احيانا بعد ما اماتنا وإليه النشور".

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تو کہتے «باسمك اللهم أموت وأحيا» ”تیرے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں مرتا اور تیرے ہی نام سے جیتا ہوں۔“ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا،‏‏‏‏ وإليه النشور» ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔“


دونوں بھائیوں سے دعاء کی درخواست ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سونے سے پہلے وضوء بھی کر لینا چاھیئے،کہ یہ ارشاد نبی ﷺ ہے؛
نووی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ اس اندیشہ کے سبب ہے کہ کہیں اس نیند میں موت آجائے (تو بندہ حالت وضوء میں ہو )

الوضوء قبل النوم.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ایک مومن کو ہر گھڑی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے ،اس کے کئی ایک دلائل ہیں ،قرآن عزیز کا ایک مقام یہاں دیکھ لیں؛
11422 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ،اور ہر نفس کو چاھیئے کہ وہ دیکھے (محاسبہ کرے ) کہ اسنے آنے والے کل کیلئے اپنے آگے کیا بھیجا (کون سے صالح عمل کئے )
اور اللہ سے ڈرتے رہو ،یقیناً اللہ خوب جانتا ہے جو عمل تم کرتے ہو ‘‘ سورۃ الحشر

اور روزانہ رات کو سونے پہلے واقعی اپنا محاسبہ کرنا بہت مناسب ہے ،کیونکہ :
نیند موت کا بھائی ہے
(ہمارے محاورے نیند موت کی بہن ہے )حدیث رسول ﷺ ہے :
النوم أخو الموت ، و لا يموت أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6808
خلاصة حكم المحدث: صحيح

3 - النوم أخو الموت ، و لا ينام أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1087
خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه
جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ،

یعنی نیند موت ہی کی ایک قسم ہے ۔اور موت سے پہلے اپنا محاسبہ ضروری ہے اور مناسب ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری دلیل:
صحيح البخاري
باب إذا بات طاهرا:
باب: وضو کر کے سونے کی فضیلت

البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"إذا اتيت مضجعك فتوضا وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الايمن وقل:‏‏‏‏ اللهم اسلمت نفسي إليك وفوضت امري إليك والجات ظهري إليك رهبة ورغبة إليك لا ملجا ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي انزلت وبنبيك الذي ارسلت فإن مت مت على الفطرة فاجعلهن آخر ما تقول"فقلت:‏‏‏‏ استذكرهن وبرسولك الذي ارسلت قال:‏‏‏‏ لا وبنبيك الذي ارسلت.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ «اللهم أسلمت نفسي إليك،‏‏‏‏ وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ رهبة ورغبة إليك،‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك،‏‏‏‏ آمنت بكتابك الذي أنزلت،‏‏‏‏ وبنبيك الذي أرسلت‏.‏» ”اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے۔“
اس کے بعد اگر تم مر گئے تو فطرت (دین اسلام) پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی «وبرسولك الذي أرسلت‏.‏» کہنے میں کیا وجہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں «وبنبيك الذي أرسلت» کہو۔
----------------------------------
اس حدیث میں بھی نیند اور موت کا تعلق بتایا گیا ،کہ اگر اس نیند میں موت آئی تو مذکورہ کلمات نافع ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری دلیل ؛ جس میں نیند کو موت ہی کہا گیا ہے :
صحيح البخاري
باب ما يقول إذا أصبح:
باب: صبح کے وقت کیا دعا پڑھے

حدیث نمبر: 6324


عن حذيفة قال:‏‏‏‏"كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان ينام قال:‏‏‏‏ باسمك اللهم اموت واحيا وإذا استيقظ من منامه قال:‏‏‏‏ الحمد لله الذي احيانا بعد ما اماتنا وإليه النشور".

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تو کہتے «باسمك اللهم أموت وأحيا» ”تیرے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں مرتا اور تیرے ہی نام سے جیتا ہوں۔“ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا،‏‏‏‏ وإليه النشور» ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔“


دونوں بھائیوں سے دعاء کی درخواست ہے۔
بھائی اس طرح کے محاسبے کے بارے میں آپ نے کوئی دلیل نہیں دی جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے ہیں اور جوزکر ازکار دعائیں احادیث میں آتی ہیں ۔ان پر عمل کرچاہیے۔ان طرح کی
باتیں تو صوفیاء کی کتابوں میں ہوتی ہیں میں نے سب سے پہلے یہ بات کمی کیمیای سعادت میں پڑی تھی
اپنی طرف سے وقت اور تعداد مقرر کرنا
سوال گزارش ہے کہ مھجے اس بارے میں وفتوی دیں کہ میں عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑ ھ کر سورۃ
فاتحہ باربار پڑھتا ہوں اور اس میں اس کی تعداد کا تعین نہیں کرتا ۔مثلا سوبار ہو جاے یا کم یا زیادہ
تعداد مقرر کرتا ہوں نہ قت متعین کرتا ہوں۔واضح کریں کہ میں قران کریم ہمشہ اس نیت
سے پڑھتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے زیادہ اجروثواب حاصل ہو۔کیا میر یہ عمل بدعت قرار دیا
جاے گا؟ میں فاتحہ پڑنے کے بعد توبہ و استغفار کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے بجشش کی دعا کرتا ہوں
۔اللہ سے دعا ہے کہ آپ کواسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق دے
جواب قران ؐجید اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام بندوں سے کلام سےاس طرح افضل ہےجس طرح
کود اللہ کی زات بندوں سے افضل ہےتلاوت قران مجید کی فضیلت اتنی زیادہ ہےکہ اس کی صحیح
مقدار اللہ ہی جانتے ہیں۔لیکن تالوت کرنے والے کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کسی: خاص وقت :
یا خاص مقصد کے لیےکوئی سورت یاآیت تلاوت کتلیے خاص کرلے۔مگر جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کردی ان پر عمل کرتے ہوے اس تخصیص کا لحاظ رکھنا چاہیے۔مثلا دم جھاڑ کے لیے
سورت الفاتحہیا نماز کی ہر رکعت میں سورت الفاتحہ پڑھنا سوتے وقت اس نیت سے آیت الکرسی
پڑھا کہ اللہ تعالٰی (پڑھنے والے کو) شیطان سے محفوظ رکھے یا دم کر نے کے لیےسورت قل ھواللہ
احد2 قل اعوز برب الفلق3 قل عوزبرب لناس پڑھنا ۔اس طرح سورت یاآیت کو متعین تعداد
میں دہرانا بھی درست نہیں الایہ کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔کیونہ یہ عبادت ہے۔عبادت میں شریعت کی طرف ست تعین کا کیال رکھنا چاہیے۔اس سے واضح ہو کے رات کووتر کےبعد باربارسورت پڑھنے لی لیے سورت لفاتحہ کی تخصیص بدؑت ہے اگرچہ تعداد کا تعین نہ کرے۔
کیونکہ یہ عمل نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت خلفاے دشداین میں سے کسی ست ثابت ہے ۔
۔اس لیے بہتر یہ ہےفاتحہ کی یا وتر کے بعد پڑھنے کی تعین کے بغیر تلاوت کی جاے۔بلکہ مشرع تو
صرف قران کریم کی بکثرت تلاوت کرنا ہے۔اس متعین تعداد اور وقت کے بغیر پڑھنا جائز ہے
اور اسکی علاوہ شریعت سے کوئی چیز ثابت ہو جا ے تو جائز ہے۔جیسے کے پہلے وضاحت ہو چکی ہے
فتاوی بن بازرحمہ اللہ۔جلددوم[/QUOTE]
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بھائی اس طرح کے محاسبے کے بارے میں آپ نے کوئی دلیل نہیں دی جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے ہیں اور جوزکر ازکار دعائیں احادیث میں آتی ہیں ۔ان پر عمل کرچاہیے۔ان طرح کی
باتیں تو صوفیاء کی کتابوں میں ہوتی ہیں میں نے سب سے پہلے یہ بات کمی کیمیای سعادت میں پڑی تھی
اپنی طرف سے وقت اور تعداد مقرر کرنا
سوال گزارش ہے کہ مھجے اس بارے میں وفتوی دیں کہ میں عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑ ھ کر سورۃ
فاتحہ باربار پڑھتا ہوں اور اس میں اس کی تعداد کا تعین نہیں کرتا ۔مثلا سوبار ہو جاے یا کم یا زیادہ
تعداد مقرر کرتا ہوں نہ قت متعین کرتا ہوں۔واضح کریں کہ میں قران کریم ہمشہ اس نیت
سے پڑھتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے زیادہ اجروثواب حاصل ہو۔کیا میر یہ عمل بدعت قرار دیا
جاے گا؟ میں فاتحہ پڑنے کے بعد توبہ و استغفار کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے بجشش کی دعا کرتا ہوں
۔اللہ سے دعا ہے کہ آپ کواسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق دے
جواب قران ؐجید اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام بندوں سے کلام سےاس طرح افضل ہےجس طرح
کود اللہ کی زات بندوں سے افضل ہےتلاوت قران مجید کی فضیلت اتنی زیادہ ہےکہ اس کی صحیح
مقدار اللہ ہی جانتے ہیں۔لیکن تالوت کرنے والے کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کسی: خاص وقت :
یا خاص مقصد کے لیےکوئی سورت یاآیت تلاوت کتلیے خاص کرلے۔مگر جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کردی ان پر عمل کرتے ہوے اس تخصیص کا لحاظ رکھنا چاہیے۔مثلا دم جھاڑ کے لیے
سورت الفاتحہیا نماز کی ہر رکعت میں سورت الفاتحہ پڑھنا سوتے وقت اس نیت سے آیت الکرسی
پڑھا کہ اللہ تعالٰی (پڑھنے والے کو) شیطان سے محفوظ رکھے یا دم کر نے کے لیےسورت قل ھواللہ
احد2 قل اعوز برب الفلق3 قل عوزبرب لناس پڑھنا ۔اس طرح سورت یاآیت کو متعین تعداد
میں دہرانا بھی درست نہیں الایہ کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔کیونہ یہ عبادت ہے۔عبادت میں شریعت کی طرف ست تعین کا کیال رکھنا چاہیے۔اس سے واضح ہو کے رات کووتر کےبعد باربارسورت پڑھنے لی لیے سورت لفاتحہ کی تخصیص بدؑت ہے اگرچہ تعداد کا تعین نہ کرے۔
کیونکہ یہ عمل نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت خلفاے دشداین میں سے کسی ست ثابت ہے ۔
۔اس لیے بہتر یہ ہےفاتحہ کی یا وتر کے بعد پڑھنے کی تعین کے بغیر تلاوت کی جاے۔بلکہ مشرع تو
صرف قران کریم کی بکثرت تلاوت کرنا ہے۔اس متعین تعداد اور وقت کے بغیر پڑھنا جائز ہے
اور اسکی علاوہ شریعت سے کوئی چیز ثابت ہو جا ے تو جائز ہے۔جیسے کے پہلے وضاحت ہو چکی ہے
فتاوی بن بازرحمہ اللہ۔جلددوم
[/QUOTE]
آپ کے خیال میں شاید ’‘ محاسبہ ’‘ کوئی پڑھنے کی چیز ہے !
بہر حال ٹھیک ہے برادر !
آپ محاسبہ سے دور رہیں ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں،
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"محاسبہ نفس اور مؤمن کا کردار"


18 ربیع الاول 1436 بمطابق 9 جنوری 2014 کا خطبہ مسجد نبوی از ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ بعنوان:
"محاسبہ نفس اور مؤمن کا کردار"

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو مٹاتا ہے، اسکی رحمت و علم ہر چیز پر حاوی ہے، اپنے فضل سے نیکیاں زیادہ فرما دیتا ہے، اور نیک لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، آسمان و زمین میں کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے ذاتی مدد اور معجزات کے ذریعے انکی تائید فرمائی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے قرب الہی تلاش کرو، غضبِ الہی کا موجب بننے والے اعمال سے دور رہو ، متقی کامیاب و کامران، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد ہونگے۔اللہ کے بندو!

ذہن نشین کر لو! انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، چنانچہ محاسبہ نفس، اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے، لہذا جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الہی کے مطابق مکمل قابو رکھا ، تو وہ بڑی کامیابی پا گیا،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگی[النازعات : 40-41]

اسی طرح فرمایا:
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ}
اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کیلئے دو جنتیں ہیں۔[الرحمن : 46]

ایسے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کیلئے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی تمہارے عملوں کے بارے میں خبر رکھنے والا ہے۔ [الحشر : 18]

اسی طرح فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ}
بیشک متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ [الأعراف : 201]

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}
اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی [القيامہ : 2]

مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی نے ایسے نفس کی قسم اٹھائی ہے جو واجبات میں کمی اور کچھ حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ نفس سیدھا ہو جاتا ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، یا پھر خاموش رہے) بخاری و مسلماور شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کیلئے تیاری کرے، اور عاجز وہ شخص ہے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ سے امید لگا کر بیٹھے)یہ حدیث حسن ہے۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "محاسبہ شروع ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لو، اپنے نفس کا وزن کر لو اس سے پہلے کہ اسکا وزن کیا جائے، اور بڑی پیشی کیلئے تیاری کرو"
محاسبة النفس.jpg


میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کنجوس شراکت دار سے بھی زیادہ سخت محاسبہ متقی افراد اپنے نفس کا کرتے ہیں"ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مؤمن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہے، اور اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ اس پر آ گریں گے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے، جو اس کی ناک پر بیٹھے تو ایسے اڑا دے، یعنی: ہاتھ کے اشارے سے" بخاری

مؤمن شخص محاسبہ نفس اور نگرانی جاری رکھتے ہوئے اچھی حالت پر نفس کو قائم رکھتا ہے، تو وہ اپنے افعال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت گزاری کامل ترین شکل میں بجا لاتا ہے، جو اخلاص سے بھر پور، بدعات، ریاکاری ، خود پسندی سے پاک ہوتی ہیں، اپنے نیک اعمال سے رضائے الہی اور اخروی زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔مؤمن شخص محاسبہ نفس کرتے ہوئے نیکیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرتا ہے ، اور اسکی کوشش ہوتی ہے کہ اسکا عملی تسلسل نہ ٹوٹے، انہی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}
اور جو لوگ ہمارے لئے کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستے کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، اور بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[العنكبوت : 69]

اسی طرح فرمایا:
{وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}
اور جو شخص کوشش کرتا ہے بیشک وہ اپنے لئے ہی کوشش کرتا ہے، بیشک اللہ تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔ [العنكبوت : 6]

اسی طرح فرمایا:
{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ[2] أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ }
بیشک ہم نے آپکی طرف حق کیساتھ کتاب نازل کی ہے، چنانچہ صرف ایک اللہ کی اخلاص کیساتھ عبادت کریں، [2] خبردار! خالص عبادت صرف اللہ کیلئے ہی ہے۔[الزمر : 2-3]

سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ پل میں بدل جاتی ہے"فضل بن زیاد کہتے ہیں: "میں نے عمل میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: "نیت کیسے ہوتی ہے؟" تو انہوں نے کہا: "عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا علاج کرے، کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی مراد نہ ہو"شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے ریاکاری کیلئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کیلئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری کیلئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا) احمد، حاکم، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اسے روایت کیا ہے۔مؤمن اپنی بول چال کا بھی محاسبہ کرتا ہے، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور حرام گفتگو کیلئے بے لگام نہیں کرتا، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دو فرشتے اس کی ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا اس کے کیے ہوئے ہر عمل پر اسے بدلہ دیا جائے گا،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ }
اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں [10]وہ معزز لکھنے والے ہیں[11] اور جو بھی تم کرتے ہو اسے جانتے ہیں [الانفطار : 10 - 12]

اسی طرح فرمایا:
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے [ق : 18]

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "وہ ہر اچھی اور بری بات کو لکھتے ہیں، حتی کہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: میں نے کھا لیا، میں نے پی لیا، میں چلا گیا، میں آگیا، میں نے دیکھا"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پراوہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بیشک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پراوہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں جہنم میں ڈال دیتا ہے) بخاریابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، روئے زمین پر زبان سے زیادہ لمبی قید کا کوئی حقدار نہیں"اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر کہا کرتے تھے: "اسی نے مجھے ہلاکت میں ڈالا"اسی طرح مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور دل میں آنے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے، اس لئے کہ خیر ہو یا شر انکی ابتدا دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پا لے، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح باتا ہے، اور اگر شیطانی وسوسوں اور خیالات کو مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے۔اور اگر شیطانی وسوسوں سے غافل رہے، اور انہیں قبول کر لے تو یہ وسوسے اسے گناہوں میں ملوث کر دیتے ہیں،


اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
اور اگر شیطان کی طرف سے آپکو کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگو، بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[فصلت : 36]

اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (شیطان اپنی لگام کو ابن آدم کے دل پر رکھے ہوئے ہے، اگر وہ اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور اگر اللہ کو بھول جائے تو اس کے دل کو اپنی لگام ڈال دیتا ہے، یہی مطلب ہے "وسواس الخناس" کا) ابو یعلی موصلی​
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آپ کے خیال میں شاید ’‘ محاسبہ ’‘ کوئی پڑھنے کی چیز ہے !
بہر حال ٹھیک ہے برادر !
آپ محاسبہ سے دور رہیں ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں،[/QUOTE]
نہیں بھائی میرا ایسا خیال نہیں ہے ۔کہ محاسبہ پڑھنے کی چیز ہے۔لیکن رات کا وقت متعین کرنا صوفیاء کی بدعت ہے۔اور جہاں تک موت کی بات ہے۔تو موت رات ہونے سے پہلے بھی آسکتی ہے،اور بھائی آپ نے یہ بھی غلط کہا کہ محاسبہ سے دور رہنا چاہیے
بلکہ جس صورت میں محاسبہ بدعت میں آجاے اس سے دور رہنا چاہیے
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
طلحہ خان صاحب شاید یہ کہنا چاہ رھے ھیں، کہ محاسبہ کے عمل کو کسی ایک وقت کے ساتھ مخصوص نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ ایسا کرنا مسنون عمل سے ثابت نہیں ھے،
اور محترم اسحاق سلفی صاحب کا مؤقف یہ ھے کہ رات کی نیند موت کا بھائی ھے لہذا ماقبل اپنا محاسبہ کر لینا بہتر ھے کہ سارا دن کی کمی کوتاہیوں و لوگوں کیساتھ اعمال بد کا سلسلہ نیند کے وقت بند ھو جاتا ھے، لہذا نیند سے پہلے پہلے اپنا محاسبہ کرکے سوئیں تاکہ توبہ تائب ھونے کا موقع بن سکے

بہرحال، توبہ تائب و محاسبہ کے عمل کو صرف رات کیساتھ مخصوص کرنا درست سمجھ نہیں آتا،
رھی یہ بات کہ نیند جو کہ موت کا بھائی ھے بالکل برحق ھے، لیکن یوں سمجھنا کہ نجانے اب موت سے واپسی ھو یا نہ ھو اور آنکھیں بند کی بند ھی رہ جائیں، ایسی سوچ کو صرف نیند سے ھی خاص نہیں رلھنا چاھیئے، بلکہ موت تو کسی بھی وقت کسی بھی لمحے آ سکتی ھے اور انسان چلتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ھو سکتا ھے اور ایسا ھوتا بھی ھے،
پس
تقوی کا تقاضا یہی ھے کہ انسان ھر ھر لمحہ اپنا محاسبہ کیئے رکھے، ھر قدم، ھر چال، ھر فیصلہ، ھر گھڑی، سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ملتے جلتے آتے جاتے کھاتے پیتے پہنتے اوڑھتے لمحہ بہ لمحہ اپنا مکملبمحاسبہ رکھے، اللہ کی رضا کا خاص خیال رکھے، ذرا سی کوتاہی پر فوراً محاسبہ کرے اور رجوع کرے،

ولتنظر نفس ما قدمت لغد

کل روز محشر کے لیئے کیا چھوڑ رھا ھے؟ یہ سوچ کچھ بھی چھوڑتے وقت ھی رکھنی چاہیئے، نہ کہ اس سوچ کو صرف رات کے ساتھ خاص کر دے،
دوسری بات یہ بھی ھے کہ رات سوتے وقت انسان سارے دن کی احتیاطوں کیساتھ کیساتھ مجموعی طور پر اپنے آپ کا محاسبہ و کمی کوتاہیوں کا محاصرہ کرتا ھے تو یہ قعل سود مند ھی ثابت ھو گا۔ ان شاءاللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
پیارے بھائی میں اپنی پہلی پوسٹ میں سب سے پہلے یہی بات عرض کی تھی

ایک مومن کو ہر گھڑی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے ،اس کے کئی ایک دلائل ہیں ،قرآن عزیز کا ایک مقام یہاں دیکھ لیں؛
اب کوئی پڑھے بغیر تبصرہ شروع کردے تو بندہ کا کیا قصور ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یاد رہے ہمارا ۔۔تصوف ،اور صوفیاء سے کوئی تعلق نہیں ؛
اور نہ ہی ہمارے بیان کردہ محاسبہ نفس کا صوفیاء سے کوئی واسطہ
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
"حاسبوا قبل ان تحاسبوا "
یہ بہت اچھا موضوع ھے بہ نسبت
اس کے کہ
"حاسبوا قبل ان تنام "

کو موضوع بنایا جائے

جزاکم اللہ خیرا
 
Top