بسم اللہ الرحمن الرحیم
"محاسبہ نفس اور مؤمن کا کردار"
18 ربیع الاول 1436 بمطابق 9 جنوری 2014 کا خطبہ مسجد نبوی از ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ بعنوان:
"محاسبہ نفس اور مؤمن کا کردار"
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو مٹاتا ہے، اسکی رحمت و علم ہر چیز پر حاوی ہے، اپنے فضل سے نیکیاں زیادہ فرما دیتا ہے، اور نیک لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، آسمان و زمین میں کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے ذاتی مدد اور معجزات کے ذریعے انکی تائید فرمائی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے قرب الہی تلاش کرو، غضبِ الہی کا موجب بننے والے اعمال سے دور رہو ، متقی کامیاب و کامران، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد ہونگے۔اللہ کے بندو!
ذہن نشین کر لو! انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، چنانچہ محاسبہ نفس، اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے، لہذا جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الہی کے مطابق مکمل قابو رکھا ، تو وہ بڑی کامیابی پا گیا،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگی[النازعات : 40-41]
اسی طرح فرمایا:
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ}
اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کیلئے دو جنتیں ہیں۔[الرحمن : 46]
ایسے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کیلئے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی تمہارے عملوں کے بارے میں خبر رکھنے والا ہے۔ [الحشر : 18]
اسی طرح فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ}
بیشک متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ [الأعراف : 201]
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}
اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی [القيامہ : 2]
مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی نے ایسے نفس کی قسم اٹھائی ہے جو واجبات میں کمی اور کچھ حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ نفس سیدھا ہو جاتا ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، یا پھر خاموش رہے) بخاری و مسلماور شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کیلئے تیاری کرے، اور عاجز وہ شخص ہے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ سے امید لگا کر بیٹھے)یہ حدیث حسن ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "محاسبہ شروع ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لو، اپنے نفس کا وزن کر لو اس سے پہلے کہ اسکا وزن کیا جائے، اور بڑی پیشی کیلئے تیاری کرو"
میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کنجوس شراکت دار سے بھی زیادہ سخت محاسبہ متقی افراد اپنے نفس کا کرتے ہیں"ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مؤمن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہے، اور اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ اس پر آ گریں گے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے، جو اس کی ناک پر بیٹھے تو ایسے اڑا دے، یعنی: ہاتھ کے اشارے سے" بخاری
مؤمن شخص محاسبہ نفس اور نگرانی جاری رکھتے ہوئے اچھی حالت پر نفس کو قائم رکھتا ہے، تو وہ اپنے افعال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت گزاری کامل ترین شکل میں بجا لاتا ہے، جو اخلاص سے بھر پور، بدعات، ریاکاری ، خود پسندی سے پاک ہوتی ہیں، اپنے نیک اعمال سے رضائے الہی اور اخروی زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔مؤمن شخص محاسبہ نفس کرتے ہوئے نیکیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرتا ہے ، اور اسکی کوشش ہوتی ہے کہ اسکا عملی تسلسل نہ ٹوٹے، انہی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}
اور جو لوگ ہمارے لئے کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستے کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، اور بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[العنكبوت : 69]
اسی طرح فرمایا:
{وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}
اور جو شخص کوشش کرتا ہے بیشک وہ اپنے لئے ہی کوشش کرتا ہے، بیشک اللہ تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔ [العنكبوت : 6]
اسی طرح فرمایا:
{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ[2] أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ }
بیشک ہم نے آپکی طرف حق کیساتھ کتاب نازل کی ہے، چنانچہ صرف ایک اللہ کی اخلاص کیساتھ عبادت کریں، [2] خبردار! خالص عبادت صرف اللہ کیلئے ہی ہے۔[الزمر : 2-3]
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ پل میں بدل جاتی ہے"فضل بن زیاد کہتے ہیں: "میں نے عمل میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: "نیت کیسے ہوتی ہے؟" تو انہوں نے کہا: "عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا علاج کرے، کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی مراد نہ ہو"شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے ریاکاری کیلئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کیلئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری کیلئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا) احمد، حاکم، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اسے روایت کیا ہے۔مؤمن اپنی بول چال کا بھی محاسبہ کرتا ہے، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور حرام گفتگو کیلئے بے لگام نہیں کرتا، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دو فرشتے اس کی ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا اس کے کیے ہوئے ہر عمل پر اسے بدلہ دیا جائے گا،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ }
اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں [10]وہ معزز لکھنے والے ہیں[11] اور جو بھی تم کرتے ہو اسے جانتے ہیں [الانفطار : 10 - 12]
اسی طرح فرمایا:
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے [ق : 18]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "وہ ہر اچھی اور بری بات کو لکھتے ہیں، حتی کہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: میں نے کھا لیا، میں نے پی لیا، میں چلا گیا، میں آگیا، میں نے دیکھا"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پراوہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بیشک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اسکی پراوہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں جہنم میں ڈال دیتا ہے) بخاریابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، روئے زمین پر زبان سے زیادہ لمبی قید کا کوئی حقدار نہیں"اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر کہا کرتے تھے: "اسی نے مجھے ہلاکت میں ڈالا"اسی طرح مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور دل میں آنے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے، اس لئے کہ خیر ہو یا شر انکی ابتدا دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پا لے، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح باتا ہے، اور اگر شیطانی وسوسوں اور خیالات کو مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے۔اور اگر شیطانی وسوسوں سے غافل رہے، اور انہیں قبول کر لے تو یہ وسوسے اسے گناہوں میں ملوث کر دیتے ہیں،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
اور اگر شیطان کی طرف سے آپکو کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگو، بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[فصلت : 36]
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (شیطان اپنی لگام کو ابن آدم کے دل پر رکھے ہوئے ہے، اگر وہ اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور اگر اللہ کو بھول جائے تو اس کے دل کو اپنی لگام ڈال دیتا ہے، یہی مطلب ہے "وسواس الخناس" کا) ابو یعلی موصلی