کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اولاد یہود یعنی رافضی شیعوں کی اسلام دشمنی
ملاحظہ کیجئے شیعی کتب کی روشنی میں یہود کی مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کی جھلکیاں :
سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اﷲ عنہما کے بارے میں شیعوں کے خیالات دیکھئے ،
لیکن رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا چونکہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادیاں ہیں ،اس لئے ان کے ساتھ شیعہ حضرات کو وہی عداوت ہے جو حضرت شیخین رضی اﷲ عنہما کے ساتھ ہے ۔قرآن مجید میں رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات کو ''امہات المومنین ''یعنی تمام مسلمانوں کی مائیں کہا گیا ہے ۔ظاہر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں رسول اﷲﷺ کے تعلق اور رشتہ سے آپ کی ازواج مطہرات کی وہی عظمت ہونی چاہیے جو اپنی حقیقی ماؤں کی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر کیونکہ ایمان کا رشتہ خون کے رشتوں سے زیادہ محترم ہوتا ہے ۔اور اسی کے مطابق ان کے لیے ادب واحترام کا رویہ ہونا چاہیے ،
شیعوں کے مستند عالم ملّا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ''حیات القلوب'' میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس کا عنوان اس طرح ہے :
اسی باب میں اور کتاب کے دیگر ابواب میں بھی اس ظالم نے ان دونوں امہات المومنین کو بار بار ''منافقہ''لکھا ہے ،پھر اسی جلد دوم میں رسول اﷲﷺ کی وفات کے بیان میں لکھتا ہے :’’باب پنجاہ وپنجم دراحوال شقاوت مآل عائشہ وحفصہ ‘‘ ''باب :٥٥ عائشہ وحفصہ کے بدبختانہ حالات کے بیان میں '' (حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ،ج٢،ص،٧٤٢)
حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کے دورِ خلافت میں اسلام کو شاندار ترقی ہوئی ہے اور اطراف عالم میں مسلمانوں کو جس تیزی سے فتوحات حاصل ہوئیں ،وہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب اور قابل فخر سرمایہ ہے ،ان کے مبارک دور اور طریق حکمرانی کا اعتراف غیر مسلم مشاہیر تک کرتے ہیں ،یہودی ذہن وفکر کو ان سے عداوت ہونا یقینی تھی۔''وعیاشی بسند معتبر از حضرت صادق روایت کردہ است کہ عائشہ وحفصہ آنحضرت رابز ہر شہید کردند۔''
''اور عیاشی نے معتبر سند سے امام جعفر صادق سے روایت کیا ہے کہ عائشہ وحفصہ نے رسول اکرم ۖ کو زہر دے کر شہید کیا تھا ''۔ (حیات القلوب ،ملا باقر مجلسی ج:٢ص٨٧٠)
یہ طرز بیان انہوں نے اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے عتاب سے بچنے کے لیے اختیار کیا تھا:چنانچہ ملاحظہ ہوں شیخین رضی اﷲ عنہما کے بارے میں اہل تشیع کے خیالات ،واضح رہے کہ شیعی روایات میں جہاں فلاں فلاں کے الفاظ آتے ہیں اس وقت اس سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہوتے ہیں ،اور جہاں یہ لفظ تین مرتبہ آتا ہے وہاں تیسرے فلاں سے مراد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مراد ہوتے ہیں ۔
ابوجعفر یعقوب کلینی کی ''الجامع الکافی'' کے آخری حصہ ''کتاب الروضہ '' میں روایت ہے کہ امام باقر کے مخلص مرید نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲعنہما کے بارے میں ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :’’ فلان فلان فلان ارتد وا عن الایمان فی ترک ولاية امیر المومنین علیہ السلام ‘‘
''(یعنی ابوبکر،عمر ،عثمان رضی اﷲ عنہم )یہ تینوں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت ترک کردینے کی وجہ سے ایمان واسلام سے مرتد ہوگئے '' ۔ (اصول کافی ،ص:٢٦٥)
اسی ''کتاب الروضہ '' میں پانچویں امام باقر کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے :’’ انھما ظلمانا حقنا وکانا اول من رکب اعناقا واﷲ ما اسست من بلية ولا قضية تجری علینا اھل البیت الا ھما اسسا اولھما فعلیھما لعنة اﷲ والملائکة والناس اجمعین‘‘۔ (کتاب الروضہ ابوجعفر کلینی:ص:١١٥)
''ان دونوں نے ظالمانہ طور پر ہمارا حق مارا یہ دونوں سب سے پہلے ہم اہل بیت کی گردنوں پر سوار ہوئے ہم اہل بیت پر جو بھی مصیبت اور آفت آئی ا س کی بنیاد انہی دونوں نے ڈالی ہے ،لہٰذا ان دونوں پر اﷲکی لعنت ہو ،اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی‘‘
شیعوں کے علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب ''حق الیقین ''میں ایک روایت لکھی ہے :’’ کان الناس اھل ردّة بعد النب ۖ الا ثلاثة فقلت ومن ثلاثة فقال المقداد بن الاسود وابوذر الغفاری وسلمان الفارسی رحمة اﷲ علیھم وبرکاتہ‘‘
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد سب لوگ مرتد ہوگئے ،سوائے تین کے (راوی کا کہنا ہے کہ)میںنے عرض کیا وہ تین کون تھے ؟تو انہوں نے جواب دیا مقداد بن الاسود،ابوذرغفاری،اور سلمان فارسی ،ان پر اﷲ کی رحمت وبرکت ہو'' (کتاب الروضہ ،ابوجعفر یعقوب کلینی ،ص:١١٥)
اسی کتاب کے اگلے صفحہ پر وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں۔''وقتیکہ قائم علیہ السلام ظاہری شود پیش از کفار ابتداء بہ سنیان خواہد باعلماء ایشاں وایشاں راخواہد کشت'' (حق الیقین ،ملا باقر مجلسی ص:١٣٨)
''جس وقت مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو کافروں سے پہلے وہ سنیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کرکے نیست ونابود کردیں گے ''
اسی کتاب ''حق الیقین''میں امام جعفر صادق کے خاص مریدمفصل بن عمر سے ایک طویل روایت نقل کی گئی ہے ،جس میں امام جعفر صادق کی زبان سے امام غائب مہدی کے ظہور کا بہت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ''چون قائم ما ظاہر شود ،عائشہ راز ندہ کند تابر اوحد بزندوانتقام فاطمہ ما ازوبکشد''
''جب ہمارے قائم (یعنی مہدی)ظاہر ہوں گے ،تو عائشہ کو زندہ کرکے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے '' (حق الیقین ،ملا باقر مجلسی،ص:١٣٩)
لنکجب صاحب الامر (امام غائب)ظاہر ہوں گے تو سب سے پہلے مکہ مکرمہ آئیں گے اور وہاں سے کوچ کرکے مدینہ جائیں گے اور جب وہ اپنے نانا رسول اﷲکی قبر کے پاس پہنچیں گے تو وہاں کے لوگوں سے دریافت کریں گے کہ کیا یہ ہمارے نانا رسول اﷲکی قبر ہے ؟لوگ کہیں گے ہاں یہ انہی کی قبر ہے ۔پھر امام پوچھیں گے یہ اوریہ کون لوگ ہیں جو ہمارے نانا کے پاس دفن کئے گئے ہیں ؟لوگ بتلائیں گے یہ آپ کے خاص مصاحب ابوبکر رضی اﷲعنہ اور عمر رضی اﷲعنہ ،حضرت صاحب الامر اپنی سوچی سمجھی پالیسی کے مطابق سب کچھ جاننے کے بعد ان لوگوں سے دریافت کریں گے ابوبکر کون تھا؟اور عمر کون تھا ؟لوگ جواب دیں گے کہ یہ دونوں آپ کے خلیفہ اور آپ کی بیویوں عائشہ وحفصہ کے باپ تھے ۔اس کے بعد جناب صاحب الامر فرمائیں گے کہ کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ یہی دونوں یہاں مدفون ہیں ؟لوگ کہیں گے کہ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس بارے میں شک رکھتا ہو۔پھر تین دن کے بعد صاحب الامر حکم فرمائیں گے کہ دیوار توڑدی جائے۔چنانچہ دونوں کو قبر سے نکالا جائے گا ،ان کا جسم تروتازہ ہوگا اور صوف کا وہی کفن پہنے ہوں گے جن میں یہ دفن کئے گئے تھے پھر آپ حکم دیں گے کہ ان کا کفن علیحدہ کردیا جائے (یعنی ان کی لاشو ں کو برہنہ کردیا جائے )اور ایک سوکھے درخت پر لٹکادیا جائے ۔اس وقت مخلوق کے امتحان وآزمائش کے لیے یہ عجیب واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وہ سوکھا درخت جس پر لاشیں لٹکی ہوں گی ایک دم سرسبز شاداب ہوجائے گا ،تازہ ہری پتیاں نکل آئیں گی اور شاخیں بڑھ جائیں گی ۔پس وہ لوگ جوان سے محبت رکھتے تھے (یعنی تمام مسلمان)کہیں گے کہ اﷲکی قسم !یہ ان دونوں کی عنداﷲمقبولیت اور عظمت کی دلیل ہے اور ان کی محبت کی وجہ سے ہم نجات کے مستحق ہوں گے ۔اور جب اس سوکھے درخت کے سرسبز ہونے کی خبر مشہور ہوگی تو لوگ اس کو دیکھنے دور دور سے مدینہ آئیں گے ۔تو جناب صاحب الامر کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا اور اعلان کرے گا کہ جو لوگ ان دونوں (ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ )سے محبت رکھتے ہیں وہ ایک طرف الگ کھڑے ہوجائیں ۔اس اعلا ن کے بعد لوگ دوحصوں میں بٹ جائیں گے ،ایک گروہ ان دونوں سے محبت وعقیدت رکھنے والوں کا ہوگا اور دوسرا ان پر لعنت کرنے والوں کا ،اس کے بعد صاحب الامر سنیوں سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے کہ ان دونوں سے بیزاری کا اظہارکرو نہیں تو تم پر عذاب آئے گا ،وہ لوگ انکار کریں گے تو امام مہدی کالی آندھی کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں پر چلے اور ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردے ،پھر امام مہدی حکم دیں گے کہ ابوبکر وعمررضی اﷲ عنہما کی لاشوں کو درخت سے اتارا جائے ،پھر ان دونوں کو قدرت الٰہی سے زندہ کردیں گے اور حکم دیں گے کہ تمام مخلوق جمع ہو ،پھر یہ ہوگا کہ دنیا کے آغاز سے اس کے ختم تک جو بھی ظلم اور کفر ہوا ہوگا ان سب کا گناہ ان دونوں پر لازم کیا جائے گا اور انہیں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا (خاص طور پر )سلمان فارسی کو پیٹنا اور امیر المومنین اور فاطمہ زہرا اور حسن وحسین کو جلادینے کے لیے ان کے گھر کے دروازے میں آگ لگانا اور امام حسن کو زہر دینا اور حسین اور ان کے بچوں اور چچا زاد بھائیوں اور ان کے ساتھیوں اور مدد گاروں کو کربلا میں قتل کرنا اور رسول اﷲ کی اولاد کو قید کرنا اور ہر زمانے میں آل محمد کا خون بہانا اور ان کے علاوہ جو بھی خون ناحق کیاگیا ہوگا یا کسی عورت کے ساتھ کہین بھی زنا کیاگیا ہوگا یا سود وحرام کا مال کھایا ہوگا ،غرض ان سارے گناہوں کو جو دنیا میں امام مہدی کے ظہور سے قبل ہوئے ہوں گے ،ان کے سامنے گنایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ یہ سب کچھ تم سے اور تمہاری وجہ سے ہوا ہے؟وہ دونوں اقرار کریں گے ،کیونکہ وہ رسول اﷲکی وفات کے بعد پہلے ہی دن خلیفہ برحق (علی)کا حق دونوں مل کر غضب نہ کرتے تو ان گناہوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتا ،اس کے بعد صاحب الامر کے حکم سے ان دونوں سے قصاص لیا جائے گا اور انہیں درخت پر لٹکا کر امام مہدی آگ کو حکم دیں گے کہ ان دونوں کو مع درخت کے جا کر راکھ کردے ۔اور ہواؤں کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو دریاؤں پر چھڑک دے ۔مفصل نے عرض کیا اے میرے آقا!کیا یہ ان لوگوں کو آخری عذاب ہوگا ؟امام جعفر نے فرمایا کہ اے مفصل !ہرگز نہیں اﷲکی قسم سید اکبر محمد رسول اﷲۖ اورصدیق اکبر امیر المومنین علی اور سیدہ فاطمہ زہرا اور حسن مجتبی اور حسین شہید کربلا اور تمام ائمہ معصومین زندہ ہوں گے اور تمام مخلص مومن اور خالص کافر بھی زندہ کئے جائیں گے اور تمام ائمہ اور تمام مومنین کے حساب میں ان دونوں کو عذاب دیا جائے گا ۔یہا ں تک کہ دن رات میں ان کو ہزار مرتبہ مارڈالا جائے گا اور زندہ کیا جائے گا ،اس کے بعد اﷲجہاں چاہے گا ان کو لے جائے گااور عذاب دیتا رہے گا۔'' (حق الیقین ،ملا باقر مجلسی :١٤٥،دربیان رجعت)