حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
یہ 1970ء کی دہائی کے آخری ایام کا قصہ ہے۔ ایک عمر رسیدہ صاحب جنہوں نے ساری زندگی تنگ دستی اور کم وسائل کے ساتھ گزاری تھی۔ اُن کے جوان بیٹے کو مڈل ایسٹ میں پرُکشش تنخواہ پر ملازمت مل گئی اور وہ ماہانہ اپنے والد صاحب کو پانچ ہزار بھجوانے لگا۔ اُن عمررسیدہ صاحب نے کشائش کے باوجود اپنے اخراجات کو محدودرکھا اور اپنے بیٹے کی طرف سے موصول ہونے والی رقم سے خدمت خلق کرنے لگے۔ ایک بار لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ بزرگ خاصے پریشان نظرآتے ہیں لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ روزمسجد میں نماز سے فارغ ہوکر وہ لوگوں کے جانے کا انتظار کرتے اور مسجد کے ہال میں داخل ہوکر دروازہ بند کر لیتے۔
ایک روز لوگوں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہور کر ہال کے دروازے کی درز سے اندر جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بزرگ قبلہ رُو محراب میں کھڑے ہوکر دیوار پر زور سے ہاتھ مار کر بآواز بلند کہہ رہے ہیں۔
"اوئے ربا! تو دیکھداائیں ۔۔۔۔۔۔تینوں پتائیں کہ میں اوس بچی دے ویاہ دا وعدہ کیتا ہویا
اے اوہدا ویاہ تےسرتے آگیا۔۔۔۔۔۔پیسے بھیج ۔۔۔۔۔۔۔میں اوہنوں دینے آں۔"
بعد میں پتا چلا کہ اُنہوں نے اپنی بیوہ پڑوسی خاتون کی بیٹی کی شادی کے اخراجات اُٹھانے کی ذمہ داری لی تھی۔ لیکن ادھر انہوں نے ذمہ داری لی ادھر بیٹے نے پیسے بھیجنا بند کر دئیے۔ اب وہ بزرگ حالات کی ستم ظریفی کی ہواتو کسی کو لگنے نہ دیتے تھے۔ لیکن روزنماز کے بعد اللہ سے اپنی مشکل بیان کرتے تھے۔
رب سے مانگنے کا یہ انوکھاطریقہ دیکھ کر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تیس ہزرا روپے انہیں دیں گے لیکن نوبت آنے سے پہلے ہی بیٹے کی طرف سے انہیں اکٹھی رقم موصول ہو گئی۔ اور یوں اس بیوہ خاتون کی بیٹی کی شادی ہو گئی۔
یہ قصہ سنانے کا مطلب یہ تھا کہ دعا کرنا بہت آسان کام ہے ۔ کرنا صرف یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم اپنے رشتہ کو یوں اُستوار کر لیں کہ ہمارے اندر یہ جذبہ، یقین اور ایمان پیدا ہوجائے کہ صرف اور صرف وہی میرا رب ہے۔ وہی میری ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔ وہی مجھے سننے والا ہے وہی مجھے دیکھ بھال کرنے ولا ہے۔ جب یہ یقین ہو بہت پختہ ہوجائے گا تو پھر انسان دادرسی کے لیے دائیں بائیں نہیں دیکھتا ۔
پھر انسان صرف رب کے پیچھے جاتا ہے۔ جب رب پر اس قدر بھروسہ پیداہو جاتا ہے تو دیل میں رب پر ایک "مان" پیدا ہو جاتا ہے کہ میرا رب تو سب سے بڑا ہے۔ میرا رب تو بے پناہ امیر ہے اس سے بہتر تو پالنے والا کوئی نہیں۔
جب ایسا رب ہے میرا تو پھر پریشانی کاہے کی۔ میرا رب تو اتنا فیاض اور سخی ہے کہ میں اپنے کام تو درکنار دوسروں کے کاموں کے لیے بھی اُسے کہہ سکتا ہوں "یااللہ !یہ تیرا بندہ ہے۔ تو اس کا کام کر دے۔" اوراللہ سے یہ کہنے کے بعد میرے اندر پختہ یقین ہے کہ یقینا وہ میری بات سُن لے گا۔ پھر انسان مسجد کے محراب پر نہیں تو کم ازکم دل کی مسجدکے محراب پر ہاتھ مار کر ضرور کہہ سکتا ہے۔ اس بندے کا کام کر دے۔"
اگر دل میں یہ ایمان ہےکہ میرا رب اور میں اس کا بندہ ہوں تو یہ مان ہے اور رب مان کو بہت پسند کرتا ہے۔ یہ مان بالکل وہی ہے جس کے ساتھ ایک بیٹا اپنےباپ کے پاس جاتا ہے۔ اس کے دل میں باپ کا احترام بھی ہے، خوف بھی اور ساتھ یہ فخر بھی کہ میرا باپ میری ہر خواہش اور ضروت پوری کرتا ہے۔ وہ اپنےباپ سے جا کر کہتا ہے۔
"بابامجھے پیسے چاہیں۔میں نے بائیسکل خریدنی ہے۔"اب باپ چاہے خود لنڈے سے سوٹ خرید کر گزارہ کرتا ہو لیکن بیٹے کی ضد اور اصرار میں چونکہ ایک مان پوشیدہ ہے تو باپ کم وسائل کے باوجود اُس مان کی لاج رکھتے ہوئے بیٹے کو بائیسکل خرید کر دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہی مان لے کر بندہ اپنے رب کے پاس جائے اور دعاکرے"پروردگار! تیرہ یہ بندہ میرے پاس اُمید لے کر آیا ہے۔ تو مہربانی فرما اور اس بندے کا کام کر دے تاکہ اس کی اُمید نا اُمیدی میں نہ بدلے اور اسا کا دل نہ ٹوٹے۔"
جب ہم ایسے مان کے ساتھ اپنے یا دوسرون کے لیے دعا کرتے ہیں تو رب تعالیٰ مہربانی فرما دیتا ہے۔
(اقتباس فقیر رنگ۔ صفحہ 27-28)
ایک روز لوگوں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہور کر ہال کے دروازے کی درز سے اندر جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بزرگ قبلہ رُو محراب میں کھڑے ہوکر دیوار پر زور سے ہاتھ مار کر بآواز بلند کہہ رہے ہیں۔
"اوئے ربا! تو دیکھداائیں ۔۔۔۔۔۔تینوں پتائیں کہ میں اوس بچی دے ویاہ دا وعدہ کیتا ہویا
اے اوہدا ویاہ تےسرتے آگیا۔۔۔۔۔۔پیسے بھیج ۔۔۔۔۔۔۔میں اوہنوں دینے آں۔"
بعد میں پتا چلا کہ اُنہوں نے اپنی بیوہ پڑوسی خاتون کی بیٹی کی شادی کے اخراجات اُٹھانے کی ذمہ داری لی تھی۔ لیکن ادھر انہوں نے ذمہ داری لی ادھر بیٹے نے پیسے بھیجنا بند کر دئیے۔ اب وہ بزرگ حالات کی ستم ظریفی کی ہواتو کسی کو لگنے نہ دیتے تھے۔ لیکن روزنماز کے بعد اللہ سے اپنی مشکل بیان کرتے تھے۔
رب سے مانگنے کا یہ انوکھاطریقہ دیکھ کر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تیس ہزرا روپے انہیں دیں گے لیکن نوبت آنے سے پہلے ہی بیٹے کی طرف سے انہیں اکٹھی رقم موصول ہو گئی۔ اور یوں اس بیوہ خاتون کی بیٹی کی شادی ہو گئی۔
یہ قصہ سنانے کا مطلب یہ تھا کہ دعا کرنا بہت آسان کام ہے ۔ کرنا صرف یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم اپنے رشتہ کو یوں اُستوار کر لیں کہ ہمارے اندر یہ جذبہ، یقین اور ایمان پیدا ہوجائے کہ صرف اور صرف وہی میرا رب ہے۔ وہی میری ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔ وہی مجھے سننے والا ہے وہی مجھے دیکھ بھال کرنے ولا ہے۔ جب یہ یقین ہو بہت پختہ ہوجائے گا تو پھر انسان دادرسی کے لیے دائیں بائیں نہیں دیکھتا ۔
پھر انسان صرف رب کے پیچھے جاتا ہے۔ جب رب پر اس قدر بھروسہ پیداہو جاتا ہے تو دیل میں رب پر ایک "مان" پیدا ہو جاتا ہے کہ میرا رب تو سب سے بڑا ہے۔ میرا رب تو بے پناہ امیر ہے اس سے بہتر تو پالنے والا کوئی نہیں۔
جب ایسا رب ہے میرا تو پھر پریشانی کاہے کی۔ میرا رب تو اتنا فیاض اور سخی ہے کہ میں اپنے کام تو درکنار دوسروں کے کاموں کے لیے بھی اُسے کہہ سکتا ہوں "یااللہ !یہ تیرا بندہ ہے۔ تو اس کا کام کر دے۔" اوراللہ سے یہ کہنے کے بعد میرے اندر پختہ یقین ہے کہ یقینا وہ میری بات سُن لے گا۔ پھر انسان مسجد کے محراب پر نہیں تو کم ازکم دل کی مسجدکے محراب پر ہاتھ مار کر ضرور کہہ سکتا ہے۔ اس بندے کا کام کر دے۔"
اگر دل میں یہ ایمان ہےکہ میرا رب اور میں اس کا بندہ ہوں تو یہ مان ہے اور رب مان کو بہت پسند کرتا ہے۔ یہ مان بالکل وہی ہے جس کے ساتھ ایک بیٹا اپنےباپ کے پاس جاتا ہے۔ اس کے دل میں باپ کا احترام بھی ہے، خوف بھی اور ساتھ یہ فخر بھی کہ میرا باپ میری ہر خواہش اور ضروت پوری کرتا ہے۔ وہ اپنےباپ سے جا کر کہتا ہے۔
"بابامجھے پیسے چاہیں۔میں نے بائیسکل خریدنی ہے۔"اب باپ چاہے خود لنڈے سے سوٹ خرید کر گزارہ کرتا ہو لیکن بیٹے کی ضد اور اصرار میں چونکہ ایک مان پوشیدہ ہے تو باپ کم وسائل کے باوجود اُس مان کی لاج رکھتے ہوئے بیٹے کو بائیسکل خرید کر دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہی مان لے کر بندہ اپنے رب کے پاس جائے اور دعاکرے"پروردگار! تیرہ یہ بندہ میرے پاس اُمید لے کر آیا ہے۔ تو مہربانی فرما اور اس بندے کا کام کر دے تاکہ اس کی اُمید نا اُمیدی میں نہ بدلے اور اسا کا دل نہ ٹوٹے۔"
جب ہم ایسے مان کے ساتھ اپنے یا دوسرون کے لیے دعا کرتے ہیں تو رب تعالیٰ مہربانی فرما دیتا ہے۔
(اقتباس فقیر رنگ۔ صفحہ 27-28)