• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رب کائنات کے حضور،؛؛؛؛؛؛ میری پیشی

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396

یہ کس قدر دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے جب ہم کسی سے دریافت کرتے ہیں کہ بھائی تم میرے بارے میں کیا خیال کرتے ہو ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر جب انسانوں کے ہجوم میں کوئی ہماری تعریف کردے یا ہم پر تنقید کرنے والوں کے منہ کو چند تحسین آمیز کلمات سے بند کردے تو ہم کتنا خوش ہوجاتے ہیں ،مگر انسانوں کی نظریں حقیقی جوہر شناس نہیں ہوتیں بعض اوقات رائی کا پہاڑ اور تنکے کو شہتیر بنا لیا کرتی ہیں ، ہاں حقیقی جوہر شناس تو اللہ ہی ہے اس کی نگاہوں میں معزز ٹہرنا گویا حقیقی زمرے میں ہے ، اکثر میں سوچتی ہوں میں اللہ کی نظر میں کیسی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛؛؛ایک بیچین کردینے والا سوال جو روح تک کو جھنجھوڑ ڈالتا ہے ،میں نے سوچا مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں اللہ کی نظر میں کیسی ہوں ؟؟ یقینا قرآن پاک سے رہنمائی ملے گی ۔۔۔۔۔مجھے خیال آیاکہ قرآن پاک میں اللہ نے کتنے قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں دیکھوں کہ میں ان میں سے کس قسم سے تعلق رکھتی ہوں ۔۔؟ خدانخواستہ کافر تو نہیں ہوں ، دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ میں نے زبان سے کبھی اللہ کے کسی حکم سے انکار تو نہیں کیا ۔
دل سے آواز آئی لیکن انکار صرف زبان کا ہی تو نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔کہیں تم عمل سے انکار تو نہیں کر رہی ہو۔۔۔۔۔،،،؟؟؟
میرے اندر سے سوال اٹھا ۔۔۔۔۔میں کانپ سی گئی نہیں نہیں ؛؛؛؛
میرے مالک مجھے ان لوگوں مین شامل نہ کرنا ۔
میں اللہ کی نظر میں مشرک تو نہیں ہوں ؟؟
لو بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ہم کوئی پتھروں ،درختوں یا سورج کی پوجا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔؛؛؛ میرے دل نے تسلی دی ،
دل سے پھر آواز آئی لیکن شرک صرف یہی تو نہیں ۔۔۔۔۔کہیں تم نے اپنے نفس کو اپنے اللہ کے حکم کے مقابل میں رب تو نہیں بنا لیا ؟؟؟تمھاری خواہشات تمھاری دوستیاں تمھاری سوسائیٹی ،،، تمھارے رسم ورواج اور خاندانی روایات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی چیز رب کے مقابلے میں اہمیت کی حامل تو نہیں ؟؟ مجھے ایک دم خیال آیا کہ رب کی مہربانی ہے اللہ نے ایسے گھرانے میں پیدا کیا جہان ہماری ماں ہمیں بار بار اپنے دل کی دنیا کا جائزہ لینے کی طرف توجہ دلاتی رہیں ،،عمل کی طرف توجہ دلاتی رہین کہ وہ رب کے لئے خالص تھے کہ نہیں ۔۔۔؛؛لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کہیں کسی عمل میں ریا کاری تو ہو سکتی ہے کیونکہ ریا بھی تو شرک ہے ۔۔۔۔اور اس کی مثال تو رات کے اندھیرے میں کالے پتھر پر چلنے والی کالی چیونٹی کی طرح ہے ۔۔۔کہ پتا ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔۔ تو پھر ۔۔۔۔۔

اقبال کی آواز گونجتی ہے
وضع میں تم نصاری ہو تمدن میں تم یہود
ہیں ؟ یہ کیا میرے ارد گرد پھیلی چیزیں چیخنے لگیں ۔۔۔ ہاں میں ہوں ۔۔۔۔میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ میرے رب یہ سب کیا ہے ۔ نہیں ایسا نہیں ہے میں تو بس مسلمان ہوں صرف مسلمان ۔ہاں کبھی کبھی منافق بھی ہوتی ہوں ، میں نے اپنی ذات میں نفاق کی نشانیان تلاش کیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل بہت تیز تیز دھڑکنے لگا ۔۔۔۔۔یوں لگ رہا تھا کہ میں پل صراط پہ چل رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا رواں رواں زبان بن گیا ،اللہ مجھے نفاق سے محفوظ رکھنے کی توفیق دے اور میرے سب اہل وعیال کو بھی سچا مومن بنائے آمین

نسرین فاطمہ
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ہاں ہاں! یہ بے شک میرا حال ہے۔

مشہور محدث اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد رشید شیخ الاسلام ابو عبداللہ محمد بن نصر مروزی بغدادی (202....294ھ) نے اپنی کتاب قیام اللیل میں ایک عبرت انگیز قصہ نقل کیا ہے جس سے اس آیت کے فہم میں مدد ملتی ہے، اور سلف کے فہم قرآن اور تدبر قرآن پر روشنی پڑتی ہے۔

جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی:

لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ انبیاء 10)

(ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو“۔

وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لانا اس میں، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟ انہوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:

كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ O وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ O وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ِ (الذریٰت-17،18،19)

ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (السجدہ۔ 16)

ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان۔ 64)

ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“۔

اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے:

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (اٰل عمران۔ 134)

ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی:

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر۔ 9)

ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہیں“۔

اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوریٰ۔ 37)

ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں“۔

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (الشوریٰ۔ 38)

ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔

وہ یہاں پہونچ کر ٹھٹک کر رہ گئے اور کہا اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں نظر نہیں آتا!

پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ O وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ (سورہ صافات۔ 35،36)

ترجمہ) ”ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟

پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر۔45)

ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں“۔

کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ O قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ O وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ O وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ O وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ O حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (المدثر۔ 47-42)

ترجمہ) ”کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا“۔

یہاں بھی پہونچ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے دم بخود کھڑے رہے پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا، اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوںسے بری ہوں۔

اب وہ قرآن مجید کے ورقوں کوا ُلٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہرے:

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبہ۔ 102)

ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔

اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! یہ بے شک میرا حال ہے۔
فوائد جولائی 2003
 
Top