• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رحمتہ للعالمینﷺپر توہین آمیزظلم بیت اللہ الحرام کا وہ خطبہ جمعہ جس سے تحریک ناموسِ رسالت نے جنم لیا

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
آپﷺ کی مہر نبوت کا تذکر کئے بغیر آپﷺ کی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی جو آپﷺ کی کمر مبارک پر دونوں کندھوں کے درمیان تھی، بالکل ایسے جیسے کبوتر کا اَنڈہ۔ یہ جسم مبارک کے مشابہ تھی اور اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔ یہ آپﷺکا معجزہ اور نبوت کا نشان تھا جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں کیا ہے۔
اور بعض نے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ نبی ﷺ کا دل حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اس پر یوں مہر لگا دی گئی جس طرح کہ کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کو بند کرکے اس پرمہر لگا دی جاتی ہے۔ آپﷺ انسانیت کے ہادی اور معلم تھے، اللہ کی حدود کے معاملے میں انتہائی عادل اور سخت تھے لیکن اپنی ذات کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ نرم اور رحم دل تھے۔آپﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادارتھے۔
ایسے رحمت وشفقت کے مجسمہ اور حیا دارپیغمبرﷺ کے بارے میں ایسی حیا باختہ تصاویر اور خاکے بناتے ہوئے ان لوگوں کوشرم آنی چاہیے تھی۔ قاتلہم اﷲ أنیٰ یؤفکون!جو تمام اعلیٰ انسانی کمالات کا حسین مرقع تھے اور دنیا کا کوئی انسان آپ کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔آپ ؐنے اپنی قوم کے ظلم وستم کا جواب ایسی عظیم الشان دعوت سے دیا کہ کفر وشرک اور سرکشی کی تمام آندھیاں چھٹ گئیں اور دنیا کووہ درس دیا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ابو سفیان سے پیغمبرﷺ کا تذکرہ سننے کے بعد اس سے یہ کہا تھا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے ، اگر وہ سچ ہے تو یہ شخص جلد میری ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک بن جائے گا، اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔
نبیﷺ صرف قریش اور جزیرئہ عرب کی طرف رسول بناکر نہیں بھیجے گئے،بلکہ پوری کائناتِ ارضی کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے گئے۔ بچپن سے چالیس سال تک آپ کی زندگی تقویٰ اور عفت کی اعلیٰ مثال اور چالیس سال سے وفات تک دعوت وجہاد کا عملی نمونہ، گویا بچپن سے وفات تک آپؐ کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس داعی ٔ برحق کے نقشہ زندگی کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا:
{ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (یونس :۱۶)
وہ شخص جس نے چالیس سال تک کسی سے جھوٹ نہیں بولا،ساری کسوٹیوں پر اپنے آپ کو کھرا ثابت کیا۔کیا عقل اس بات کوتسلیم کرتی ہے کہ اس کے بعد وہ اللہ پر جھوٹ باندھے گا؟ نہیں نہیں، بلکہ کفارِ مکہ خود ہی اپنی عقل کے دشمن بن گئے تھے۔مفاد اور تعصبات نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا تھا۔
اور پھر جب نبوت کا بھاری بوجھ آپؐ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا، آپﷺ شدید خوف کی حالت میں حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو تو اس وقت آپ کی زندگی اور کردار سے واقف وہ خاتون پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتی ہے:
’’ بخدا ! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا،آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، در ماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، تہی دستوں کابندوبست کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب پر مدد کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری :۳)
پورا واقعہ معلوم کرنے کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپؐ کو اپنے اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو دورِ جاہلیت میں عیسائی مذہب قبول کر چکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔حضرت خدیجہؓ سے پوری بات سننے کے بعد سنئے کہ وہ بوڑھا اورآنکھوں سے نابینا انسان رسول اللہ ﷺکے بارے میں کیا کہتا ہے:
’’یقینا یہ اِس اُمت کا نبی ہے۔‘‘
اور پھر رسول ﷺ کو مخاطب کر کے کہا:
’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تو وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ کے پاس آیا کرتا تھا۔‘‘
پھر اس نے رسول اللہ ﷺکا سر پکڑ کر اسے بوسا دیا اور کہا کاش! میں اس وقت توانا اور زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔
رسول اللہ نے فرمایا: اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا، جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضروردشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پا لیا تو آپ کی زبردست مدد کروں گا۔اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے۔ ( صحیح بخاری:۳)
پھر جب {یٰأَیُّہَا الْمُدَثِّرُ،قُمْ فَأَنْذِرْ َورَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ}آیات نازل ہوئیں اور قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا اور صادق وامین کا لقب پانے والا اللہ کا یہ پیغمبر دین الٰہی کی دعوت لے کر کھڑا ہوا توزمانہ کی آنکھوں کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ مخالفتوں کے طوفان اُٹھے،نبیﷺ اور آپ ؐکے ساتھیوں کو سنگین عذابوں سے گزرنا پڑا۔ آلِ یاسر پر جو بیتی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے برداشت کیا گیا کہ انسانیت شرک کی وادی سے نکل آئے۔حتیٰ کہ جب کفارِ مکہ کی سختیاںاور تشدد حد سے گزر گیا تو آپﷺ کو اپنے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دینا پڑا۔
لیکن آپؐ مکہ میں کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ظلم وستم کی آندھیاں اُٹھیں اور گزر گئیں لیکن آپؐ کے قدموں میں ہلکی سے لغزش بھی پیدا نہ کر سکیں اور آپؐ نے{ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا} کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
جب کفار کی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں تو اُنہوں نے آپؐ کو عرب کی حسین وجمیل عورت، بادشاہت اور مال وزر کا لالچ دیا۔جب یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو اُنہوں نے دھمکیاں دیں لیکن آپؐ نے عزیمت ِمجاہدانہ سے سرشار ہو کر یہ جواب دیا :
’’خدا کی قسم! یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کر دے یا میں اس جدوجہد میں کام آ جاؤں۔‘‘
پھر ابو طالب اور مونس وغمگساربیوی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کا سالِ اندوہ اور اس کے بعد طائف میں آپ پر جو گزری وہ بقولِ عائشہ ؓ صدیقہ آپﷺ کی زندگی کا اندوہناک دن تھا۔ جب آپﷺنے طائف کے سرداروں کو دعوت دی تو ایک بدبخت نے کہا: اگر واقعی اللہ نے ہی آپ کو بھیجا ہے توپس وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے ۔دوسرے نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا :کیا ربّ کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور موزوں آدمی نہیں ملا اور تیسرے نے کہا :اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتا۔ آپﷺ نے صبر وثبات اور تحمل سے یہ سارے تیر برداشت کیے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
پھر اُنہوں نے بازاری لونڈوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا، وہ آپ کو گالیاں دیتے، ٹخنے کی ہڈیوں پر پتھر مارتے، آپ ؐ نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے ۔جوتیاں خون سے بھرگئیں تو آپؐ نے بالکل بے دم ہو کر ایک باغ میں پناہ لی۔
اِسی عالم میں قرنِ منازل کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا :پہاڑوں کا نگران فرشتہ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہے، اگر آپ چاہیں تو وہ اس ظالم قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دے۔اس وقت نبی رحمتﷺ نے جو الفاظ ارشاد فرمائے، اس میں آپ ﷺکی یگانہ روز شخصیت کی ایک جھلک اور آپ کے اخلاقِ عظیم کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔فرمایا:
’’نہیں،بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘
اے پیغمبر کی توہین کرنے والو!مکہ اور اس کے باشندوں سے پوچھو،طائف اوراس کےپہاڑوں سےسوال کروکہ اس محسن انسانیت ﷺ نبی کی عظمت کیا ہے؟
اللہ کی قسم! زبان وقلم کی وسعتیں، مدتوں کی زمزمہ خوانیاں اور دفتروں کے دفتر بھی آپ کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کوئی بڑے سے بڑا سیرت نگار، پیغمبرﷺ کی سیرت نگاری کاحق ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کوئی بڑے سے بڑا زور آور قلم بھی اس ہستی کے تذکر ہ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کایارا نہیں رکھتا…!!
چنانچہ جب کفارِ مکہ کی اذیت ناکیاں او رتوہین آمیزیاں حد سے بڑھ گئیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا:
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسِلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } (الانعام: ۱۰)
’’اے نبیﷺ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں کو اسی چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘
{ وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلی مَا کُذِّبُوْا وَأُوْذُوْا حَتّی اتٰہُمْ نَصْرُنَا وَلاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ…} (الانعام: ۳۴)
’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، اُنہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی، اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔‘‘
اور آج اس توہین آمیزی کے مرتکب افراد خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور وہ اپنے انجامِ بد سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے ہمارے ایمان اور رسول اللہ ﷺکے ساتھ ہماری محبت کا امتحان ہے کہ ہم نے اتباعِ رسولﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺکے تحفظ میں کیاکردار ادا کیا …!!
 
Top