کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
رحمتہ للعالمینﷺپر توہین آمیزظلم
بیت اللہ الحرام کا وہ خطبہ جمعہ جس سے تحریک ناموسِ رسالت نے جنم لیا !!
خطبہ مسنونہ کے بعد …
{ یَآیُّھَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ٭ وَدَاعِیًا إِلَی اﷲِ بِـإِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ٭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِأَنَّ لَہُمْ مِّنَ اﷲِ فَضْلًا کَبِیْرًا ٭ وَلَاتُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ أَذٰہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ وَکَفیٰ بِاﷲِ وَکِیْلاً }
’’اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والابناکر، اس کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔ آپ ان لوگوں کو بشارت دیں جوآپ پر ایمان لائے ہیں کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور آپ کفار و منافقین سیہرگز نہ دبیں اور ان کی اذیت رسائی کی کوئی پرواہ نہ کریں ، اور اللہ پر ہی بھروسہ کریں، اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے۔‘‘ (الاحزاب :۴۵،۴۸)
رسول اللہﷺ پر ربّ کی رحمتیں ہوں اور ان کی آل اور صحابہ پرجن کو اللہ تعالیٰ نے شاہد اور مبشرو نذیر بناکربھیجا ۔ شاہد ہمیشہ انصاف کرتا ہے ، مبشر ہمیشہ خیر کا پیغام ہی لاتا ہے اور نذیر ہمیشہ محبت و شفقت کے ساتھ ہلاکت و تباہی سے ڈراتا ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
{لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَ سُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤوْفٌ رَّحِیْم } (التوبہ : ۱۲۸) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا مشقت میں پڑنا، اس پر سخت گراں گزرتا ہے۔ تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘
اے لوگو! دنیاے کائنات پر اس دن صبح ِحق طلوع ہوئی اور انسانی زندگی کی نشاۃ ِثانیہ کا آغاز ہوا جب سب سے پہلے محمد بن عبداللہ ﷺ نے انسانی کشتی کا پتوار اپنے ہاتھ میں لیا، ان پر میرے پروردگار کی طرف سے بے شمار درود و سلام ہو۔
اللہ کی قسم! اگر آج اس عظیم ترین انسان کا دفاع نہ کیا گیا تو روے زمین کی رونقوں اور بھلائیوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور دنیا ویران ہوجائے گی ۔جب آپ ﷺ منبر پرجلوہ گر ہوتے تو وہ کانپنے لگتا۔جب آپﷺ وعظ کے لئے منبر پر چڑھتے تو آواز بلند ہوجاتی ، چہرہ سرخ ہوجاتا،یوں محسوس ہوتا کہ آپﷺایک حملہ آور لشکر کی اطلاع دینے والے ہیں۔
آپﷺ عبودیت کی سیڑھی پر سوار ہوکر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے، اس روز جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو مسجد ِحرام سے بیت المقدس تک سیر کروائی :
أسریٰ بک اﷲ لیلًا إذ ملائکہ والرسل في المسجد الأقصٰی علی قدم
لما رأوک بہ استسقوا بسیدھم کالشھب في البدر أو کالجُند بالعَلَم
صلی وراء ک منھم کل ذي خَطَر ومن یخز بحبیب اﷲ یأتمِم
یُؤتي السماوات أوما فوقَھن دُجی علی منوَّرَة دُرِّية النُّجُم
رکوبةٍ لک من عِزٍّ ومن شَرَفٍ لافي الجیاد ولافي العین کالرُّسُم
مشیة الخالق الباري وصَنعتہ وقدرۃ اﷲ فوق الشک والتُّھَم
اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:{لَعَمْرُکَ إِنَّھُمْ لَفِيْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَہُوْن} (الحجر :۷۲)
’’تیری جان کی قسم! اے نبی، اس وقت اِن پر نشہ چڑھا ہوا تھا، جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے : ’’ما خلق اﷲ وما ذرع نفسًا أکرم من محمد ﷺ وما سمعتُ اﷲ أقسم بحیاۃ أحد غیرہ‘‘ (تفسیرطبری: ۱۴؍۴۴)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺسے زیادہ عزت والاکوئی ذی نفس پیدا نہیں کیا۔ اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے علاوہ کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ پربے شمار درودوسلام ہوں۔ وہ اولاد ِآدم کے سرداراور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں، وہ سب سے پہلے قبر سے اُٹھیں گے، وہ سب سے پہلے سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ حمد کا جھنڈا روزِقیامت ان کے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔
آپﷺ کا نام ’محمد ‘جو ’ حمد ‘سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کائنات میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کی تعریف و شکر کرنے والے تھے۔
اور آپ کے والد کا نام عبداللہ تھاجواللہ تعالیٰ کی عبودیت سے ماخوذ ہے۔ اور رسول اللہﷺکو یہ بات بہت پسند تھی کہ آپﷺ کو عبد اﷲ ورسولہ کہہ کر پکارا جائے کیونکہ وہی اللہ کی اطاعت و بندگی پر مبنی دین ِ خالص کولے کر اُٹھے تھے۔
آپ کی والدہ کا نام آمنہ تھا جو امن و امان کا آئینہ دار ہے اور یقینا آپ کی شریعت امن کا پیغام تھی، اسی دین اور وحی کی بدولت کائنات کو پھر سے امن و امان کی دولت نصیب ہوئی۔
اور آپ کی پرورش کرنے والی کا نام اُمّ ایمن تھا جو خیروبرکت کامظہر ہے۔
اور آپ کو دودھ پلانے والی کا نام حلیمہ تھا جو حلم و بردباری کا نشان ہے۔
یہ اور اس جیسی تمام صفاتِ حسنہ پیغمبرﷺکی ذاتِ گرامی میں جمع ہوگئیں تھیں!!
جب آپﷺ اللہ کے آخری پیغمبر تھے تو اس کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کی شریعت ہرلحاظ سے کامل ہو اور تمام انبیا و رسل کی تمام اعلیٰ صفات کا آپ بے مثل نمونہ ہوں۔
امام شافعیؒ کی طرف منسوب ایک قول ہے :
’’ما أوتي نبي من معجزۃ ولا فضیلة إلا لنبینا ﷺ نظیرہا‘‘
’’انبیا کے تمام معجزات وفضائل کی نظیر ہمارے نبیﷺ میں موجود تھی۔‘‘
یاخاتم الرسل المبارک والعلو صلیّ علیک مُنزل القرآن
’’اے خاتم الرسل جس کی ذات بابرکت اور شان بلند ہے۔ قرآن کا نازل کرنے والا تجھ پر رحمتیں نازل فرمائے۔‘‘
پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کی سمع و بصارت کو تزکیہ کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا اور آپ کو کائنات پر فضیلت بخشی۔ اس نے انسانیت کی تمام صفاتِ کمال اور کمال اخلاق آپ کی ذات میں رکھ دیے۔ آپ کی شان کتنی عظیم ہے کہ خود پروردگار نے آپ کو {إنک لعلیٰ خلق عظیم}کا خطاب دیا۔ اور آپﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا :
(أدبني ربي فأحسن تأدیبي) جامع الصغیر :۲۴۹)
’’میرے ربّ نے مجھے آداب سکھائے اور بہترین آداب سکھائے۔‘‘
حسان بن ثابت نے آپﷺ کے بارے میں کہا :
وأحسن منک لم تر قط عیني وأجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب کأنک قد خلقت کما تشاء
’’آپﷺ سے بڑھ کر خوبصورت آج تک میری آنکھ نے نہیں دیکھا۔اور آپﷺ سے زیادہ حسین و جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔آپ ﷺ ہر نقص و عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا ایسے جیسے آپﷺ نے چاہا۔ ‘‘
اور آپﷺ کی ان صفاتِ حمیدہ کا شدید دشمنوں نے بھی اعتراف کیا، اگرچہ آپﷺ ان کی شہادتوں اور تزکیوں کے چنداں محتاج نہیں ہیں!!
ہم آج آپﷺ کی صفاتِ عالیہ اور اعلیٰ محاسن کو یاد کرنے جمع نہیں ہوئے،ہم ان میں کبھی شک نہیںکرسکتے۔ آپﷺ بلا شبہ اولادِ بنی آدم کے سردار، تقویٰ و طہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ لوگو! آج جھوٹے اور سچے کی تمیز کا وقت آگیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صدیوں سے مسلط ذلت و رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے لیکن کوئی اس پر کان دھرنے والا نہیں۔ آج چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ہماری چیخ و پکار کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ ہم کب تک نفرت و حقارت کی تصویر بنے رہیں گے ۔کیا آج ہم سے بھی بڑھ کر کوئی رسوا اس دنیا میں موجود ہے؟ ایساسب کچھ کیوں…؟
اس لئے کہ جب ہم نے اپنے پروردگار کے اوامر کا احترام چھوڑ دیا تو اللہ نے لوگوں کے دلوں سے ہمارا رعبختم کردیا۔اگر ہم اپنے ربّ کا حکم مانتے تو آج ہمیں ان ذلتوں سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ اگر ہم سیرتِ نبویﷺ کو اپنے رستے کا چراغ بناتے تو آج خوف وسراسیمگی کی یہ خوفناک حالت ہم پر طاری نہ ہوتی۔ پیغمبرﷺ نے ہمارے مرض کی تشخیص چودہ سو سال پہلے کرکے اس کا علاج بھی بتا دیاتھا۔ آپﷺ نے فرمایا تھا :
(إذا تبایعتم بالعینة وأخذتم أذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم الجھاد سلَّط اﷲ علیکم ذلا،لا ینزعہ حتی ترجعوا إلیٰ دینکم) (ابوداود:۳۴۶۲)
’’جب تم کاروبار میں بیع عینہ(سود کی ایک قسم ) کا معاملہ کرنے لگو گے اور بیل کی دمیں پکڑے کھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیںذلت و رسوائی میں گرفتار کردے گا اور تم ذلت و رسوائی کی اس اتھاہ وادی اس وقت تک نکل نہیں سکو گے جب تک دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔‘‘
اپنے ماضی ٔرفتہ کو یاد کرو جب مسلمان عزت دار تھے، جب ایک مظلوم عورت کی آواز : وا إسلاماہ‘‘ پر معتصم نے اس کی مدد کے لئے لشکر روانہ کیا ۔ اس عظمت ِرفتہ کو یاد کرو جب حضرت معاویہ ؓنے شاہِ روم کو خط لکھتے ہوئے اسے ’’اے روم کے کتے!‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔آج ہم ذلت کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ ہمارے احساسات مردہ ہوگئے، ہمارے جذبات سرد پڑگئے۔ گائے کے بیوپاریآج ہمارے پیغمبر ﷺ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ہم بائیکاٹ کے پمفلٹ ہاتھ میں لئے ان سے معذرت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
کون سی معذرت؟ اس سے بڑھ کر کوئی بے بسی ہوگی کہ ہم ظلم پر ان سے معذرت کے خواستگار ہیں،کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے ذلت کا لباس پہن لیا ہے… !!
لوگو! اب مسئلہ ڈیری مصنوعات کے بائیکاٹ کا نہیں، یہ تو ہماری موت اور زندگی کا سوال ہے۔ اب ہمیں موت و حیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کافیصلہ کرنا ہوگا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ!تاریخ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گی۔ مستقبل کا مؤرخ ہمارے بارے میں لکھے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کی تھی۔
ہمیں جائزہ لینا ہے کہ ہمارے نبیﷺ کی شان اور عظمت کیا ہے اور ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پس پردہ کیا محرکات اور مقاصد کار فرما ہیں اور محبینِ رسول اللہﷺ کا کیا کردار ہونا چاہئے…؟