• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رحمتہ للعالمین ﷺپر توہین آمیزظلم

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رحمتہ للعالمینﷺپر توہین آمیزظلم

بیت اللہ الحرام کا وہ خطبہ جمعہ جس سے تحریک ناموسِ رسالت نے جنم لیا !!

خطبہ مسنونہ کے بعد …
{ یَآیُّھَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ٭ وَدَاعِیًا إِلَی اﷲِ بِـإِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ٭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِأَنَّ لَہُمْ مِّنَ اﷲِ فَضْلًا کَبِیْرًا ٭ وَلَاتُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ أَذٰہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ وَکَفیٰ بِاﷲِ وَکِیْلاً }
’’اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والابناکر، اس کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔ آپ ان لوگوں کو بشارت دیں جوآپ پر ایمان لائے ہیں کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور آپ کفار و منافقین سیہرگز نہ دبیں اور ان کی اذیت رسائی کی کوئی پرواہ نہ کریں ، اور اللہ پر ہی بھروسہ کریں، اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے۔‘‘ (الاحزاب :۴۵،۴۸)
رسول اللہﷺ پر ربّ کی رحمتیں ہوں اور ان کی آل اور صحابہ پرجن کو اللہ تعالیٰ نے شاہد اور مبشرو نذیر بناکربھیجا ۔ شاہد ہمیشہ انصاف کرتا ہے ، مبشر ہمیشہ خیر کا پیغام ہی لاتا ہے اور نذیر ہمیشہ محبت و شفقت کے ساتھ ہلاکت و تباہی سے ڈراتا ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
{لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَ سُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤوْفٌ رَّحِیْم } (التوبہ : ۱۲۸) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا مشقت میں پڑنا، اس پر سخت گراں گزرتا ہے۔ تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘
اے لوگو! دنیاے کائنات پر اس دن صبح ِحق طلوع ہوئی اور انسانی زندگی کی نشاۃ ِثانیہ کا آغاز ہوا جب سب سے پہلے محمد بن عبداللہ ﷺ نے انسانی کشتی کا پتوار اپنے ہاتھ میں لیا، ان پر میرے پروردگار کی طرف سے بے شمار درود و سلام ہو۔
اللہ کی قسم! اگر آج اس عظیم ترین انسان کا دفاع نہ کیا گیا تو روے زمین کی رونقوں اور بھلائیوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور دنیا ویران ہوجائے گی ۔جب آپ ﷺ منبر پرجلوہ گر ہوتے تو وہ کانپنے لگتا۔جب آپﷺ وعظ کے لئے منبر پر چڑھتے تو آواز بلند ہوجاتی ، چہرہ سرخ ہوجاتا،یوں محسوس ہوتا کہ آپﷺایک حملہ آور لشکر کی اطلاع دینے والے ہیں۔
آپﷺ عبودیت کی سیڑھی پر سوار ہوکر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے، اس روز جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو مسجد ِحرام سے بیت المقدس تک سیر کروائی :
أسریٰ بک اﷲ لیلًا إذ ملائکہ والرسل في المسجد الأقصٰی علی قدم
لما رأوک بہ استسقوا بسیدھم کالشھب في البدر أو کالجُند بالعَلَم
صلی وراء ک منھم کل ذي خَطَر ومن یخز بحبیب اﷲ یأتمِم
یُؤتي السماوات أوما فوقَھن دُجی علی منوَّرَة دُرِّية النُّجُم
رکوبةٍ لک من عِزٍّ ومن شَرَفٍ لافي الجیاد ولافي العین کالرُّسُم
مشیة الخالق الباري وصَنعتہ وقدرۃ اﷲ فوق الشک والتُّھَم
اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:{لَعَمْرُکَ إِنَّھُمْ لَفِيْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَہُوْن} (الحجر :۷۲)
’’تیری جان کی قسم! اے نبی، اس وقت اِن پر نشہ چڑھا ہوا تھا، جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے : ’’ما خلق اﷲ وما ذرع نفسًا أکرم من محمد ﷺ وما سمعتُ اﷲ أقسم بحیاۃ أحد غیرہ‘‘ (تفسیرطبری: ۱۴؍۴۴)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺسے زیادہ عزت والاکوئی ذی نفس پیدا نہیں کیا۔ اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے علاوہ کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ پربے شمار درودوسلام ہوں۔ وہ اولاد ِآدم کے سرداراور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں، وہ سب سے پہلے قبر سے اُٹھیں گے، وہ سب سے پہلے سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ حمد کا جھنڈا روزِقیامت ان کے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔
آپﷺ کا نام ’محمد ‘جو ’ حمد ‘سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کائنات میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کی تعریف و شکر کرنے والے تھے۔
اور آپ کے والد کا نام عبداللہ تھاجواللہ تعالیٰ کی عبودیت سے ماخوذ ہے۔ اور رسول اللہﷺکو یہ بات بہت پسند تھی کہ آپﷺ کو عبد اﷲ ورسولہ کہہ کر پکارا جائے کیونکہ وہی اللہ کی اطاعت و بندگی پر مبنی دین ِ خالص کولے کر اُٹھے تھے۔
آپ کی والدہ کا نام آمنہ تھا جو امن و امان کا آئینہ دار ہے اور یقینا آپ کی شریعت امن کا پیغام تھی، اسی دین اور وحی کی بدولت کائنات کو پھر سے امن و امان کی دولت نصیب ہوئی۔
اور آپ کی پرورش کرنے والی کا نام اُمّ ایمن تھا جو خیروبرکت کامظہر ہے۔
اور آپ کو دودھ پلانے والی کا نام حلیمہ تھا جو حلم و بردباری کا نشان ہے۔
یہ اور اس جیسی تمام صفاتِ حسنہ پیغمبرﷺکی ذاتِ گرامی میں جمع ہوگئیں تھیں!!
جب آپﷺ اللہ کے آخری پیغمبر تھے تو اس کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کی شریعت ہرلحاظ سے کامل ہو اور تمام انبیا و رسل کی تمام اعلیٰ صفات کا آپ بے مثل نمونہ ہوں۔
امام شافعیؒ کی طرف منسوب ایک قول ہے :
’’ما أوتي نبي من معجزۃ ولا فضیلة إلا لنبینا ﷺ نظیرہا‘‘
’’انبیا کے تمام معجزات وفضائل کی نظیر ہمارے نبیﷺ میں موجود تھی۔‘‘
یاخاتم الرسل المبارک والعلو صلیّ علیک مُنزل القرآن
’’اے خاتم الرسل جس کی ذات بابرکت اور شان بلند ہے۔ قرآن کا نازل کرنے والا تجھ پر رحمتیں نازل فرمائے۔‘‘
پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کی سمع و بصارت کو تزکیہ کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا اور آپ کو کائنات پر فضیلت بخشی۔ اس نے انسانیت کی تمام صفاتِ کمال اور کمال اخلاق آپ کی ذات میں رکھ دیے۔ آپ کی شان کتنی عظیم ہے کہ خود پروردگار نے آپ کو {إنک لعلیٰ خلق عظیم}کا خطاب دیا۔ اور آپﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا :
(أدبني ربي فأحسن تأدیبي) جامع الصغیر :۲۴۹)
’’میرے ربّ نے مجھے آداب سکھائے اور بہترین آداب سکھائے۔‘‘
حسان بن ثابت نے آپﷺ کے بارے میں کہا :
وأحسن منک لم تر قط عیني وأجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب کأنک قد خلقت کما تشاء

’’آپﷺ سے بڑھ کر خوبصورت آج تک میری آنکھ نے نہیں دیکھا۔اور آپﷺ سے زیادہ حسین و جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔آپ ﷺ ہر نقص و عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا ایسے جیسے آپﷺ نے چاہا۔ ‘‘
اور آپﷺ کی ان صفاتِ حمیدہ کا شدید دشمنوں نے بھی اعتراف کیا، اگرچہ آپﷺ ان کی شہادتوں اور تزکیوں کے چنداں محتاج نہیں ہیں!!
ہم آج آپﷺ کی صفاتِ عالیہ اور اعلیٰ محاسن کو یاد کرنے جمع نہیں ہوئے،ہم ان میں کبھی شک نہیںکرسکتے۔ آپﷺ بلا شبہ اولادِ بنی آدم کے سردار، تقویٰ و طہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ لوگو! آج جھوٹے اور سچے کی تمیز کا وقت آگیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صدیوں سے مسلط ذلت و رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیں۔ ہر جگہ مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے لیکن کوئی اس پر کان دھرنے والا نہیں۔ آج چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ہماری چیخ و پکار کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ ہم کب تک نفرت و حقارت کی تصویر بنے رہیں گے ۔کیا آج ہم سے بھی بڑھ کر کوئی رسوا اس دنیا میں موجود ہے؟ ایساسب کچھ کیوں…؟
اس لئے کہ جب ہم نے اپنے پروردگار کے اوامر کا احترام چھوڑ دیا تو اللہ نے لوگوں کے دلوں سے ہمارا رعبختم کردیا۔اگر ہم اپنے ربّ کا حکم مانتے تو آج ہمیں ان ذلتوں سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ اگر ہم سیرتِ نبویﷺ کو اپنے رستے کا چراغ بناتے تو آج خوف وسراسیمگی کی یہ خوفناک حالت ہم پر طاری نہ ہوتی۔ پیغمبرﷺ نے ہمارے مرض کی تشخیص چودہ سو سال پہلے کرکے اس کا علاج بھی بتا دیاتھا۔ آپﷺ نے فرمایا تھا :
(إذا تبایعتم بالعینة وأخذتم أذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم الجھاد سلَّط اﷲ علیکم ذلا،لا ینزعہ حتی ترجعوا إلیٰ دینکم) (ابوداود:۳۴۶۲)
’’جب تم کاروبار میں بیع عینہ(سود کی ایک قسم ) کا معاملہ کرنے لگو گے اور بیل کی دمیں پکڑے کھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیںذلت و رسوائی میں گرفتار کردے گا اور تم ذلت و رسوائی کی اس اتھاہ وادی اس وقت تک نکل نہیں سکو گے جب تک دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔‘‘
اپنے ماضی ٔرفتہ کو یاد کرو جب مسلمان عزت دار تھے، جب ایک مظلوم عورت کی آواز : وا إسلاماہ‘‘ پر معتصم نے اس کی مدد کے لئے لشکر روانہ کیا ۔ اس عظمت ِرفتہ کو یاد کرو جب حضرت معاویہ ؓنے شاہِ روم کو خط لکھتے ہوئے اسے ’’اے روم کے کتے!‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔آج ہم ذلت کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ ہمارے احساسات مردہ ہوگئے، ہمارے جذبات سرد پڑگئے۔ گائے کے بیوپاریآج ہمارے پیغمبر ﷺ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ہم بائیکاٹ کے پمفلٹ ہاتھ میں لئے ان سے معذرت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
کون سی معذرت؟ اس سے بڑھ کر کوئی بے بسی ہوگی کہ ہم ظلم پر ان سے معذرت کے خواستگار ہیں،کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے ذلت کا لباس پہن لیا ہے… !!
لوگو! اب مسئلہ ڈیری مصنوعات کے بائیکاٹ کا نہیں، یہ تو ہماری موت اور زندگی کا سوال ہے۔ اب ہمیں موت و حیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کافیصلہ کرنا ہوگا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ!تاریخ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گی۔ مستقبل کا مؤرخ ہمارے بارے میں لکھے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کی تھی۔
ہمیں جائزہ لینا ہے کہ ہمارے نبیﷺ کی شان اور عظمت کیا ہے اور ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پس پردہ کیا محرکات اور مقاصد کار فرما ہیں اور محبینِ رسول اللہﷺ کا کیا کردار ہونا چاہئے…؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رحمتہ للعالمین پیغمبرﷺ
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے متعلق فرماتے ہیں:{وَمَا أَرْسَلْنٰکَ إِلاَّ رَحْمةً لِّلْعَالَمِیْن} جس نے اس رحمت کو قبول کیا اور اس نعمت پراللہ کا شکر ادا کیا، وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوا اور جس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس نے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کیا۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے حدیث ہے، کسی نے رسول اللہﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ مشرکوں کے خلاف بددعا کیجئے تو آپﷺ نے فرمایا:
(إني لم أُبعث لعّانًا وإنما بعثتُ رحمة) ( مسلم :۲۵۹۹)
’’مجھے بددعا دینے والانہیں بلکہ رحمت بنا کربھیجا گیا ہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے :
(أنا رحمة مھداۃ) ( مستدرک حاکم :۱؍۹۱)
’’مجھے رحمت کا تحفہ دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
آپﷺ کی رحمت صرف انسانوں پر محدود نہیں تھی، بلکہ حیوان بھی اس ابر ِرحمت سے محروم نہ رہے ۔سنن ابی داؤد میں عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ ہم ایک درخت کے قریب سے گزرے، وہاں پر ایک چڑیا کو اپنے بچوں کے ساتھ گھونسلے میں دیکھا۔ ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا۔ پیغمبر رحمتﷺ چڑیا پر اس ظلم کو برداشت نہ کرسکے اور بچوں کو واپس رکھنے کا حکم دیا ۔اس لئے کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنے آئے تھے۔افسوس ! ایسے خوبصورت مناظر سے ظالموں کی آنکھیں اندھی ہوگئیں۔ سید الابرار کی زندگی کے یہ بے مثل واقعات ان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہوگئے!!
زید بن ارقم ؓکابیان ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔کسی دیہاتی نے ایک ہرنی کوجنگل سے پکڑ کر باندھ رکھا تھا ۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک ہرنی وہاں بندھی ہوئی ہے۔ ہرنی نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تو شکوہ کناں ہوئی کہ یہ دیہاتی مجھے جنگل سے شکار کرکے لے آیاہے ۔ میرے تھنوں کا دودھ مجھ پر گراں ہوگیاہے۔ مجھے آزاد کردیں کہ میں اپنے بچوں کے پاس چلی جاؤں اور میرے دودھ سے مجھے آرام مل جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو کیاتو اکیلی چلی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں چلی جاؤں گی۔ اسی دوران وہ دیہاتی بھی آگیا، جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نبیﷺ نے اس سے کہا: کیااس ہرنی کو بیچو گے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپ کی ہے۔ تو رسول اللہﷺ نے اس ہرنی کو آزاد کردیا۔ حضرت زید بن ارقم ؓکابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے صحرا میں اس کو آواز لگاتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہی تھی:
لا إلہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ
حضرت اُمّ سلمہ اور دیگر صحابہؓ سے اس کے اور طرق بھی ہیں۔
یہ نبی ٔرحمت کہ انسان تو انسان، حیوان بھی آپ ﷺکی رحمت و شفقت سے فیض یاب ہوئے، ایسے پیغمبر کی ایسی فحش تصاویر اور خاکے بنانا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ آپﷺ کی سیرت و کردار اور آپﷺ کے حسین و جمیل سراپا کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓکا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو چودہویں کی ایک خوبصورت رات کو سرخ لباس میں ملبوس دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ کے چہرے کی چمک کے سامنے چاند کی روشنی بھی ماند پڑگئی تھی۔
’’ جب نبیﷺ کو کوئی خوشی ہوتی تو آپﷺ کا چہرہ چمک اُٹھتا اور یوں محسوس ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ (حضرت کعبؓ )
ربیع بن معوذ نے محمد بن عمار بن یاسرؓ سے کہا:’’ اگر آپ نبی ﷺکو دیکھ لیتے تو پکار اٹھتے کہ سورج اپنے برجوں سے طلوع ہورہا ہے۔‘‘
قد نہ زیادہ لمبا تھا ، نہ پست ( انسؓ)
رنگ سفید سرخی مائل اور آنکھیں سیاہ، پلکیں دراز (حضرت علیؓ)
سفید حصے میں سرخ ڈورے، آنکھوں کا خانہلمبا، قدرتی سرمگیں اور چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح گولائی مائل تھا ۔
آپﷺ کا روئے زیبا کتنا خوبصورت اور حسین و جمیل تھا …!!
اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کو اگر دنیا کی آدھی خوبصورت دی گئی تو ہمارے نبی1 کو پوری دنیا کا حسن عطا کیا گیا۔ اُردو کا شاعر کہتا ہے :
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں وہ ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کی پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان، دونوں جدا جدا، دونوں کے درمیان ایک رگ کا اُبھار جو غصہ آنے پر نمایاں ہوجاتا۔ ناک بلندی مائل، اس پرنورانی چمک۔ دندان مبارک باریک، آبدار، سامنے کے دو دانتوں میں خوشنما ریخیں، جب تکلم فرماتے تو دانتوں سے چمک سی مہکتی۔(ابن عباسؓ، حضرت انسؓ)
سر اور ریش کے بال گھنے اور گنجان تھے، آپﷺ نے کبھی اپنی داڑھی نہیں منڈائی اور داڑھی چھوڑنے کا حکم دیا اور اسے منڈانے سے منع فرمایا۔آپﷺ کا فرمان ہے کہ
’’(یہود نصاریٰ )کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔ ‘‘ (ابوداؤد :۴۰۳۱)
لیکن افسوس ! آج ہمیں رسول اللہﷺ کی یہ سنت اچھی نہیں لگتی…!!
آپﷺ کے بال قدرے خمدار، نہ گھنگریالے اور نہ بالکل تنے ہوئے ۔ (انسؓ)
گنجان، کبھی کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک ۔ (براء بن عازبؓ)
سر اور ریش مبارک میں سفید بال ۲۰ سے زیادہ نہیں تھے۔ صحابہ کرامؓ آپ کا حسین سراپا دیکھتے اور دیکھتے ہی رہ جاتے۔
صحابہ کرام کی نبی ٔرحمت سے محبت
صحابہؓ کا رسول اللہﷺ کے ساتھ اشتیاق کااندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ ایک دفعہ اپنے صحابہؓ کے پاس تشریف لائے۔ایک صحابی کو سخت پریشان اور غمزدہ دیکھا تو اس کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا: مجھے ایک بات نے پریشان کررکھا کہ آج آپ ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہمیں آپ کی صحبت حاصل ہے اور آپ سے ملنے کا شوق فراواں ہے۔ لیکن جب ہم یا آپﷺ فوت ہوجائیں، ہم جنت میں ہوں گے اور آپﷺ جنت کے سب سے اعلیٰ درجہ میں تو ہم آپﷺ کو کیسے دیکھ سکیں۔اور اگر ہم جہنم میں چلے گئے تو پھرکیا بنے گا؟ تو آپﷺ نے اپنے اس محبت کرنے والے کو خوش خبری سنائی کہ) المرء مع من أحب(کہ ’’آدمی روزِ قیامت اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
ہمیں بھی رسول ﷺسے حقیقی محبت ہے، کیونکہ حب ِرسول ؐ ہی ایمان کا حصہ ہے:
(لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین) ( صحیح بخاری:۱۵)
’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں محمد ﷺ اسے اس کی اولاد ، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔‘‘
واﷲ ماطلعت الشمس وما غربت إلا وحبک مقرون بأنفاسی
ولا جلست بقوم أحدثھم إلا وأنت حدیثی بین جُلَّاسی
’’اللہ کی قسم! سورج کے طلوع و غروب میں ہر پل آپ کی محبت میرے سانسوں میںرواں ہے اور جب بھی میں کسی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو آپﷺہی میری گفتگو کا موضوع ہوتے ہیں۔‘‘
صحیح مسلم کی حدیث ہے؛ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ
’’ آپ کی رنگت چمکدار تھی۔ آپﷺ چلتے تو پسینہ مبارک ایسے گرتا جیسے سرخ موتی گر رہے ہیں اور آپﷺ کی جلد حریر و ریشم سے زیادہ نرم تھی اور آپﷺ کے جسم کی خوشبو عنبر اور کستوری سے بھی زیادہ پیاری تھی۔‘‘
ان کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اور قیلولہ کے لئے لیٹ گئے اور آپﷺ کو قدرے زیادہ پسینہ آتا تھا۔ میری ماں اُمّ سلیم آپﷺ کا پسینہ ایک شیشی میں ڈالنے لگیں۔ نبیﷺ بیدار ہوئے تو پوچھا: اُمّ سلیم کیا کررہی ہو؟ کہنے لگیں، یہ آپﷺ کا پسینہ ہے ہم اسے بطورِ خوشبو استعمال کریں گے۔ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہﷺ سے شدید محبت کا اندازہ اس واقعہ سے کیاجاسکتا ہے۔
جنگ ِبدر میں صفوں کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپﷺ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا، جس کے ذریعے آپﷺ صف سیدھی فرما رہے تھے کہ سواد بن غزیہ کے پیٹ پر،جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے، ہلکا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا: سواد برابر ہوجاؤ۔ سواد نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، بدلہ دیجئے۔ آپﷺ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سوادؓ آپﷺ سے چمٹ گئے اور آپﷺ کے پیٹ کو چومنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا: اے سواد! تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! جو کچھ درپیش ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں، شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہو تو میں نے چاہا کہ آپﷺ کے ساتھ آخری ملاقات اس طرح ہو کہ میری جلد آپﷺ کی جلد سے چھو جائے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔دیکھئے! کائنات کا سپہ سالار اپنے آپ کو پورے لشکر کے سامنے قصاص کے لئے ایک سپاہی کے حوالے کررہا ہے۔
آپﷺ کی مہر نبوت کا تذکر کئے بغیر آپﷺ کی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی جو آپﷺ کی کمر مبارک پر دونوں کندھوں کے درمیان تھی، بالکل ایسے جیسے کبوتر کا اَنڈہ۔ یہ جسم مبارک کے مشابہ تھی اور اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔ یہ آپﷺکا معجزہ اور نبوت کا نشان تھا جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں کیا ہے۔
اور بعض نے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ نبی ﷺ کا دل حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اس پر یوں مہر لگا دی گئی جس طرح کہ کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کو بند کرکے اس پرمہر لگا دی جاتی ہے۔ آپﷺ انسانیت کے ہادی اور معلم تھے، اللہ کی حدود کے معاملے میں انتہائی عادل اور سخت تھے لیکن اپنی ذات کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ نرم اور رحم دل تھے۔آپﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادارتھے۔
ایسے رحمت وشفقت کے مجسمہ اور حیا دارپیغمبرﷺ کے بارے میں ایسی حیا باختہ تصاویر اور خاکے بناتے ہوئے ان لوگوں کوشرم آنی چاہیے تھی۔ قاتلہم اﷲ أنیٰ یؤفکون!جو تمام اعلیٰ انسانی کمالات کا حسین مرقع تھے اور دنیا کا کوئی انسان آپ کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔آپ ؐنے اپنی قوم کے ظلم وستم کا جواب ایسی عظیم الشان دعوت سے دیا کہ کفر وشرک اور سرکشی کی تمام آندھیاں چھٹ گئیں اور دنیا کووہ درس دیا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ابو سفیان سے پیغمبرﷺ کا تذکرہ سننے کے بعد اس سے یہ کہا تھا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے ، اگر وہ سچ ہے تو یہ شخص جلد میری ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک بن جائے گا، اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔
نبیﷺ صرف قریش اور جزیرئہ عرب کی طرف رسول بناکر نہیں بھیجے گئے،بلکہ پوری کائناتِ ارضی کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے گئے۔ بچپن سے چالیس سال تک آپ کی زندگی تقویٰ اور عفت کی اعلیٰ مثال اور چالیس سال سے وفات تک دعوت وجہاد کا عملی نمونہ، گویا بچپن سے وفات تک آپؐ کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس داعی ٔ برحق کے نقشہ زندگی کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا:
{ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (یونس :۱۶)
وہ شخص جس نے چالیس سال تک کسی سے جھوٹ نہیں بولا،ساری کسوٹیوں پر اپنے آپ کو کھرا ثابت کیا۔کیا عقل اس بات کوتسلیم کرتی ہے کہ اس کے بعد وہ اللہ پر جھوٹ باندھے گا؟ نہیں نہیں، بلکہ کفارِ مکہ خود ہی اپنی عقل کے دشمن بن گئے تھے۔مفاد اور تعصبات نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا تھا۔
اور پھر جب نبوت کا بھاری بوجھ آپؐ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا، آپﷺ شدید خوف کی حالت میں حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو تو اس وقت آپ کی زندگی اور کردار سے واقف وہ خاتون پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتی ہے:
’’ بخدا ! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا،آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، در ماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، تہی دستوں کابندوبست کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب پر مدد کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری :۳)
پورا واقعہ معلوم کرنے کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپؐ کو اپنے اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو دورِ جاہلیت میں عیسائی مذہب قبول کر چکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔حضرت خدیجہؓ سے پوری بات سننے کے بعد سنئے کہ وہ بوڑھا اورآنکھوں سے نابینا انسان رسول اللہ ﷺکے بارے میں کیا کہتا ہے: ’’یقینا یہ اِس اُمت کا نبی ہے۔‘‘ اور پھر رسول ﷺ کو مخاطب کر کے کہا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تو وہی ناموس ہے جو موسیٰ کے پاس آیا کرتا تھا۔‘‘
پھر اس نے رسول اللہﷺ کا سر پکڑ کر اسے بوسا دیا اور کہا کاش! میں اس وقت توانا اور زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔
رسول اللہ نے فرمایا: اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا، جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضروردشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پا لیا تو آپ کی زبردست مدد کروں گا۔اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے۔ ( صحیح بخاری:۳)
پھر جب{ یٰأَ یُّہَا الْمُدَثِّرُ، قُمْ فَأَنْذِرْ َورَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ }آیات نازل ہوئیں اور قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا اور صادق وامین کا لقب پانے والا اللہ کا یہ پیغمبر دین الٰہی کی دعوت لے کر کھڑا ہوا توزمانہ کی آنکھوں کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ مخالفتوں کے طوفان اُٹھے،نبیﷺ اور آپ ؐکے ساتھیوں کو سنگین عذابوں سے گزرنا پڑا۔ آلِ یاسر پر جو بیتی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے برداشت کیا گیا کہ انسانیت شرک کی وادی سے نکل آئے۔حتیٰ کہ جب کفارِ مکہ کی سختیاںاور تشدد حد سے گزر گیا تو آپﷺ کو اپنے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دینا پڑا۔
لیکن آپؐ مکہ میں کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ظلم وستم کی آندھیاں اُٹھیں اور گزر گئیں لیکن آپؐ کے قدموں میں ہلکی سے لغزش بھی پیدا نہ کر سکیں اور آپؐ نے{ وَجَاہِدْہُمْ بِہ جِہَادًا کَبِیْرًا} کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
جب کفار کی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں تو اُنہوں نے آپؐ کو عرب کی حسین وجمیل عورت، بادشاہت اور مال وزر کا لالچ دیا۔جب یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو اُنہوں نے دھمکیاں دیں لیکن آپﷺ نے عزیمت ِمجاہدانہ سے سرشار ہو کر یہ جواب دیا :
’’خدا کی قسم! یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کر دے یا میں اس جدوجہد میں کام آ جاؤں۔‘‘
پھر ابو طالب اور مونس وغمگساربیوی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کا سالِ اندوہ اور اس کے بعد طائف میں آپ پر جو گزری وہ بقولِ عائشہ ؓ صدیقہ آپﷺ کی زندگی کا اندوہناک دن تھا۔ جب آپﷺنے طائف کے سرداروں کو دعوت دی تو ایک بدبخت نے کہا: اگر واقعی اللہ نے ہی آپ کو بھیجا ہے توپس وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے ۔دوسرے نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا :کیا ربّ کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور موزوں آدمی نہیں ملا اور تیسرے نے کہا :اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتا۔ آپﷺ نے صبر وثبات اور تحمل سے یہ سارے تیر برداشت کیے۔
پھر اُنہوں نے بازاری لونڈوں اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا، وہ آپ کو گالیاں دیتے، ٹخنے کی ہڈیوں پر پتھر مارتے، آپ ؐ نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے ۔جوتیاں خون سے بھرگئیں تو آپؐ نے بالکل بے دم ہو کر ایک باغ میں پناہ لی۔
اِسی عالم میں قرنِ منازل کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا :پہاڑوں کا نگران فرشتہ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہے، اگر آپ چاہیں تو وہ اس ظالم قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دے۔اس وقت نبی رحمتﷺ نے جو الفاظ ارشاد فرمائے، اس میں آپ ﷺکی یگانہ روز شخصیت کی ایک جھلک اور آپ کے اخلاقِ عظیم کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔فرمایا:
’’نہیں،بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘
اے پیغمبر کی توہین کرنے والو!مکہ اور اس کے باشندوں سے پوچھو،طائف اوراس کےپہاڑوں سےسوال کروکہ اس محسن انسانیت ﷺ نبی کی عظمت کیا ہے؟
اللہ کی قسم! زبان وقلم کی وسعتیں، مدتوں کی زمزمہ خوانیاں اور دفتروں کے دفتر بھی آپ کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کوئی بڑے سے بڑا سیرت نگار، پیغمبرﷺ کی سیرت نگاری کاحق ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کوئی بڑے سے بڑا زور آور قلم بھی اس ہستی کے تذکر ہ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کایارا نہیں رکھتا…!!
چنانچہ جب کفارِ مکہ کی اذیت ناکیاں او رتوہین آمیزیاں حد سے بڑھ گئیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا: {وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسِلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِؤُ وْنَ } (الانعام: ۱۰)
’’اے نبیﷺ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں کو اسی چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘
{ وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلی مَا کُذِّبُوْا وَأُوْذُوْا حَتّی اتٰہُمْ نَصْرُنَا وَلاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ…} (الانعام: ۳۴)
’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، اُنہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی، اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔‘‘
اور آج اس توہین آمیزی کے مرتکب افراد خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور وہ اپنے انجامِ بد سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے ہمارے ایمان اور رسول اللہ ﷺکے ساتھ ہماری محبت کا امتحان ہے کہ ہم نے اتباعِ رسولﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺکے تحفظ میں کیاکردار ادا کیا …!!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ کلیم اللہ بھائی۔ بہت اچھی پوسٹ ہے ماشاء اللہ
 
Top