• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رخصتوں پر عمل کرنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رخصتوں پر عمل کرنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی رُخْصَہُ، کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی عَزَائِمُہُ۔))1
'' یقینا اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنے فروض پر عمل کرنا پسند فرماتا ہے۔''
دوسری حدیث میں فرمایا:
(( وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُؤْتٰی رُخْصُہُ، کَمَا یَکْرَہُ أَنْ تُؤْتٰی مَعْصِیَتُہُ۔))2
'' بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی (دی ہوئی) رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے۔ ''
شرح...: رخصت، فرض کا مدمقابل ہے، اس کے تحت درج ذیل امور آتے ہیں: مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی بچوں کے خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ سفر میں نماز کو قصر اور جمع کرنا رخصت ہے۔
چنانچہ جیسے حضر میں مکمل نماز پڑھنا اللہ کو پیارا لگتا ہے ایسے ہی سفر کے دوران قصر نماز کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ رَخَّصَ لَکُمْ فَاَقْبَلُوْھَا۔))3
'' اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رخصتیں دی ہیں انہیں قبول کرو اور لازم پکڑو۔ ''
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس نے اللہ کی دی ہوئی رخصت قبول نہ کی تو عرفہ کے پہاڑ جیسا گناہ اس کے ذمے ہوگا۔
اس قول کے تحت وہ انسان آتا ہے جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ۔))4
'' جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ سے نہیں۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۵۔
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۶۔
3 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۵۴۲۹۔
4 أخرجہ البخاري في کتاب النکاح، باب: الترغیب في النکاح، رقم : ۵۰۶۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مکلف کو کسی عذر کی وجہ سے جو آسانی دی جاتی ہے، اسے رخصت کہتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بسا اوقات کسی کے دل میں شریعت کی مباح کی ہوئی چیز پر عمل کرنے سے تکبر اور بڑائی
آجاتی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے فرض کو بعض حالات میں رخصت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جس نے مباح امور سے ناک چڑھایا تو اس کا دین خراب ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسے رخصت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ اپنے آپ سے تکبر کو دور اور ختم کرسکے اور برائی پر ابھارنے والے نفس کو شرعی کے امور پر عمل کروانے پر مجبور کرسکے۔
'' رخصت پر عمل کی وجہ سے اللہ کی محبت '' کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ترک مکروہ اور ناپسند کرتا ہے۔ چنانچہ رخصت کو قبول کرنے کی اتنی تاکید کی کہ وجوب کے قریب ہوگیا۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (جیسے اللہ اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے) سے اخذ ہوتی ہے۔ امام غزالیl رقمطراز ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فرمان ضعفاء کے دلوں کو خوش کرنے کے لیے ہے کہ کہیں کمزوری انہیں نا امیدی کی طرف نہ لے جائے اور وہ اعلیٰ اور انتہائی درجات تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے بھلائی کے آسان کام چھوڑ دیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے لیکن ان کی اقسام اور درجات الگ الگ ہیں۔
جیسے اللہ تعالیٰ فرائض پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے، ایسے ہی رخصت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہے۔ اسی لیے رخصت اور فرض میں اللہ تعالیٰ کا ایک ہی حکم ہے یعنی تیمم کی جگہ پر تیمم ہی افضل ہے نہ کہ وضوء، ایسے ہی قصر کے مقام پر مکمل نماز کی نسبت قصر ہی اعلیٰ اور ارفع ہے چنانچہ انسانوں سے رخصتوں کے مقام پر رخصتوں پر عمل اور فرائض کی جگہوں پر فرائض پر عمل مطلوب ہے اور اسی طرح اگر ایک جگہ میں دونوں چیزیں متعارض آجائیں تو افضل کی رعایت ہوگی۔
اس حدیث اور اس کی ہم مثل احادیث کی وجہ سے مصطفی علیہ السلام اہل کتاب پر لدے ہوئے طوق اور بوجھ کی مشابہت کو ناپسند کرتے تھے اور اسی لیے اپنے صحابہ کو مجرد رہنے اور رہبانیت اختیار کرنے پر جھڑکتے تھے۔
رخصت کو اس کی مواضع پر ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہیے، بالخصوص عالم دین کو تو ایسا ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس کی پیروی کی جاتی ہے۔ آدمی جب ایسا ہو کہ محض مندوب پر عامل ہو اور رخصت پر عمل نہ کرتا ہو تو شیطان اس سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور جو انسان بدعت پر اصرار کرے اس کی کیا حالت ہوگی؟
شرعی رخصت کو لینا چاہیے کیونکہ رخصت کے مقام پر فرض کو پکڑنا تکلیف ہے جیسے کہ پانی کے استعمال سے عاجز آنے والا تیمم ترک کردے تو پانی کا استعمال اسے تکلیف پہنچائے گا۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فیض القدیر، ص: ۲۹۲، ۲۹۷، ۲۔ احیاء علوم الدین للغزالی، ص: ۲۷۸ ؍ ۴۔ فتح الباری، ص: ۱۸۳ ؍۴۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
[
اس قول کے تحت وہ انسان آتا ہے جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ۔))4
'' جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ سے نہیں۔ ''
محترم نعیم یونس بھائی ماشاء اللہ آپ نے بڑی اچھی باتیں لکھی ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے
البتہ آپ نے جو مطلقا یہ لکھا ہے کہ جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے وہ اللہ کے نبی کی سنت سے بے رغبتی کرتا ہے تو محترم بھائی مطلقا ایسا کہنا ٹھیک نہیں- اس موضوع میں میں نے اکثر علماء کو غیر شعوری طور پر مطلق رخصت لازمی ہونے کی بات کرتے دیکھا ہے جو میرے خیال میں ٹھیک نہیں
میرے خیال میں رخصت کو پہلے دو قسموں میں تقسیم کرنا چاہئے
1-ایسی رخصت جس کا تعلق صرف ہماری ذات کے ساتھ ہو اور غلبہ دین کے ساتھ تعلق نہ ہو جیسے عبادات وغیرہ- ان میں وہی حکم ہے جو محترم یونس بھائی نے لگایا ہے یا باقی علماء لگاتے ہیں
2-ایسی رخصتیں جن کا تعلق ہماری ذات کے ساتھ ساتھ دین کے غلبہ کے ساتھ بھی ہو ان میں عزیمت مطلوب ہوتی ہے اور رخصت کی صرف اجازت ہوتی ہے مثلا جیسے لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج کی رخصت کے باوجود لنگڑے صحابہ کا جہاد کرنا، ان قطعت او حرقت کے تحت شرک نہ کرنے کی عزیمت، حبیب رضی اللہ عنہ کا عزیمت کا انتخاب کرتے ہوئے شعر کہنا جو بخاری میں ہے
ما ابالی حین اقتل مسلما علی ای شق کان للہ مصرعی-وذلک فی ذات الالہ و ان یشا یبارک علی اوصال شلو ممزع
جبکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا رخصت کو اختیار کرنا جس پر آیت نازل ہونا الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان
اس دوسری قسم میں معاملات بھی آ جاتے ہیں کہ جس میں کسی بات کی اجازت ہوتی ہے مگر دعوت کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عزیمت کا راستہ اختیار کرنے سے غلبہ دین کا چونکہ فائدہ ہوتا ہے اس لئے وہ زیادہ مطلوب ہوتی ہے اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں

پس میرے خیال میں اس کی بھی وضاحت کر دینی چاہئے علماء سے اصلاح کی گزارش ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور طرح سے ان کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی بتا دیں اللہ جزا دے امین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
البتہ آپ نے جو مطلقا یہ لکھا ہے کہ جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے وہ اللہ کے نبی کی سنت سے بے رغبتی کرتا ہے تو محترم بھائی مطلقا ایسا کہنا ٹھیک نہیں- اس موضوع میں میں نے اکثر علماء کو غیر شعوری طور پر مطلق رخصت لازمی ہونے کی بات کرتے دیکھا ہے جو میرے خیال میں ٹھیک نہیں
شرح...: رخصت، فرض کا مدمقابل ہے، اس کے تحت درج ذیل امور آتے ہیں: مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی بچوں کے خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ سفر میں نماز کو قصر اور جمع کرنا رخصت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-ایسی رخصتیں جن کا تعلق ہماری ذات کے ساتھ ساتھ دین کے غلبہ کے ساتھ بھی ہو ان میں عزیمت مطلوب ہوتی ہے اور رخصت کی صرف اجازت ہوتی ہے مثلا جیسے لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج کی رخصت کے باوجود لنگڑے صحابہ کا جہاد کرنا، ان قطعت او حرقت کے تحت شرک نہ کرنے کی عزیمت، حبیب رضی اللہ عنہ کا عزیمت کا انتخاب کرتے ہوئے شعر کہنا جو بخاری میں ہے
ما ابالی حین اقتل مسلما علی ای شق کان للہ مصرعی-وذلک فی ذات الالہ و ان یشا یبارک علی اوصال شلو ممزع
جبکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا رخصت کو اختیار کرنا جس پر آیت نازل ہونا الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان
اس دوسری قسم میں معاملات بھی آ جاتے ہیں کہ جس میں کسی بات کی اجازت ہوتی ہے مگر دعوت کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عزیمت کا راستہ اختیار کرنے سے غلبہ دین کا چونکہ فائدہ ہوتا ہے اس لئے وہ زیادہ مطلوب ہوتی ہے اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں

پس میرے خیال میں اس کی بھی وضاحت کر دینی چاہئے علماء سے اصلاح کی گزارش ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور طرح سے ان کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی بتا دیں اللہ جزا دے امین
متفق۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
رخصتوں پر عمل کرنا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی رُخْصَہُ، کَمَا یُحِبُّ أَنْ تُوْتٰی عَزَائِمُہُ۔))1
'' یقینا اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنے فروض پر عمل کرنا پسند فرماتا ہے۔''
دوسری حدیث میں فرمایا:
(( وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تُؤْتٰی رُخْصُہُ، کَمَا یَکْرَہُ أَنْ تُؤْتٰی مَعْصِیَتُہُ۔))2
'' بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی (دی ہوئی) رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے۔ ''
شرح...: رخصت، فرض کا مدمقابل ہے، اس کے تحت درج ذیل امور آتے ہیں: مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، نیز حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی بچوں کے خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ سفر میں نماز کو قصر اور جمع کرنا رخصت ہے۔
چنانچہ جیسے حضر میں مکمل نماز پڑھنا اللہ کو پیارا لگتا ہے ایسے ہی سفر کے دوران قصر نماز کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّتِیْ رَخَّصَ لَکُمْ فَاَقْبَلُوْھَا۔))3
'' اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رخصتیں دی ہیں انہیں قبول کرو اور لازم پکڑو۔ ''
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس نے اللہ کی دی ہوئی رخصت قبول نہ کی تو عرفہ کے پہاڑ جیسا گناہ اس کے ذمے ہوگا۔
اس قول کے تحت وہ انسان آتا ہے جو رخصت سے بے رغبتی کرتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ۔))4
'' جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ سے نہیں۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۵۔
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۸۸۶۔
3 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۵۴۲۹۔
4 أخرجہ البخاري في کتاب النکاح، باب: الترغیب في النکاح، رقم : ۵۰۶۳۔

بے شک ہمارا رب ہم پر بہت ہی مہربان ہے۔

سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم
 
Top