• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ردبدعت کے چاراصول قران وحدیث کی روشنی میں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ​

قرانی آیات اوراحادیث صحیحہ میں چاراصول ایسے بیان ہوئے ہیں کہ اگرکوئی بھی شخص ان اصولوں کو سمجھ لے تودین میں کسی بھی قسم کی بدعت نکالنے کی جرات نہیں کرسکتا خواہ بدعت سیئہ ہویا بدعت حسنہ ، ذیل میں یہ چاروں اصول قران وحدیث کے دلائل کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

پہلااصول
دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } [الشورى: 21]
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ دین بنانا اوراحکام دین مقررکرنا یہ صرف اللہ کا حق ہے، اوراگرکوئی شخص اللہ کے علاوہ یہ حق کسی دوسرے انسان کو بھی دیتا ہے تو وہ اللہ کے حق میں کسی اورکو شریک مانتاہے، ایسا شخص ظالم ہے اوراللہ نے اس کے لئے دردناک عذاب تیار کررکھاہے۔
اس آیت سے یہ اصول واضح‌ ہوگیا کہ دین بنانا صرف اورصرف اللہ کا حق ہے۔
نیزاللہ تعالی کا ارشادہے:
{ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} [التوبة: 31]
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔

اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل روایت ملتی ہے:
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ» ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ»
[سنن الترمذي ت شاكر (5/ 278) رقم 3095 - حكم الألباني : حسن]
صحابی رسول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا (اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)، (انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔

معلوم ہوا حلال وحرام کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کا ہے یہی حق اگرکوئی کسی اورکے اندرتسلیم کرتاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس نے اس کواپنا رب بنالیاہے اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ علمائے دین بھی دین میں بدعت حسنہ کا اضافہ کرسکتے ہیں ،کیونکہ دین میں کوئی بھی چیزمقررکرنا صرف اللہ کا حق ہے اس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں‌ ہے۔

حدیث‌ سے دلیل:
بخاری میں معراج رسول سے متعلق صحابی رسول ابوذررضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ :
۔۔۔۔ فَفَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا۔۔۔الحدیث
[صحيح البخاري (1/ 79)رقم 349 ]
۔۔۔اللہ تعالی نے میری امت پرپچاس وقت کی نمازفرض کی ،پھرمیں اسے لیکرواپس ہوا یہاں تک کہ موسی علیہ السلام کے پاس سے گذرہوا توانہوں نے کہا :اللہ تعالی نے آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی ہے؟تومیں نے کہا:پچاس وقت کی نمازفرض کی ہے ، موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحدیث۔

قارئین بخاری کی اس حدیث میں غورکیجئے اس سے ثابت ہوتاہے کہ دین بنانے کا حق توکسی نبی کوبھی نہیں دیاگیاہے عام علماء کا اس کا حقدارہونا تودورکی بات ہے ۔ کیونکہ موسی علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم آپ نمازکی تعدادکوپچاس کے بجائے کم کردیجے بلکہ یہ کہا کہ آپ اللہ کے پاس واپس جائیے اوراللہ سے یہ تعدادکم کرائیے ، اوریہ مشورہ کئی باردیا۔
ساتھ ہی اس حدیث‌ سے بدعت حسنہ کی جڑبھی کٹ جاتی ہے ، یعنی کسی عالم یا ولی کے لئے جائزنہیں کہ وہ کوئی کام اچھا سمجھ کردین میں اپنی پسندسے داخل کردے۔
اگرایساجائزہوتاتوموسی علیہ السلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کے پاس نہ بھیجتے بلکہ خود ہی پچاس وقت کی نماز کو کم کرنے کا مشورہ دیتے ۔
غورکریں کی دوجلیل القدرنبی موسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھا سمجھ رہے تھے کہ نمازپچاس وقت سے کم ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجودبھی انہیں اختیارنہیں کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کراپنی طرف سے دین بنالیں۔
نیز جب اللہ تعالی نے پچاس وقت کی نمازکوکم کرکے پانچ وقت کردیا تواس کے بعدبھی موسی علیہ السلام نے یہ اچھامشورہ دیا کہ ابھی بھی مزید کم کرائیے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مشورہ کواچھا سمجھا ،اسے غلط نہیں قراردیا، بلکہ یہ کہا کہ اب مزید کم کرانے سے مجھے شرم آتی ہے۔
گویاکہ نماز پانچ وقت سے بھی کم ہونی چاہئے یہ چیز موسی علیہ السلام اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی نظرمیں اچھی تھی لیکن ان دونوں انبیاء کے اچھا سمجھنے کے باوجودیہ چیز دین اس لئے نہ بن سکی کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ نہیں تھا۔

معلوم ہواکہ انبیاء علیہ السلام حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا اختیارنہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیزکواچھا سمجھ کردیں میں داخل کریں اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے دین کی کوئی تعلیم نہیں پیش کی ہےبلکہ پورادین اللہ کا بنا یا ہواہے اوراسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے امت تک پہنچایا ہے، اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى } [النجم: 3، 4]
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔

الغرض قران وحدیث‌ کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہواکہ دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے اوراس معاملے میں انبیاء تک کویہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے اچھا سمجھتے ہوئے دین میں کوئی بات داخل کریں توپھردیگرانسانوں کویہ حق کہاں سے مل سکتاہے؟؟؟



دوسرا اصول
اللہ اپنا یہ حق ادا کرچکاہے

اس سے پہلے بتلایا گیا کہ دین بنانا یہ صرف اللہ کا کام ہے، اب یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالی اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے، اس میں کسی اورکے کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے،قران وحدیث‌ سے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ } [المائدة: 3]
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا ۔

اس آیت سے معلوم ہواکہ دین بنانا جواللہ کا کام تھا تو اللہ اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے۔

حدیث سے دلیل:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ
[شعب الإيمان (13/ 19) رقم 9891 صحیح بالشواہد:انظرالصحیحۃ رقم1803ایضا رقم2866]
صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا : کوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں ہے جوتمہیں جنت سے قریب کرے اورجہنم سے دورکریے مگرمیں تمہین اس کا حکم دے چکاہوں ، اورکوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں جوتمہین جہنم سے قریب کرے اورجنت سے دورکرے مگرمیں تمہیں اس سے منع کرچکاہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دین کی تکمیل کردی ہے۔
لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے ، اس میں اضافہ کے لئے کچھ باقی ہیں نہیں‌ بچا ہے توپھریہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی طرف سے اچھا سمجھ کردین میں کوئی نئی چیز داخل کی جائے۔

تیسرا اصول
اللہ نے کسی اورکو یہ کام کرنے سے منع کردیاہے


قران وحدیث میں جہاں یہ اصول بتلایا گیا ہے کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ،اوراللہ اپنا یہ حق ادا کرچکا ہے وہیں ایک تیسرا اصول بھی پیش کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں یہ کام انجام دینے سے صراحۃ منع بھی کردیا گیاہے۔

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [الحجرات: 1]
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

اس آیت میں‌ سب کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ ورسول سے ایک قدم بھی کوئی آگے بڑھائے ، یعنی اللہ ورسول کے زبانی جودین پیش کیا گیا ہے اس میں اپنی طرف سے کوئی بھی اضافہ نہ کرے۔

حدیث سے دلیل:
صحابی رسول عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
[سنن أبي داود (4/ 201) رقم 4607- حكم الألباني : صحيح]
اے لوگو! تم دین میں نئی چیزیں لانے سے بچو، کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔
قران وحدیث سے معلوم ہوا کہ دین میں نئی چیزلانے سے سب کو منع بھی کردیا گیا ہے۔



چوتھا اصول
اگرکسی نے دین میں کوئی نیا عمل ایجادکیا تووہ عمل مردودہے

قران وحدیث‌ میں جہاں یہ اصول پیش کیا گیا ہےکہ دین بنانا صرف اللہ کا حق ہے، اوراللہ اپنا یہ حق مکمل ادا کرچکا ہے، اوردوسروں کویہ حق اداکرنے سے منع کردیا گیا ہے۔
وہیں پرایک چوتھا اصول یہ بھی ہے کہ اگرکسی نے یہ حق اداکرنے کی کوشش کی یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل ایجاد کیا تواس کا یہ عمل باطل ہے اورمردودہے۔
قران وحدیث‌ سے اس کی دلیل ملاحظہ ہو:

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ } [محمد: 33]
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو باطل وبرباد نہ کرو۔

حدیث سے دلیل:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ»
[صحيح البخاري (3/ 184)رقم 2697 ]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس معاملے (دین ) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے۔

اس حدیث‌ میں ’’امرنا‘‘ سے مراد ’’دیننا ‘‘ ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں‌ اس کی صراحت ہے ،چنانچہ امام ابوجعفر،محمدبن سلیمان، لوین المصیصی رحمہ اللہ فرماتے :
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ»
[جزء لوين (ص: 83)رقم 71 - واسنادہ صحیح ]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے۔

معلوم ہواکہ اگرکوئی شخص گذشتہ تینوں اصولی باتوں سے غافل ہوکردین میں کوئی نیا عمل ایجادکرلے تووہ مردودہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگرکوئی شخص یہ چاراصول یعنی یہ چاربنیادی باتیں سمجھ لے تووہ کبھی بھی بدعت ایجادکرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

[1]پہلی بات یہ کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ، اورجب یہ اللہ کا حق ہے تودوسروں کو اس کی اجازت ہرگزنہیں ہوسکتی۔

[2]دوسری بات یہ کہ اللہ اپنا یہ حق اداکرچکاہے یعنی اللہ نے دین مکلمل کردیاہے، لہٰذا جب دین مکمل ہوگیا ہے تواس میں نئی چیزکی گنجائش ہی باقی نہیں ہے۔

[3]تیسری بات یہ کہ تمام لوگوں کو دین میں نئی چیز ایجاد کرنے سے منع کردیاگیاہے، لہٰذا جب یہ چیزمنع ہے تواس کے جوازکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

[4]چوتھی بات یہ کہ اگرکوئی شخص نادانی یا سرکشی کی بناپردین میں نئی چیزایجادکرتاہے تووہ مردودہے، لہٰذا جوچیزمردود ولایعنی ہے اسے ایجاد کرنا حماقت ہے۔

اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو بدعات وخرافات سے بچائے ، آمین۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
ہمارے معاشرے میں بدعات کی ترویج کے لیے ’بدعت حسنہ‘ کی جو خانہ زاد اصطلاح وضع کی گئی ہے آپ نے بہت خوبصورت انداز میں اس کی قلعی کھولی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
شیخ کفایت اللہ بھائی بہت خوب سمجھایا ہے آپ نے جزاک اللہ خیراً۔۔۔۔۔
مگر مجھے کچھ اشکالات ہیں برائے کرم ان کا ازالہ بھی فرما دیں
(۱) کیا مسجدوں کا محراب بنانا بدعت ہے؟
(۲) کیا فرض نماز کے بعد دعا کرنا بدعت ہے؟
(۳) کیا دانوں والی تسبیح استعمال کرنا بدعت ہے؟
(٤) کیا عید مبارک ،جمعہ مبارک ، اور رمضان مبارک کہنا بدعت ہے یا ایسے موقعوں پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا بدعت ہے؟
(٥) کیا عید کے بعد مصافحہ اور معانقہ کرنا بدعت ہے؟
(٦) کیا وضو کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھنا بدعت ہے؟
(٧) کیا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے؟
(۸) کیا جمعہ کی دو اذانیں دینا بدعت ہے؟
(۹) حفظ قرآن یا تکمیل قرآن کے موقع پر اہل خانہ کو اکٹھا کرنا اور اجتماعی دعا کا شرعی حکم کیا ہے؟
(۱۰) سیرۃ النبی کانفرنس، ختم بخاری شریف، یوم دفاع پاکستان، اہل حدیث کانفرنس منانا کس حدیث سے ثابت ہے؟ اس کی شرعی حثیت بیان کریں؟
(۱۱) اگر کوئی شرعی عبا دت یا شرعی امور ایسے ہوں جس میں شریعت نے کسی وقت اور دن کا تعین نہ کیا ہو جو کسی وقت بھی کرنے جائز ہوں تو کیا انہیں بندہ اپنی سہولت کیلئے کوئی خاص وقت اور دن کا تعین کرکے انہیں روزانہ ادا کرے تب کیا اسے ہمیں بدعت شمار کریں گے یا نہیں؟ کیونکہ بعض حضرات یہ دلیل بھی دیتے ہیں اللہ تعالی کو وہ عمل بہت پسند ہے جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ تھوڑا ہو(مسلم،صلوۃ المسافرین)
(۱۲) کعبہ کو غسل دینا ، اور غلاف چڑھانا کس کی سنت ہے؟ کیا ایسا کرنا بدعت ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو غسل دیا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا؟ کیا صحابہ ، تابعین سے ایسا کرنا ثابت ہے؟ اگر ثابت نہیں تو پھر یہ بدعت کیوں نہیں؟؟ اس کو ہر سال کی ۱۰ ذوالحج کو تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کیلئے ۱۰ ذوالحج کا دن مقرر کرنا بدعت کے زمرے میں نہیں آتا؟؟ اگر کوئی اس کو دین یا ثواب سمجھ کر نہیں کرتا تو کیا سمجھ کر کرتا ہے گناہ ،مکروہ ، مستحب، سنت، واجب (فرض) دلیل سے جواب عنایت کریں .اہل قبور سے جب قبر پر چادر چڑھانے اور قبروں کو غسل دینے کی دلیل دریافت کی جاتی ہے تو وہ الزامی طور پر ہمیں یہ جواب دیتے ہیں کہ تم کعبہ کو غسل اور غلاف کیوں چڑھاتے ہیں جو آپ کا جواب ہو گا وہی ہمارا ہو گا ۔
اس کی تاریخ اور دن مقرر کرنا کیسا ہے؟ اگر یہ سبھی کام ثواب کی نیت سے نہیں کیے جاتے تو کیا گناہ کی نیت سے کیے جاتے ہیں ...؟؟ آخر میں گزارش ہے کہ مذکورہ بالا امور میں ملوث شخص مبتدع کہلائے گا یا نہیں اس کا شرعی حکم بھی واضح فرمائیں
اُمید کرتا ہوں اس سلسلے میں میری راہنمائی فرمائیں گے۔
 
Top